اسلامی عقائد

Ref. No. 40/1065

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   مذکورہ مسئلہ کو مقامی اہم علماء کے سامنے واضح طور پرپیش کیاجائے گا۔

۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 880/41/04B

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں نکاح درست نہیں ہوا، جس مجلس میں سابقہ شوہر کو تحریر ملی ، اگر اس مجلس میں دو گواہوں کی موجودگی میں سابق شوہر نے کہا کہ میں اس عورت کو اپنے نکاح میں قبول کررہا ہوں تو نکاح درست ہوگا ورنہ نہیں۔

ولاینعقد نکاح المسلمین الا بحضور شاھدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین او رجل وامراتین۔ (ھدایہ ج2 ص286)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ کفر کے کلمات ہیں، ایسا اعتقاد رکھنے والا اور اس کی تعلیم دینے والا مسلمان نہیں ہے کافر و مرتد ہے(۱)، مسلمانوں کو اس کی مکاریوں سے احتراز لازم ہے۔

(۱) {وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُط قُلْ أَبِااللّٰہِ وَأٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِئُ وْنَہ۶۵} (سورۃ التوبۃ:۶۵)
وإذا قال الرجل لغیرہ: حکم الشرع في ہذہ الحادثۃ کذا، فقال ذلک الغیر: ’’من برسم کار می کنم نہ بشرع‘‘ یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: مایتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)
والاستہزاء بأحکام الشرع کفرٌ، کذا في ’’المحیط‘‘۔ (أیضا: ’’ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۱)
ومن اعتقد أن الإیمان والکفر واحدٌ فہو کافر، کذا في الذخیرۃ۔ (أیضا: ’’ومنہا: ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص299

اسلامی عقائد

Ref. No. 2617/45-3990

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر کپڑا مس ہونے پر پسینہ کپڑے میں جذ ب ہوگیا تو کپڑا ناپاک ہوجائے گا، اور اگر صرف ٹھنڈک محسوس ہوئی تواس سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔

ولو ابتل فراش أو تراب نجسا" وكان ابتلالهما "من عرق نائم" عليهما "أو" كان من "بلل قدم وظهر أثر النجاسة" وهو طعم أو لون أو ريح "في البدن والقدم تنجسا" لوجودها بالأثر "وإلا" أي وإن لم يظهر أثرها فيهما "فلا" ينجسان.

وله: "من عرق نائم" قيد اتفاقي فالمستيقظ كذلك كما يفهم من مسألة القدم ولو وضع قدمه الجاف الطاهر أو نام على نحو بساط نجس رطب إن إبتل ما أصاب ذلك تنجس وإلا فلا ولا عبرة بمجرد النداوة على المختار كما في السراج عن الفتاوى (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: (باب الأنجاس و الطهارة عنها، ص: 158، ط: دار الكتب العلمية))

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2364/44-3568

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب کوئی بچہ مدت رضاعت میں کسی عورت کا دودھ پی لے تو یہ خاتون اس بچے کی رضاعی ماں   اور اس کی تمام اولاد اس بچے کے رضاعی بھائی  بہن بن جاتے ہیں لہذا اس بچے کا  اپنی رضاعی ماں  کے اصول و فروع سے نکاح جائز نہیں ہوتاہے۔ صورت مسئولہ میں    آپ کی بیٹی  کا آپ کے بھائی کے بیٹے سے نکاح جائز نہیں ہے، کیونکہ آپ کی بیٹی مریم نے دادی کا دودھ پیا تو دادی اس کی رضاعی ماں ہوگئی، اور دادا رضاعی باپ بھی ہوگیا، لہذامریم  کی شادی آپ کے بھائی کے بیٹے سے جائز نہیں ہے۔

أن كل اثنين اجتمعا على ثدي واحد صارا أخوين أو أختين أو أخا وأختا من الرضاعة فلا يجوز لأحدهما أن يتزوج بالآخر ولا بولده كما في النسب ۔۔۔۔  وأخوات المرضعة يحرمن على المرضع لأنهن خالاته من الرضاعة وأخواتها (وإخوتها) أخوال المرضع فيحرم عليهم كما في النسب فأما بنات أخوة المرضعة وأخواتها فلا يحرمن على المرضع لأنهن بنات أخواله وخالاته من الرضاعة وإنهن لا يحرمن من النسب فكذا من الرضاعة وتحرم المرضعة على أبناء المرضع وأبناء أبنائه وإن سفلوا كما في النسب۔  (بدائع الصنائع،كتاب الرضاع، ج4،ص2)

۔ أمومیة المرضعة للرضیع ویثبت أبوة زوج مرضعة إذا کان لبنہا منہ

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2618/45-3991

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کرنسی کاریٹ کم زیادہ ہوتارہتاہے، اور آپ جس  کمپنی سے کرنسی کا تبادلہ کرتے ہیں اس سے معاملہ طے ہونا ضروری ہے،  دوملکوں کی کرنسی کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے، اس لئے بازار کے ریٹ سے کم یا زیادہ لینےمیں  کوئی حرج نہیں ہے البتہ معاملہ نقد ہونا ضروری ہے،  ادھار نہیں ہونا چاہئے۔ 

وإذا عدم الوصفان والمعنی المضموم إلیہ حل التفاضل والنساء لعدم العلة المحرمة (ہدایة: ۳/۷۹)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 825

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسا عمل جس میں کفروشرک کے قبیل سے کوئی چیز نہ ہو اور نہ ہی وہ عمل خلاف شرع ہو تو اس کو اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ نظر اتارنے کا مذکورہ عمل قرآنی آیات پر مشتمل ہے لہذا اسے   اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 982

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دیت وغیرہ احکام کا نفاذ دارالاسلام میں اسلامی حکومت کی نگرانی میں ہوتا ہے جہاں اسلامی حکومت ہو تو حکومت نظم کرے گی، شخصی طور پر حکم نہ لگایا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2409/44-3646

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  (١) حجام کی اجرت کے حلال یا حرام ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ جو کام حرام ہیں یعنی داڑھی مونڈنا، ایک مشت سے کم کرنا یا بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا، ان کی اجرت بھی حلال ہے اب اگر حجام اپنی حلال آمدنی سے قربانی میں شریک ہوتا ہے یا اس کی آمدنی مخلوط ہے لیکن حلال آمدنی غالب ہے تو اس صورت میں اس کو شریک کرنا جائز ہے، اگر اس کی آمدنی خالص حرام ہے یا یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ حرام آمدنی سے اجتماعی قربانی میں شریک ہو رہا ہے تو اس کو شریک کرنا جائز نہیں۔

(٢) اگرحرام آمدنی غالب ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ طیب ہیں اور مال طیب ہی سے صدقہ وعبادت قبول کرتے ہیں، اگر اس ے پاس حلال مال نصاب کے بقدر ہو تو حلال مال سے یا پھر قرضہ لیکر قربانی کرے، تو پھر اس کو شریک کرنا درست ہے۔

’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا أیہا الناس ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا‘‘

(٣) جس پر قربانی واجب ہے اس کے لئے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک بال وناخن نہ کاٹنا مستحت ہے، فرض یا واجب نہیں اس لئے اگر ایسے شخص نے بال یا ناخن کاٹ لئے تو اس کی قربانی جائز ودرست ہے اس میں کوئی کمی نہیں آئیگی۔

’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من رأی ہلال ذي الحجۃ، فأراد أن یضحی یأخذ من شعرہ ولا من أظفارہ حتی یضحی‘‘ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح: ج ٣، ص: ١٠٨١)

(٤) سونےکا نصاب ٨٧٠٤٨گراماورچاندیکانصاب٦١٢٠٣٦گرام ہے اگر کسی کے پاس تھوڑا سونا اور تھوڑی چاندی ہو جن کی قیمت ٦١٢گرام چاندی کی قیمت کےبرابرہوجائےتو ایسا شخص صاحب نصاب ہوتا ہے اور اس پر زکوٰۃ وقربانی لازم ہوتی ہے اس لئے صورت مذکورہ میں کیونکہ آپ ستر تولہ چاندی کے بقدر مال کے مالک ہیں تو آپ پر قربانی واجب ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1308/42-679

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر حشفہ پر کوئی ایسا باریک کپڑا ہے کہ عورت کے بدن کی گرمی محسوس ہوتی ہے تو  شرمگاہ میں حشفہ کے غائب ہوجانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضاء کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا۔ لیکن اگر کپڑا موٹا ہے کہ ایک دوسرے کی گرمی محسوس نہ ہوسکے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ الا یہ کہ انزال ہوجائے تو قضاء لازم ہوگی کفارہ نہیں۔  

يشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين بلا حائل يمنع الحرارة (ردالمحتار 3/414، مطلب فی حیلۃ اسقاط عدۃ المحلل) ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال (الھندیۃ 1/473 فصل فیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ)، (البحرالرائق 4/62)۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند