اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جو ایسے مواقع پر کھانا پکاکر کھلایا جاتا ہے، یہ سب رسم ورواج کے پیش نظر ہوتا ہے، جیسا کہ اوپر سوال سے ظاہر ہے کہ شرمندگی دور کرنے اور ناک رکھنے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ اسلام اس قسم کے رسم ورواج کو مٹانے کے لئے آیا تھا، تاکہ مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے؛ پس ایسے رسم ورواج اور بدعات میں شرکت کرنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے، اور اگر یہ کھانا میت کے ترکہ سے ہے تو کھانا پکانا ہی ناجائز ہوگا، اور اس کا کھانا بھی جائز نہیں ہوگا اس میں شرکت سے پرہیز ضروری ہے البتہ قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردینے میں کوئی حرج نہیں درست اور جائز ہے۔ خواہ مدرسہ میں ہو یا گھر پر ہو۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
عن قیس بن أبي حازم، عن جریر بن عبد اللّٰہ البجلي، قال: کنا نری الاجتماع إلی أہل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في النہي عن الاجتماع‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۴، رقم: ۱۶۱۲)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص404

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کایہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ غسل صحیح ہوجائے گا۔ (۱)

(۱) عن معاذۃ أن امرأۃ سألت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: تختضب الحائض، فقالت: فقد کنا عند النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نختضب فلم یکن ینہانا عنہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحائض نختضب‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵، رقم: ۶۵۶)
جنب اختضب واختضب امرأتہ بذلک الخضاب قال أبو یوسف لا بأس بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج ۵، ص:
۳۵۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/1079

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہماری معلومات کے مطابق سپوزٹری ایک دوا ہے جو فرج داخل میں رکھی جاتی ہے اور وہ گھُل کر اندرونی مقامات میں پہنچ کر اثر کرتی ہے ۔اس لئے صورت مسئولہ میں  شرمگاہ کے اندرونی حصہ میں دوا پہنچانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔  اگر اس کے علاوہ کوئی تشریح ہو یا اس کےاستعمال کے مختلف طریقے ہوں تو وضاحت کے ساتھ سوال لکھ کر ارسال کریں تاکہ اسی کی روشنی میں جواب دیا جاسکے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1619/43-1327

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمارے نبی ﷺ کے ذاتی نام دو ہیں، محمد اور احمد، البتہ صفاتی نام بے شمار ہیں۔  صفاتی ناموں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ بعض نے ایک ہزار اور بعض نے بارہ سو  تک اسماء مبارکہ  شمار کئےہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی کی روح کے حاضرِ مجلس ہونے کا عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے اور مذکورہ وظیفہ پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) ولیست من المسائل التي یضر جہلہا أو یسئل عنہا في القبر أو في الموقف فحفظ اللسان عن التکلم فیہا إلا بخیر أولیٰ وأسلم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الکافر، مطلب في الکلام علی أبوي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأہل الفترۃ‘‘: ج ۴، ص: ۳۵۰)
 مردے کی روح دنیا میں واپس نہیں آتی (تھانوی، اشرف الجواب: ص: ۱۵۶)
ویکفر بقولہ أرواح المشائخ حاضرۃ تعلم۔ (إبراہیم بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، ثم إن ویکفر بقولہ أرواح المشائخ حاضرۃ تعلم۔ (إبراہیم بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص293

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردے کو ایصال ثواب کرنے کی شرعاً اجازت ہے؛ لیکن کوئی وقت مقرر کرنا، یا کھانے کی قسم مقرر کرنے کی شرعی اجازت نہیں ہے، جس کام کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی کوئی شرعی اصل نہیں ہے، یہ غلط اور بے اصل ہے، اس رواج کو توڑنا ضروری اور باعث ثواب ہے، مردے کو کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا جائے، کسی مستحق کو کتابیں کپڑے وغیرہ دیدیئے جائیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلادیا جائے؛ ان سب کا ثواب مرحوم کو پہونچا دیا جائے۔(۱)

(۱) فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ کذا في البدائع، وبہذا علم أنہ لا فرق بین أن یکون المجعول لہ میتاً أو حیًا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۶)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص406

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شرعاً نہ آئینہ دیکھنے کی ممانعت ہے رات میں اور نہ ہی جھاڑو دینے کی ممانعت ہے۔ زیادہ تر عورتیں ایسی باتیں کہتی ہیں جو صحیح نہیں ہے۔(۲) صفائی ستھرائی کی جب ضرورت ہو، صفائی کر لینا چاہیے اللہ کو صفائی پسند ہے اور اس کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں ہے۔(۱)

(۲) أشرف علي التھانوي، اغلاط العوام: ص: ۳۱۔          …عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۱) إن اللّٰہ طیب یحب الطیب، نظیف یحب النظافۃ، رواہ الترمذي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب الترجل‘‘: ج ۷، ص: ۲۸۴۶، رقم: ۴۴۸۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال مذکورہ شخص مسلمان ہے؛ لیکن مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ اس غیر مسلم عورت کو مسلمان ہونے کی ترغیب دے، اگر وہ عورت مسلمان ہوجائے، تو شرعی طریقے پر اس سے شادی کرسکتا ہے؛ ورنہ اس کو علاحدہ کرکے توبہ واستغفار کرے اور آج تک جو گناہ ہوا اس پر بہر حال توبہ کرتے رہنا ضروری ہے۔(۱)

(۱) تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃ الزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)

وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر فقائلہ یقر علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح، ولکن یؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: جملۃ من لا یقتل إذا ارتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۹۱)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مشرکین کے وہ بچے جو قبل از بلوغ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ان کے ساتھ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا کیا معاملہ فرمائیں گے اس بارے میں فقہاء کے تین اقوال ہیں:
(۱) یہ کہ اطفال مشرکین جہنم میں جائیں گے اس لئے کہ بچے والدین کے تابع ہیں۔
(۲) اطفال مشرکین جنت میں جائیں گے اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی فطرت اسلام پر پیدا ہوئے ہیں اور قبل از بلوغ دنیا سے رخصت ہوگئے اور کوئی گناہ بھی ان سے سرزد نہیں ہوا امام محمد ؒ کا بھی یہی رجحان ہے انہوں نے فرمایا کہ : ’’إن اللّٰہ لا یعذب أحداً بلا ذنب۔ الشامی۔
(۳) امام اعظم ابوحنیفہؒ کی طرف ایک تیسرا قول منسوب ہے کہ امام صاحب نے اس بارے میں توقف اختیار کیا ہے یعنی کوئی تشریح اس کی نہیں فرمائی لیکن صحیح امام اعظمؒ کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ رب العزت زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کون بچہ جنت میں جائے گا اور کون بچہ دوزخ میں جائے گا (أللّٰہ أعلم بما کانوا عاملین) کہ اللہ رب العزت کو آئندہ کا علم ہے کہ کون بچہ ایسا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو اسلام لے آتا اور کون سا بچہ زندہ رہتا تو اسلام نہ لاتا پس جو بچے اللہ کے علم کے مطابق اگر زندہ رہتے اور اسلام لے آتے وہ جنت میں جائیں گے اور جو بچے اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق اگر زندہ رہتے تو کفر پر برقرار رہتے وہ بچے جہنم میں جائیں گے خلاصہ یہ کہ اللہ رب العزت کی مشیت پر موقوف ہے کہ اللہ رب العزت کو آئندہ کا بھی پورا علم ہے اسی کے اعتبار سے جنت اور جہنم کا فیصلہ ہوگا پس کوئی فیصلہ کن بات اس بارے میں نہیں کہی جاسکتی یہ امام اعظمؒ کا مسلک ہے اور یہی ’’أقرب إلی الصواب‘‘ معلوم ہوتا ہے چونکہ یہ مسئلہ از قبیل عبادات نہیں ہے اور انسان کا کوئی عمل اس پر موقوف نہیں؛ اس لئے اس میں امام اعظمؒ کا قول ہی قابل اختیار معلوم ہوتا ہے۔ (۱)

(۱) وقد اختلف في سؤال أطفال المشرکین وفي دخولہم الجنۃ أو النار، فتردد فیہم أبو حنیفۃ وغیرہ، وقد وردت فیہم أخبار متعارضۃ فالسبیل تفویض أمرہم إلی اللّٰہ تعالیٰ وقال محمد بن الحسن: اعلم أن اللّٰہ لا یعذب أحداً بلا ذنب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في أطفال المشرکین‘‘: ج ۳، ص: ۸۲)
لا یحکم بأن أطفالہم في النار البتۃ بل فیہ خلاف، قیل: یکونون خدام أہل الجنۃ وقیل: إن کانوا قالوا بلی یوم أخذ العہد عن اعتقاد ففي الجنۃ وإلا ففي النار إلخ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص294

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں مذکورہ موقع پر ضروری سمجھ کر لین دین التزام مالا یلزم ہے اور رسم ہے، جو درست نہیں، اس رسم کو چھوڑ دینا ضروری ہے؛ لیکن جو کپڑے اس طرح کہہ کر دیئے گئے وہ اس کی ملک ہوگئے، جس طرح چاہے استعمال کرے۔ (۲)

(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: …باب إذا اصطلحوا عصلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
قال الکشمیري: ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، شرح سنن الترمذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص526