اسلامی عقائد

Ref. No. 923/41-60

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مسلکاً اہل حدیث تھے، اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحب سے فیض یافتہ تھے۔ بعض امور میں وہ جمہور سے اختلاف رکھتے تھے۔ (فتاوی دارالعلوم 36701/1433ھ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر راستہ میں مذکورہ شخص کا واقعۃً حق تھا تو اس کو اپنے حق کا مطالبہ کرنا اور حق نہ ملنے پر عدالت سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن اس کے لئے مذہب  تبدیل کرنے کی دھمکی جائز نہیں ہے مذہب کی بنیاد اس پر نہیں ہے کہ کسی نے حق دبا لیا ہو یا ادا کردیا وغیرہ بہر حال مذکورہ شخص اور اس کی تائید کرنے والوں پر توبہ و استغفار لازم ہے؛ لیکن وہ خارج از اسلام نہیں ہے۔ (۱)

۱) {وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج وَھُوَ فِي الْأٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ہ۸۵} (سورۃ آل عمران: ۸۵)

{وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط} (سورۃ الأنفال: ۴۶)

{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ص} (سورۃ آل عمران: ۱۰۳)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں حور کی جو تفصیل ذکر کی گئی ہے وہ درست ہے، جنتی حوروں کے سینے ابھرے ہوئے ہوں گے۔ (۱) یہ قرآن میں ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ شہید کو جو انعام دیا جائے گا اس میں ایک یہ ہے کہ ستر حوروں سے اس کی شادی کرائی جائے گی۔(۲)

(۱) {وکواعب أترابا} الکواعب: جمع کاعبۃ، وہي الناہدۃ، یقال: کعبت الجاریۃ تکعب تکعیبا وکعوبا، ونہدت تنہد نہودا، والمراد أنہم نساء کواعب تکعبت ثدیہن وتفلکت، أي: صارت ثدیہنّ کالکعب في صدورہن۔ (محمد بن علی، فتح القدیر: ج ۲، ص: ۹۴۰)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: للشہید عند اللّٰہ ست خصال: یغفر لہ في أول دفعۃ، ویری مقعدہ من الجنۃ، ویجار من عذاب القبر، ویأمن من الفزع الأکبر، ویوضع علی رأسہ تاج الوقار، الیاقوتۃ منہا خیر من الدنیا وما فیہا، ویزوج اثنتین وسبعین زوجۃ من الحور العین، ویشفع في سبعین من أقاربہ، قال أبو عیسیٰ: ہذا حدیث صحیح غریب۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل الجہاد: باب ما جاء أي الناس أفضل، باب منہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵، رقم: ۱۶۶۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص296

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم ہاتھ سے یا طاق میں سے گرجائے، تو اس کے برابر غلہ واناج وغیرہ تول کر کفارہ سمجھ کر ادا کرنا بے اصل اور غلط فہمی پر مبنی ہے قرآن وحدیث اور فقہ کی کتابوں میں یہ مذکور نہیں ہے؛ البتہ غلطی سے قرآن کریم اگر گر جائے تو اس پر توبہ اور استغفار کرنی چاہئے(۱) اور واجب الشرعی سمجھے بغیر تصدق اور خیرات فقراء کے درمیان تقسیم کردے اور تخمینہ سے اگر غلہ وغیرہ بھی دے دے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۲) (۱) کفایۃ المتفي، ’’کتاب العقائد‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۔ (۲) أشرف علي التھانوي، أغلاط العوام: ص: ۷۵۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص528

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کمیونسٹ نظام میں اللہ اور اس کے رسول کا کوئی تصور نہیں ہے اور آپ اعتقاداً کمیونسٹ تھے(۲)؛ اس لئے آپ تجدید اسلام بھی کریں اور تجدید نکاح بھی کریں، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں؛ اس نے آپ کو قعر ذلت وضلالت سے نکال کر اسلام سے سرفراز فرمایا، اگر صرف دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کرلیا، تو نکاح ہوجائے گا اور تنہائی میں توبہ واستغفار کریں اور

کلمہ پڑھ لیں، تو کافی ہے۔ (۱)

(۱) {وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج وَھُوَ فِي الْأٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ہ۸۵} (سورۃ آل عمران: ۸۵)

{وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط} (سورۃ الأنفال: ۴۶)

{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ص} (سورۃ آل عمران: ۱۰۳)

إن العقیدۃ الأساسیۃ للنظام الاشتراکی ہي عقیدۃ المادۃ اللتي تقول إن المادۃ ہي أصل الأشیاء ولا شيء لغیر المادۃ وہذا یعني إنکار وجود الخالق العظیم سبحانہ وتعالیٰ وبالثاني إنکار کل دین سماوي واعتبار ہا الإیمان بذلک أفیونا یحذر الشعوب کما یعتقد بذلک المارکسیون والتیتویون وأمثالہم۔ (حکم الإسلام في الاشتراکیہ: ص: ۱۱۹، بحوالہ فتاوی محمودیہ: ج ۴، ص: ۴۸۴)

(۱) واتفقوا علی أن التوبۃ من جمیع المعاصي واجبۃ۔ (نووي علی مسلم، ’’کتاب التوبۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۴)

یکفر إذا وصف اللّٰہ تعالیٰ بما لا یلیق بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر، الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بذات اللّٰہ تعالیٰ الخ‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۱)

 

 

 

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 978

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                    

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کفریہ منتر پڑھنا حرام ہے؛اس لئے ایسے کلمات سے احتراز اور اپنے ایمان کی حفاظت ازحد لازمی  اور ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اعتقاد کے اعتبار سے کفار ایمان بالفروع کے مخاطب ہیں اورادا کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ فروع کی ادائیگی کے وہ مخاطب نہیں ہیں۔ سوال میں نور الانوار کی جو عبارت ہے (۲) اس میں اسی کی صراحت ہے۔ یہ اعتراض کہ جب وہ اداء کے مخاطب نہیں تو {ویل للمشرکین} (الآیۃ) کا کیا مطلب ہے؟ حضرت تھانویؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ  اس آیت میں عتاب ومذمت اصل ترک زکوٰۃ پر نہیں ہے؛ بلکہ ان کا ترک زکوٰۃ کفر کی بنا پر تھا اورترک زکوٰۃ ان کے کفر کی علامت تھی، تو مذمت علامت پر ہے۔ حاصل یہ ہوا کہ تم مؤمن ہوتے، تو زکوٰۃ کی پابندی کرتے، تمہارا قصور ایمان نہ لانا ہے۔(۱)

بعض دیگر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہاں پر زکوٰۃ سے نفس کی زکوٰۃ مراد ہے اور معنی یہ ہیں کہ ان مشرکوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنے نفس کو پاک نہیں کرتے اور ایمان نہیں لاتے۔ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی تفسیر منقول ہے۔

بہر حال آیت سے استدلال درست نہیں ہے کہ وہ فروع کی ادائیگی کے مخاطب ہیں اور نور الانوار کی عبارت مفتی بہ قول کے اعتبار سے صحیح ہے۔

(۲) إن الکفار لا یخاطبون بأداء العبادات التي تحتمل السقوط مثل الصلوٰۃ والصوم الخ۔ (ایضا)

(۱) حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، بیان القرآن، (سورۃ حم سجدہ: ۶؛ملا جیون، نور الأنوار: ص: ۶۴)

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/7B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ تمام نظریات سراسر غلط اور تاریخ سے عدم واقفیت پر مبنی ہیں۔ ان نظریات کا حامل شخص گمراہ  اور  صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہے۔ اس کی باتوں پر بالکل  توجہ نہ دی جائے۔   ان نظریات کی کوئی بنیاد نہیں ہے، بلکہ سب اٹکل ہے جو اس شخص نے خود سے گھڑ لئے ہیں۔ یہ نظریات  حدیث و اجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ اس شخص سے ہی ان نظریات پر ثبوت طلب کرلیں تو اس کی حقیقت سامنے آجائے گی۔  

صحاح ستہ کے حوالہ سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: "چھ کتابیں جو کہ اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔" (اشعة اللمعات)۔ حاصل یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے۔  لہذا چند روایات کے ضعیف ہونے کی وجہ سے سب کا انکار کردینا غلط ہے۔ 

يقول: لقد قتل عثمان وما أعلم أحدًا يتهم عليًا في قتله (اسمی المطالب فی سیرۃ علی بن ابی طالب ض1 ص440) (تاریخ ابن عساکر، ترجمۃ عثمان ص35)۔ لقد أنكر علي رضي الله عنه قتل عثمان رضي الله عنه وتبرأ من دمه، وكان يقسم على ذلك في خطبه وغيرها أنه لم يقتله ولا أمر بقتله ولا مالأ ولا رضي، وقد ثبت ذلك عنہ بطریق تفید القطع (اسمی المطالب فی سیرۃ علی بن ابی طالب ض1 ص534) (البدایۃ والنھایۃ ج7ص202)۔

حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق کا مطالعہ مفید ہوگا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس وقت وہ دوبارہ مسلمان ہونا چاہے، اس کو مسلمان کرلیا جائے، اسلام میں کوئی تنگی نہیں ہے، اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے؛ بلکہ اس کو سمجھانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے، دل کے اعتقاد کے ساتھ کلمۂ طیبہ پڑھ لینے سے مسلمان ہو جائیگا۔(۲)

(۲) {فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِط لاَھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّطوَأٰتُوْھُمْ مَّآ أَنْفَقُوْاط وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ إِذَآ أٰتَیْتُمُوْھُنَّ أُجُوْرَھُنَّ ط وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ} (سورۃ الممتحنۃ: ۱۰)

وإسلامہ أن یتبرأ عن الأدیان سوی الإسلام أو عما انتقل إلیہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۱)

 وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام، وإن تبرأ عما انتقل إلیہ کفی، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا: الطوع‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۷)

اسلامی عقائد

Ref. No. 2222/44-2366

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی تعمیر کے وقت ہی مسجد کی زمین کے بعض حصے کو مسجد میں نماز کے لئے اور بعض کو مصالح مسجد کے لئے مختص کیاگیا تھا، بعد میں وضو خانہ والی جگہ کے اوپری حصہ کو مسجد میں نماز کے لئے شامل کرلیا گیا اور اسی طرح دوکانوں کے اوپری حصہ کو بھی مسجد میں شامل کرلیا گیا  ہے۔ یہ تمام جگہیں مسجد ہی ہیں، اس لئے دائیں بائیں حصہ میں نماز پڑھنا مسجد ہی کا ثواب رکھتاہے، اور اس حصہ میں نماز پڑھنے والا مسجد کا پورا ثواب پانے والا ہوگا۔ اور  جب اس حصہ کو مسجد میں شامل کرلیا گیا اور صف کا ایک حصہ بن گیا تو اس صف کو پورا کرکے ہی پچھلی صف میں کھڑا ہونا چاہئے یا اوپر کی منزل میں جانا چاہئے۔ مسجد انتظامیہ جس حصہ کو نماز کے لئے متعین کردے اس کا حکم مسجد کاہوگا، اور جس حصہ کو مسجد کے مصالح  کے لئے رکھے اس میں مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے، تاہم  وہ حصہ بھی وقف ہے، اس لئے اس حصہ میں بھی مسجد کے تقدس کے خلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ہوگا۔   

الدر المختار مع رد المحتار: (355/4، ط: الحلبي)
(
ويزول ملكه عن المسجد، والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية.
(
قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى إنه يصير مسجدا بلا خلاف، ثم قال عند قول الملتقى، وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف اه. مطلب في أحكام المسجد قلت: وفي الذخيرة وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى إنه إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا اه ويصح أن يراد بالفعل الإفراز۔۔۔۔إلخ

الدر المختار و حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"[فرع] لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى بزازية۔۔(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي)"

وفي الرد:"(قوله: أما لو تمت المسجدية) أي بالقول على المفتى به أو بالصلاة فيه على قولهما ط وعبارة التتارخانية، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا بترك اهـ وبه علم أن قوله في النهر، وأما لو تمت المسجدية، ثم أراد هدم ذلك البناء فإنه لا يمكن من ذلك إلخ فيه نظر؛ لأنه ليس في عبارة التتارخانية ذكر الهدم وإن كان الظاهر أن الحكم كذلك (قوله: فإذا كان هذا في الواقف إلخ) من كلام البحر والإشارة إلى المنع من البناء (قوله: ولو على جدار المسجد) مع أنه لم يأخذ من هواء المسجد شيئا. اهـ. ط ونقل في البحر قبله ولا يوضع الجذع على جدار المسجد وإن كان من أوقافه. اهـ.

ويكره الوضوء والمضمضمة( والمضمضة )في المسجد إلا أن يكون موضع فيه اتخذ للوضوء ولا يصلی فيه۔(البحر الرائق،كتاب الصلوة ،باب مايفسد الصلوة  وما يكره فيها ج2ص61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند