اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ خیالات اور عقائد اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں، زمانۂ جاہلیت میں لوگ ماہ صفر کو منحوس کہتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خیالات کی سخت الفاظ میں تردید فرمائی ہے، صحیح بات یہ ہے کہ وقت، دن، ماہ، تاریخ کوئی منحوس نہیں ہے، بندوں کے اعمال وافعال پر نحوست منحصر ہے، جس وقت کو بندہ نیک کام میں لگادے وہ مبارک ہے، اور جس وقت کو بندہ گناہ میں صرف کردے، وہ اس کے لیے منحوس ہے۔ اوقات حقیقت میں منحوس نہیں ہوتے، بلکہ مدار اعمال پر ہے۔(۳)

(۳) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا عدوی ولا طیرۃ ولا ہامۃ ولا صفر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الطب: باب لا ہامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۵۷، رقم: ۵۷۰۷)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الشؤم في المرأۃ والدار والفرس، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب النکاح: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۷)
الأیام کلہا للّٰہ تعالی لا تنفع ولا تضر بذاتہا۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۱۵، ص: ۱۳۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص481

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عالم کی توہین کرنے والا فاسق ہے، کافر نہیں؛ جو استدلال آپ نے پیش کیا ہے یہ حدیث نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحابی کااثر ہے؛ البتہ عالم کی اس کے علم کی وجہ سے توہین کرنے پر کفر کا اندیشہ ہے۔ (۲)

(۲) والاستخفاف بالعلماء لکونہم علماء استخفاف بالعلم۔ (کتاب النوازل) بزازیہ علی ہامش الہندیۃ، ’’کتاب ألفاظ تکون إسلاماً أو کفراً أو خطأً: النوع الثامن: في الاستخفاف بالعلم‘‘: ج ۱۲، ص: ۱۸۸)

ویخاف علیہ الکفر إذا شتم عالما أو فقیہا من غیر سببٍ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۲)

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1813/43-1576

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  انسان و حیوان، چرند و پرند یا حشرات الارض میں سے کسی کے لئے زنا سے باز رہنے کا سبب بننا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے ذریعے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کی اصلاح ہوگی۔ آپ کے باطن کی صفائی ہوگی، تقوی حاصل ہوگا،  اور بزرگی ظاہر ہوگی۔ان شاء اللہ

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سکرات موت کا تو مرتے وقت انسان کو علم ہوتا ہے، موت واقع ہوجانے کے بعد کوئی علم اس کو نہیں ہوتا ۔ (۲)
(۲) قال عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ: دخلت علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہو یوعک، فقلت: یا رسول اللّٰہ إنک لتوعک وعکا شدیداً، قال: أجل إني أوعک کما یوعک رجلان منکم، فقلت: ذلک بأن لک أجرین، فقال: أجل ذلک کذلک۔(أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب المرضیٰ، باب أشد الناس بلاء الأنبیاء -علیہم السلام- ثم الأمثل فالأمثل‘‘: ج ۲، ص: ۸۴۳

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص291)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گاہے گاہے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مقصد ایصال ثواب ہے، مگر اس کا التزام کرنا بدعت ہوجائے گا، اسی طرح ناموں کا رجسٹر میں اندراج کرنا یہ بیجا رسم اور لغو ہے اور دو رکعت نفل پڑھنے کے لئے کہنا یہ بھی رسم بنائی گئی ہے، کوئی شخص اپنی خوشی سے جس طرح چاہے عمل کرکے ایصال ثواب کرسکتا ہے، کچھ لوگ بیشتر مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں؛ لہٰذا ان کو چاہئے کہ علماء و مفتیان کرام سے مسائل معلوم کرکے عمل کیا کریں۔(۱)

(۱) مردہ کو ثواب کھانے کا اور کلمہ، تہلیل اور قرآن کا پہونچانا ہر روز بغیر کسی تاریخ کے درست ہے مگر بہ قیودِ تاریخ معین کر کے کہ پش وپیش نہ کریں اور اس کو ضروری جانیں تو بدعت ہے اور ناجائز ہے، جس امر کو شریعت نے مطلق فرمایا ہے اپنی عقل سے اس میں قید لگانا حرام ہے۔ (تالیفات رشیدیہ، ’’کتاب البدعات‘‘: ص: ۱۵۲)
من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزماً ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الاضلال فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد‘‘: ج ۳، ص: ۲۶، رقم: ۹۴۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص398

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر اس اجلاس کو اسی متعینہ تاریخ میں لازم سمجھ کر نہ کیا جائے تو یہ بدعت نہیں ہوگا اور بدعت کی تعریف اس پر صادق نہ آئے گی، اس میں اتنا تغیر کرلینا سنت شریعت کے موافق ہوگا کہ اسی ۹؍ ربیع الاول کو لازم نہ سمجھا جائے، گاہے گاہے اس تاریخ کے علاوہ دوسری تاریخوں میں اجلاس کرلیا جائے کہ کسی سال میں ۸؍ کو کسی میں ۷؍ کو وغیرہ۔(۱) لیکن اس کو لازم سمجھ کر عمل کرنا بدعت اور واجب الترک ہے۔ انتظامی طور پر کوئی تاریخ مقرر کئے رکھنا درست ہے، سنت سمجھ کر درست نہیں ہے، اسی طرح کوئی ایسی تاریخ طے کئے رکھنا بھی درست نہیں ہے جسے لوگ سنت کی حیثیت دینے لگیں جب کہ وہ سنت نہ ہو۔(۲)

(۱) لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ …(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
(۲) ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص482

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ مسئلہ ایمانیات ومعتقدات سے متعلق نہیں ہے روایات مضطرب ہیں؛ اس لئے فقہاء اس جیسے مسائل پر کلام کرنے سے منع فرماتے ہیں۔(۱)

(۱)وأنزل اللّٰہ تعالیٰ في أبي طالب فقال لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: {إِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِيْ مَنْ یَّشَآئُج وَھُوَ أَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ ہ۵۶} (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الدلیل علی صحۃ إسلام من حضرہ الموت ما لم یشرع الخ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰، رقم: ۲۴)

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعمہ عند الموت: قل لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد لک بہا یوم القیامۃ فأبي قال: فأنزل اللّٰہ {إِنَّکَ لَا تَھْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ} (الآیۃ)۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الدلیل علی صحۃ إسلام من حضرہ الموت ما لم یشرع الخ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰)

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1812/43-1574

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کسی کو زنا سے باز رکھنے کا سبب بننا خواہ وہ زنا کرنے والے حشرات الارض ہوں یا انسان و چرند و پرند اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ آپ کے ذریعے معاشرے میں اصلاحات ہوں گی۔ آپ کے باطن کی صفائی ہوگی اور بزرگی ظاہر ہوگی۔

خواب میں مکہ مکرمہ میں موجودگی اور وہاں ہجڑے کا زنا کی کوشش، اس امر کی جانب مشیر ہے کہ آپ کو کسی بڑے خطرے سے امن و امان نصیب ہوگی۔ کیونکہ پورے کا پورا شہر مکہ حرم کے حکم میں ہے۔ ومن دخلہ کان آمناً۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1899/43-1825

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    دونوں پالیسیوں میں جو رقم جمع ہوچکی ہے وہ اتنی ہے کہ اس سے 612 گرام چاندی(بقدر نصاب) خریدی جاسکتی ہے، اور قربانی کے وجوب کے لئے صاحب نصاب ہونا ضروری ہے۔ جوشخص 612 گرام چاندی یا اس قدر مال رکھتاہو اس پر قربانی واجب ہے۔ لہذا آپ پر قربانی واجب ہوگی۔

البتہ پالیسیوں میں پیسے لگانے کا کیا حکم ہے، اس کو بھی سمجھ لینا چاہئے، اور سودی معاملات گریز کرنا چاہئے کہ یہ دنیا وآخرت میں خسارہ کا باعث ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کے ایصال ثواب کے لئے قرآن پاک پڑھ کر میت کو ثواب بخشنے کے لئے شرعی طریقہ پر کوئی دن یا وقت مقرر نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ انتقال کے بعد ہی ایصال ثواب کا اہتمام کرلیں تاکہ میت سے سوال وجواب ہونے سے پہلے پہلے میت کے لئے ذخیرہ مغفرت ہوجائے، اس میں کسی خاص دن کو رواج بنا کر مقرر کر لینا خلاف شریعت اور بدعت کہلائے گا؛ بلکہ میت کے لیے کسی دن بھی ایصال ثواب کردیا جائے۔(۱) جو کھانا پڑھنے والوں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے لئے بنایا جاتا ہے اور اس کو ضروری سمجھا جاتا ہے، خواہ کسی میں وسعت نہ ہو، یہ بھی رسم ورواج ہوکر بدعت بن جائے گا، یہ بھی قابل ترک ہے۔(۲) البتہ اگر کوئی شخص اپنے پیسے سے میت کے ایصال ثواب کے لئے کھانا بنادے تو اس کے مستحق غریب آدمی ہیں، مالداروں کے لئے اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔ایسے ہی میت کے گھر والے کا مہمانوں کے لئے کھانا بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۳)

(۱) فللإنسانِ أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ عند أہل السنۃ والجماعۃ … ویصل ذلک إلی المیت وینفعہ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في حملہا ودفنہا‘‘: ص۶۲۱)
(۲) ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
(۳) {إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} (سورۃ التوبۃ: ۶۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص399