اسلامی عقائد

Ref. No. 41/1089

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی طبیب ہیں لہذا طبیب کہنا جائز ہے۔ 

عن عبداللہ قال قال رسول اللہ ﷺ ما انزل اللہ عز وجل داءا الا انزل لہ دواءا علمہ من علمہ وجہلہ من جھلہ۔( مسند احمد ۳۹۲۲)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 178/43-1686

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن  کریم کا پڑھنا خیروبرکت کا ذریعہ اور باعث اجروثواب  ہے، اس سے مصائب ومشکلات کا ازالہ ہوتاہے۔ بہتر ہے کہ انفرادی تلاوت کا اہتمام کیا جائے اس میں اخلاص زیادہ ہے، اگر اجتماعی قرآن خوانی  ہو تو تمام شرکاء کا مطمح نظر رضائے الہی ہو، قرآن کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھاجائے۔ اور جہاں ان شرائط کا لحاظ نہ کیاجائے تو وہاں اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہیں ہے۔ قرآن خوانی پر پیسوں کا لین دین کرنا ، اس پر عوض وصول کرنا ناجائز ہے،

فمن جملۃ کلامہ قال تاج الشریعۃ فی شرح الھدایۃ ان القرآن بالاجرۃ لایستحق الثواب لا للمیت ولا للقاری ۔ وقال العینی فی شرح الھدایۃ ویمنع القاری للدنیا والآخذ والمعطی آثمان۔ فالحاصل ان ماشاع فی زماننا من قراءۃ الاجزاء بالاجرۃ لایجوز لان فیہ الامر بالقراءۃ واعطاء الثواب للآمر والقراءۃ لاجل المال فاذا لم یکن للقاری  ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فاین یصل الثواب الی المستاجر ولولاالاجرۃ ماقرا احد لاحد فی ھذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ الی جمع الدنیا (الدرالمختار مع رد المحتار 6/56)

حدیث شریف میں ہے "اقرؤا القرآن ولاتاکلوا بہ "(رواہ احمد) اس لئے ختم قرآن کے عنوان سے اجرت لینے میں احتیاط کی جائے، البتہ اگر مصائب و مشکلات کے ازالہ وبیماریوں سے شفا کے لئے قرآن کی کوئی سورت یا آیت پڑھ کر دم کرے یا تعویذ بناکر دے تو اس پر اجرت لینا حبس وقت کی وجہ سے درست ہے۔ نیز اس مقصد کے لئے اگر ختم بخاری شریف کا اہتمام کیاگیا تو اس پر بھی اجرت لی جاسکتی ہے۔ لیکن ختم کے بعد دعا ء کے لئے مسجد میں لوگوں کو جمع  کرنا درست نہیں ہے۔ جن لوگوں نے قرآن کریم پڑھا ہےیا بخاری شریف پڑھی صرف ان کا دعا کرنا کافی ہے، ارشاد خداوندی ہے "ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ "–الآیۃ۔ سوال میں مذکور صورت بھی تداعی میں داخل ہے، اس سے احتراز کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱،۲) جو لوگ اللہ کے وجود کے قائل اور حضرات موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کو نبی اور تورات وانجیل کو اللہ کی کتاب مانتے ہوں وہ اہل کتاب میں داخل ہیں؛ اگرچہ انہوں نے اپنے دین کو بدل ڈالا ہے، تورات وانجیل میں تحریف کردی ہے، تثلیث وغیرہ جیسے مشرکانہ عقائد اختیار کرتے ہیں، مگر یہ آج نہیں، نزول قرآن کے زمانہ میں بھی ان کا یہی حال تھا، قرآن پاک میں ہے۔ {ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَأْکُلُوْنَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِط} (۱) نیز فرمایا: {إِتَّخَذُوْٓا أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ} (۲) نیز ایک آیت میں فرمایا : {وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِط ذٰلِکَ   قَوْلُھُمْ بِأَفْوَاھِھِمْج} (۳)  قرآن پاک نے مذکورہ تحریفات کے باوجود ان کو اہل کتاب قرار دیا تو وہ سب اہل کتاب ہی مانے جائیں گے۔
البتہ وہ لوگ جو محض قومی طورپر مسیحی یا عیسائی کہلاتے ہیں، مگر وہ خدا ہی کے وجود کے قائل نہیں تو کسی پیغمبر کے یا رسول کے تو وہ کیا قائل ہوں گے؛ جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قبیلۂ بنی تغلب کے نصاریٰ کے ذبیحہ کو یہ کہہ کر حرام قرار دیا تھا کہ یہ لوگ دین نصرانیت میں سوائے شراب نوشی کے اور کسی چیز کو نہیں مانتے، تو ایسے یہودی یا عیسائیوں کو جو صرف نام کے یہودی اور عیسائی ہیں اہل کتاب نہیں کہا جائے گا کہ وہ کتاب نازل کرنے والے کو نہیں مانتے، تو پھر اہل کتاب کیسے ہوسکیں گے اور ظاہر ہے کہ اس قسم کے افراد کی وجہ سے پوری قوم کو جوکہ اللہ کو مانتے اور انجیل وتورات کو خدا کی کتاب مانتے ہیں، عیسائیت یا یہودیت اور اہل کتاب ہونے سے خارج کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے ان کے ذبائح کو حلال اور ان کی عورتوں سے نکاح کے جواز پر امام تفسیر ابن کثیر نے علمائے امت کا اجماع نقل کرکے فرمایا ہے: ’’لأنہم یعتقدون تحریم الذبح لغیر اللّٰہ ولا یذکرون علی ذبائحہم إلا إسم اللّٰہ وإن اعتقدوا فیہ تعالی ماہو منزہ عنہ تعالیٰ وتقدس‘‘۔(۱)
(۳،۴،۵) قرآن و سنت وکلام فقہاء کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ ذبیحہ کے لئے متعدد شرائط ہیں، ذبح کی دو صورتیں ہیں: اختیاری اور اضطراری، اختیاری کے لئے یہ تین شرطیں ہیں: (۱) ذابح کا مسلمان یا کتابی ہونا (۲) بوقت ذبح اللہ کا نام لینا (۳) شرعی طریقے پر حلقوم اور سانس کی نالی کا کاٹ دینا ’’وتشترط التسمیۃ حال الذبح أو الرمي لصید أو الإرسال أو حال وضع الحدید لحمار الوحش، (۲) وأیضاً: وشرط کون الذابح مسلما حلالا أو کتابیا ذمیا وحربیاً ولا تحل ذبیحۃ غیر کتابي من وثنی ومجوسي ومرتد۔ وأیضا: قال وذکاۃ الاختیار ذبح بین الحلق واللبۃ وعروقہ الحلقوم کلہ وسطہ أو اعلاہ أو أسفلہ وہو مجری النفس علی الصحیح‘‘(۳)۔ بہر صورت ذبح کے صحیح ہونے کے لئے سب سے پہلی اور اہم شرط یہ ہے کہ اس پر اللہ کا نام لیا جائے چنانچہ حکم ربانی ہے {وَ لَا تَأْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہٗ لَفِسْقٌط}(۴) اور سورہ حج میں ہے {وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ م  بَھِیْمَۃِ الْأَنْعَامِط}(۵) اور اہل کتاب کے ذبیحہ کے بارے میں فرمایا گیا {وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْص وَطَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّھُمْز}(۶) کہ جو لوگ کتاب دئے گئے ہیں ان کا ذبیحہ تم کو حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے۔
قرآن کریم کی مذکورہ آیتوں میں اس شرط کو بہ تکرار ذکر فرمایا ہے کہ اس جانور کا گوشت کھا سکتے ہو جس کے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ اور وہ جانور حرام ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ أُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ} إلی آخر الآیۃ}(۷) اب ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لینے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا بھول گیا، دوسرے یہ کہ قصداً اللہ کا نام نہیں لیا۔ پس اگر ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا بھول گیا۔ ایسی صورت میں ذبیحہ حلال ہے درمختار میں ہے ’’فإن ترکہا ناسیاحل‘‘ ’’وقال في رد المحتار:ذکر في البدائع أنہ لم یجعل ظنہ الأجزاء عن الثانیۃ عذراً کالنسیان لأنہ من باب الجہل بحکم الشرع وذلک لیس بعذر بخلاف النسیان کمن ظن أن الأکل لا یفطر الصائم‘‘ (۱) اور وہ صورت کہ عمداً و قصداً ذبح کے وقت تسمیہ کو ترک کردیا تو اس صورت میں علامہ شامی نے لکھا ہے کہ ذبیحہ حلال نہیں ہوگا ’’ولا تحل ذبیحۃ من تعمد ترک التسمیۃ مسلما أوکتابیا لنص القرآن ولانعقاد الاجماع‘‘(۲) نیز امام بخاری نے آیت پاک {وَ لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہٗ لَفِسْقٌط وَإِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ إِلٰٓی أَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْج وَإِنْ أَطَعْتُمُوْھُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَہع ۱۲۱}(۳) سے ثابت کیا ہے کہ جس جانور کے ذبح پر اللہ کا نام قصداً چھوڑ دیا جائے وہ حرام ہے، بھول کراگر رہ جائے تو وہ معاف ہے؛ کیونکہ قرآن کریم نے اس کو ’’لفسق‘‘ کہا ہے اور بھولنے والے کو فاسق نہیںکہا جاتا اس کے بعد آیت کا آخری جملہ {وإن الشیاطین الخ} نقل فرمایا ہے اس جملے کے نقل کرنے کا مقصد حافظ حدیث امام ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری میں یہ ذکر کیا ہے ’’فکأنہ یشیر بذلک إلی الزجر عن الاحتجاج لجواز ترک التسمیہ بتأویل الأیۃ وحملہا علی غیر ظاہرہا‘‘(۴) گویا کہ امام بخاری آیت کے اس جملہ سے اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس میں ان لوگوں کو زجر و تنبیہ مقصود ہے جو آیت مذکورہ میں ظاہر کے خلاف تاویل کرکے بسم اللہ کے ترک کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہؓ تابعین اور ائمہ مجتہدین سے لے کر متأخرین فقہاء تک سبھی اس مسئلہ میں متفق ہیں کہ جان بوجھ کر کوئی شخص ذبیحہ پر اللہ کا نام لینا چھوڑ دے تو اس کو ذبیحہ نہیں مردار کہا جائے گا۔ امام یوسفؒ نے اس پر اجماع امت نقل کیا ہے کذا فی الہدایۃ۔
اسلاف امت میں سے بعض علماء نے اہل کتاب کے ایسے ذبائح کی اجازت دیدی ہے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا یا غیر اللہ کا نام لیا گیا، ان کے نزدیک بھی اصل مذہب اہل کتاب کا یہی ہے کہ یہ چیزیں ان کے مذہب میں بھی ہیں مگر ان حضرات نے غلط کار عوام کو بھی اس حکم میں شامل رکھاجو اصل اہل کتاب کا حکم ہے؛ چنانچہ ابن عربی نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ میں نے استاذ ابوالفتح مقدسی سے سوال کیا کہ موجودہ نصاریٰ جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہیں مثلاً مسیح یا عزیر کا نام بوقت ذبح لیتے ہیں تو ان کا ذبیحہ کیسے حلال ہوسکتا ہے؟ لیکن جمہور صحابہؓ وتابعین اور ائمہ مجتہدین نے اس پر نظر فرمائی کہ اہل کتاب کے جاہل عوام جو غیر اللہ کے نام یا بغیر کسی نام کے ذبح کرتے ہیں یہ اسلامی حکم کے خلاف ہے؛ اس لئے ان کے عمل کا احکام پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہئے، انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان لوگوں کا ذبیحہ طعام اہل کتاب میں داخل نہیں؛ اس لئے اس کے حلال ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور ان کے غلط عمل کی وجہ سے آیات قرآنی میں نسخ یا تخصیص کا قول اختیار کرنا کسی طرح صحیح نہیں؛ اس لیے تمام ائمہ تفسیر ابن جریر، ابن کثیر، ابن حبان وغیرہ اس پر متفق ہیں کہ سورۂ بقرہ اور سورۂ انعام کی آیات میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا ہے۔ یہی جمہور صحابہؓ اور تابعین کا مذہب ہے؛ پس وہ مسلمان جس نے حلال جانور کو حلقوم پربطریق شرعی ذبح کیا ہو، لیکن یہ معلوم ہوکہ اس نے بوقت ذبح اللہ کا نام نہیں لیا تو اگر بھول گیا، تو ذبیحہ اس کا حلال ہے۔ ایسے ہی اہل کتاب کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور اگر یہ معلوم ہو کہ اس نے بوقت ذبح جان بوجھ کر اللہ کا نام نہیں لیا، تو اس کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔ ایسے ہی کتابی کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہوگا، لیکن اگر یہی نہیں معلوم کہ اس نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں، تو اس کی تحقیق ضروری ہے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ ہر مسلمان ذبح کے طریقہ کو جانتا ہے ایسے ہی ہرکتابی ذبح کے طریقہ کو جانتا ہے اور یہ بھی کہ اللہ کا نام لینا چاہئے اس نے بھی لیا ہوگا، ایسے ذبیحہ کے گوشت کی حلت کا ہی حکم ہوگا اور اگر ایسا جاہل ہے کہ اس کو اپنے مسئلہ کا ہی علم نہیں تو لاعلمی کو عذر نہیں قرار دیا جائے گا اور اس کے ذبیحہ کو حلال نہیں کہا جائے گا۔ اگرچہ صاحب بزار یہ نے اس کو بھی عامی کے حکم میں رکھا ہے؛ لیکن شامی میں اس پر اشکال کیا ہے اور بدائع کی جو عبارت پہلے ہم نے نقل کی ہے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ عذر معتبر نہیںاور اس کا ذبیحہ حلال نہیں۔

(۱) سورۃ التوبہ: ۳۴۔             (۲) سورۃ التوبہ: ۳۱۔             (۳) سورۃ التوبہ: ۳۰۔
(۱) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ’’سورۃ المائدۃ، الآیۃ: ۵‘‘؛ ج ۲، ص: ۱۹۔
(۲) ابن عابدین، حاشیہ رد المحتار علی الدر المختار، ’’باب مسائل شتی‘‘: ج ۶، ص: ۷۴۹۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’باب جنابۃ البہیمۃ‘‘: ج ۶، ص: ۲۹۴۔(۱) ابن عابدین، حاشیہ ابن عابدین، ’’کتاب الذبائح‘‘: ج ۹، ص: ۴۳۵۔
(۲) ’’أیضاً‘‘: ج ۶، ص: ۲۹۹۔                (۳) سورۃ الأنعام: ۱۲۱۔

فقط: واللہ اعلم بالصواب

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص285

اسلامی عقائد

Ref. No. 1797/43-1533

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد اللہ کا گھر ہے، اللہ کی ملکیت ہے، اس سے کسی بندے کا کوئی حق وابستہ نہیں رہتاہے۔ مسجد زمین سے آسمان تک پوری کی پوری مسجد ہوتی ہے۔  مسجد ایک  دو منزل  اور اس سے زیادہ  منزل والی بھی ہوسکتی ہے، البتہ مسجد کا نیچے سے اوپر تک ہر فلور مسجد اور مصالح مسجد ہی میں استعمال ہوگا۔ مسجد کا وضو خانہ ، مسجد کے امام و مؤذن کا کمرہ ، مسجد میں نمازیوں کے لئے گاڑی کی پارکنگ وغیرہ کی سہولیات کا شمار مصالح مسجد میں ہوتاہے۔

 چند منزلہ بلڈنگ کے کسی ایک فلور کو مسجد بنانے کی صورت میں اس کو مصلی کہاجائے گا، وہ شرعی مسجد نہیں ہوگی اور مسجد شرعی کے احکام بھی اس پر جاری نہیں ہوں گے، اس میں پنجوقتہ نمازیں اور نماز جمعہ قائم کرنا درست ہے۔اس لئے کسی ایک فلور کو مسجد بناکر باقی فلور میں  ، مارکیٹ،  پارکنگ ،اسکول ، مدرسہ قائم کرنا اور اس میں طلبہ کی رہایش رکھنا جائز نہیں ہے۔  اور کسی پرانی مسجد کو مذکورہ مقصد کے لئے شہید کرنا  قطعا جائز نہیں ہے۔ ان سب کاموں کے لئے کوئی اور انتظام کیا جائے۔ وقف للہ مسجد میں یہ امور ممنوع ہیں ۔

حتی لو لم یخلص المسجد للّٰہ تعالی بأن کان تحتہ سرداب أو فوقہ بیت،أو جعل وسط دارہ مسجداً وأذن للناس بالدخول والصلاة فیہ لا یصیر مسجداً ویورث عنہ إلا إذا کان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو کانا وقفاً علیہ (الاختیار لتعلیل المختار ۲: ۵۲۴،ط: دار الکتب العلمیة بیروت)،قولہ:”أو جعل فوقہ بیتاً الخ“ ظاھرہ أنہ لا فرق بین أن یکون البیت للمسجد أو لا، إلا أنہ یوٴخذ من التعلیل أن محل عدم کونہ مسجداً فیما إذا لم یکن وقفاً علی مصالح المسجد ،وبہ صرح فی الإسعاف فقال: وإذا کان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو کانا وقفاً علیہ صار مسجداً اھ شرنبلالیة۔ قال فی البحر: وحاصلہ أن شرط کونہ مسجداً أن یکون سفلہ وعلوہ مسجداً لینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی: ”وأن المساجد للہ“بخلاف ما إذا کان السرداب والعلو موقوفاً لمصالح المسجد فھوکسرداب بیت المقدس، وھذا ھو ظاہر الروایة، وھناک روایات ضعیفة مذکورة فی الھدایة (رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، لو بنی فوقہ بیتاً للإمام لا یضر؛ لأنہ من المصالح، أما لو تمت المسجدیة ثم أراد البناء منع الخ تاتر خانیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۸) ومثلہ في الکتب الأخری من الفقہ الفتاوی ۔

"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد للّٰه} [الجن: 18] و ما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأن المسجد ما بني إلا لها من صلاة و اعتكاف و ذكر شرعي و تعليم علم و تعلمه و قراءة قرآن و لايتعين مكان مخصوص لأحد." (البحر الرائق  2 / 36 ، کتاب الصلاۃ، فصل ، ط؛ دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نبی ہیں، ان کو عمر طویل دی گئی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیت کے لئے آنا بھی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کی حیات کب تک ہے اس کو اللہ ہی جانتا ہے۔ (۱)
(۱) والصحیح أنہ نبي، وجزم بہ جماعۃ۔ وقال الثعلبي: ہو نبي علی جمیع الأقوال معمر محجوب عن الأبصار، وصححہ ابن الجوزي، أیضاً: في کتابہ، لقولہ تعالیٰ: حکایۃ عنہ {وما فعلتہ عن أمري} (سورۃ الکہف: ۸۲) فدل علی أنہ نبي أوحی إلیہ، ولأنہ کان أعلم من موسیٰ في علم مخصوص، ویبعد أن یکون ولي أعلم من نبي وإن کان یحتمل أن یکون أوحي إلی نبي في ذلک العصر یأمر الخضر بذلک، ولأنہ أقدم علی قتل ذلک الغلام، وما ذلک إلا للوحي إلیہ في ذلک لأن الولي لا یجوز لہ الإقدام علی قتل النفس، بمجرد ما یلقی في خلدہ، لأنہ خاطرہ لیس بواجب العصمۃ۔ (العیني،عمدۃ القاري، ’’کتاب العلم: باب ما ذکر في ذہاب موسیٰ علیہ السلام‘‘: ج ۲، ص: ۸۵)وأیضاً: النوع الثالث في نبوتہ: فالجمہور علی أنہ نبي وہو الصحیح، لأن أشیاء في قصتہ تدل علی نبوتہ۔ (أیضاً: ’’باب طو فان من السبیل‘‘: ج ۱۵، ص: ۲۹۹، رقم: ۲۰۴۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص286

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت جو صحابہؓ نابالغ تھے وہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمرہ میں داخل ہیں ان کو بھی صحابی ہی کہا جائے گا۔ (۱)

(۱) من لقي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مؤمنا بہ ومات علی الإیمان، (سید عمیم الإحسان، قواعد الفقہ: ص: ۳۴۶)
ومن صحب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو رآٔہ من المسلمین فہو من أصحابہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ،’’کتاب المناقب: باب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۵، رقم: ۳۶۴۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص287

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کرے اور قبر کی طرف پشت کرکے اور اگر قبلہ کی طرف منھ کرکے دعا کرے کہ قبر سامنے نہ ہو، توہاتھ اٹھاکر دعاء کرسکتا ہے۔(۱)

(۱) وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)
ویکرہ النوم عند القبر وقضاء الحاجۃ وکل ما لم یعہد من السنۃ والمعہود منہا لیس إلا زیارتہا والدعاء عندہا قائماً کما کان یفعل صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الخروج إلی البقیع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص392

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کو عقیدت سے چومنا یا آنکھوں سے لگانا ثابت ہے؛ اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ (۱)

(۱) عن عمر رضي اللّٰہ عنہ، أنہ کان یأخذ المصحف کل غداۃ ویقبلہ ویقول: عہد ربي ومنشور ربي عز وجل وکان عثمان رضي اللّٰہ عنہ، یقبل المصحف ویمسحہ علی وجہہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، متصل فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۲)

فتاوی درالعلوم وقف دیوبند ج1ص518

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بانی اسلام حضرت آدم علیہ السلام ہیں، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تکمیل اسلام ہوئی ہے۔ {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ الخ} (الآیہ)(۱)

(۱) سورۃ المائدہ: ۳۔                
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص288

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزار پر سجدہ تعظیمی بھی جائز نہیں ہے، یہ سخت گناہ ہے، تاہم آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا ہے، اس لئے نکاح باقی ہے۔ (۱)

(۱) {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ أٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ۵لا وَّ لَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًاہج ۲۳} (سورۃ نوح: ۷۱)
 عن الحسن قال: بلغني أن رجلا قال: یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نسلِّم علیک کما یسلِّم بعضنا علی بعض أفلا نسجد لک؟ قال: لا، ولکن أکرموا نبیکم وأعرفوا الحق لأہلہ فإنہ لا ینبغي أن یسجد لأحد من دون اللّٰہ۔ (جلال الدین السیوطي، الدر المنثور، ’’سورۃ آل عمران: ۷۹‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۲)
من سجد للسلطان علي وجہ التحیۃ أو قبَّلَ الأرض بین یدیہ لا یکفر، ولکن یأثم لارتکابہ الکبیرۃ ہو المختار، قال الفقیہ أبو جعفر رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: وإن سجد للسطان بنیۃ العباد أو لم تحضرہ النیۃ فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثامن والعشرون في ملاقاۃ الملوک‘‘: ج ۵، ص: ۴۲۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص393