اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس قسم کی باتیں صرف مشہور ہیں، جو پرانے لوگوں سے چلی آرہی ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، ایسی باتوں کا اعتقاد رکھنا شرعاً درست نہیں ہے۔(۳)

۳) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص522

اسلامی عقائد

Ref. No. 2013/44-1988

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نبی ﷺ کی بادشاہت تمام دلوں پر قائم ہے، یہ بادشاہت کسی دوسرے کو نصیب نہیں ، اس لئے آپ ہی حقیقی شہنشاہ  اور بادشاہوں کے بادشاہ ہیں، اس لئے اس لقب میں کوئی خرابی کی بات نہیں ہے جو تشویش کا باعث ہو۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کو آگے رکھا جائے اور لوگ اس کے پیچھے چلیں یہی مسنون ہے۔(۲) میت کے ساتھ کلمہ طیبہ کی زور سے ضرب لگانا بدعت ہے؛ بلکہ آہستہ پڑھنا چاہئے۔(۱)

(۱) علی متبعی الجنازۃ الصمت ویکرہ لہم رفع الصوت بالذکر وقراء ۃ القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادی والعشرون: في الجنائز، الفصل الرابع في حمل الجنازۃ‘‘: ج ۱ ، ص: ۲۲۳)
(۲) الذي اختارہ في البحر لزومہ علیہ موسرا، أو لا لہا مال، أو لا لأنہ ککسوتہا وہي واجبۃ علیہ مطلقاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کفن الزوجۃ علی الزوج‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۱۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص402

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:چاند یا سورج کے گرہن پر کھانا، پینا بند کرنے وغیرہ کا حکم نہیں ہے(۱)؛ البتہ نوافل اور ذکر اللہ کرنے کا حکم ہے، وہ کرنا چاہئے۔ دیکھنے سے چونکہ نگاہ کمزور ہوتی ہے؛ اس لئے منع کیا جاتا ہے۔ (۲)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہذہ الآیات التي یرسل اللّٰہ لا تکون موت أحد ولا لحیاتہ ولکن یخوف اللّٰہ بہ عبادہ، فإذا رئیتم شیئاً من ذلک فأفزعوا إلی ذکرہ ودعائہ واستغفارہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الکسوف: باب الذکر في الکسوف‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۵، رقم: ۱۰۵۹)
(۲) یصلي بالناس من یملک اقامۃ الجمعۃ بیان للمستحب الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص523

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال رسم وطریقہ بالکل غلط ہے، اولاً تو اصولی بات یہ ہے، جس کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہوتا ہے اسی پر مرنے کے بعد کفن کا دینا بھی واجب ہوتا ہے۔
فتویٰ اس پرہے کہ شوہر مالدار ہو یا غریب عورت نے مال چھوڑا ہو یا نہ چھوڑا ہو، کفن زوج ہی پر واجب ہوتا ہے۔ یہی مسلک ہے امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام ابی یوسفؒ کا، اور فتویٰ اسی پر ہے۔(۲)
معلوم ہوا کہ شوہر کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ کفن دے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر وہ کفن نہیں دے گا، تو گنہگار ہوگا؛ البتہ اگر اس کے پاس رقم نہ ہو، تو اسی کے اقارب سے لیا جائے اور اگر مرحومہ کے والد یا بھائی یا رشتہ دار اپنی مرضی سے دینا چاہیں تو ممانعت نہیں ہے؛ لیکن ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا اور لعنت ملامت تو اول درجے کی جہالت ہی ہے اور ناجائز بھی ہے۔(۱)
(۲) الذي اختارہ في البحر لزومہ علیہ موسرا، أو لا لہا مال، أو لا لأنہ ککسوتہا وہي واجبۃ علیہ مطلقاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کفن الزوجۃ علی الزوج‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۱۰)
(۱) فعلی المسلمین أي العالمین بہ وہو فرض کفایۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، ج۳، ص۲۰۱)
لو کفن الزوجۃ غیر زوجہا بلا إذنہ، ولا إذن القاضي فہو متبرع۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص403
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر قبر کھودی گئی اور اس میں میت کی تدفین عمل میں نہ آسکے تو قبر کو بند کردیا جائے، اس میں مٹی بھر کر جگہ کو ہموار کردیا جائے۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ خالی قبر کو بند نہیں کرسکتے اور اس میں کسی چیز کے دفن کرنے کو ضروری سمجھنا غلط ہے، اور ایسے عقیدہ کا ترک کرنا ضروری ہے۔ (۱) جو مرغ اس قبر میں دفن کیا گیا یہ مال کا ضائع اور ہلاک کرنا ہوا، یہ بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔ (۲) صورت مسئولہ میں توبہ واستغفار لازم ہے۔ (۳)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۲) وإن إضاعۃ المال والتبذیر بأي وجہ کان کالرشوۃ والقمار والربوا وغیر ذلک حرام إجماعاً، قال اللّٰہ تعالیٰ: {إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنَ} (المظہري، ’’سورۃ البقرۃ: ۲۱۹‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۹)
(۳) {ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص524

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیشک کرامات اولیاء حق ہیں؛ مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ شرارتِ شیطان بھی حق ہے۔ اور بزرگانِ دین کی کرامت اور شیطان کی شرارت میں امتیاز کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے، اس لئے پوری ہوشیاری اور شرعی روشنی میں جانچ کر دیکھنا چاہئے کہ واقعی اولیاء کی کرامت ہے یا شیطان کی شرارت ہے۔ (۱)

۱) وکرامات الأولیاء حق، والولی ہو العارف باللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ حسب ما یمکن المواظب علی الطاعات المجتنب عن المعاصي المعرض عن الانہماک في اللذات والشہوات، وکرامتہ ظہور أمر خارق من قبلہ غیر مقارن لدعوی النبوۃ فما لا یکون مقرونا بالإیمان والعمل الصالح یکون استدراجا۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث کرامات الأولیاء حق‘‘: ص:۱۴۴)
الکرامۃ خارق للعادۃ إلا أنہا غیر مقرونۃ بالتحدي وہو کرامۃ للولي۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’مبحث في أن خوارق العادات للأنبیاء -علیہم السلام- والکرامات للأولیاء حق‘‘: ص: ۹۵)

  فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص292

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جو ایسے مواقع پر کھانا پکاکر کھلایا جاتا ہے، یہ سب رسم ورواج کے پیش نظر ہوتا ہے، جیسا کہ اوپر سوال سے ظاہر ہے کہ شرمندگی دور کرنے اور ناک رکھنے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ اسلام اس قسم کے رسم ورواج کو مٹانے کے لئے آیا تھا، تاکہ مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے؛ پس ایسے رسم ورواج اور بدعات میں شرکت کرنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے، اور اگر یہ کھانا میت کے ترکہ سے ہے تو کھانا پکانا ہی ناجائز ہوگا، اور اس کا کھانا بھی جائز نہیں ہوگا اس میں شرکت سے پرہیز ضروری ہے البتہ قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردینے میں کوئی حرج نہیں درست اور جائز ہے۔ خواہ مدرسہ میں ہو یا گھر پر ہو۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
عن قیس بن أبي حازم، عن جریر بن عبد اللّٰہ البجلي، قال: کنا نری الاجتماع إلی أہل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في النہي عن الاجتماع‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۴، رقم: ۱۶۱۲)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص404

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کایہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ غسل صحیح ہوجائے گا۔ (۱)

(۱) عن معاذۃ أن امرأۃ سألت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: تختضب الحائض، فقالت: فقد کنا عند النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نختضب فلم یکن ینہانا عنہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحائض نختضب‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵، رقم: ۶۵۶)
جنب اختضب واختضب امرأتہ بذلک الخضاب قال أبو یوسف لا بأس بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج ۵، ص:
۳۵۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/1079

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہماری معلومات کے مطابق سپوزٹری ایک دوا ہے جو فرج داخل میں رکھی جاتی ہے اور وہ گھُل کر اندرونی مقامات میں پہنچ کر اثر کرتی ہے ۔اس لئے صورت مسئولہ میں  شرمگاہ کے اندرونی حصہ میں دوا پہنچانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔  اگر اس کے علاوہ کوئی تشریح ہو یا اس کےاستعمال کے مختلف طریقے ہوں تو وضاحت کے ساتھ سوال لکھ کر ارسال کریں تاکہ اسی کی روشنی میں جواب دیا جاسکے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند