اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یوم پیدائش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا یوم وفات پر جشن و عیدمیلاد النبی وغیرہ کی خیر القرون میں کوئی اصل نہیں ملتی؛ اس لیے اگر لازم سمجھ کر اس متعین تاریخ میں جشن منایا جائے، تو بدعت اور واجب الترک ہوگا، ہاں ایصال ثواب مستحسن ہے، لیکن غیر شرعی امور کا ارتکاب موجب فسق ہے۔(۱)

(۱) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
من أحدث فی الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ … (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
ولأن ذکر اللّٰہ تعالیٰ إذا قصد بہ التخصیص بوقت دون وقت، أو بشيء دون شيء لم یکن مشروعاً لم یرد الشرع بہ لأنہ خلاف المشروع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)
من أحدث فی الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص483

اسلامی عقائد

Ref. No. 1295/42-651

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح فقہ میں مسالک مختلف ہیں، اسی طرح عقیدہ کے باب میں بھی مسالک مختلف ہیں۔  ہم  احناف عقیدہ کے باب میں  امام ابومنصور ماتریدی کی تقلید کرتے ہیں اور شوافع اور مالکیہ امام ابولحسن اشعری کی اتباع کرتے ہیں، اور حنابلہ جس طرح فقہ میں امام احمد بن حنبل کی اتباع کرتے ہیں، عقیدہ کے اندر بھی ان کی ہی اتباع کرتے ہیں۔   امام ابوحنیفہ ؒ کے زمانے میں عقیدہ کے باب میں اس طرح کے اختلافات موجود نہیں تھے۔ امام صاحب کی وفات  سنہ 150 میں ہے جبکہ  عقائد میں اختلافات تیسری صدی  کے قریب پیدا ہوئے۔

امام  ابو الحسن اشعری  اور امام ابو منصور ماتریدی    یہ دونوں حضرات بھی  اہل سنت والجماعت میں سے ہیں اور تیسری صدی کے ہیں۔  ان کے دور میں عقیدہ کے باب میں لوگ مختلف نظریات اور شکوک و شبہات میں مبتلا تھے، ان دونوں حضرات   نے مسائل اعتقادیہ میں بڑی تحقیق و تدقیق کی ہے اور اسلامی عقائد کو عقل و نقل سے مدلل کر کے ثابت کیا اور عقائد کے باب میں جو غیروں نے شکوک و شبہات عوام کے ذہن میں ڈالے تھے ان کا خاتمہ کیا  تاکہ اہل سنت والجماعت کا مسلک خوب روشن ہوجائے ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کیش بکس یا دیگر ذرائع آمدنی کو چومنا غیر مسلم اقوام کا طریقہ ہے جو فاسد و باطل عقیدہ پر مبنی ہے؛ اس لئے اس طرح چومنا اور فاسد عقیدہ رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے، ہاں! اتفاقاً احترام کی نیت سے کسی دینی واسلامی کتاب کو اگر بوسہ دیدیا، تو مضائقہ نہیں ہے؛ لیکن فاسد عقیدہ ہرگز نہ ہو۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1811/43-1573

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چونکہ آیۃ الکرسی کو ایک چوتھائی قرآن کریم کا درجہ حاصل ہے اس لئے  خواب میں آیت الکرسی پڑھنے کی وصیت یا تلقین اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت پر مداومت کی جائے،اور پابندی سے روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کی جائے۔ نیز  آیۃ الکرسی شیطانی اثرات سے حفاظت کا ذریعہ ہے اس لئے رات کو سوتے وقت اس کے پڑھنے کا اہتمام کریں؛ اس طرح آپ بذاتِ خود اور گھر کے افراد شیطانی حرکت سے محفوظ رہیں گے ان شاء اللہ۔ نیز حدیث میں ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنے کی فضیلت آئی ہے، اس کا اہتمام کریں تو بہتر ہے۔

أخبرنا الحسين بن بشر، بطرسوس، كتبنا عنه قال: حدثنا محمد بن حمير قال: حدثنا محمد بن زياد، عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قرأ آية الكرسي في دبر كل صلاة مكتوبة لم يمنعه من دخول الجنة إلا أن يموت» (السنن الکبری للنسائی، ثواب من قرأ آية الكرسي دبر كل صلاة /44، الرقم 9848) (المعجم الاوسط

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ طریقہ سلف صالحین و صحابہؓ و تابعین سے ثابت نہیں ہے؛ لہٰذا بدعت و مکروہ ہے (۱) اور تصریحات قواعد فقہ سے اس کی ممانعت معلوم ہوتی ہے، لہٰذا اس کو ترک کرنا لازم ہے۔ البتہ اگر کوئی خود بخود آہستہ آہستہ پڑھتا چلا جائے اور ایصال ثواب مقصود ہو تو درست ہے۔

(۱) ومن ہذ المعنی سمیت البدعۃ بدعۃ فاستخراجہا للسلوک علیہا ہو الابتداع وہیئتہا ہي البدعۃ، وقد یسمی العلم المعمول علی ذلک الوجہ بدعۃ، فمن ہذا المعنی سمي العمل الذي لا دلیل علیہ في الشرع بدعۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، الاعتصام: ج ۱، ص: ۲۳)
 عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص400

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جلوس وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بغیر کسی التزام کے وعظ و نصیحت میں حرج نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
من أحدث فی الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔…… (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص484

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی کوئی اصل نہیں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ آپ کے اصحابؓ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ دین کے قول وعمل سے اس کی تائید ملتی ہے۔ اگر یہ صورت میت کے لئے مفید ہوتی، تو یہ حضرات اس سے دریغ نہ کرتے۔ لہٰذاجنازہ پر پھول کی چادر ثواب سمجھ ڈالنا مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) حضرت شاہ اسحاق دہلوي، مسائل أربعین: ص: ۴۵۔
وفي حق النساء بالحریر والإبریسم والمعصفر والمزعفر ویکرہ للرجال ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الحادي والعشرون: في الجنائز، الفصل الثالث في التکفین‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲)
وعن عمران بن حصین أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا أرکب الأرجوان ولا ألبس المعصفر ولا ألبس القمیص المکفف بالحریر، وقال: ألا وطیب الرجال ریح لا لون لہ وطیب النساء لون لا ریح لہ۔ رواہ أبو داود۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب اللباس: الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۵، رقم: ۴۳۵۴)
کل مباح یؤدي إلی زعم الجہال سیئۃ أمرا ووجوبہ فہو مکروہ۔ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، ’’مسائل وفوائد شتیٰ من الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص401

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/1063

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، اس سے ایمان سلب نہیں ہوا البتہ اس طرح کے وساوس سے  احتیاط  ضروری ہے۔  وسوسہ کی طرف بالکل دھیان نہ دیں، ذہنی الجھنوں سے دور رہنے کے اسباب اختیار کریں۔

۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Red. No. 39 / 980

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ،أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ، وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ،وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورہ الانعام آیت 101)،  اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے اولاد اور بیوی کی واضح نفی کی گئی ہے۔ فلیتدبر

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2106/44-2225

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح میں قرآن سناکراجرت لینا ناجائز ہے، اس لئے کہ عبادت پر اجرت نہیں لی جاتی ہے، اس لئے آپ کا اجرت کے طور پر رقم لینا جائز نہیں ہے۔ آپ مسجد کمیٹی کو پیسہ واپس کردیں،۔ ہاں اگر باضابطہ اجرت کا معاملہ طے نہیں ہوا تھا  اور نہ ہی اجرت لینے کی کوئی نیت تھی پھر کسی نے کچھ ہدیہ کردیا تو اس کا لینا اور استعمال کرنا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند