Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حالات آپ نے لکھے ہیں اور جو افعال وہ کرتے ہیں وہ کفریہ ہیں ایسا کرنا قطعاً اور کسی اعتبار سے بھی جائز نہیں ہے۔ ان کو سمجھایا جائے اور عقائد کی کتابیں ان کو دکھلائی جائیں، اگر وہ باز نہ آئیں اور توبہ و استغفار کرکے اپنے عقائد کو درست نہ کریں، تو ان سے اجتناب ضروری ہوگا۔ اپنے عقائد اور کردار کی حفاظت کے لئے ایسے لوگوں سے ترک تعلق شرعی حکم ہے۔(۱)
(۱) أسماء رجال صالحین من قوم نوح، فلما ہلکوا وحي الشیطان إلي قومہم أن انصبوا إلي مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصاباً وسمَّوہا بأسمائہم، ففعلوا، فلم تعبد، حتی إذا ہلک أولٰئک وتنسخ العلم عبدت۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب السیر: سورۃ نوح، باب وداً ولا سواعاً ولا یغوث‘‘: ج ۲، ص: ۷۳۲، رقم: ۴۹۲۰)
وأعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔
قولہ: (باطل وحرام) لوجوہ منہا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق۔ ومنہا: أن المنذور لہ میت والمیت لا یملک۔ ومنہ: أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص394
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال طریقہ جو رائج ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے یہ خیال بالکل غلط ہے۔ ذبح اور تکبیر حیوانوں کے لئے ہے نہ کہ پھل وغیرہ کے لئے(۱) شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
’’ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء‘‘(۲) اس سے بدعات کو فروغ ملتا ہے اور بے اصل اور بے بنیاد چیزیں مذہب میں داخل ہوجاتی ہیں اور ایسا کرنے والا گناہگار ہوتا ہے؛ اس لئے اس سے پرہیز کرنا اور بچنا ضروری ہے۔
’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۳) ’’من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود‘‘(۴)
البتہ ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے ’’بسم اللّٰہ‘‘ یا ’’الحمد للّٰہ‘‘ وغیرہ پڑھنا باعث خیر وبرکت ہے۔ ’’قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل أمر ذي بال لا یبدأ فیہ بالحمد أقطع‘‘(۴)
(۱) أشرف علي التھانوي، أغلاط العوام: ص: ۱۸۲۔
(۲) علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸۔
(۴) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰۔
(۵) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب النکاح: باب خطبۃ النکاح‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۰، رقم: ۱۸۹۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص520
اسلامی عقائد
Ref. No. 2302/44-3444
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں اگر سجدہ سہو واجب ہو اور سجدہ سہو نہ کرے تو وقت کے اندر اعادہ واجب ہے، اور وقت کے بعد اعادہ اولی اور مستحب ہے۔
"وإعادتها بتركه عمداً" أي ما دام الوقت باقياً وكذا في السهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم، ويكون فاسقاً آثماً، وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لايتكرر، كما في الدر وغيره. ويندب إعادتها لترك السنة". (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ص: 247)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ماں کا دودھ بخشنا یہ رسم و رواج کے تحت ہے، قرآن وحدیث میں اس کی کوئی اصل وارد نہیں ہے، پس ایسی رسوم کا اعتقاد رکھنا بھی درست اور جائز نہیں ہے۔(۱)
۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ما أحدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دیناً قویماً وصراطاً مستقیماً الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص521
اسلامی عقائد
Ref. No. 2778/45-4348
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وعظ کرنے سے مراد اگر تقریر ہے تو جو شخص بھی دینی و شرعی مسائل سے واقف ہو، قرآن و حدیث کا علم رکھتاہو ، حافظ ہو یا غیرحافظ ، تبلیغی ہو یا غیرتبلیغی وعظ و تقریر کرسکتاہے، اور اگر وہ قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتا تو ایسے شخص پر احتیاط لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1618/43-1198
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ –تلاش کرنے پر ہمیں ایسی کوئی حدیث نہیں مل سکی، جس میں ایک قدم کا مذکورہ ثواب لکھاہوا ہو، اللہ کے راستے میں نکلنے کے اور بھی بہت سے فضائل ہیں جوصحیح ہیں، فضائل کے بیان میں بھی انہی صحیح حدیثوں پراکتفا کرنا چاہیے، اور موضوع و من گھڑت روایات بیان کرنا جائز نہیں۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
"وإذا کان الحدیث لا إسناد له، فلا قیمة له، ولایلتفت إلیه، إذ الاعتماد في نقل کلام سیدنا رسول الله ﷺ إلینا وإنّما هو على الإسناد الصحیح الثابت أو مایقع موقعه، وما لیس کذلك فلا قیمة له ( المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع، ص: ۱۸، ط: ایچ ایم سعید کمپنی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2003/44-1958
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد میں چندہ دینے والوں کا مقصد مسجد کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے، اس لئے مسجد کا پیسہ تراویح کے امام کو دینا جائز نہیں ہے، جو پیسے آپ کو مسجد کی طرف سے دئے گئے تھے، اس کو آپ جلد از جلد واپس کردیں؛ اس پیسے کا استعمال آپ کے لئے جائز نہیں اور والد صاحب کو دینابھی درست نہیں۔ اور اگرمسجد والوں نے چندہ آپ کے لئے ہی کیاتھا تو وہ رقم آپ کے لئے حلال ہے، گوکہ یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسم ورواج سے ہٹ کر بچے کے والدین کو محض اپنی خوشی اور رضامندی سے جو چاہے دے سکتے ہیں، اس کا لینا بھی جائز ہے(۱) البتہ کوئی غیر شرعی طریقہ اختیار نہ کیا جائے(۲)
(۱) خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ الترمذي: في سننہ، ’’أبواب العلم، باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۷۳، رقم: ۲۹۰۷؛ أخرجہ البخاري، في صحیحہ،… ’’کتاب العلم: باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۱۹، رقم: ۵۰۲۷)
تہادوا تحابوا۔ (أخرجہ الطبري، في المعجم الأوسط: ج ۷، ص: ۱۹۰، رقم: ۷۲۴۰)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص521
اسلامی عقائد
Ref. No. 966/41-120
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جن علاقوں میں جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہوں، وہاں جامع مسجد میں اگر تمام لوگوں کے لئے گنجائش ہو تو سب کو ایک ہی مسجد میں جمعہ پڑھنا چاہئے۔ اس لئے کہ جمعہ کا مقصد ہی اجتماعیت کا اظہار ہے۔ جب سب لوگ ایک جگہ جمعہ پڑھیں گے تو اجتماعیت اور اتحاد کا مظاہرہ ہوگا؛ تاہم جامع مسجد کے علاوہ دوسری مسجد میں بھی جمعہ کی نماز درست ہے۔
وعلی الروایۃ المختارۃ عندالسرخسی وغیرہ من جواز تعددھا (فتح القدیر 2/65)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref.No.2837/45-4487
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح سنانے والے حافظ کے لئے سامع کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کو اچھا یاد ہونا ضروری ہے۔ سامع کے ہونے نہ ہونے سے تراویح کی نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا، البتہ اگر سامع ہو تو حافظ کے لئے آسانی ہوتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند