اسلامی عقائد

Ref. No. 2408/44-3648

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اللہ تعالی کے معنی ہیں: 'اللہ کی ذات بلندوبالا' ہےاس لئے اللہ تعالی کہنا درست بلکہ افضل ہے۔ لفظ 'مولی' ایک مشترک لفظ ہے جس کے متعدد معانی آتے ہیں، سیاق و سباق سے معنی کی تعیین ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے لئے لفظ 'مولی' کو 'دوست اور محبوب' کےمعنی میں استعمال فرمایاہے، اس لئے اس معنی میں اس کا استعمال درست ہے۔ اسی طرح 'مولی' کا ایک معنی 'سردار' کے ہیں، اس معنی کے اعتبار سے بھی 'مولی علی' کہنا درست ہے، تاہم آج کل یہ کلمہ ایک خاص گمراہ فرقہ کا شعار ہے اس لئے ا س کےاستعمال سے بچنا چاہئے، نیز 'مولی' کا ایک معنی 'مالک اور کارساز' کے بھی ہیں، اس معنی کے اعتبار سے اللہ تعالی کو 'مولی' کہنا جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1081/41-256

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  کسی مسلمان کا نشہ کی حالت میں مسجد جیسی مقدس جگہ میں کام کرنا جائز نہیں ہے۔ مسجد کا پاکیزہ عمل کسی متقی وپرہیزگار کے ذریعہ یا کم ازکم ایسے لوگوں سے انجام پانا چاہئے جو کھلی بے حیائی کے کاموں میں ملوث نہ ہوں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر صرف ثواب مقصود ہو تو درست ہے؛ لیکن چالیس روز کی قید درست نہیںہے۔ (۱) جب بھی موقع ہو اور دل چاہے کھانا دیتا رہے۔ (۲)

(۱) ومنہا التزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعیین في الشریعۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، کتاب الاعتصام: ج ۱، ص: ۲۶)
(۲) وذلک بأن یقید إطلاقہا بالرأي أو یطلق تقییدہا وبالجملۃ فتخرج عن حدہا الذي حد لہا۔ (أیضاً: ج ۲، ص: ۳۰۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص407

اسلامی عقائد

Ref. No. 2451/45-3726

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   گرمی کے دنوں کی فیس  یا گاڑی کا کرایہ وغیرہ لینے کا اگر عرف ہے یا یہ کہ متعاقدین نے ایسا ہی پہلے سے طے کررکھاہے تو طے شدہ ضابطہ اور عرف کے مطابق ان دنوں کی فیس لینا یا گاڑی کا کرایہ لینا جائز ہوگا۔ اس سلسلہ میں شرعی ضابطہ یہی ہے کہ دونوں فریق جن شرطوں پر راضی ہوجائیں اور اگریمنٹ بنالیں ان پر عمل کیاجائے، اور کسی کے اس کے خلاف جانا عہد شکنی میں داخل ہوگا۔

والعرف فی الشرع لہ اعتبار لذا علیہ الحکم قد یدار قال فی المستصفی: العرف والعادة ما استقر فی النفوس من جھة العقول و تلقتہ الطبائع السلیمة بالقبول انتھی۔ (عقود رسم المفتی)
السادسة العادة المحکمة۔۔۔۔واعلم ان العادة العرف رجع الیہ فی مسائل کثیرة حتی جعلوا ذلک اصلا الخ۔ (الاشباہ و النظائر ص: 117)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2622/45-3986

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   سوتیلا  باپ اگر چہ حقیقی باپ نہیں لیکن اُس  کو ابا کہہ کر پکارنا جائز ہے۔ البتہ کاغذات میں والد کے خانے میں حقیقی والد کا نام درج کرنا ہی ضروری ہو گا، والد کی جگہ سوتیلے باپ  کا نام  درج کرنا جائز نہیں ہو گا۔

(ادْعُوهُمْ لِآبائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آباءَهُمْ فَإِخْوانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوالِيكُمْ) [الأحزاب: 5]

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن خوانی کے بعد کھانے کو ضروری سمجھنا اور التزام کرنا بدعت ہے۔ جیسا کہ آج کے زمانے میں رائج ہے کہ کھانا عرف میں اجرت کی طرح ہے، پس ایسا کرنا درست نہیں ہے(۱)، اس سے قرآن خوانی کا ثواب نہیں ملتا، کہ سبھی پڑھنے والے حضرات کھانے کے لالچ میں پڑھتے ہیں، جس سے خود ان کو ثواب نہیں ملے گا تو وہ دوسروں کو کیا ثواب بخشیں گیں(۲)، اس مروجہ قرآن خوانی سے تو بہتر یہ ہے کہ خود ہی الحمد شریف یا سورہ اخلاص وغیرہ پڑھ کر ایصال ثواب کردے یا صرف غریبوں کو کھانا ہی کھلادے اور ایصال ثواب کردے؛ البتہ اگر عرف میں کھانا اجرت نہ ہو تو پھر بغیر التزام وہ صورت بھی درست ہے۔

(۱) فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
(۲) إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في استئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
 ومنہا التزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعیین في الشریعۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، کتاب الاعتصام: ج ۱، ص: ۲۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص407

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2712/45-4461

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ واقعی روئے زمین کی سب سے مقدس مقامات میں سے  ہیں۔ اور جن تشویش کا آپ نے اظہار کیا ہے وہ بھی واقعی ہیں، وہاں پر پوری دنیا سے خواتین آتی ہیں، دنیا کے مختلف خطوں میں عورتوں میں وہ دینداری اور شرعی پردہ کی رعایت نہیں ہوتی اس لیے یہاں آنے کے بعد بھی پردہ کی وہ رعایت نہیں کرپاتی ہیں جس کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں ، عام  لوگ  جو اپنے گناہوں کی تطہیر کے لیے جاتے ہیں انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح سے تو گناہوں میں اضافہ ہی ہو جائے گا، تاہم اس سلسلے میں آدمی جس درجہ احتیاط سے کام لے سکتا ہے، وہاں بھی طواف کے دوران حتی الامکان کوشش کرے کہ  عورتوں سے الگ رہے اور دیگر مقامات  میں بھی اپنی نگاہ نیچی رکھے، اللہ تعالیٰ اس پاک مقدس مقامات کو بے حیائی سے پاک فرمائے اور عام مؤمنین کی روح کی تسکین کا باعث بنائے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1187/42-462

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس کا شرک سے کوئی تعلق نہیں ہے، صرف دیا جلانا شرک کیسے ہوجائے گا؟اس لئے  ایسا کیا جاسکتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1428/42-866

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔عارش“ کے معنی ہیں: جانوروں کا باڑا بنانے والا، ٹٹی (چھپر وغیرہ) بنانے والا، حیران۔ (القاموس الوحید )۔ عارش نام رکھنے کی گنجائش ہے تاہم یہ  بہت مناسب نام نہیں ہے، اس لئے کوئی دوسرا نام تجویز کرلیں تو اچھاہے۔ اچھے ناموں کا بچوں پر اثر ہوتا ہے اس لئے اچھے معنی والا نام ہی تجویز کرنا چاہئے۔  عبداللہ، عبدالرحمن، حسّان ، حذیفہ، خالد، طلحہ، سلمان، معاویہ، جعفر، بلال، عمار، حسن ، حسین وغیرہ ناموں میں سے بھی  کوئی نام تجویز کرسکتے ہیں۔  عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان احب اسمائکم الیٰ اللّٰہ عبداللّٰہ وعبد الرحمن۔(مسلم شریف ،ج۲؍ص۲۰۶)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کا تیجہ،د سواں وغیرہ کرنا التزام مالایلتزم کے قبیل سے ہو کر بدعت ہے، اس کو ترک کرنا چاہئے، ورنہ تو اس کامرتکب گناہگار ہوگا اور اس میں چنے کا پڑھنا بھی رسم و رواج ہے کہ پھر ان کو تقسیم کیا جاتا ہے، غم کے موقع پر ایسا عمل درست نہیں ہے(۱)؛ بلکہ بلا التزام واہتمام وبلا لالچ طعام وغیرہ خلوص دل سے اگر جمع ہو کر کچھ لوگ کلمہ طیبہ وغیرہ پڑھ کر ایصالِ ثواب کردیں جس میں دن کی تعیین مروجہ طریقہ پر نہ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

(۱) ومن البدع الإضافیۃ التي تقرب من الحقیقۃ أن یکون أصل العبادۃ مشروعا إلا أنہ تخرج عن أصل شرعیتہا بغیر دلیل توہما أنہا باقیۃ علی أصلہا تحت مقتضي الدلیل، وذلک بأن یقید إطلاقہا بالرأي، أو یطلق تقییدہا وبالجملۃ فتخرج عن حدہا الذي حد لہا، ومن ذلک قراء ۃ القرآن بہیئۃ الاجتماع، وہذا کلہ إن فرضنا أصل العبادۃ مشروعاً، فإن کان أصلہا غیر مشروع فہي بدعۃ حقیقیۃ مرکبۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، کتاب الاعتصام: ج ۲، ص: ۳۰۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص408