اسلامی عقائد

Ref. No. 41/7B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ تمام نظریات سراسر غلط اور تاریخ سے عدم واقفیت پر مبنی ہیں۔ ان نظریات کا حامل شخص گمراہ  اور  صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہے۔ اس کی باتوں پر بالکل  توجہ نہ دی جائے۔   ان نظریات کی کوئی بنیاد نہیں ہے، بلکہ سب اٹکل ہے جو اس شخص نے خود سے گھڑ لئے ہیں۔ یہ نظریات  حدیث و اجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ اس شخص سے ہی ان نظریات پر ثبوت طلب کرلیں تو اس کی حقیقت سامنے آجائے گی۔  

صحاح ستہ کے حوالہ سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: "چھ کتابیں جو کہ اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔" (اشعة اللمعات)۔ حاصل یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے۔  لہذا چند روایات کے ضعیف ہونے کی وجہ سے سب کا انکار کردینا غلط ہے۔ 

يقول: لقد قتل عثمان وما أعلم أحدًا يتهم عليًا في قتله (اسمی المطالب فی سیرۃ علی بن ابی طالب ض1 ص440) (تاریخ ابن عساکر، ترجمۃ عثمان ص35)۔ لقد أنكر علي رضي الله عنه قتل عثمان رضي الله عنه وتبرأ من دمه، وكان يقسم على ذلك في خطبه وغيرها أنه لم يقتله ولا أمر بقتله ولا مالأ ولا رضي، وقد ثبت ذلك عنہ بطریق تفید القطع (اسمی المطالب فی سیرۃ علی بن ابی طالب ض1 ص534) (البدایۃ والنھایۃ ج7ص202)۔

حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق کا مطالعہ مفید ہوگا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس وقت وہ دوبارہ مسلمان ہونا چاہے، اس کو مسلمان کرلیا جائے، اسلام میں کوئی تنگی نہیں ہے، اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے؛ بلکہ اس کو سمجھانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے، دل کے اعتقاد کے ساتھ کلمۂ طیبہ پڑھ لینے سے مسلمان ہو جائیگا۔(۲)

(۲) {فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِط لاَھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّطوَأٰتُوْھُمْ مَّآ أَنْفَقُوْاط وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ إِذَآ أٰتَیْتُمُوْھُنَّ أُجُوْرَھُنَّ ط وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ} (سورۃ الممتحنۃ: ۱۰)

وإسلامہ أن یتبرأ عن الأدیان سوی الإسلام أو عما انتقل إلیہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۱)

 وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام، وإن تبرأ عما انتقل إلیہ کفی، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا: الطوع‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۷)

اسلامی عقائد

Ref. No. 2222/44-2366

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی تعمیر کے وقت ہی مسجد کی زمین کے بعض حصے کو مسجد میں نماز کے لئے اور بعض کو مصالح مسجد کے لئے مختص کیاگیا تھا، بعد میں وضو خانہ والی جگہ کے اوپری حصہ کو مسجد میں نماز کے لئے شامل کرلیا گیا اور اسی طرح دوکانوں کے اوپری حصہ کو بھی مسجد میں شامل کرلیا گیا  ہے۔ یہ تمام جگہیں مسجد ہی ہیں، اس لئے دائیں بائیں حصہ میں نماز پڑھنا مسجد ہی کا ثواب رکھتاہے، اور اس حصہ میں نماز پڑھنے والا مسجد کا پورا ثواب پانے والا ہوگا۔ اور  جب اس حصہ کو مسجد میں شامل کرلیا گیا اور صف کا ایک حصہ بن گیا تو اس صف کو پورا کرکے ہی پچھلی صف میں کھڑا ہونا چاہئے یا اوپر کی منزل میں جانا چاہئے۔ مسجد انتظامیہ جس حصہ کو نماز کے لئے متعین کردے اس کا حکم مسجد کاہوگا، اور جس حصہ کو مسجد کے مصالح  کے لئے رکھے اس میں مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے، تاہم  وہ حصہ بھی وقف ہے، اس لئے اس حصہ میں بھی مسجد کے تقدس کے خلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ہوگا۔   

الدر المختار مع رد المحتار: (355/4، ط: الحلبي)
(
ويزول ملكه عن المسجد، والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية.
(
قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى إنه يصير مسجدا بلا خلاف، ثم قال عند قول الملتقى، وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف اه. مطلب في أحكام المسجد قلت: وفي الذخيرة وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى إنه إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا اه ويصح أن يراد بالفعل الإفراز۔۔۔۔إلخ

الدر المختار و حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"[فرع] لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى بزازية۔۔(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي)"

وفي الرد:"(قوله: أما لو تمت المسجدية) أي بالقول على المفتى به أو بالصلاة فيه على قولهما ط وعبارة التتارخانية، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا بترك اهـ وبه علم أن قوله في النهر، وأما لو تمت المسجدية، ثم أراد هدم ذلك البناء فإنه لا يمكن من ذلك إلخ فيه نظر؛ لأنه ليس في عبارة التتارخانية ذكر الهدم وإن كان الظاهر أن الحكم كذلك (قوله: فإذا كان هذا في الواقف إلخ) من كلام البحر والإشارة إلى المنع من البناء (قوله: ولو على جدار المسجد) مع أنه لم يأخذ من هواء المسجد شيئا. اهـ. ط ونقل في البحر قبله ولا يوضع الجذع على جدار المسجد وإن كان من أوقافه. اهـ.

ويكره الوضوء والمضمضمة( والمضمضة )في المسجد إلا أن يكون موضع فيه اتخذ للوضوء ولا يصلی فيه۔(البحر الرائق،كتاب الصلوة ،باب مايفسد الصلوة  وما يكره فيها ج2ص61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 38 / 1130

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  محلہ کے لوگوں نے جب عالم صاحب کو آگے بڑھادیا تو اب امام صاحب سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ نماز بہرصورت درست ہوگی۔    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/1061

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ﷺ اولادِ آدم کے سردار ہیں، اور اولادِ آدم میں سے کوئی نوری نہیں ہے بلکہ سب بشر ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے" قل انما انا بشر مثلکم یوحی الیی انما الھکم الہ واحد"  اور سورہ انبیاء میں ہے کہ ہم نے انبیاء کو ایسی جان نہیں بنایا جو کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی ہم نے ان کو ہمیشہ رہنے والا بنایا "وماجعلناھم جسدا   لایاکلون الطعام وماکانوا خالدین"۔ لہذا نبی کرم ﷺ کی رسالت و بشریت کے بارے میں قرآن  نے جوکہا اس سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے۔ چنانچہ آپ کو نور کہنا  یا آپ کے بارے میں عدم سایہ کا دعویٰ کرنا  اور یہ کہنا کہ آپ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے یہ سب کچھ غلو میں شامل ہے جس سے خود نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ مجھے ایسے بڑھاچڑھاکر بیان نہ کرو جیسے عیسی ابن مریم کو نصاریٰ نے بڑھادیا تھا،(حدیث 6830)۔   

۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 878/41-1122

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں دوسری منزل پر مدرسہ قائم کرنے کی ضروررت کیا ہے، سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے۔ اگر مسجد بوسیدہ ہورہی ہے تو اس کی از سر نو تعمیر کی جاسکتی ہے، دوسری جگہ بڑی مسجد تعمیر کرکے اصل مسجد کو مدرسہ بنانا درست نہیں ہے۔ جو مسجد ایک مرتبہ مسجد بن جاتی ہے وہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہوجاتی ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ عارضی طور پر کہیں نماز پڑھیں اور اس مسجد کی از سر نو تعمیر کرلیں، اور اگر یہ محسوس ہوتا ہو کہ یہ جگہ آبادی کے حساب سے مسجد کے لئے ناکافی ہے تو اس کو مسجد باقی رکھتے ہوئے دوسری مسجد تعمیر کرلی جائے۔

 ولو خرب ماحولہ واستغنی عنہ یبقی مسجدا عندالامام والثانی ) ابدا الی قیام الساعۃ  (وبہ یفتی ) حاوی القدسی (وعاد الی الملک) ای ملک البانی او ورثتہ (عند محمد)۔

قال فی البحر: وحاصلہ ان شرط کونہ مسجدا ان یکون سفلہ وعلوہ مسجدا لینقطع حق العبدعنہ لقولہ تعالی( وان المساجد للہ-سورۃ الجن 18) بخلاف ما اذا کان السرداب والعلو موقوفا لمصالح المسجد ، فھو کسرداب بیت المقدس ھذا ھو ظاھر الروایۃ وھناک روایات ضعیفۃ مذکورۃ فی الھدایۃ اھ (ردالمحتار 4/358)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/5B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گھر کا پرانا ٹی وی استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اس کا بیچنا جائز ہے، اور اس سے حاصل شدہ رقم حلال ہے۔

 جاز بیع عصیر عنب ممن یعلم انہ یتخذہ خمرا لان المعصیۃ لاتقوم بعینہ بل بعد تغیرہ۔ (الدرالمختار 6/391)

تاہم بہتر یہ ہے کہ کسی غیر سے فروخت کرے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2167/44-2273

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پیشاب کرنے کے بعد ٹشو پیپر عضو کے منھ پر رکھ کر کھڑے ہوجائیں، یا کھنکھار کریں تاکہ نالی میں پیشاب جو کچھ باقی ہے وہ باہر آجائے، اسی طرح پیشاب کی نالی کو دباکر آگے کی طرف لائیں ، اس طرح بھی قطرات باہر آجاتے ہیں۔عضو کے منھ  پر ٹشو پیپر لپیٹ کر کچھ دیر کے بعد ہٹادیں ۔ جب یہ کام کرلیں تو اب اس کی طرف بالکل دھیان نہ دیں، بار بار اس کی طرف دھیان کرنے سے وسوسہ کا مرض پیداہوتاہے۔ اس لئے اس کا فوری علاج یہ ہے کہ طریقہ مذکورہ پر عمل کریں اور کپڑے پر چھینٹا مارلیں تاکہ پیشاب کے وسوسہ سے بچ سکیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنت میں حوریں ملیں گی ان کی سردار وہ بیوی ہوگی جو دنیا میں رہی نیز وہاں پر خواہشات نفسانی جس طرح دنیا میں ہوتی ہیں اس طرح نہیں ہوں گی، سوکن کے خلاف جو جذبہ ہوتا ہے وہ بھی نہ رہے گا شوہر بیوی ایک ساتھ رہیں گے بس اصولی طور پر یہ بات یاد رکھیں کہ جنت میں ہر خواہش پوری ہوگی اور جنت کے احوال کو دنیا پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ (۱)
(۱) {وَزَوَّجْنٰھُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍہ۲۰}(۱) ہم نے ان کا نکاح بڑی بڑی آنکھوں والی سے کردیا ہیں۔
(۲) {إِنَّ أَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْیَوْمَ فِيْ شُغُلٍ فٰکِھُوْنَہج  ۵۵}(۲) جنتی لوگ آج کے دن اپنے مشغلوں میں ہشاش بشاش ہوں گے۔
(۳) {أُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ تُحْبَرُوْنَہ۷۰}(۳) تم اور تمہاری بیویاں جنت میں داخل ہو جاؤ۔
(۴) ’’وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أدنیٰ أہل الجنۃ الذي لہ ثمانون ألف خادم وإثنتان وسبعون زوجۃ‘‘(۴)
(۵) ’’وقال لعائشۃ فأنت زوجتي في الدنیا والآخرۃ‘‘۔
(۶) ’’و ما في الجنۃ أعزب‘‘۔
 

(۱) عن أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا، قلت: یا رسول اللّٰہ وبما ذاک؟ قال:…’’بصلاتہن وصیامہن وعبادتہن اللّٰہ ألبس اللّٰہ وجوہہن النور وأجسادہن الحریر بیض الألوان خضر الثیاب صفراء الحلی مجامرہن الدر وأمشاطہن الذہب یقلن: ألا نحن الخالدات فلا نموت أبدا، ألا ونحن الناعمات فلا نبؤس أبدا، ألا ونحن المقیمات فلا نظعن أبدا، ألا ونحن الراضیات فلا نسخط أبدا، طوبی لمن کنا لہ وکان لنا‘‘ قلت: یا رسول اللّٰہ المرأۃ منا تتزوج زوجین والثلاثۃ والأربعۃ ثم تموت فتدخل الجنۃ ویدخلون معہا من یکون زوجہا؟ قال: ’’یا أم سلمۃ إنہا تخیر فتختار أحسنہم خلقا فتقول: أي رب إن ہذا کان أحسنہم معي خلقا في دار الدنیا فزوجنیہ یا أم سلمۃ ذہب حسن الخلق بخیر الدنیا والآخرۃ۔ (سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الکبیر: ج ۲۳، ص: ۳۶۷رقم: ۸۷۰)
(۱) سورۃ الطور: ۲۰۔                     (۲)  سورۃ یٰسٓ: ۵۵۔
(۳) سورۃ الزخرف: ۷۰۔                (۴)  مشکوٰۃ: ج ۲، ص: ۴۹۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص298
 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2601/45-4124

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    جس جانور کو حلال طریقہ پر ذبح نہ کیا گیا ہو وہ نجس  اور  ناپاک ہے۔ جس برتن میں اور جس تیل میں اس کو پکایاجائے گا وہ بھی ناپاک ہوجائے گا۔ اگر اسی ناپاک تیل میں پھرسبزی یا  سالن پکایاگیا تو وہ بھی نجس ہوگا اس کاکھانا جائز نہیں ہوگا۔ اس لئے جس ہوٹل کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہاں مردار کا گوشت پکایاجاتاہے وہاں گوشت کے علاوہ بھی کوئی چیز کھانا درست نہیں ہے۔

قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْـزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورۃ الانعام 6/145)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند