اسلامی عقائد

Ref. No. 1629/43-1188

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  معتوہ  اس کو کہتے ہیں جو کبھی عقل کی باتیں کرے اور کبھی بے عقلوں  والی باتیں کرے۔ ایسے شخص کی عقل میں کمی اور ایک گونہ خرابی اور فساد پایا جاتاہے، اب یہ فساد کس درجہ کا ہے اس کی بناء پر فیصلہ کیا جائے گا، اس وجہ سے اس پر کلمات کفریہ کی وجہ سے ارتداد کا اور کفر کا حکم لگانے میں توقف کیا جائے گا۔

(قوله ومعتوه) عزاه في النهر إلى السراج، وهو الناقص العقل وقيل المدهوش من غير جنون كذا في المغرب، وفي إحكامات الأشباه أن حكمه حكم الصبي العاقل فتصح العبادات منه ولا تجب، وقيل: هو كالمجنون وقيل كالبالغ العاقل. اهـ. قلت: والأول هو الذي صرح به الأصوليون ومقتضاه أن تصح ردته لكنه لا يقتل كما هو حكم الصبي العاقل تأمل. ثم رأيت في الخانية قال: وأما ردة المعتوه فلم تذكر في الكتب المعروفة قال مشايخنا هو في حكم الردة بمنزلة الصبي. اهـ. (شامی، باب المرتد 4/224)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروّجہ فاتحہ بدعت ہے؛ اس لئے اس کی مٹھائی وغیرہ میں شرکت درست نہیں۔(۱)

(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیہ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للامر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص306

اسلامی عقائد

Ref. No. 2444/45-3707

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  امہات المؤمنین کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ قرآن کی تصریح کے مطابق تمام مومنین کی مائیں ہیں ان کا احترام و اکرام  فرض ہے،وہ جنت میں اعلی مقام پر  فائز ہوںگی ، امہات المؤمنین جنت میں رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کی حیثیت سے ہی رہیں گی اس کی صراحت بعض روایات میں ہے ، بعض روایت میں حضرت عائشہ کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں آپ کی بیوی ہوں گی ۔في رواية الترمذي: «إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ(سنن الترمذی ؛حدیث نمبر: 3880)۔اسی طرح حضور ﷺ نے حضرت حفصہ کو طلاق دیا تو جبرئیل امین تشریف لائے اور فرمایا کہ ان سے رجوع فرمالیں اس لیے کہ یہ آپ کی بیوی ہیں دنیا میں بھی اور جنت میں بھی ۔عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ تَطْلِيقَةً، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: " يَا مُحَمَّدُ طَلَّقْتَ حَفْصَةَ تَطْلِيقَةً وَهِيَ صَوَّامَةٌ قَوَّامَةٌ، وَهِيَ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَفِي الْجَنَّةِ (شرح مشکل الآثار ،حدیث نمبر: 4615) عن هشام بن عروة، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " طلق سودة، فلما خرج إلى الصلاة أمسكت بثوبه، فقالت: مالي في الرجال من حاجة، ولكني أريد أن أحشر في أزواجك قال: فرجعها وجعل يومها لعائشة رضي الله عنها(السنن الکبری، للبیہقی،حدیث نمبر:13435)

ابن کثیر نے لکھا ہے کہ تمام ازواج مطہرات جنت میں آپ کی بیویاں ہوگی اور تمام مخلوق سے افضل مقام و مرتبہ میں حضور ﷺ کے ساتھ ہوں گی۔.
۔" ثم ذكر عدله وفضله في قوله: ( وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ )، أي: يطع الله ورسوله ويستجب ( نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا ) أي: في الجنة، فإنهن في منازل رسول الله صلى الله عليه وسلم، في أعلى عليين، فوق منازل جميع الخلائق، في الوسيلة التي هي أقرب منازل الجنة إلى العرش " انتهى من "تفسير ابن كثير" (6/408)  ۔  

(2) تمام صحابہ کرام جنتی ہیں اس کی بشارت قرآن میں بھی ہے اور احادیث میں بھی ہے ،اور یہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے ،حضرت مولانا ادریس کاندھلوی نے عقائد اسلام میں لکھاہے: صحابہ کرام اگر چہ انبیاء کی  طرح معصوم نہیں ہیں ، مگر خدا تعالی کا ان سے راضی ہونا اور جنت میں ان کا جانا قطعی اور یقینی ہے جس میں ذرہ برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیو ں کہ یہ دونوں باتیں رضائے خداوندی کا پروانہ اور جنت کی خوشخبری صحابہ کے لیے قرآن وحدیث سے ثابت ہیں ان کے علاوہ کسی کے لیے یہ دونوں باتیں قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہیں ،(عقائد اسلام ص:168)

وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {التوبة:100قال أبو محمد بن حزم رحمه الله: ثم نقطع على أن كل من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم بنية صادقة ولو ساعة، فإنه من أهل الجنة لا يدخل النار لتعذيب، إلا أنهم لا يلحقون بمن أسلم قبل الفتح، وذلك لقول الله عز وجل: لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح وقاتل أولئك أعظم درجة من الذين أنفقوا من بعد وقاتلوا وكلا وعد الله الحسنى. انتهى

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 39/1021

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرلینا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1713/43-1441

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وتر کی تیسری  رکعت میں دعائے قنوت بھول کر رکوع میں چلے جانے اور پھر یاد آنے پر واپس نہیں لوٹنا چاہیئے تھا بلکہ اخیر میں سجدہ سہو کرکے نماز مکمل ہوجاتی۔ لیکن اگر واپس  کھڑے ہوکر  دعائے قنوت پڑھ لی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوئی اورجب آخر میں سجدہ سہو کرلیا تو تلافی ہوگئی اوروتر  کی نماز درست  ہوگئی۔ لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کما لو سہا عن القنو ت فرکع فانہ لو عاد وقنت لاتفسد صلاتہ علی الاصح (شامی، ج:۲، ص: ۸۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:موت کی خبر پر اعلان کرکے فاتحہ خوانی کے لئے لوگوں کو جمع کرنے کی رسم اور اس کا التزام خلاف سنت اور مکروہ ہے(۱)، ہاں اہل میت اپنے خاص اعزاء واقرباء کو خبر دے کر دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کی درخواست کریں اور وہ لوگ کچھ پڑھ کر یا خیرات کرکے ثواب پہونچائیں اور دعائے مغفرت کریں اور دیگر رسوم کی قید کے بغیر اہل میت کے پاس آکر تعزیت کریں یعنی تسلی دیں، مثلاً: یہ کہیں کہ ’’أعظم اللّٰہ أجرک وأحسن عزائک وغفر لمیتک‘‘ یہ صورت جائز ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے انتقال پر خط سے تعزیت فرمائی تھی۔(۲)

(۱) من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزماً ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد، الفصل الأول‘‘: ج ۳، ص: ۲۶، رقم: ۹۴۶)
عن جریر بن عبد اللّٰہ قال: کنا نری الاجتماع إلی أہل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز: باب ما جاء في النہي عن الاجتماع  إلی أہل المیت‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیہ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
(۲) کتب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی معاذ بن جبل لما مات ولدہ سلام اللّٰہ علیک فإني أحمد اللّٰہ الذي لا إلہ إلا ہو أمل بعد فأعظم اللّٰہ لک الأجر وأہلک الصبر ورزقني وإیاک الشکر ثم إن أنفسنا وأموالنا وأہلینا وأولادنا من مواہب اللّٰہ المستودعۃ وعواریہ المستردۃ الخ۔ (الصغوري، نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس، ’’فصل في الصبر‘‘: ج ۱، ص: ۷۴)
(یکرہ) اتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقرآن للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص307

اسلامی عقائد

Ref. No. 2336/44-3517

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قرآن کریم کا احترام لازم ہے، اگر قرآن کے اوراق ناقابل استعمال ہوجائیں تو ان کو حفاظت کی غرض سے دفن کرنا جائز ہے، اور اس تدفین میں بھی احترام کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ لہذا  بغلی قبر کھود کر اس میں دفن کرنا بہتر ہےتاکہ مٹی ڈالنے میں اہانت کا شائبہ نہ ہو، اور اگر گڑھا کھود کر اس میں لکڑی لگادی جائے اور پھر مٹی ڈالی جائے تو بھی درست ہے۔ لکڑی لگانا ضروری تو نہیں ہے البتہ ایسی صورت اختیار کی جانی ضروری ہے کہ مٹی براہ راست قرآن پر نہ گرے کہ اہانت کا شبہہ پیدا ہو۔  اور اگرپاک کپڑے میں لپیٹ کر گڑھے میں ادب سے رکھ کر اس پر مٹی ڈال دی جائے تو بھی جائز ہے  کہ دفن کرنے والوں کے پیش نظر احترام ہے البتہ   بظاہر اہانت  کا  شبہہ ہے اس  وجہ سے مکروہ ہے۔  

"وفي الذخيرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراءة منه لايحرق بالنار، إليه أشار محمد، وبه نأخذ، ولايكره دفنه، وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة ويلحد له؛ لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إليه يد محدث ولا غبار ولا قذر تعظيماً لكلام الله عز وجل اهـ (رد المحتار - (6 / 422)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2515/45-3848

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں اگر شخص مذکور نے سلام پھیرنے کے بعد کوئی منافی صلاۃ کام نہیں کیا ہے تو آپ کے کھانسنے سے یا آپ کے کھڑے ہونے سے اس کو یاد آجائے اور وہ اپنی ایک رکعت پوری کرلے تو نماز درست ہوجائے گی، اعادہ کی ضروررت نہیں ہوگی، اور اگر منافی صلوۃ عمل پایاگیا  ،  مثلاً قبلہ کی طرف سے سینہ پھیرلیا یا آپ نے اس کو  بات چیت کے ذریعہ بتایا کہ آپ نے تین رکعتیں پڑھی ہیں تو اس صورت میں وہ نماز فاسد ہوجائے گی اور اس نماز کو از سر نو پڑھنا  ہی لازم ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 37 / 1050

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: انبیاء کے معصوم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اندر گناہ کی بالکلیہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں اور ان کے اندر بھی  بشری  تقاضے ہوتے ہیں مگر اللہ کی طرف سے ایسا نظام ہے کہ ان کی گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ اور انبیاء کرام گناہوں سے بچنے میں  بے اختیار نہیں ہیں بلکہ بااختیار ہیں، اوراپنے اختیار سے گناہوں سے بچنا یقینا کمال ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت کریمہ {اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰیہ۵ } آیات متشابہات میں سے ہے، جس کی متعینہ مراد صرف حق تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے۔ کسی شخص یا کسی جماعت کا اس آیت سے یہ سمجھنا کہ حق تعالیٰ شانہ کی ذات اور اس کا وجود عرش تک محدود ہے، البتہ اس کا علم ہر جگہ موجود ہے یہ قطعاً غلط ہے؛ کیونکہ حق تعالیٰ کی ذات و صفات محدود نہیں ہے، محدود ہونا تو مخلوق وممکن کی صفت ہے۔ حق تعالیٰ اور واجب الوجود اس سے منزہ اور بلند وبالا ہے؛ اس لئے یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے بالکل صحیح ہے اور حقیقت کے مطابق ہے، اس کی وجہ سے عقیدہ توحید میں ذرہ برابر بھی نقصان نہیں آتا، اگر کوئی شخص یا کوئی جماعت اس کو قرآن اور عقیدہ توحید کے خلاف کہے، تو وہ اس کی لاعلمی یا غلط فہمی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور حق تعالیٰ کی طرف سے مختلف کاموں کے لئے فرشتوں کو بھیجنا اور متعین کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ دنیاوی نظام کو اسباب کے ماتحت کیا گیا ہے، ورنہ حق تعالیٰ ان فرشتوں کے محتاج نہیں ہیں۔ (۱)

(۱) وأما الجہۃ والمکان فلا تجوز إثباتہا لہ تعالیٰ ونقول: إنہ تعالیٰ منزہ ومتعال عنہما وعن جمیع سمات الحدود۔ (خلیل السہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۳۹)

وہو شاہد علیکم أیہا الناس أینما کنتم یعلمکم ویعلم أعمالکم ومتقلبکم ومثواکم وہو علی عرشہ فوق السموات السبع۔ (أبو حیان،طبراني: ج ۲۷، ص: ۱۲۵)

ولا یتمکن في مکان لأن التمکن عبارۃ عن نفوذ بعد في آخر متوہم أو متحقق یسمونہ المکان إلخ … ولا یجري علیہ زمان إلخ۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیہ، ’’الدلیل علی کونہ تعالیٰ لا یوصف بالمائیۃ‘‘: ص: ۳۹)