اسلامی عقائد

Ref. No. 1808/43-1559

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجنبیہ عورت کو دیکھنا جائز نہیں ہے، اس سے بات کرنا اور اس سے محبت کرنا بھی جائز نہیں۔  یہ گناہ کا کام ہے، اس سے بچنا لازم ہے اور پردہ کرنا ضروری ہے، تاہم اس سے اور اس کا انکار کرنے سے کفر لازم نہیں آتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر انسان عقل کی روشنی میں غور و فکر کا مالک ہے، تمام انسانوں پر غور وفکر لازم ہے(۱) اور سبق لینا ضروری ہے، الا یہ کہ وہ مکلف نہ ہو جیسے مجنون وبچے وغیرہ اگر کوئی بات شبہ کی معلوم ہو تو کسی مقامی عالم سے حل کرلیں،(۲) قرآن پر ترجیح سے کیامراد ہیَ؟ واضح کریں، اگر مراد یہ ہے کہ قرآن کمتر وغیر درست ہے اور دسری کوئی کتاب درست اور اس سے بہتر ہے تو یہ اعتقاد کفر کو پہنچے گا۔ (۳)

(۱) {فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِيْٓ أُوْحِيَ إِلَیْکَج إِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍہ۴۳   وَإِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَہ۴۴} (سورۃ الزخرف: ۴۳-۴۴)
{کِتٰبٌ أَنْزَلْنٰہُ إِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا أٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُوا الْأَلْبَابِہ۲۹} (سورۃ ص: ۲۹)
(۲) {وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍہع  ۴۰} (سورۃ القمر: ۵۲)
(۳) في خزانۃ الفقہ) لو قیل لم لا تقرأ القرآن فقال: ’’بیزار شدم از قرآن‘‘ یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: فيأحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج(۳) في خزانۃ الفقہ) لو قیل لم لا تقرأ القرآن فقال: ’’بیزار شدم از قرآن‘‘ یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: فيأحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص289

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:محض اس جملۂ مذکورہ سے کفر لازم نہیں آتا؛ اس لئے کہ وہ امت اجابت نہیں ہیں تاہم امت دعوت ضرور ہیں۔(۱)

(۱){وَمَآ أَرْسَلْنٰکَ إِلَّا رَحْمَۃً  لِّلْعٰلَمِیْنَ ہ۱۰۷} (سورۃ الأنبیاء: ۱۰۷)

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہؤلاء أمتک وہؤلاء سبعون ألفاً قداہم لاحساب علیہم ولا عذاب۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الرقاق: باب ید خل الجنۃ سبعون ألفا بغیر حساب‘‘: ج ۲، ص: ۹۶۸)

(۲) سورۃ الاسراء:۱

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2006/44-1962

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت بالا میں عورت پر شرعا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔ میاں بیوی کا رشتہ اب باقی نہیں رہا، دونوں اجنبی ہوگئے۔ عورت پر پردہ ، اور عدت لازم ہے۔ عدت گزارنے کے بعد عورت اپنی مرضی  سے شادی کرنے میں آزاد ہے۔

"وإن‌‌ ‌كان ‌الطلاق ‌ثلاثا ‌في ‌الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها، ثم يطلقها، أو يموت عنها۔" (البناية شرح الهداية،5/ 474)

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 187)

’’ولو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً ( شامی کتاب الطلاق، 3/236 سعید)

لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا كذا في الخانية من الإكراه ومراده بعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة لما في فتح القدير ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء اه. وصرح في البزازية بأن له في الديانة إمساكها إذا قال أردت به الخبر عن الماضي كذبا، وإن لم يرد به الخبر عن الماضي أو أراد به الكذب أو الهزل وقع قضاء وديانة واستثنى في القنية من الوقوع قضاء ما إذا شهد قبل ذلك لأن القاضي يتهمه في إرادته الكذب فإذا أشهد قبله زالت التهمة۔ (البحر الرائق: كتاب الطلاق، 264/3، ط: دار الكتاب الإسلامي)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت مرتد ہوگئی تھی پھر جب اس نے قرآن کریم کو ماننے کا اقرار کرلیا تو اسلام میں داخل ہوگئی لیکن اس پر تجدید نکاح وتوبہ و استغفار لازم ہے۔(۱) ’’من ہزل بلفظ الکفر ارتد و إن لم یعتقدہ للاستخفاف‘‘(۲)

(۱) أنکر آیۃ من القرآن أو سخر بآیۃ منہ کفر۔ (بزازیۃ، ’’کتاب الفاظ تکون إسلاماً أو کفراً أو خطأً‘‘: ج ۳، ص: ۱۹۱)
إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص290

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یوم عاشورہ کی نیت سے کھاناپکانا اور دعوت کرنا اور فقراء کو  بھی کھلانا مستحب اور باعث ثواب ہے (۱)  لیکن محرم کی نیت سے کرنا بدعت و ممنوع ہے۔ (۲)

(۱) والمتابعۃ کما تکون في الفعل تکون في الترک أیضاً، فمن واظب علی فعل لم یفعلہ الشارع فہو مبتدع۔ (ملا علي قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۹۳)

(۲) ایصال ثواب کے لئے کسی دن کی تخصیص شریعت سے ثابت نہیں اور اب جب کہ یہ روافض اور مبتدعین کا شعار بن چکا ہے تو قطعاً ترک کرنا چاہئے۔ (حاشیہ کفایت المفتی، ‘‘مخصوص ایام کی مروجہ بدعات کا بیان‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، )

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص480

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میںمسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے تو اس پر ایمان رکھنا فرض اور ضروری ہے ،اس کا منکر چوںکہ آیت قرآنی کا منکر ہے؛ اس لیے وہ کافر ہوگا، مسجد اقصیٰ کے بعد آسمانوں پر جانا اور وہاں سے عجائبات وغیرہ

کی سیر کرنا جو احادیث سے ثابت ہے اس کا منکر کافر نہ ہوگا، البتہ فاسق ہوگا۔ (۱)

(۱) إذا أنکرالرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي الخزانۃ أو عاب فقد کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب السابع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

ویکفر إذا أنکر آیۃ من القرآن۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص:۲۰۵)

 

 

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1804/43-1566

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرک کے کام سے آپ نے توبہ کرلی، اور تجدید ایمان کیا، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور آئندہ شرک کے کاموں سے بچنے کی پوری کوشش  رہنی چاہئے۔  مفتی طارق مسعود صاحب ہماری معلومات کے مطابق ایک صحیح العقیدہ اورصحیح الفکر عالم دین ہیں۔ اس لئے عام مسلمان کے لئے اس طرح عقیدہ کا اظہار کرنا کہ جو ان کا عقیدہ ہے میرا بھی وہی عقیدہ ہے ، درست  ہے۔ اور اس طرح تجدید ایمان کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

تاہم بہتر ہے کہ آپ پھر سے اس طرح تجدید ایمان کریں کہ میں اسلام قبول کرتاہوں، اللہ تعالی کو اپنا رب ، خالق اور معبود حقیقی تسلیم کرتاہوں، اور حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی مانتاہوں، اور آپ ﷺ نے جن چیزوں پر ایمان لانے کے لئے کہا ہے میں ان تمام پر ایمان لاتاہوں، بار بار تجدید ایمان سے کوئی حرج نہیں بلکہ یہ بہتر ہے۔

 البتہ مستقبل میں اگر خدانخواستہ طارق مسعود صاحب کا عقیدہ (العیاذباللہ) بگڑتاہے تو اس کا اثر آپ کے ایمان پر نہیں پڑے گا جب تک آپ اس عقیدہ کو اختیار نہیں کریں گے، ان کا غلط عقیدہ جاننے کے بعد اگر آپ اس پر رضامند ہوئے تو آپ بھی اس گمراہی میں شریک ہوں گے اور تجدید ایمان کرنا ہوگا۔  ایک مسلمان کو اپنے ایمان کے تئیں کافی حساس ہونا چاہئے تاکہ کوئی خواہی نخواہی ایسی غلطی نہ ہوجائے کہ ایمان جاتا رہے۔ اللہ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔  آمین

 وإذا قيل لهم آمنوا كما آمن الناس قالوا أنؤمن كما آمن السفهاء ألا إنهم هم السفهاء ولكن لا يعلمون (13)

يقول تعالى وإذا قيل للمنافقين: آمنوا كما آمن الناس أي كإيمان الناس بالله وملائكته وكتبه ورسله والبعث بعد الموت والجنة والنار وغير ذلك مما أخبر المؤمنين به وعنه، وأطيعوا الله ورسوله في امتثال الأوامر وترك الزواجر قالوا أنؤمن كما آمن السفهاء يعنون- لعنهم الله- أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رضي الله عنهم (تفسیر ابن کثیر، سورۃ البقرۃ الآیۃ 13، 1/92)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:توراۃ اور انجیل کی زبان عبرانی تھی۔ (۱)

(۱) وبالجملۃ کان لسان الیہود العبراني، والتوراۃ والإنجیل کلاہما کانا بالعبري، أما التوراۃ العبریۃ فتوجد الیوم أیضاً: ولا یوجد أصل الإنجیل العبري۔ (علامہ أنوار شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب بدء الوحي ہل التسمیۃ جزء من کل سورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵)   

{وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْط فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِيْ مَنْ یَّشَآئُط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُہ۴ } (سورۃ الإبراہیم: ۴)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند ج1ص291

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوا مہینے پر دعوت وغیرہ کو امر شرعی سمجھنا تو بالکل بدعت اور گناہ ہے۔ اتفاقاً اگر دعوت وغیرہ ہو اور اس کو حکم شرعی اور لازم نہ سمجھا جائے؛ نیز خلاف شرع کسی چیز کا ارتکاب نہ ہوتو جائز ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند جابر بن عبد اللّٰہ‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۲، رقم: ۸۶۷)
عن معمر عن لیث عن سعید بن جبیر قال ثلاث من عمل الجاہلیۃ النیاحۃ، والطعام علی المیت۔ (أخرجہ عبد الرزاق الصنعاني، في مصنفہ: ج ۳، ص: ۵۵۰، رقم: ۶۶۶۴
)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص397