اسلامی عقائد

Ref. No. 2504/45-3823

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بینک والوں کو اپنی دوکان یا مکان کرایہ پر دینا جائز ہے البتہ ضرورت نہ ہو تو  نہ دینا بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1621/43-1185

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر فلاں بات قرآن  پاک میں نہ ہوتی تو میں اس کو بکواس سمجھتا وغیرہ جملوں میں نہ توقرآن  کا انکار ہے اور نہ ہی اللہ کا۔ بلکہ یہ جملے ایمان کی بنیاد پر ہوتے ہیں کہ گرچہ دل و دماغ اس پر راضی نہیں ہے مگر پھر بھی اللہ کا حکم ہونے اور قرآن کا حصہ ہونے کی وجہ سے میں اس کو مانتا ہوں اور ایمان لاتاہوں۔ چونکہ اس جملہ کی بنیاد ایمان پر ہے، اس میں قرآن وکلام الہی کا انکار نہیں  ہے اس لئے اس سے کفر لازم نہیں آیا۔ تاہم ایسے جملوں کے بولنے میں احتیاط برتنی چاہئے ۔

إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط. (الفتاوی الھندیۃ، مطلب فی موجبات الکفر، انواع منھا مایتعلق 2/282)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کے ایصال ثواب کے لیے قرآن پاک یا کلمہ طیبہ پڑھنا اور ایسا کھانا پکاکر غرباء اور مستحقین کو دینا اور یا کوئی نفلی کام میت کو ثواب پہونچانے کے لئے کرنا بہت اچھا ہے، مگر ان سب کاموں کے لیے رسمی طور سے جو لوگوں نے ایام اور اوقات کی تعیین اپنی طرف سے کر رکھی ہے کہ ان ایام اور اوقات میں لوگ اس رسم اور تعیین کی وجہ سے خود بخود ہی میت کے گھر پر جمع ہوجاتے ہیں پس ایسا کرنا بدعت ہے، بلکہ حدود شریعت میں رہ کر ایصال ثواب کا کام کہ جب بھی اتفاق ہو اور میسر آجائے کردینا چاہئے۔ قرآن خوانی اور ایصال ثواب بھی جب موقع ہو کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ پڑھنے والے طعام یا شیرینی کے لالچ میں نہ آئیں، پڑھنے والے بھی اخلاص کے ساتھ پڑھیں اور میت سے تعلق رکھنے والا خود ہی پڑھ کر ایصال ثواب کردے تو یہ سب سے بہتر اور افضل ہے۔ کھاناپکانے میں اور غرباء کو کھلانے میں رسم اور وقت کی تعیین رسمی طور پر نہ ہو اور کھانا میت کے مال سے نہ ہو؛ بلکہ اپنے طور پر ہو تو درست ہے اور میت کے مال سے اگر پکایا جائے، تو سبھی وارثوں کی اجازت حاصل کرلی جائے اور کوئی وارث مانع نہ ہو تب درست ہے اور میت کی پسند کا کھانا پکانا کہ زیادہ ثواب ہو اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بے بنیاد بات ہے۔(۱)

(۱) فکم من مباح یصیر بالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصوص مکروہاً۔ (مجموعہ رسائل اللکنوي۔ (سباحۃ الفکر في الجہر بالذکر: ج ۳، ص: ۳۴)
مقرر کردن روز سوم وغیرہ بالتخصیص واورا ضروری انگاشتن در شریعت محمدیہ ثابت نیست۔ (تالیفات رشیدیہ، ’’کتاب البدعات‘‘: ص: ۱۴۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص401

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس قسم کی باتیں صرف مشہور ہیں، جو پرانے لوگوں سے چلی آرہی ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، ایسی باتوں کا اعتقاد رکھنا شرعاً درست نہیں ہے۔(۳)

۳) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص522

اسلامی عقائد

Ref. No. 2013/44-1988

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نبی ﷺ کی بادشاہت تمام دلوں پر قائم ہے، یہ بادشاہت کسی دوسرے کو نصیب نہیں ، اس لئے آپ ہی حقیقی شہنشاہ  اور بادشاہوں کے بادشاہ ہیں، اس لئے اس لقب میں کوئی خرابی کی بات نہیں ہے جو تشویش کا باعث ہو۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کو آگے رکھا جائے اور لوگ اس کے پیچھے چلیں یہی مسنون ہے۔(۲) میت کے ساتھ کلمہ طیبہ کی زور سے ضرب لگانا بدعت ہے؛ بلکہ آہستہ پڑھنا چاہئے۔(۱)

(۱) علی متبعی الجنازۃ الصمت ویکرہ لہم رفع الصوت بالذکر وقراء ۃ القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادی والعشرون: في الجنائز، الفصل الرابع في حمل الجنازۃ‘‘: ج ۱ ، ص: ۲۲۳)
(۲) الذي اختارہ في البحر لزومہ علیہ موسرا، أو لا لہا مال، أو لا لأنہ ککسوتہا وہي واجبۃ علیہ مطلقاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کفن الزوجۃ علی الزوج‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۱۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص402

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:چاند یا سورج کے گرہن پر کھانا، پینا بند کرنے وغیرہ کا حکم نہیں ہے(۱)؛ البتہ نوافل اور ذکر اللہ کرنے کا حکم ہے، وہ کرنا چاہئے۔ دیکھنے سے چونکہ نگاہ کمزور ہوتی ہے؛ اس لئے منع کیا جاتا ہے۔ (۲)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہذہ الآیات التي یرسل اللّٰہ لا تکون موت أحد ولا لحیاتہ ولکن یخوف اللّٰہ بہ عبادہ، فإذا رئیتم شیئاً من ذلک فأفزعوا إلی ذکرہ ودعائہ واستغفارہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الکسوف: باب الذکر في الکسوف‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۵، رقم: ۱۰۵۹)
(۲) یصلي بالناس من یملک اقامۃ الجمعۃ بیان للمستحب الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص523

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال رسم وطریقہ بالکل غلط ہے، اولاً تو اصولی بات یہ ہے، جس کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہوتا ہے اسی پر مرنے کے بعد کفن کا دینا بھی واجب ہوتا ہے۔
فتویٰ اس پرہے کہ شوہر مالدار ہو یا غریب عورت نے مال چھوڑا ہو یا نہ چھوڑا ہو، کفن زوج ہی پر واجب ہوتا ہے۔ یہی مسلک ہے امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام ابی یوسفؒ کا، اور فتویٰ اسی پر ہے۔(۲)
معلوم ہوا کہ شوہر کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ کفن دے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر وہ کفن نہیں دے گا، تو گنہگار ہوگا؛ البتہ اگر اس کے پاس رقم نہ ہو، تو اسی کے اقارب سے لیا جائے اور اگر مرحومہ کے والد یا بھائی یا رشتہ دار اپنی مرضی سے دینا چاہیں تو ممانعت نہیں ہے؛ لیکن ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا اور لعنت ملامت تو اول درجے کی جہالت ہی ہے اور ناجائز بھی ہے۔(۱)
(۲) الذي اختارہ في البحر لزومہ علیہ موسرا، أو لا لہا مال، أو لا لأنہ ککسوتہا وہي واجبۃ علیہ مطلقاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کفن الزوجۃ علی الزوج‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۱۰)
(۱) فعلی المسلمین أي العالمین بہ وہو فرض کفایۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، ج۳، ص۲۰۱)
لو کفن الزوجۃ غیر زوجہا بلا إذنہ، ولا إذن القاضي فہو متبرع۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص403
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر قبر کھودی گئی اور اس میں میت کی تدفین عمل میں نہ آسکے تو قبر کو بند کردیا جائے، اس میں مٹی بھر کر جگہ کو ہموار کردیا جائے۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ خالی قبر کو بند نہیں کرسکتے اور اس میں کسی چیز کے دفن کرنے کو ضروری سمجھنا غلط ہے، اور ایسے عقیدہ کا ترک کرنا ضروری ہے۔ (۱) جو مرغ اس قبر میں دفن کیا گیا یہ مال کا ضائع اور ہلاک کرنا ہوا، یہ بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔ (۲) صورت مسئولہ میں توبہ واستغفار لازم ہے۔ (۳)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۲) وإن إضاعۃ المال والتبذیر بأي وجہ کان کالرشوۃ والقمار والربوا وغیر ذلک حرام إجماعاً، قال اللّٰہ تعالیٰ: {إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنَ} (المظہري، ’’سورۃ البقرۃ: ۲۱۹‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۹)
(۳) {ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص524

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیشک کرامات اولیاء حق ہیں؛ مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ شرارتِ شیطان بھی حق ہے۔ اور بزرگانِ دین کی کرامت اور شیطان کی شرارت میں امتیاز کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے، اس لئے پوری ہوشیاری اور شرعی روشنی میں جانچ کر دیکھنا چاہئے کہ واقعی اولیاء کی کرامت ہے یا شیطان کی شرارت ہے۔ (۱)

۱) وکرامات الأولیاء حق، والولی ہو العارف باللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ حسب ما یمکن المواظب علی الطاعات المجتنب عن المعاصي المعرض عن الانہماک في اللذات والشہوات، وکرامتہ ظہور أمر خارق من قبلہ غیر مقارن لدعوی النبوۃ فما لا یکون مقرونا بالإیمان والعمل الصالح یکون استدراجا۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث کرامات الأولیاء حق‘‘: ص:۱۴۴)
الکرامۃ خارق للعادۃ إلا أنہا غیر مقرونۃ بالتحدي وہو کرامۃ للولي۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’مبحث في أن خوارق العادات للأنبیاء -علیہم السلام- والکرامات للأولیاء حق‘‘: ص: ۹۵)

  فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص292