اسلامی عقائد

Ref. No. 1187/42-462

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس کا شرک سے کوئی تعلق نہیں ہے، صرف دیا جلانا شرک کیسے ہوجائے گا؟اس لئے  ایسا کیا جاسکتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1428/42-866

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔عارش“ کے معنی ہیں: جانوروں کا باڑا بنانے والا، ٹٹی (چھپر وغیرہ) بنانے والا، حیران۔ (القاموس الوحید )۔ عارش نام رکھنے کی گنجائش ہے تاہم یہ  بہت مناسب نام نہیں ہے، اس لئے کوئی دوسرا نام تجویز کرلیں تو اچھاہے۔ اچھے ناموں کا بچوں پر اثر ہوتا ہے اس لئے اچھے معنی والا نام ہی تجویز کرنا چاہئے۔  عبداللہ، عبدالرحمن، حسّان ، حذیفہ، خالد، طلحہ، سلمان، معاویہ، جعفر، بلال، عمار، حسن ، حسین وغیرہ ناموں میں سے بھی  کوئی نام تجویز کرسکتے ہیں۔  عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان احب اسمائکم الیٰ اللّٰہ عبداللّٰہ وعبد الرحمن۔(مسلم شریف ،ج۲؍ص۲۰۶)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کا تیجہ،د سواں وغیرہ کرنا التزام مالایلتزم کے قبیل سے ہو کر بدعت ہے، اس کو ترک کرنا چاہئے، ورنہ تو اس کامرتکب گناہگار ہوگا اور اس میں چنے کا پڑھنا بھی رسم و رواج ہے کہ پھر ان کو تقسیم کیا جاتا ہے، غم کے موقع پر ایسا عمل درست نہیں ہے(۱)؛ بلکہ بلا التزام واہتمام وبلا لالچ طعام وغیرہ خلوص دل سے اگر جمع ہو کر کچھ لوگ کلمہ طیبہ وغیرہ پڑھ کر ایصالِ ثواب کردیں جس میں دن کی تعیین مروجہ طریقہ پر نہ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

(۱) ومن البدع الإضافیۃ التي تقرب من الحقیقۃ أن یکون أصل العبادۃ مشروعا إلا أنہ تخرج عن أصل شرعیتہا بغیر دلیل توہما أنہا باقیۃ علی أصلہا تحت مقتضي الدلیل، وذلک بأن یقید إطلاقہا بالرأي، أو یطلق تقییدہا وبالجملۃ فتخرج عن حدہا الذي حد لہا، ومن ذلک قراء ۃ القرآن بہیئۃ الاجتماع، وہذا کلہ إن فرضنا أصل العبادۃ مشروعاً، فإن کان أصلہا غیر مشروع فہي بدعۃ حقیقیۃ مرکبۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، کتاب الاعتصام: ج ۲، ص: ۳۰۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص408

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 886/41-1130

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایک مسلمان کے انتقال پر جس طرح غم اور افسوس کا اظہار ہوتا ہے، اسی طرح کاکسی مسلمان فلمی اداکار کے انتقال پربحیثیت مسلمان  اظہارافسوس کرنا درست  ہے،

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ فاتحہ تو وہ ہے جو آپ نے سوال میں تحریر کی ہے، جس کا التزام بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے؛ کیونکہ ایسا مروجہ طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے۔(۱)
شرعی طریقہ یہ ہے کہ کھانا وغیرہ کچھ بھی سامنے نہ رکھا جائے؛ بلکہ سورۂ فاتحہ پڑھ کر میت کو ایصال ثواب کردیا جائے اور اگر کھانے کا بھی ثواب پہونچانا ہے، تو الگ سے کھانا کھلا کر یا کسی غریب کو دے کر اس کا ثواب الگ سے میت کو پہونچادیا جائے۔(۲)

(۱) من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزماً ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد‘‘: ج ۳، ص: ۲۶، رقم: ۹۴۶)
(۲) إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ۔ …(ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
فللإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ عند أہل السنۃ والجماعۃ صلوٰۃ کان أو صوماً أو حجاً أو صدقۃ أو قراء ۃ للقرآن أو الأذکار أو غیر ذلک من أنواع البر ویصل ذلک إلی المیت وینفعہ۔(ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۵؛ وابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص303

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی کے انتقال پر سوگ منانے کا مطلب یہ ہے کہ اظہار افسوس و غم کا کیا جائے اور تعزیت کرنے والوں کے لیے گھر پر بیٹھا جائے، میت بچہ ہو یا بڑا، عورت ہو یا مرد بس تین دن تک اجازت ہے، اس سے زیادہ سوگ کرنے کی اجازت نہیں، اس سوگ میں بھی رونا، پیٹنا، شور مچانا وغیرہ نہ ہونا چاہئے؛ البتہ شوہر کے انتقال پر بیوی چار ماہ دس دن (ایام عدت) تک سوگ مناتی ہے جو اس کے لیے ضروری ہے۔ (۲)

(۲) وأحسن ذلک: تعزیۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن اللّٰہ ما أخذ ولہ ما أعطی وکل شيء عندہ بأجل مسمیٰ، حدیث أسامۃ بن زید۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الحادی والعشرون، في الجنائز، الفصل الخامس: في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)…والجلوس للمصیبۃ ثلاثۃ أیام رخصۃ، وترکہ أحسن کذا في معراج الدرایۃ، وأما النوح العالي فلا یجوز، والبکاء مع رقۃ القلب لا بأس بہ۔ (’’أیضاً‘‘)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص409

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم پڑھ کر مرحومین کو ایصال ثواب کرنا شرعاً جائز اور درست ہے، اس سے مرحومین کو فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے؛ مگر اس پر علماء محدثین وفقہاء کا اتفاق ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت پر اجرت لینا ناجائز اور حرام ہے۔ جس کی وجہ سے خود قاریوں کو ثواب نہیں ملتا، تو وہ دوسروں کو کیسے ایصال ثواب کریں گے؛ اس لئے یہ بدعت سیئہ بھی ہے اور شرعاً ناجائز بھی، اس طرح مقصد تو فوت ہو ہی گیا اور تلاوت پر اجرت کا گناہ بھی ہوا، ہاں اگر کچھ لوگ صرف اللہ کے لئے قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ جائز اور مستحسن ہے۔(۱)

(۱) فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
فللإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ عند أہل السنۃ والجماعۃ صلوٰۃ کان أو صوماً أو حجاً أو صدقۃ أو قراء ۃ للقرآن أو الأذکار أو غیر ذلک من أنواع البر ویصل ذلک إلی المیت وینفعہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۵؛ ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۱)
إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص304

اسلامی عقائد

Ref. No. 2401/44-3627

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو توبارش کے موسم میں  راستہ  میں موجود بارش کا پانی  اور کیچڑ عفو کے درجہ میں  ہے، اور گاڑیوں سے اٹھنے والے پانی  کا فوارہ بھی اسی حکم میں ہے، اس میں نماز درست ہے، علماء نے عموم بلوی  کی وجہ سے دفع حرج کے لئے اس کی گنجائش دی ہے۔ 

طین الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ، ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلوٰۃ معہ الخ۔ بل الأشبہ المنع بالقدر الفاحش منہ إلا لمن ابتلي بہ بحیث یجيء ویذہب في أیام الأوحال في بلادنا الشامیۃ؛ لعدم انفکاک طرقہا من النجاسۃ غالباً مع عسر الاحتراز بخلاف من لا یمر بہا أصلاً في ہٰذہ الحالۃ فلا یعفی في حقہ، حتی أن ہٰذا لا یصلي في ثوب ذاک۔ (شامی، ۱/۵۳۱)

سئل أبو نصر عن ماء الثلج الذي یجري علی الطریق، وفي الطریق سرقین ونجاسات یتبین فیہ أیتوضأ بہ؟ قال: متی ذہب أثر النجاسۃ ولونہا جاز، وفي الحجۃ: ماء الثلج والمطر یجري في الطریق إذا کان بعیداً من الأرواث یجوز التوضي بہ بلاکراہۃ۔ (فتاویٰ تاتارخانیۃ ۱؍۲۹۸ رقم: ۴۸۱/بحوالہ کتاب النوازل)

وبتغیر أحد أوصافہ من لون أو طعم أو ریح ینجس الکثیر ولو جاریاً إجماعاً۔ أما القلیل فینجس وإن لم یتغیر۔ (درمختار مع الشامي : ۱/۳۳۲)

ولا یضر بقاء أثر کلون وریح فلا یکلف في إزالتہ إلی ماء حارٍ أو صابون ونحوہ۔ (شامي : ۱/۵۳۷)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1712/43-1440

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی احکام  دوسروں سے فساد کو روکنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندرونی فساد کو روکنے کے لئے بھی ہیں۔ موسیقی گوکہ وقتی طور پر سکون دیتی ہے مگر انسان کی باطنی خرابیوں کا باعث  ہے۔حدیث میں آیاہے کہ اس سے دل کا نفاق پیدا ہوتاہے۔ آپ اس موضوع سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کریں، جیسے "احکام اسلام عقل کی نظر میں" اور "اشرف الجواب" از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ۔"حجۃ اللہ البالغہ"، "احیاء العلوم"،  "الموافقات  "لابراہیم بن موسی الشاطبی ۔ اسرار الشریعہ من اعلام الموقعین لابن القیم، وغیرہ

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ فاتحہ رسم وبدعت ہے، جسے ترک کرنا واجب ہے۔(۱) بقدر گنجائش مالی صدقہ کرکے یا غرباء کو کھانا کھلاکر، میت کو ثواب پہونچانا چاہئے جو جائز اور امر مستحسن ہے۔(۲)

(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیہ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم …مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
(۲) فللإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ عند أہل السنۃ والجماعۃ صلوٰۃ کان أو صوماً أو حجاً صدقۃ أو قراء ۃ للقرآن أو الأذکار أو غیر ذلک من أنواع البر ویصل ذلک إلی المیت وینفعہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۵، ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص305