اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردے کو ایصال ثواب کرنے کی شرعاً اجازت ہے؛ لیکن کوئی وقت مقرر کرنا، یا کھانے کی قسم مقرر کرنے کی شرعی اجازت نہیں ہے، جس کام کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی کوئی شرعی اصل نہیں ہے، یہ غلط اور بے اصل ہے، اس رواج کو توڑنا ضروری اور باعث ثواب ہے، مردے کو کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا جائے، کسی مستحق کو کتابیں کپڑے وغیرہ دیدیئے جائیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلادیا جائے؛ ان سب کا ثواب مرحوم کو پہونچا دیا جائے۔(۱)

(۱) فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ کذا في البدائع، وبہذا علم أنہ لا فرق بین أن یکون المجعول لہ میتاً أو حیًا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۶)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص406

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شرعاً نہ آئینہ دیکھنے کی ممانعت ہے رات میں اور نہ ہی جھاڑو دینے کی ممانعت ہے۔ زیادہ تر عورتیں ایسی باتیں کہتی ہیں جو صحیح نہیں ہے۔(۲) صفائی ستھرائی کی جب ضرورت ہو، صفائی کر لینا چاہیے اللہ کو صفائی پسند ہے اور اس کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں ہے۔(۱)

(۲) أشرف علي التھانوي، اغلاط العوام: ص: ۳۱۔          …عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۱) إن اللّٰہ طیب یحب الطیب، نظیف یحب النظافۃ، رواہ الترمذي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب الترجل‘‘: ج ۷، ص: ۲۸۴۶، رقم: ۴۴۸۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال مذکورہ شخص مسلمان ہے؛ لیکن مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ اس غیر مسلم عورت کو مسلمان ہونے کی ترغیب دے، اگر وہ عورت مسلمان ہوجائے، تو شرعی طریقے پر اس سے شادی کرسکتا ہے؛ ورنہ اس کو علاحدہ کرکے توبہ واستغفار کرے اور آج تک جو گناہ ہوا اس پر بہر حال توبہ کرتے رہنا ضروری ہے۔(۱)

(۱) تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃ الزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)

وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر فقائلہ یقر علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح، ولکن یؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: جملۃ من لا یقتل إذا ارتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۹۱)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مشرکین کے وہ بچے جو قبل از بلوغ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ان کے ساتھ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا کیا معاملہ فرمائیں گے اس بارے میں فقہاء کے تین اقوال ہیں:
(۱) یہ کہ اطفال مشرکین جہنم میں جائیں گے اس لئے کہ بچے والدین کے تابع ہیں۔
(۲) اطفال مشرکین جنت میں جائیں گے اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی فطرت اسلام پر پیدا ہوئے ہیں اور قبل از بلوغ دنیا سے رخصت ہوگئے اور کوئی گناہ بھی ان سے سرزد نہیں ہوا امام محمد ؒ کا بھی یہی رجحان ہے انہوں نے فرمایا کہ : ’’إن اللّٰہ لا یعذب أحداً بلا ذنب۔ الشامی۔
(۳) امام اعظم ابوحنیفہؒ کی طرف ایک تیسرا قول منسوب ہے کہ امام صاحب نے اس بارے میں توقف اختیار کیا ہے یعنی کوئی تشریح اس کی نہیں فرمائی لیکن صحیح امام اعظمؒ کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ رب العزت زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کون بچہ جنت میں جائے گا اور کون بچہ دوزخ میں جائے گا (أللّٰہ أعلم بما کانوا عاملین) کہ اللہ رب العزت کو آئندہ کا علم ہے کہ کون بچہ ایسا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو اسلام لے آتا اور کون سا بچہ زندہ رہتا تو اسلام نہ لاتا پس جو بچے اللہ کے علم کے مطابق اگر زندہ رہتے اور اسلام لے آتے وہ جنت میں جائیں گے اور جو بچے اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق اگر زندہ رہتے تو کفر پر برقرار رہتے وہ بچے جہنم میں جائیں گے خلاصہ یہ کہ اللہ رب العزت کی مشیت پر موقوف ہے کہ اللہ رب العزت کو آئندہ کا بھی پورا علم ہے اسی کے اعتبار سے جنت اور جہنم کا فیصلہ ہوگا پس کوئی فیصلہ کن بات اس بارے میں نہیں کہی جاسکتی یہ امام اعظمؒ کا مسلک ہے اور یہی ’’أقرب إلی الصواب‘‘ معلوم ہوتا ہے چونکہ یہ مسئلہ از قبیل عبادات نہیں ہے اور انسان کا کوئی عمل اس پر موقوف نہیں؛ اس لئے اس میں امام اعظمؒ کا قول ہی قابل اختیار معلوم ہوتا ہے۔ (۱)

(۱) وقد اختلف في سؤال أطفال المشرکین وفي دخولہم الجنۃ أو النار، فتردد فیہم أبو حنیفۃ وغیرہ، وقد وردت فیہم أخبار متعارضۃ فالسبیل تفویض أمرہم إلی اللّٰہ تعالیٰ وقال محمد بن الحسن: اعلم أن اللّٰہ لا یعذب أحداً بلا ذنب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في أطفال المشرکین‘‘: ج ۳، ص: ۸۲)
لا یحکم بأن أطفالہم في النار البتۃ بل فیہ خلاف، قیل: یکونون خدام أہل الجنۃ وقیل: إن کانوا قالوا بلی یوم أخذ العہد عن اعتقاد ففي الجنۃ وإلا ففي النار إلخ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص294

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں مذکورہ موقع پر ضروری سمجھ کر لین دین التزام مالا یلزم ہے اور رسم ہے، جو درست نہیں، اس رسم کو چھوڑ دینا ضروری ہے؛ لیکن جو کپڑے اس طرح کہہ کر دیئے گئے وہ اس کی ملک ہوگئے، جس طرح چاہے استعمال کرے۔ (۲)

(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: …باب إذا اصطلحوا عصلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
قال الکشمیري: ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، شرح سنن الترمذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص526

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں علم نہ ہونے کی وجہ سے حرام کو حلال یا حلال کو حرام سمجھ لیا، تو اس کا ایمان و نکاح باقی ہے، آئندہ کوئی رائے قائم نہ کریں۔(۱)

(۱) إذا اعتقد الحرام حلالاً فإن حرمتہ لعینہ، وقد ثبت بدلیل قطعي یکفر، وإلا فلا … أما لو قال لحرام: ہذا حلال لترویج السلعۃ، أو بحکم الجہل لا یکفر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’مسألۃ استحلال المعصیۃ ولو صغیرۃ کفر‘‘: ص: ۲۵۴)

أن من استحل ما حرمہ اللّٰہ تعالیٰ علی وجہ الظن لایکفر، وإنما یکفر إذا اعتقد الحرام حلالاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوطئ الذي یوجب الحد والذي لا یوجبہ‘‘: ج ۴، ص: ۲۴)

{ٰٓیأَیُّھَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ  مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ  لَکَج تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ أَزْوَاجِکَ ط وَاللّٰہُ غَفُوْر’‘ رَّحِیْمٌہ۱ } (سورۃ التحریم:۱)

{ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ہ۸۷} (سورۃ المائدہ: ۸۷)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنت کے صحیح احوال کا علم اللہ رب العزت کو ہی ہے۔ اس لئے حتمی طور پر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی ہے۔ البتہ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ ایسی عورت کو اختیار دیا جائے گا اور جس کے ساتھ رہنا چاہے وہ رہ سکتی ہے۔ {ولھم مایشتہون}۔(۲)

(۲) إني سمعت أبا الدرداء یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم         … یقول: أیما امرأۃ توفي عنہا زجہا، فتزوجت بعدہ فہي لأٓخر أزواجہا، وما کنت لاختارک علی أبي الدرداء۔ (سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الأوسط: ج ۳، ص: ۲۷۵، رقم: ۳۱۳۰)
 في الغرائب ولو ماتت قبل أن تتزوج تخبیر أیضاً أن نصیب بآدمي زوجت منہ وإن لم ترض فاللّٰہ یخلق من الحور العین فیزوجہا منہ واختلف الناس في المرأۃ التي یکون بہا زوجان في الدنیا لا بہما تکون في الآخرۃ قیل تکون لآخر ہما وقیل تخیر فتتحار أیہما شاء۔ (مجموعۃ الفتاوی: ج ۳، ص: ۱۰، بحوالہ محمودیۃ: ج ۳، ص: ۴۱۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص295

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ رواج کی کوئی اصل شرعاً نہیں ہے اور یہ اعتقاد بھی غلط ہے جیسا کہ مشہور ہے کہ عید اور بقر عید کے دن شیطان روزہ رکھتا ہے اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے غلط مشہور ہے۔ (۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا عصلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
أشرف علي التھانوي، أغلاط العوام: ص: ۴۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص527

اسلامی عقائد

Ref. No. 923/41-60

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مسلکاً اہل حدیث تھے، اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحب سے فیض یافتہ تھے۔ بعض امور میں وہ جمہور سے اختلاف رکھتے تھے۔ (فتاوی دارالعلوم 36701/1433ھ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر راستہ میں مذکورہ شخص کا واقعۃً حق تھا تو اس کو اپنے حق کا مطالبہ کرنا اور حق نہ ملنے پر عدالت سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن اس کے لئے مذہب  تبدیل کرنے کی دھمکی جائز نہیں ہے مذہب کی بنیاد اس پر نہیں ہے کہ کسی نے حق دبا لیا ہو یا ادا کردیا وغیرہ بہر حال مذکورہ شخص اور اس کی تائید کرنے والوں پر توبہ و استغفار لازم ہے؛ لیکن وہ خارج از اسلام نہیں ہے۔ (۱)

۱) {وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج وَھُوَ فِي الْأٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ہ۸۵} (سورۃ آل عمران: ۸۵)

{وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط} (سورۃ الأنفال: ۴۶)

{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ص} (سورۃ آل عمران: ۱۰۳)