اسلامی عقائد

Ref. No. 1627/43-1204

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے پاس جو کچھ آپ کی ملکیت میں ہے آپ اس میں خود مختار ہیں جس کو  جتنا دیناچاہیں دے سکتے ہیں؛ شرعی طور پر آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے بیٹے ضرورتمند ہیں،  اور آپ صاحب حیثیت ہیں ، توآپ ان کی مدد کرسکتے ہیں، کسی بیٹے کو زیادہ ضرورت ہے تو زیادہ دے سکتے ہیں، کسی کو ضرورت نہیں ہے تو بالکل نہ دیں  اس کی بھی اجازت ہے۔ اس سلسلہ میں آپ بیٹیوں سے اجازت لینے کے بھی مکلف نہیں ہیں، ہاں اگر سب کے مشورے سے ہوتو اس میں کسی کو شکوہ و شکایت نہیں رہتی ہے۔  البتہ اگر بیٹیاں بھی ضرورتمند ہیں تو ان کو فراموش کرنا بہتر نہیں ہے۔  والد کو اپنے اولاد میں انصاف کرنے کو ترجیح دینا چاہئے الا یہ کہ کوئی خاص وجہ ہو۔  نیز وراثت سے محروم کرنے کا ارادہ نہ ہو ورنہ گناہ گارہ ہوں گے۔

قال فی الہندیة: لو وہب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (لہندیة 4/391 کتاب الہبة، الباب السادس) وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔ (مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2674/45-4133

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس عورت کو خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق ہوجائے اس پر عدت نہیں ہوتی ہے۔ بہرحال بارہ سال کا لڑکا مراہق ہے، اس لئے اس  کا  نکاح اور وطی کرنا درست ہے اور اس سے وہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی؛ حلالہ میں دخول شرط ہے انزال شرط نہیں ہے، اس لئے قریب البلوغ بچہ کا جماع کرنا بھی معتبر ہوگا۔ البتہ یہاں ایک مسئلہ جان لینا چاہئے کہ نابالغ مراہق  طلاق دینے کا اہل نہیں ہے اس لئے اس کی طلاق معتبر نہیں ہے، اس کی طلاق بلوغ کے بعد ہی قابل نفاذ ہوگی۔اس لئے ابھی جو طلاق ہوئی اور پہلے شوہر سے نکاح کردیاگیا یہ درست نہیں ہوا۔ 

ولو مراھقا) ھو الدانی من البلوغ نھر ولا بد ان یطلقھا بعد البلوغ لان طلاقہ غیر واقع در منتقی عن التتارخانیة (قولہ: یجامع مثلہ) تفسیر للمراھق ذکرہ فی الجامع، وقیل ھو الذی تتحرک آلتہ ویشتھی النساء کذا فی الفتح، والأولی ان یکون حرا بالغا: فان الانزال شرط عند مالک کما فی الخلاصة۔ملخصًا (رد المحتار علی الدر المختار،٤١٠/٣)

"(وكره) النكاح كراهة تحريم (بشرط التحليل) بأن يقول: تزوجتك على أن أحللك أو تقول هي، وعلى هذا حمل ما صححه الترمذي: (لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل والمحلل له) قيد باشتراط؛ لأنهما لو نوياه فقط لم يكره، بل يكون الرجل مأجورًا لقصده الإصلاح، وإن وصلية حلت (للأول)". النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 423)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردے کو ایصال ثواب کرنے کی شرعاً اجازت ہے؛ لیکن کوئی وقت مقرر کرنا، یا کھانے کی قسم مقرر کرنے کی شرعی اجازت نہیں ہے، جس کام کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی کوئی شرعی اصل نہیں ہے، یہ غلط اور بے اصل ہے، اس رواج کو توڑنا ضروری اور باعث ثواب ہے، مردے کو کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا جائے، کسی مستحق کو کتابیں کپڑے وغیرہ دیدیئے جائیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلادیا جائے؛ ان سب کا ثواب مرحوم کو پہونچا دیا جائے۔(۱)

(۱) فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ کذا في البدائع، وبہذا علم أنہ لا فرق بین أن یکون المجعول لہ میتاً أو حیًا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۶)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص405

اسلامی عقائد

Ref. No. 2408/44-3648

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اللہ تعالی کے معنی ہیں: 'اللہ کی ذات بلندوبالا' ہےاس لئے اللہ تعالی کہنا درست بلکہ افضل ہے۔ لفظ 'مولی' ایک مشترک لفظ ہے جس کے متعدد معانی آتے ہیں، سیاق و سباق سے معنی کی تعیین ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے لئے لفظ 'مولی' کو 'دوست اور محبوب' کےمعنی میں استعمال فرمایاہے، اس لئے اس معنی میں اس کا استعمال درست ہے۔ اسی طرح 'مولی' کا ایک معنی 'سردار' کے ہیں، اس معنی کے اعتبار سے بھی 'مولی علی' کہنا درست ہے، تاہم آج کل یہ کلمہ ایک خاص گمراہ فرقہ کا شعار ہے اس لئے ا س کےاستعمال سے بچنا چاہئے، نیز 'مولی' کا ایک معنی 'مالک اور کارساز' کے بھی ہیں، اس معنی کے اعتبار سے اللہ تعالی کو 'مولی' کہنا جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1081/41-256

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  کسی مسلمان کا نشہ کی حالت میں مسجد جیسی مقدس جگہ میں کام کرنا جائز نہیں ہے۔ مسجد کا پاکیزہ عمل کسی متقی وپرہیزگار کے ذریعہ یا کم ازکم ایسے لوگوں سے انجام پانا چاہئے جو کھلی بے حیائی کے کاموں میں ملوث نہ ہوں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر صرف ثواب مقصود ہو تو درست ہے؛ لیکن چالیس روز کی قید درست نہیںہے۔ (۱) جب بھی موقع ہو اور دل چاہے کھانا دیتا رہے۔ (۲)

(۱) ومنہا التزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعیین في الشریعۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، کتاب الاعتصام: ج ۱، ص: ۲۶)
(۲) وذلک بأن یقید إطلاقہا بالرأي أو یطلق تقییدہا وبالجملۃ فتخرج عن حدہا الذي حد لہا۔ (أیضاً: ج ۲، ص: ۳۰۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص407

اسلامی عقائد

Ref. No. 2451/45-3726

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   گرمی کے دنوں کی فیس  یا گاڑی کا کرایہ وغیرہ لینے کا اگر عرف ہے یا یہ کہ متعاقدین نے ایسا ہی پہلے سے طے کررکھاہے تو طے شدہ ضابطہ اور عرف کے مطابق ان دنوں کی فیس لینا یا گاڑی کا کرایہ لینا جائز ہوگا۔ اس سلسلہ میں شرعی ضابطہ یہی ہے کہ دونوں فریق جن شرطوں پر راضی ہوجائیں اور اگریمنٹ بنالیں ان پر عمل کیاجائے، اور کسی کے اس کے خلاف جانا عہد شکنی میں داخل ہوگا۔

والعرف فی الشرع لہ اعتبار لذا علیہ الحکم قد یدار قال فی المستصفی: العرف والعادة ما استقر فی النفوس من جھة العقول و تلقتہ الطبائع السلیمة بالقبول انتھی۔ (عقود رسم المفتی)
السادسة العادة المحکمة۔۔۔۔واعلم ان العادة العرف رجع الیہ فی مسائل کثیرة حتی جعلوا ذلک اصلا الخ۔ (الاشباہ و النظائر ص: 117)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2622/45-3986

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   سوتیلا  باپ اگر چہ حقیقی باپ نہیں لیکن اُس  کو ابا کہہ کر پکارنا جائز ہے۔ البتہ کاغذات میں والد کے خانے میں حقیقی والد کا نام درج کرنا ہی ضروری ہو گا، والد کی جگہ سوتیلے باپ  کا نام  درج کرنا جائز نہیں ہو گا۔

(ادْعُوهُمْ لِآبائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آباءَهُمْ فَإِخْوانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوالِيكُمْ) [الأحزاب: 5]

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن خوانی کے بعد کھانے کو ضروری سمجھنا اور التزام کرنا بدعت ہے۔ جیسا کہ آج کے زمانے میں رائج ہے کہ کھانا عرف میں اجرت کی طرح ہے، پس ایسا کرنا درست نہیں ہے(۱)، اس سے قرآن خوانی کا ثواب نہیں ملتا، کہ سبھی پڑھنے والے حضرات کھانے کے لالچ میں پڑھتے ہیں، جس سے خود ان کو ثواب نہیں ملے گا تو وہ دوسروں کو کیا ثواب بخشیں گیں(۲)، اس مروجہ قرآن خوانی سے تو بہتر یہ ہے کہ خود ہی الحمد شریف یا سورہ اخلاص وغیرہ پڑھ کر ایصال ثواب کردے یا صرف غریبوں کو کھانا ہی کھلادے اور ایصال ثواب کردے؛ البتہ اگر عرف میں کھانا اجرت نہ ہو تو پھر بغیر التزام وہ صورت بھی درست ہے۔

(۱) فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
(۲) إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في استئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
 ومنہا التزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعیین في الشریعۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، کتاب الاعتصام: ج ۱، ص: ۲۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص407

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2712/45-4461

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ واقعی روئے زمین کی سب سے مقدس مقامات میں سے  ہیں۔ اور جن تشویش کا آپ نے اظہار کیا ہے وہ بھی واقعی ہیں، وہاں پر پوری دنیا سے خواتین آتی ہیں، دنیا کے مختلف خطوں میں عورتوں میں وہ دینداری اور شرعی پردہ کی رعایت نہیں ہوتی اس لیے یہاں آنے کے بعد بھی پردہ کی وہ رعایت نہیں کرپاتی ہیں جس کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں ، عام  لوگ  جو اپنے گناہوں کی تطہیر کے لیے جاتے ہیں انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح سے تو گناہوں میں اضافہ ہی ہو جائے گا، تاہم اس سلسلے میں آدمی جس درجہ احتیاط سے کام لے سکتا ہے، وہاں بھی طواف کے دوران حتی الامکان کوشش کرے کہ  عورتوں سے الگ رہے اور دیگر مقامات  میں بھی اپنی نگاہ نیچی رکھے، اللہ تعالیٰ اس پاک مقدس مقامات کو بے حیائی سے پاک فرمائے اور عام مؤمنین کی روح کی تسکین کا باعث بنائے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند