Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1811/43-1573
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چونکہ آیۃ الکرسی کو ایک چوتھائی قرآن کریم کا درجہ حاصل ہے اس لئے خواب میں آیت الکرسی پڑھنے کی وصیت یا تلقین اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت پر مداومت کی جائے،اور پابندی سے روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کی جائے۔ نیز آیۃ الکرسی شیطانی اثرات سے حفاظت کا ذریعہ ہے اس لئے رات کو سوتے وقت اس کے پڑھنے کا اہتمام کریں؛ اس طرح آپ بذاتِ خود اور گھر کے افراد شیطانی حرکت سے محفوظ رہیں گے ان شاء اللہ۔ نیز حدیث میں ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنے کی فضیلت آئی ہے، اس کا اہتمام کریں تو بہتر ہے۔
أخبرنا الحسين بن بشر، بطرسوس، كتبنا عنه قال: حدثنا محمد بن حمير قال: حدثنا محمد بن زياد، عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قرأ آية الكرسي في دبر كل صلاة مكتوبة لم يمنعه من دخول الجنة إلا أن يموت» (السنن الکبری للنسائی، ثواب من قرأ آية الكرسي دبر كل صلاة /44، الرقم 9848) (المعجم الاوسط
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ طریقہ سلف صالحین و صحابہؓ و تابعین سے ثابت نہیں ہے؛ لہٰذا بدعت و مکروہ ہے (۱) اور تصریحات قواعد فقہ سے اس کی ممانعت معلوم ہوتی ہے، لہٰذا اس کو ترک کرنا لازم ہے۔ البتہ اگر کوئی خود بخود آہستہ آہستہ پڑھتا چلا جائے اور ایصال ثواب مقصود ہو تو درست ہے۔
(۱) ومن ہذ المعنی سمیت البدعۃ بدعۃ فاستخراجہا للسلوک علیہا ہو الابتداع وہیئتہا ہي البدعۃ، وقد یسمی العلم المعمول علی ذلک الوجہ بدعۃ، فمن ہذا المعنی سمي العمل الذي لا دلیل علیہ في الشرع بدعۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، الاعتصام: ج ۱، ص: ۲۳)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص400
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جلوس وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بغیر کسی التزام کے وعظ و نصیحت میں حرج نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
من أحدث فی الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔…… (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص484
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی کوئی اصل نہیں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ آپ کے اصحابؓ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ دین کے قول وعمل سے اس کی تائید ملتی ہے۔ اگر یہ صورت میت کے لئے مفید ہوتی، تو یہ حضرات اس سے دریغ نہ کرتے۔ لہٰذاجنازہ پر پھول کی چادر ثواب سمجھ ڈالنا مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) حضرت شاہ اسحاق دہلوي، مسائل أربعین: ص: ۴۵۔
وفي حق النساء بالحریر والإبریسم والمعصفر والمزعفر ویکرہ للرجال ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الحادي والعشرون: في الجنائز، الفصل الثالث في التکفین‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲)
وعن عمران بن حصین أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا أرکب الأرجوان ولا ألبس المعصفر ولا ألبس القمیص المکفف بالحریر، وقال: ألا وطیب الرجال ریح لا لون لہ وطیب النساء لون لا ریح لہ۔ رواہ أبو داود۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب اللباس: الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۵، رقم: ۴۳۵۴)
کل مباح یؤدي إلی زعم الجہال سیئۃ أمرا ووجوبہ فہو مکروہ۔ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، ’’مسائل وفوائد شتیٰ من الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص401
اسلامی عقائد
Ref. No. 40/1063
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، اس سے ایمان سلب نہیں ہوا البتہ اس طرح کے وساوس سے احتیاط ضروری ہے۔ وسوسہ کی طرف بالکل دھیان نہ دیں، ذہنی الجھنوں سے دور رہنے کے اسباب اختیار کریں۔
۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Red. No. 39 / 980
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ،أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ، وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ،وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورہ الانعام آیت 101)، اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے اولاد اور بیوی کی واضح نفی کی گئی ہے۔ فلیتدبر
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2106/44-2225
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح میں قرآن سناکراجرت لینا ناجائز ہے، اس لئے کہ عبادت پر اجرت نہیں لی جاتی ہے، اس لئے آپ کا اجرت کے طور پر رقم لینا جائز نہیں ہے۔ آپ مسجد کمیٹی کو پیسہ واپس کردیں،۔ ہاں اگر باضابطہ اجرت کا معاملہ طے نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اجرت لینے کی کوئی نیت تھی پھر کسی نے کچھ ہدیہ کردیا تو اس کا لینا اور استعمال کرنا درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2504/45-3823
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بینک والوں کو اپنی دوکان یا مکان کرایہ پر دینا جائز ہے البتہ ضرورت نہ ہو تو نہ دینا بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1621/43-1185
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر فلاں بات قرآن پاک میں نہ ہوتی تو میں اس کو بکواس سمجھتا وغیرہ جملوں میں نہ توقرآن کا انکار ہے اور نہ ہی اللہ کا۔ بلکہ یہ جملے ایمان کی بنیاد پر ہوتے ہیں کہ گرچہ دل و دماغ اس پر راضی نہیں ہے مگر پھر بھی اللہ کا حکم ہونے اور قرآن کا حصہ ہونے کی وجہ سے میں اس کو مانتا ہوں اور ایمان لاتاہوں۔ چونکہ اس جملہ کی بنیاد ایمان پر ہے، اس میں قرآن وکلام الہی کا انکار نہیں ہے اس لئے اس سے کفر لازم نہیں آیا۔ تاہم ایسے جملوں کے بولنے میں احتیاط برتنی چاہئے ۔
إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط. (الفتاوی الھندیۃ، مطلب فی موجبات الکفر، انواع منھا مایتعلق 2/282)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کے ایصال ثواب کے لیے قرآن پاک یا کلمہ طیبہ پڑھنا اور ایسا کھانا پکاکر غرباء اور مستحقین کو دینا اور یا کوئی نفلی کام میت کو ثواب پہونچانے کے لئے کرنا بہت اچھا ہے، مگر ان سب کاموں کے لیے رسمی طور سے جو لوگوں نے ایام اور اوقات کی تعیین اپنی طرف سے کر رکھی ہے کہ ان ایام اور اوقات میں لوگ اس رسم اور تعیین کی وجہ سے خود بخود ہی میت کے گھر پر جمع ہوجاتے ہیں پس ایسا کرنا بدعت ہے، بلکہ حدود شریعت میں رہ کر ایصال ثواب کا کام کہ جب بھی اتفاق ہو اور میسر آجائے کردینا چاہئے۔ قرآن خوانی اور ایصال ثواب بھی جب موقع ہو کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ پڑھنے والے طعام یا شیرینی کے لالچ میں نہ آئیں، پڑھنے والے بھی اخلاص کے ساتھ پڑھیں اور میت سے تعلق رکھنے والا خود ہی پڑھ کر ایصال ثواب کردے تو یہ سب سے بہتر اور افضل ہے۔ کھاناپکانے میں اور غرباء کو کھلانے میں رسم اور وقت کی تعیین رسمی طور پر نہ ہو اور کھانا میت کے مال سے نہ ہو؛ بلکہ اپنے طور پر ہو تو درست ہے اور میت کے مال سے اگر پکایا جائے، تو سبھی وارثوں کی اجازت حاصل کرلی جائے اور کوئی وارث مانع نہ ہو تب درست ہے اور میت کی پسند کا کھانا پکانا کہ زیادہ ثواب ہو اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بے بنیاد بات ہے۔(۱)
(۱) فکم من مباح یصیر بالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصوص مکروہاً۔ (مجموعہ رسائل اللکنوي۔ (سباحۃ الفکر في الجہر بالذکر: ج ۳، ص: ۳۴)
مقرر کردن روز سوم وغیرہ بالتخصیص واورا ضروری انگاشتن در شریعت محمدیہ ثابت نیست۔ (تالیفات رشیدیہ، ’’کتاب البدعات‘‘: ص: ۱۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص401