اسلامی عقائد

Ref. No. 1289/42-842

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیت کریمہ کا ترجمہ آپ نے غلط سمجھ لیا ہے۔ آیت ہے:

 وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ (سورۃ یوسف 42)۔

آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے قیدی ساتھی سے فرمایا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا بھی تذکرہ  کرنا کہ ایک شخص بے قصور قید میں ہے، اس نے وعدہ کرلیا پھر اس قیدی کو اپنے آقا سے یوسف علیہ السلام  کا تذکرہ کرنا شیطان نے بھُلادیا اس وجہ سے یوسف علیہ السلام کو قید خانہ میں اور بھی چند سال رہنا پڑا۔ یہاں رب سے مراد مالک ہے، جیسے کہ جوہری نے الصحاح میں  لکھا ہے : رب کل شیئ مالکہ: ہر شیئ کا رب وہی ہے جو اس کا مالک ہے۔ عربی محاورہ میں بھی اس کا استعمال ہے جیسے  صاحب خانہ کو رب الدار، کشتی کے مالک کو رب السفینۃ وغیرہ ۔ مذکورہ آیت میں رب سے مراد آقا اور مالک ہے۔ جبکہ آپ نے سمجھا کہ یوسف علیہ السلام کو شیطان نے اللہ کی یاد بھلادی تھی حالانکہ اس قیدی کو اپنے آقا اور مالک سے یوسف علیہ السلام  کا تذکرہ کرنا شیطان نے بھلادیا ۔ (معارف القرآن 5/67)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب روپیہ دے کر یا عوض میں کھانا کھلا کر قرآن پاک پڑھوایا گیا۔ تو پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملا جب وہ ہی ثواب سے خالی رہا تو میت کو کس چیز کا ثواب پہنچائے گا۔(۱)

(۱) إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقارئ۔ وقال العیني: في شرح الہدایۃ: ویمنع القارئ للدنیا، والآخذ والمعطي آثمان۔ فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال؛ فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا ’’إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘‘۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص395

اسلامی عقائد

Ref. No. 2389/44-3622

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو پرندے ہوا میں بیٹ نہیں کرتے جیسے مرغی اور بطخ وغیرہ، اُن کی بیٹ نجس "نجاستِ غلیظہ"ہے۔ خواہ ان کو پنجرے میں بند کرکے کھانا دیاجائے یا وہ باہر پھرنے والے پرندے ہوں۔ بہشتی ثمر میں جو قید ہے وہ قید اتفاقی ہے احترازی نہیں ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:1، ص:62، ط: دار الكتب العلمية):

’’(و منها) خرء بعض الطيور من الدجاج و البط، و جملة الكلام فيه أن الطيور نوعان: نوع لا يذرق في الهواء و نوع يذرق في الهواء.

(أما) ما لايذرق في الهواء كالدجاج و البط فخرؤهما نجس؛ لوجود معنى النجاسة فيه، و هو كونه مستقذرا لتغيره إلى نتن و فساد رائحة فأشبه العذرة، و في الإوز عن أبي حنيفة رحمه الله روايتان، روى أبو يوسف رحمه الله عنه أنه ليس بنجس، و روى الحسن رحمه الله عنه أنه نجس، (و ما) يذرق في الهواء نوعان أيضا: ما يؤكل لحمه كالحمام و العصفور و العقعق و نحوها، و خرؤها طاهر عندنا، و عند الشافعي نجس، وجه قوله أن الطبع قد أحاله إلى فساد فوجد معنى النجاسة، فأشبه الروث و العذرة. (و لنا) إجماع الأمة فإنهم اعتادوا اقتناء الحمامات في المسجد الحرام و المساجد الجامعة مع علمهم أنها تذرق فيها، و لو كان نجسا لما فعلوا ذلك مع الأمر بتطهير المسجد، و هو قوله تعالى: {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125] و روي عن ابن عمر - رضي الله عنهما - أن حمامة ذرقت عليه فمسحه و صلى، و عن ابن مسعود - رضي الله عنه - مثل ذلك في العصفور، و به تبين أن مجرد إحالة الطبع لا يكفي للنجاسة ما لم يكن للمستحيل نتن و خبث رائحة تستخبثه الطباع السليمة، و ذلك منعدم ههنا على أنا إن سلمنا ذلك لكان التحرز عنه غير ممكن؛ لأنها تذرق في الهواء فلا يمكن صيانة الثياب و الأواني عنه، فسقط اعتباره للضرورة كدم البق و البراغيث و حكى مالك في هذه المسألة الإجماع على الطهارة، و مثله لا يكذب فلئن لم يثبت الإجماع من حيث القول يثبت من حيث الفعل و هو ما بينا.

و ما لا يؤكل لحمه كالصقر و البازي و الحدأة و أشباه ذلك، خرؤها طاهر عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله، و عند محمد رحمه الله نجس نجاسة غليظة، وجه قوله أنه وجد معنى النجاسة فيه؛ لإحالة الطبع إياه إلى خبث و نتن رائحة، فأشبه غير المأكول من البهائم، و لا ضرورة إلى إسقاط اعتبار نجاسته لعدم المخالطة؛ لأنها تسكن المروج و المفاوز بخلاف الحمام و نحوه، (و لهما) أن الضرورة متحققة لأنها تذرق في الهواء فيتعذر صيانة الثياب و الأواني عنها، و كذا المخالطة ثابتة بخلاف الدجاج و البط؛ لأنهما لا يذرقان في الهواء فكانت الصيانة ممكنة.‘‘

 

خرء مایؤکل لحمہ من الطیور طاھر الامالہ رائحۃ کریھۃ کخرء الدجاج والبط والاوزفھو نجس نجاسۃ غلیظۃ۔
(الفتاوی الخانیة علی ھامش الھندیۃ: (19/1)

وبول مایوکل لحمہ والفرس وخرء طیر لایوکل مخفف…… وذرق مایوکل لحمہ من الطیر طاھر عندنا مثل الحمام والعصافیر... )الھندیۃ: (46/1(

ذرق الطيور مما يؤكل لحمه كالحمام والعصافير، طاهر عند جمهور الفقهاء (الحنفية والمالكية وهو الظاهر عند الحنابلة) وذلك لعموم البلوى به بسبب امتلاء الطرق والخانات بها؛ولإجماع المسلمين على ترك الحمام في المساجد.وعلى ذلك فإن أصاب شيء منه بدن الإنسان أو ثوبه داخل الصلاة أو خارجها لا تفسد صلاته ولا ينجس ثوبه. واستثنى الحنفية والمالكية من هذا الحكم خرء الدجاج والبط الأهلي؛ لأنهما يتغذيان بنجس فلا يخلو خرؤهما من النتن والفساد )الموسوعة الفقهية الكويتية: (211/21)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کوئی عورت نبیہ ہوئی ہے یا نہیں اس بارے میں مفسرین ومحدثین کے درمیان اختلاف ہے، بعض حضرات حضرت مریم علیہا السلام کو اور بعض حضرات دوسری بعض عورتوں کی نبوت کے قائل ہیں، لیکن جمہور مفسرین وعلماء کے نزدیک کوئی عورت نبوت یا رسالت سے سرفراز نہیں ہوئی اور یہ ہی قول راجح ہے۔(۲) لہٰذا اصح قول کے موافق مذکورہ فی السوال یا اس کے علاوہ کوئی عورت نبیہ نہیں ہوئی ہے ہاں مذکورہ عورتوں کی ولایت میں کوئی شبہ نہیں۔(۳)

(۱) سورۃ المائدہ: ۳۔               
(۲) معارف القرآن: ج۶، ص: ۸۲۔۲) {وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ إِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْا أَھْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَہلا ۴۳} (سورۃ النحل: ۴۳)
{وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ إِلَیْھِمْ مِّنْ أَھْلِ الْقُرٰیط أَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِي الْأَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْط وَلَدَارُ الْأٰخِرَۃِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْاط أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَہ۱۰۹} (سورۃ یوسف:
۱۰۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص288

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک صورت تو یہ ہے کہ کھانا کھلایا جائے اور ثواب کی نیت کسی پیر وبزرگ کے لئے کرلی جائے، اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں؛ لیکن مذکورہ صورت میں ۱۱؍ تاریخ متعین کرنا، اس کے لیے رقم جمع کرنا، غرباء و فقراء کے بجائے ملنے جلنے والوں کو کھلانا، پیر اور مزار کا نام رکھنا اور متعین کرنا، یہ تمام اس بات کی علامات ہیں کہ اللہ کے نام کے بجائے پیر ہی کے نام پر سب کیا اور کھلایا جارہا ہے، اس لیے اس میں حصہ لینا یا وہ کھانا کھانا جائز نہیں ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔(۱)

(۱) {إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} (سورۃ التوبۃ: ۶۰)
الوصیۃ المطلقۃ لا تحل للغني لأنہا صدقۃ، وہي علی الغني حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الوصایا: باب الوصیۃ بالحدمۃ والسکنیٰ والثمرۃ، فصل في وصایا الذمي‘‘: ج ۱۰، ص: ۴۰۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب فی النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
من تعبد للّٰہ تعالی بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ في غیر أزمانہا فقد تعبد ببدعۃ حقیقیۃ لا إضافیۃ فلا جہۃ لہا إلی المشروع بل غلبت علیہا جہۃ الابتداع فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام: ج ۲، ص: ۲۶)
وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۲، رقم: ۸۶۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص396

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/954

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   رسم و رواج کے طور پر کھانا کھانا اور کھلانا دونوں امور ناجائز ہیں اور قابل اصلاح ہیں۔ البتہ دوردراز سے آئے ہوئے مہمانوں کے لئے میت کے گھر والے یا ان کے رشتہ دارکھانے کا  نظم کردیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، وہ ان تمام بشری تقاضوں سے پاک ہیں۔(۱)

اللہ تعالیٰ ساری زبانوں کے عالم بھی ہیں اور خالق بھی ہیں۔ دنیا میں جتنے علوم ہیں، ان کا پورا پورا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور لاتعداد وبے شمار چیزیں جو دنیا کا کوئی فرد نہیں جانتا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے وہ علیم و خبیر ہے۔(۲)

۱) {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُہ۱۱} (سورۃ الشوریٰ: ۱۱)

{ھُوَ اللّٰہُ الَّذِيْ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ ج عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِج} (سورۃ الحشر: ۲۲)

(۲) {أَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ط} (سورۃ المجادلۃ: ۷)

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1808/43-1559

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجنبیہ عورت کو دیکھنا جائز نہیں ہے، اس سے بات کرنا اور اس سے محبت کرنا بھی جائز نہیں۔  یہ گناہ کا کام ہے، اس سے بچنا لازم ہے اور پردہ کرنا ضروری ہے، تاہم اس سے اور اس کا انکار کرنے سے کفر لازم نہیں آتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر انسان عقل کی روشنی میں غور و فکر کا مالک ہے، تمام انسانوں پر غور وفکر لازم ہے(۱) اور سبق لینا ضروری ہے، الا یہ کہ وہ مکلف نہ ہو جیسے مجنون وبچے وغیرہ اگر کوئی بات شبہ کی معلوم ہو تو کسی مقامی عالم سے حل کرلیں،(۲) قرآن پر ترجیح سے کیامراد ہیَ؟ واضح کریں، اگر مراد یہ ہے کہ قرآن کمتر وغیر درست ہے اور دسری کوئی کتاب درست اور اس سے بہتر ہے تو یہ اعتقاد کفر کو پہنچے گا۔ (۳)

(۱) {فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِيْٓ أُوْحِيَ إِلَیْکَج إِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍہ۴۳   وَإِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَہ۴۴} (سورۃ الزخرف: ۴۳-۴۴)
{کِتٰبٌ أَنْزَلْنٰہُ إِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا أٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُوا الْأَلْبَابِہ۲۹} (سورۃ ص: ۲۹)
(۲) {وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍہع  ۴۰} (سورۃ القمر: ۵۲)
(۳) في خزانۃ الفقہ) لو قیل لم لا تقرأ القرآن فقال: ’’بیزار شدم از قرآن‘‘ یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: فيأحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج(۳) في خزانۃ الفقہ) لو قیل لم لا تقرأ القرآن فقال: ’’بیزار شدم از قرآن‘‘ یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: فيأحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص289

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:محض اس جملۂ مذکورہ سے کفر لازم نہیں آتا؛ اس لئے کہ وہ امت اجابت نہیں ہیں تاہم امت دعوت ضرور ہیں۔(۱)

(۱){وَمَآ أَرْسَلْنٰکَ إِلَّا رَحْمَۃً  لِّلْعٰلَمِیْنَ ہ۱۰۷} (سورۃ الأنبیاء: ۱۰۷)

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہؤلاء أمتک وہؤلاء سبعون ألفاً قداہم لاحساب علیہم ولا عذاب۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الرقاق: باب ید خل الجنۃ سبعون ألفا بغیر حساب‘‘: ج ۲، ص: ۹۶۸)

(۲) سورۃ الاسراء:۱