Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 2699/45-4459
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is not right to pray for impossible things, similarly, it is not right to pray for illegal and forbidden things, things that a person does not have the right to pray for, for example, it is not right to pray for a miracle; such prayers are not answered. Similarly, there are some conditions for the acceptance of dua, if these conditions are not met, dua even for a halal item is not answered.
يحرم سوال العافية فقال الثاني من المحرم ان نسال المستحيلات العادية وليس نبیا ولا وليا في الحال كسوال الاستغناء عن النفس في الهواء‘‘ (رد المحتار: ج 1، ص: 522)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 1285/42-630
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ محبت کرنے کی مثال دی گئی ہے، اور مثال دینے میں ایک گونہ مشابہت کافی ہے، ہر اعتبار سے مشابہت نہیں مراد ہوتی ہے، اس لئے اس میں توہین رسالت شامل نہیں ہے، البتہ اس جیسی کہاوتوں سے گریز کیا جائے تاکہ کسی کو توہین کا شبہہ نہ ہو۔
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله في ((جامع المسائل - المجموعة الأولى -)) (ص: 322): ((وليس من شرط التشبيه التساوي من كلّ وجه)) اهـ.
وقال العلامة ابن القيم رحمه الله في ((المنار المنيف في الصحيح والضعيف)) (ص: 22): ((والمقصود: أنه لا يلزم من تشبيه الشيء بالشيء مساواته له)) اهـ.
وقال العلامة أحمد بن إسماعيل بن عثمان بن محمد الكوراني رحمه الله في ((الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري)) (1/ 309): ((التشبيه لا يقتضي التساوي، بل المشبه ناقص عن المشبه به في وجه الشبه)) اهـ.
وقال العلامة الطيبي رحمه الله في ((الكاشف عن حقائق السنن)) (10/ 3213): ((وفي المشابهة يكفي المساواة في بعض الصفات)) اهـ.
وقال العلامة المناوي رحمه الله في ((فيض القدير)) (6/ 353): ((والمشابهة في بعض الصفات كافية إذ التشبيه إنما يصار إليه للمبالغة ولا يقصد به المساواة ولا بد)) اهـ.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1706/43-1362
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے جو کچھ کیا وہ لاعلمی اور انجانے میں کیا ، اس لئے آپ کا یہ عمل مشرکانہ تو نہیں ہوا البتہ غلطی پر اللہ تعالی سے استغفار کرلینا چاہئے۔
وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا) الأحزاب: 5( وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًاسورۃ النساء 110)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2789/45-4362
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گاڑھا سرخ جو زنانہ لباس کے طور پر مستعمل ہے اس کا استعمال مردوں کے لئے مکروہ تنزیہی ہے اور یہ کراہت صرف لباس کی حدتک ہے، لہٰذا دوسرے کاموں میں جیسے خطاطی وغیرہ کے لئے سرخ کپڑا استعمال کرنابلا کراہت درست ہے، بعض مربتہ موقع ومحل کے اعتبار سے غیروں کی مشابہت ہو جائے تو سرخ کپڑا استعمال کرنے سے بچنا چاہئے۔
وليس المعصفر والمزعفر والاحمر مفاده أن الكراهة تنزيهية لكن صرح في التحفة بالحرمة فادانها تحريمية‘‘ (الدر المحتار مع رد المحتار: ج 9،ص: 515)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1528/43-1128
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے جملوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ آپ خود ہی اس کی وضاحت کرکے دوبارہ معلوم کرلیں۔
إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط. (الفتاوی الھندیۃ، مطلب فی موجبات الکفر، انواع منھا مایتعلق 2/282)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو شخص ایسا عقیدہ رکھتا ہو اور ائمہ دین خصوصاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو مذکورہ الفاظ سے تعبیر کرتا ہو یا کسی صحابی کی توہین کرتا ہو، تو وہ شخص مبتدع فاسق اور مستحق تعزیر ہے ’’عزّر کل مرتکب منکر أو موذي مسلم بغیر حق بقول أو فعل‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر الختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر، مطلب: التعزیر قد یکون بدون معصیۃ‘‘: ج ۶، ص: ۱۱۳۔
ویخاف علیہ الکفر إذا شتم عالماً أو فقیہا من غیر سبب۔ (جماعۃ من علماء الہند، التفاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۲)
ومن بغض عالماً من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔ (إبراہیم بن محمد، ……مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ۲، ص: ۵۰۹)
وسب أحد من الصحابۃ وبغضہ لا یکون کفراً، لکن یضل الخ، وذکر في فتح القدیر أن الخوارج الذین یستحلون دماء المسلمین وأموالہم ویکفرون الصحابۃ حکمہم عند جمہور الفقہاء وأہل الحدیث حکم البغاۃ، وذہب بعض أہل الحدیث إلی أنہم مرتدون۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص279
اسلامی عقائد
Ref. No. 39 / 938
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اللہ تعالی تمام زبانوں کے خالق ہیں ، اس لئے ہرطرح کی زبان کا پورا علم اللہ تعالی رکھتے ہیں۔ لیکن رسول اکرم ﷺ تمام زبانیں نہیں بولتے تھے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/1089
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی طبیب ہیں لہذا طبیب کہنا جائز ہے۔
عن عبداللہ قال قال رسول اللہ ﷺ ما انزل اللہ عز وجل داءا الا انزل لہ دواءا علمہ من علمہ وجہلہ من جھلہ۔( مسند احمد ۳۹۲۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 178/43-1686
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم کا پڑھنا خیروبرکت کا ذریعہ اور باعث اجروثواب ہے، اس سے مصائب ومشکلات کا ازالہ ہوتاہے۔ بہتر ہے کہ انفرادی تلاوت کا اہتمام کیا جائے اس میں اخلاص زیادہ ہے، اگر اجتماعی قرآن خوانی ہو تو تمام شرکاء کا مطمح نظر رضائے الہی ہو، قرآن کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھاجائے۔ اور جہاں ان شرائط کا لحاظ نہ کیاجائے تو وہاں اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہیں ہے۔ قرآن خوانی پر پیسوں کا لین دین کرنا ، اس پر عوض وصول کرنا ناجائز ہے،
فمن جملۃ کلامہ قال تاج الشریعۃ فی شرح الھدایۃ ان القرآن بالاجرۃ لایستحق الثواب لا للمیت ولا للقاری ۔ وقال العینی فی شرح الھدایۃ ویمنع القاری للدنیا والآخذ والمعطی آثمان۔ فالحاصل ان ماشاع فی زماننا من قراءۃ الاجزاء بالاجرۃ لایجوز لان فیہ الامر بالقراءۃ واعطاء الثواب للآمر والقراءۃ لاجل المال فاذا لم یکن للقاری ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فاین یصل الثواب الی المستاجر ولولاالاجرۃ ماقرا احد لاحد فی ھذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ الی جمع الدنیا (الدرالمختار مع رد المحتار 6/56)
حدیث شریف میں ہے "اقرؤا القرآن ولاتاکلوا بہ "(رواہ احمد) اس لئے ختم قرآن کے عنوان سے اجرت لینے میں احتیاط کی جائے، البتہ اگر مصائب و مشکلات کے ازالہ وبیماریوں سے شفا کے لئے قرآن کی کوئی سورت یا آیت پڑھ کر دم کرے یا تعویذ بناکر دے تو اس پر اجرت لینا حبس وقت کی وجہ سے درست ہے۔ نیز اس مقصد کے لئے اگر ختم بخاری شریف کا اہتمام کیاگیا تو اس پر بھی اجرت لی جاسکتی ہے۔ لیکن ختم کے بعد دعا ء کے لئے مسجد میں لوگوں کو جمع کرنا درست نہیں ہے۔ جن لوگوں نے قرآن کریم پڑھا ہےیا بخاری شریف پڑھی صرف ان کا دعا کرنا کافی ہے، ارشاد خداوندی ہے "ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ "–الآیۃ۔ سوال میں مذکور صورت بھی تداعی میں داخل ہے، اس سے احتراز کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱،۲) جو لوگ اللہ کے وجود کے قائل اور حضرات موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کو نبی اور تورات وانجیل کو اللہ کی کتاب مانتے ہوں وہ اہل کتاب میں داخل ہیں؛ اگرچہ انہوں نے اپنے دین کو بدل ڈالا ہے، تورات وانجیل میں تحریف کردی ہے، تثلیث وغیرہ جیسے مشرکانہ عقائد اختیار کرتے ہیں، مگر یہ آج نہیں، نزول قرآن کے زمانہ میں بھی ان کا یہی حال تھا، قرآن پاک میں ہے۔ {ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَأْکُلُوْنَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِط} (۱) نیز فرمایا: {إِتَّخَذُوْٓا أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ} (۲) نیز ایک آیت میں فرمایا : {وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِط ذٰلِکَ قَوْلُھُمْ بِأَفْوَاھِھِمْج} (۳) قرآن پاک نے مذکورہ تحریفات کے باوجود ان کو اہل کتاب قرار دیا تو وہ سب اہل کتاب ہی مانے جائیں گے۔
البتہ وہ لوگ جو محض قومی طورپر مسیحی یا عیسائی کہلاتے ہیں، مگر وہ خدا ہی کے وجود کے قائل نہیں تو کسی پیغمبر کے یا رسول کے تو وہ کیا قائل ہوں گے؛ جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قبیلۂ بنی تغلب کے نصاریٰ کے ذبیحہ کو یہ کہہ کر حرام قرار دیا تھا کہ یہ لوگ دین نصرانیت میں سوائے شراب نوشی کے اور کسی چیز کو نہیں مانتے، تو ایسے یہودی یا عیسائیوں کو جو صرف نام کے یہودی اور عیسائی ہیں اہل کتاب نہیں کہا جائے گا کہ وہ کتاب نازل کرنے والے کو نہیں مانتے، تو پھر اہل کتاب کیسے ہوسکیں گے اور ظاہر ہے کہ اس قسم کے افراد کی وجہ سے پوری قوم کو جوکہ اللہ کو مانتے اور انجیل وتورات کو خدا کی کتاب مانتے ہیں، عیسائیت یا یہودیت اور اہل کتاب ہونے سے خارج کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے ان کے ذبائح کو حلال اور ان کی عورتوں سے نکاح کے جواز پر امام تفسیر ابن کثیر نے علمائے امت کا اجماع نقل کرکے فرمایا ہے: ’’لأنہم یعتقدون تحریم الذبح لغیر اللّٰہ ولا یذکرون علی ذبائحہم إلا إسم اللّٰہ وإن اعتقدوا فیہ تعالی ماہو منزہ عنہ تعالیٰ وتقدس‘‘۔(۱)
(۳،۴،۵) قرآن و سنت وکلام فقہاء کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ ذبیحہ کے لئے متعدد شرائط ہیں، ذبح کی دو صورتیں ہیں: اختیاری اور اضطراری، اختیاری کے لئے یہ تین شرطیں ہیں: (۱) ذابح کا مسلمان یا کتابی ہونا (۲) بوقت ذبح اللہ کا نام لینا (۳) شرعی طریقے پر حلقوم اور سانس کی نالی کا کاٹ دینا ’’وتشترط التسمیۃ حال الذبح أو الرمي لصید أو الإرسال أو حال وضع الحدید لحمار الوحش، (۲) وأیضاً: وشرط کون الذابح مسلما حلالا أو کتابیا ذمیا وحربیاً ولا تحل ذبیحۃ غیر کتابي من وثنی ومجوسي ومرتد۔ وأیضا: قال وذکاۃ الاختیار ذبح بین الحلق واللبۃ وعروقہ الحلقوم کلہ وسطہ أو اعلاہ أو أسفلہ وہو مجری النفس علی الصحیح‘‘(۳)۔ بہر صورت ذبح کے صحیح ہونے کے لئے سب سے پہلی اور اہم شرط یہ ہے کہ اس پر اللہ کا نام لیا جائے چنانچہ حکم ربانی ہے {وَ لَا تَأْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہٗ لَفِسْقٌط}(۴) اور سورہ حج میں ہے {وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ م بَھِیْمَۃِ الْأَنْعَامِط}(۵) اور اہل کتاب کے ذبیحہ کے بارے میں فرمایا گیا {وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْص وَطَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّھُمْز}(۶) کہ جو لوگ کتاب دئے گئے ہیں ان کا ذبیحہ تم کو حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے۔
قرآن کریم کی مذکورہ آیتوں میں اس شرط کو بہ تکرار ذکر فرمایا ہے کہ اس جانور کا گوشت کھا سکتے ہو جس کے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ اور وہ جانور حرام ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ أُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ} إلی آخر الآیۃ}(۷) اب ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لینے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا بھول گیا، دوسرے یہ کہ قصداً اللہ کا نام نہیں لیا۔ پس اگر ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا بھول گیا۔ ایسی صورت میں ذبیحہ حلال ہے درمختار میں ہے ’’فإن ترکہا ناسیاحل‘‘ ’’وقال في رد المحتار:ذکر في البدائع أنہ لم یجعل ظنہ الأجزاء عن الثانیۃ عذراً کالنسیان لأنہ من باب الجہل بحکم الشرع وذلک لیس بعذر بخلاف النسیان کمن ظن أن الأکل لا یفطر الصائم‘‘ (۱) اور وہ صورت کہ عمداً و قصداً ذبح کے وقت تسمیہ کو ترک کردیا تو اس صورت میں علامہ شامی نے لکھا ہے کہ ذبیحہ حلال نہیں ہوگا ’’ولا تحل ذبیحۃ من تعمد ترک التسمیۃ مسلما أوکتابیا لنص القرآن ولانعقاد الاجماع‘‘(۲) نیز امام بخاری نے آیت پاک {وَ لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہٗ لَفِسْقٌط وَإِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ إِلٰٓی أَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْج وَإِنْ أَطَعْتُمُوْھُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَہع ۱۲۱}(۳) سے ثابت کیا ہے کہ جس جانور کے ذبح پر اللہ کا نام قصداً چھوڑ دیا جائے وہ حرام ہے، بھول کراگر رہ جائے تو وہ معاف ہے؛ کیونکہ قرآن کریم نے اس کو ’’لفسق‘‘ کہا ہے اور بھولنے والے کو فاسق نہیںکہا جاتا اس کے بعد آیت کا آخری جملہ {وإن الشیاطین الخ} نقل فرمایا ہے اس جملے کے نقل کرنے کا مقصد حافظ حدیث امام ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری میں یہ ذکر کیا ہے ’’فکأنہ یشیر بذلک إلی الزجر عن الاحتجاج لجواز ترک التسمیہ بتأویل الأیۃ وحملہا علی غیر ظاہرہا‘‘(۴) گویا کہ امام بخاری آیت کے اس جملہ سے اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس میں ان لوگوں کو زجر و تنبیہ مقصود ہے جو آیت مذکورہ میں ظاہر کے خلاف تاویل کرکے بسم اللہ کے ترک کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہؓ تابعین اور ائمہ مجتہدین سے لے کر متأخرین فقہاء تک سبھی اس مسئلہ میں متفق ہیں کہ جان بوجھ کر کوئی شخص ذبیحہ پر اللہ کا نام لینا چھوڑ دے تو اس کو ذبیحہ نہیں مردار کہا جائے گا۔ امام یوسفؒ نے اس پر اجماع امت نقل کیا ہے کذا فی الہدایۃ۔
اسلاف امت میں سے بعض علماء نے اہل کتاب کے ایسے ذبائح کی اجازت دیدی ہے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا یا غیر اللہ کا نام لیا گیا، ان کے نزدیک بھی اصل مذہب اہل کتاب کا یہی ہے کہ یہ چیزیں ان کے مذہب میں بھی ہیں مگر ان حضرات نے غلط کار عوام کو بھی اس حکم میں شامل رکھاجو اصل اہل کتاب کا حکم ہے؛ چنانچہ ابن عربی نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ میں نے استاذ ابوالفتح مقدسی سے سوال کیا کہ موجودہ نصاریٰ جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہیں مثلاً مسیح یا عزیر کا نام بوقت ذبح لیتے ہیں تو ان کا ذبیحہ کیسے حلال ہوسکتا ہے؟ لیکن جمہور صحابہؓ وتابعین اور ائمہ مجتہدین نے اس پر نظر فرمائی کہ اہل کتاب کے جاہل عوام جو غیر اللہ کے نام یا بغیر کسی نام کے ذبح کرتے ہیں یہ اسلامی حکم کے خلاف ہے؛ اس لئے ان کے عمل کا احکام پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہئے، انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان لوگوں کا ذبیحہ طعام اہل کتاب میں داخل نہیں؛ اس لئے اس کے حلال ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور ان کے غلط عمل کی وجہ سے آیات قرآنی میں نسخ یا تخصیص کا قول اختیار کرنا کسی طرح صحیح نہیں؛ اس لیے تمام ائمہ تفسیر ابن جریر، ابن کثیر، ابن حبان وغیرہ اس پر متفق ہیں کہ سورۂ بقرہ اور سورۂ انعام کی آیات میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا ہے۔ یہی جمہور صحابہؓ اور تابعین کا مذہب ہے؛ پس وہ مسلمان جس نے حلال جانور کو حلقوم پربطریق شرعی ذبح کیا ہو، لیکن یہ معلوم ہوکہ اس نے بوقت ذبح اللہ کا نام نہیں لیا تو اگر بھول گیا، تو ذبیحہ اس کا حلال ہے۔ ایسے ہی اہل کتاب کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور اگر یہ معلوم ہو کہ اس نے بوقت ذبح جان بوجھ کر اللہ کا نام نہیں لیا، تو اس کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔ ایسے ہی کتابی کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہوگا، لیکن اگر یہی نہیں معلوم کہ اس نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں، تو اس کی تحقیق ضروری ہے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ ہر مسلمان ذبح کے طریقہ کو جانتا ہے ایسے ہی ہرکتابی ذبح کے طریقہ کو جانتا ہے اور یہ بھی کہ اللہ کا نام لینا چاہئے اس نے بھی لیا ہوگا، ایسے ذبیحہ کے گوشت کی حلت کا ہی حکم ہوگا اور اگر ایسا جاہل ہے کہ اس کو اپنے مسئلہ کا ہی علم نہیں تو لاعلمی کو عذر نہیں قرار دیا جائے گا اور اس کے ذبیحہ کو حلال نہیں کہا جائے گا۔ اگرچہ صاحب بزار یہ نے اس کو بھی عامی کے حکم میں رکھا ہے؛ لیکن شامی میں اس پر اشکال کیا ہے اور بدائع کی جو عبارت پہلے ہم نے نقل کی ہے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ عذر معتبر نہیںاور اس کا ذبیحہ حلال نہیں۔
(۱) سورۃ التوبہ: ۳۴۔ (۲) سورۃ التوبہ: ۳۱۔ (۳) سورۃ التوبہ: ۳۰۔
(۱) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ’’سورۃ المائدۃ، الآیۃ: ۵‘‘؛ ج ۲، ص: ۱۹۔
(۲) ابن عابدین، حاشیہ رد المحتار علی الدر المختار، ’’باب مسائل شتی‘‘: ج ۶، ص: ۷۴۹۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’باب جنابۃ البہیمۃ‘‘: ج ۶، ص: ۲۹۴۔(۱) ابن عابدین، حاشیہ ابن عابدین، ’’کتاب الذبائح‘‘: ج ۹، ص: ۴۳۵۔
(۲) ’’أیضاً‘‘: ج ۶، ص: ۲۹۹۔ (۳) سورۃ الأنعام: ۱۲۱۔
فقط: واللہ اعلم بالصواب
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص285