اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ تصور کہ: جس عورت کے تل یا کوئی دھبہ ہو یا آنکھ میں خرابی ہو وہ لعنتی ہوتی ہے، شرعی اعتبار سے بالکل غلط ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔(۱)

(۱) إن کان الشئوم في شیئ ففي الدار والمرأۃ والفرس۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب مای یتقی من شؤم المرأۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۶۳، رقم: ۵۰۹۴)
قال القرطبي: إنہ یحملہ علی ماکانت الجاہلیۃ تعتقدہ بناء علی أن ذلک یضر وینفع بذاتہ فإن ذلک خطأ إلخ۔ (ابن حجر، العسقلاني، فتح الباري: ج ۶، ص: ۶۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص519

اسلامی عقائد

Ref. No. 1616/43-1200

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حالت حمل میں عورت کی طبیعت خراب ہونا، کھانسی، الٹی  وغیرہ ہونا عام بات ہے۔ کھانسی کا علاج کسی اچھے اسپتال میں کرانا چاہئے تھا۔بلا ڈاکٹر کے مشورہ کے اسقاط حمل جائز نہیں، اس لئے  میاں بیوی نے جو کچھ کیا وہ ناجائز تھا۔ دونوں اللہ تعالی سے توبہ کریں اور حسب حیثیت صدقہ بھی کریں تو بہتر ہے۔

الْعِلَاجُ لِإِسْقَاطِ الْوَلَدِ إذَا اسْتَبَانَ خَلْقُهُ كَالشَّعْرِ وَالظُّفْرِ وَنَحْوِهِمَا لَا يَجُوزُ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُسْتَبِينِ الْخَلْقِ يَجُوزُ وَأَمَّا فِي زَمَانِنَا يَجُوزُ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ. ۔ ۔ وَفِي الْيَتِيمَةِ سَأَلْت عَلِيَّ بْنَ أَحْمَدَ عَنْ إسْقَاطِ الْوَلَدِ قَبْلَ أَنْ يُصَوَّرَ فَقَالَ أَمَّا فِي الْحُرَّةِ فَلَا يَجُوزُ قَوْلًا وَاحِدًا وَأَمَّا فِي الْأَمَةِ فَقَدْ اخْتَلَفُوا فِيهِ وَالصَّحِيحُ هُوَ الْمَنْعُ كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة." (الھندیۃ كتاب الكراهية، الْبَابُ الثَّامِنَ عَشَرَ فِي التَّدَاوِي وَالْمُعَالَجَاتِ وَفِيهِ الْعَزْلُ وَإِسْقَاطُ الْوَلَدِ، ٥ / ٣٥٦، ط: دار الفكر)

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي. وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال: أما في الحرة فلايجوز قولاً واحدًا، و أما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع، كذا في التتارخانية….امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين. و هكذا في فتاوى قاضي خان." (الھندیۃ 5 / 356، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، کتاب الکراہیۃ، ط؛ رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1801/43-1541

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حق بات بولنا اور بدعت و گمراہی  سے نفرت کرنا اور اس کی بیخ کنی کے لئے حسب قدرت  اٹھ کھڑا ہونا یہ ایمانی تقاضہ ہے۔ ہر مؤمن کو ایسا ہونا چاہئے، حدیث میں اس کی جانب رہنمائی کی گئی ہے، البتہ موقع و محل اور کہنے کا انداز ایسا ہونا چاہئے جو مؤثر ہو، ایسانہ ہو کہ اصلاح کے بجائے فتنہ وفساد کاسبب بن جائے۔ اس لئے قرآن کریم نے  لوگوں کو حکمت کے ساتھ دعوت و تبلیغ کرنے اور بحث ومباحثہ میں احسن طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیاہے۔

کسی مسلمان کے بارے میں حسن ظن ہی رکھنا چاہئے جب تک کہ اس کے خلاف کا مشاہدہ نہ ہوجائے، اس لئے کس نے کونسا گناہ کیاہے، اس کا علم مغیبات میں سے ہے، جس کو صرف اور صرف اللہ تعالی جانتے ہیں۔ آپ کو کسی کےبارے میں بدگمان نہیں ہونا چاہئے، کسی کے بارے میں اگردل میں یہ خیال آتاہے کہ اس نے فلاں گناہ کیا ہے تو اس کو محض ایک وسوسہ سمجھیں، اس شخص کو برا نہ سمجھیں، ہوسکتاہے کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو، یا  اس نے اس گناہ سے توبہ کرلیا ہو یا وہ گناہ کسی نیک عمل سے بدل گیاہو وغیرہ۔ اس طرح کے وساوس کے دفعیہ کے لئے جلد از جلد کسی صاحب نسبت بزرگ سے  مسلسل رابطہ میں رہنا مفید معلوم ہوتاہے۔

عن أبی سعيد: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «من رأى منكم منكرا، فاستطاع أن يغيره بيده، فليغيره بيده، فإن لم يستطع، فبلسانه، فإن لم يستطع، فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان» (سنن ابن ماجہ، باب الامر بالمعروف 2/1330 الرقم 4013)

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ (سورۃ النحل 125)  

ان الحسنات یذھبن السیئات، ذلک ذکری للذاکرین (سورہ ھود 114)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حالات آپ نے لکھے ہیں اور جو افعال وہ کرتے ہیں وہ کفریہ ہیں ایسا کرنا قطعاً اور کسی اعتبار سے بھی جائز نہیں ہے۔ ان کو سمجھایا جائے اور عقائد کی کتابیں ان کو دکھلائی جائیں، اگر وہ باز نہ آئیں اور توبہ و استغفار کرکے اپنے عقائد کو درست نہ کریں، تو ان سے اجتناب ضروری ہوگا۔ اپنے عقائد اور کردار کی حفاظت کے لئے ایسے لوگوں سے ترک تعلق شرعی حکم ہے۔(۱)

(۱) أسماء رجال صالحین من قوم نوح، فلما ہلکوا وحي الشیطان إلي قومہم أن انصبوا إلي مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصاباً وسمَّوہا بأسمائہم، ففعلوا، فلم تعبد، حتی إذا ہلک أولٰئک وتنسخ العلم عبدت۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب السیر: سورۃ نوح، باب وداً ولا سواعاً ولا یغوث‘‘: ج ۲، ص: ۷۳۲، رقم: ۴۹۲۰)
وأعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔
قولہ: (باطل وحرام) لوجوہ منہا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق۔ ومنہا: أن المنذور لہ میت والمیت لا یملک۔ ومنہ: أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص394

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال طریقہ جو رائج ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے یہ خیال بالکل غلط ہے۔ ذبح اور تکبیر حیوانوں کے لئے ہے نہ کہ پھل وغیرہ کے لئے(۱) شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
’’ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء‘‘(۲)  اس سے بدعات کو فروغ ملتا ہے اور بے اصل اور بے بنیاد چیزیں مذہب میں داخل ہوجاتی ہیں اور ایسا کرنے والا گناہگار ہوتا ہے؛ اس لئے اس سے پرہیز کرنا اور بچنا ضروری ہے۔
’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۳) ’’من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود‘‘(۴)
البتہ ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے ’’بسم اللّٰہ‘‘ یا ’’الحمد للّٰہ‘‘ وغیرہ پڑھنا باعث خیر وبرکت ہے۔ ’’قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل أمر ذي بال لا یبدأ فیہ بالحمد أقطع‘‘(۴)

(۱) أشرف علي التھانوي، أغلاط العوام: ص: ۱۸۲۔
(۲) علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸۔
(۴) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰۔
(۵) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب النکاح: باب خطبۃ النکاح‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۰، رقم: ۱۸۹۴۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص520
 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2302/44-3444

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں اگر سجدہ سہو واجب ہو اور سجدہ سہو نہ کرے تو وقت کے اندر اعادہ واجب ہے، اور وقت کے بعد اعادہ اولی اور مستحب ہے۔

"وإعادتها بتركه عمداً" أي ما دام الوقت باقياً وكذا في السهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها حتى  خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم، ويكون فاسقاً آثماً، وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لايتكرر، كما في الدر وغيره. ويندب إعادتها لترك السنة". (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  (ص: 247)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ماں کا دودھ بخشنا یہ رسم و رواج کے تحت ہے، قرآن وحدیث میں اس کی کوئی اصل وارد نہیں ہے، پس ایسی رسوم کا اعتقاد رکھنا بھی درست اور جائز نہیں ہے۔(۱)

۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ما أحدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دیناً قویماً وصراطاً مستقیماً الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص521

اسلامی عقائد

Ref. No. 2778/45-4348

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وعظ کرنے سے مراد اگر تقریر ہے تو جو شخص بھی دینی و شرعی مسائل سے واقف ہو، قرآن و حدیث کا علم رکھتاہو ، حافظ ہو یا غیرحافظ ، تبلیغی ہو یا غیرتبلیغی وعظ و تقریر کرسکتاہے، اور اگر وہ قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتا تو ایسے شخص پر احتیاط لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1618/43-1198

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تلاش کرنے پر ہمیں  ایسی کوئی حدیث نہیں مل سکی، جس میں ایک قدم کا مذکورہ ثواب لکھاہوا ہو،  اللہ کے راستے میں نکلنے کے اور بھی بہت سے فضائل ہیں جوصحیح  ہیں، فضائل کے بیان میں بھی انہی صحیح حدیثوں پراکتفا کرنا چاہیے، اور موضوع و من گھڑت  روایات بیان کرنا جائز نہیں۔ اس سے  اجتناب کرنا چاہیے۔

"وإذا کان الحدیث لا إسناد له، فلا قیمة له، ولایلتفت إلیه، إذ الاعتماد في نقل کلام سیدنا رسول الله ﷺ إلینا وإنّما هو على الإسناد الصحیح الثابت أو مایقع موقعه، وما لیس کذلك فلا قیمة له ( المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع، ص: ۱۸، ط: ایچ ایم سعید کمپنی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2003/44-1958

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد میں چندہ دینے والوں کا مقصد مسجد کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے، اس لئے مسجد کا پیسہ تراویح کے امام کو دینا جائز نہیں ہے، جو  پیسے آپ کو مسجد کی طرف سے دئے گئے تھے، اس  کو آپ جلد از جلد  واپس کردیں؛ اس پیسے کا استعمال آپ کے لئے جائز نہیں اور والد صاحب کو دینابھی درست نہیں۔  اور اگرمسجد والوں نے  چندہ آپ کے لئے ہی کیاتھا تو  وہ رقم آپ کے لئے حلال ہے، گوکہ یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند