Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 2618/45-3991
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرنسی کاریٹ کم زیادہ ہوتارہتاہے، اور آپ جس کمپنی سے کرنسی کا تبادلہ کرتے ہیں اس سے معاملہ طے ہونا ضروری ہے، دوملکوں کی کرنسی کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے، اس لئے بازار کے ریٹ سے کم یا زیادہ لینےمیں کوئی حرج نہیں ہے البتہ معاملہ نقد ہونا ضروری ہے، ادھار نہیں ہونا چاہئے۔
وإذا عدم الوصفان والمعنی المضموم إلیہ حل التفاضل والنساء لعدم العلة المحرمة (ہدایة: ۳/۷۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 825
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا عمل جس میں کفروشرک کے قبیل سے کوئی چیز نہ ہو اور نہ ہی وہ عمل خلاف شرع ہو تو اس کو اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ نظر اتارنے کا مذکورہ عمل قرآنی آیات پر مشتمل ہے لہذا اسے اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
اسلامی عقائد
Ref. No. 39 / 982
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دیت وغیرہ احکام کا نفاذ دارالاسلام میں اسلامی حکومت کی نگرانی میں ہوتا ہے جہاں اسلامی حکومت ہو تو حکومت نظم کرے گی، شخصی طور پر حکم نہ لگایا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2409/44-3646
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (١) حجام کی اجرت کے حلال یا حرام ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ جو کام حرام ہیں یعنی داڑھی مونڈنا، ایک مشت سے کم کرنا یا بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا، ان کی اجرت بھی حلال ہے اب اگر حجام اپنی حلال آمدنی سے قربانی میں شریک ہوتا ہے یا اس کی آمدنی مخلوط ہے لیکن حلال آمدنی غالب ہے تو اس صورت میں اس کو شریک کرنا جائز ہے، اگر اس کی آمدنی خالص حرام ہے یا یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ حرام آمدنی سے اجتماعی قربانی میں شریک ہو رہا ہے تو اس کو شریک کرنا جائز نہیں۔
(٢) اگرحرام آمدنی غالب ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ طیب ہیں اور مال طیب ہی سے صدقہ وعبادت قبول کرتے ہیں، اگر اس ے پاس حلال مال نصاب کے بقدر ہو تو حلال مال سے یا پھر قرضہ لیکر قربانی کرے، تو پھر اس کو شریک کرنا درست ہے۔
’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا أیہا الناس ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا‘‘
(٣) جس پر قربانی واجب ہے اس کے لئے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک بال وناخن نہ کاٹنا مستحت ہے، فرض یا واجب نہیں اس لئے اگر ایسے شخص نے بال یا ناخن کاٹ لئے تو اس کی قربانی جائز ودرست ہے اس میں کوئی کمی نہیں آئیگی۔
’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من رأی ہلال ذي الحجۃ، فأراد أن یضحی یأخذ من شعرہ ولا من أظفارہ حتی یضحی‘‘ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح: ج ٣، ص: ١٠٨١)
(٤) سونےکا نصاب ٨٧٠٤٨گراماورچاندیکانصاب٦١٢٠٣٦گرام ہے اگر کسی کے پاس تھوڑا سونا اور تھوڑی چاندی ہو جن کی قیمت ٦١٢گرام چاندی کی قیمت کےبرابرہوجائےتو ایسا شخص صاحب نصاب ہوتا ہے اور اس پر زکوٰۃ وقربانی لازم ہوتی ہے اس لئے صورت مذکورہ میں کیونکہ آپ ستر تولہ چاندی کے بقدر مال کے مالک ہیں تو آپ پر قربانی واجب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1308/42-679
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر حشفہ پر کوئی ایسا باریک کپڑا ہے کہ عورت کے بدن کی گرمی محسوس ہوتی ہے تو شرمگاہ میں حشفہ کے غائب ہوجانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضاء کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا۔ لیکن اگر کپڑا موٹا ہے کہ ایک دوسرے کی گرمی محسوس نہ ہوسکے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ الا یہ کہ انزال ہوجائے تو قضاء لازم ہوگی کفارہ نہیں۔
يشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين بلا حائل يمنع الحرارة (ردالمحتار 3/414، مطلب فی حیلۃ اسقاط عدۃ المحلل) ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال (الھندیۃ 1/473 فصل فیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ)، (البحرالرائق 4/62)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1627/43-1204
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے پاس جو کچھ آپ کی ملکیت میں ہے آپ اس میں خود مختار ہیں جس کو جتنا دیناچاہیں دے سکتے ہیں؛ شرعی طور پر آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے بیٹے ضرورتمند ہیں، اور آپ صاحب حیثیت ہیں ، توآپ ان کی مدد کرسکتے ہیں، کسی بیٹے کو زیادہ ضرورت ہے تو زیادہ دے سکتے ہیں، کسی کو ضرورت نہیں ہے تو بالکل نہ دیں اس کی بھی اجازت ہے۔ اس سلسلہ میں آپ بیٹیوں سے اجازت لینے کے بھی مکلف نہیں ہیں، ہاں اگر سب کے مشورے سے ہوتو اس میں کسی کو شکوہ و شکایت نہیں رہتی ہے۔ البتہ اگر بیٹیاں بھی ضرورتمند ہیں تو ان کو فراموش کرنا بہتر نہیں ہے۔ والد کو اپنے اولاد میں انصاف کرنے کو ترجیح دینا چاہئے الا یہ کہ کوئی خاص وجہ ہو۔ نیز وراثت سے محروم کرنے کا ارادہ نہ ہو ورنہ گناہ گارہ ہوں گے۔
قال فی الہندیة: لو وہب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (لہندیة 4/391 کتاب الہبة، الباب السادس) وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2674/45-4133
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس عورت کو خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق ہوجائے اس پر عدت نہیں ہوتی ہے۔ بہرحال بارہ سال کا لڑکا مراہق ہے، اس لئے اس کا نکاح اور وطی کرنا درست ہے اور اس سے وہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی؛ حلالہ میں دخول شرط ہے انزال شرط نہیں ہے، اس لئے قریب البلوغ بچہ کا جماع کرنا بھی معتبر ہوگا۔ البتہ یہاں ایک مسئلہ جان لینا چاہئے کہ نابالغ مراہق طلاق دینے کا اہل نہیں ہے اس لئے اس کی طلاق معتبر نہیں ہے، اس کی طلاق بلوغ کے بعد ہی قابل نفاذ ہوگی۔اس لئے ابھی جو طلاق ہوئی اور پہلے شوہر سے نکاح کردیاگیا یہ درست نہیں ہوا۔
ولو مراھقا) ھو الدانی من البلوغ نھر ولا بد ان یطلقھا بعد البلوغ لان طلاقہ غیر واقع در منتقی عن التتارخانیة (قولہ: یجامع مثلہ) تفسیر للمراھق ذکرہ فی الجامع، وقیل ھو الذی تتحرک آلتہ ویشتھی النساء کذا فی الفتح، والأولی ان یکون حرا بالغا: فان الانزال شرط عند مالک کما فی الخلاصة۔ملخصًا (رد المحتار علی الدر المختار،٤١٠/٣)
"(وكره) النكاح كراهة تحريم (بشرط التحليل) بأن يقول: تزوجتك على أن أحللك أو تقول هي، وعلى هذا حمل ما صححه الترمذي: (لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل والمحلل له) قيد باشتراط؛ لأنهما لو نوياه فقط لم يكره، بل يكون الرجل مأجورًا لقصده الإصلاح، وإن وصلية حلت (للأول)". النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 423)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردے کو ایصال ثواب کرنے کی شرعاً اجازت ہے؛ لیکن کوئی وقت مقرر کرنا، یا کھانے کی قسم مقرر کرنے کی شرعی اجازت نہیں ہے، جس کام کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی کوئی شرعی اصل نہیں ہے، یہ غلط اور بے اصل ہے، اس رواج کو توڑنا ضروری اور باعث ثواب ہے، مردے کو کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا جائے، کسی مستحق کو کتابیں کپڑے وغیرہ دیدیئے جائیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلادیا جائے؛ ان سب کا ثواب مرحوم کو پہونچا دیا جائے۔(۱)
(۱) فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ کذا في البدائع، وبہذا علم أنہ لا فرق بین أن یکون المجعول لہ میتاً أو حیًا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۶)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص405
اسلامی عقائد
Ref. No. 2408/44-3648
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی کے معنی ہیں: 'اللہ کی ذات بلندوبالا' ہےاس لئے اللہ تعالی کہنا درست بلکہ افضل ہے۔ لفظ 'مولی' ایک مشترک لفظ ہے جس کے متعدد معانی آتے ہیں، سیاق و سباق سے معنی کی تعیین ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے لئے لفظ 'مولی' کو 'دوست اور محبوب' کےمعنی میں استعمال فرمایاہے، اس لئے اس معنی میں اس کا استعمال درست ہے۔ اسی طرح 'مولی' کا ایک معنی 'سردار' کے ہیں، اس معنی کے اعتبار سے بھی 'مولی علی' کہنا درست ہے، تاہم آج کل یہ کلمہ ایک خاص گمراہ فرقہ کا شعار ہے اس لئے ا س کےاستعمال سے بچنا چاہئے، نیز 'مولی' کا ایک معنی 'مالک اور کارساز' کے بھی ہیں، اس معنی کے اعتبار سے اللہ تعالی کو 'مولی' کہنا جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1081/41-256
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ کسی مسلمان کا نشہ کی حالت میں مسجد جیسی مقدس جگہ میں کام کرنا جائز نہیں ہے۔ مسجد کا پاکیزہ عمل کسی متقی وپرہیزگار کے ذریعہ یا کم ازکم ایسے لوگوں سے انجام پانا چاہئے جو کھلی بے حیائی کے کاموں میں ملوث نہ ہوں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند