اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی کے انتقال پر سوگ منانے کا مطلب یہ ہے کہ اظہار افسوس و غم کا کیا جائے اور تعزیت کرنے والوں کے لیے گھر پر بیٹھا جائے، میت بچہ ہو یا بڑا، عورت ہو یا مرد بس تین دن تک اجازت ہے، اس سے زیادہ سوگ کرنے کی اجازت نہیں، اس سوگ میں بھی رونا، پیٹنا، شور مچانا وغیرہ نہ ہونا چاہئے؛ البتہ شوہر کے انتقال پر بیوی چار ماہ دس دن (ایام عدت) تک سوگ مناتی ہے جو اس کے لیے ضروری ہے۔ (۲)

(۲) وأحسن ذلک: تعزیۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن اللّٰہ ما أخذ ولہ ما أعطی وکل شيء عندہ بأجل مسمیٰ، حدیث أسامۃ بن زید۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الحادی والعشرون، في الجنائز، الفصل الخامس: في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)…والجلوس للمصیبۃ ثلاثۃ أیام رخصۃ، وترکہ أحسن کذا في معراج الدرایۃ، وأما النوح العالي فلا یجوز، والبکاء مع رقۃ القلب لا بأس بہ۔ (’’أیضاً‘‘)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص409

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم پڑھ کر مرحومین کو ایصال ثواب کرنا شرعاً جائز اور درست ہے، اس سے مرحومین کو فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے؛ مگر اس پر علماء محدثین وفقہاء کا اتفاق ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت پر اجرت لینا ناجائز اور حرام ہے۔ جس کی وجہ سے خود قاریوں کو ثواب نہیں ملتا، تو وہ دوسروں کو کیسے ایصال ثواب کریں گے؛ اس لئے یہ بدعت سیئہ بھی ہے اور شرعاً ناجائز بھی، اس طرح مقصد تو فوت ہو ہی گیا اور تلاوت پر اجرت کا گناہ بھی ہوا، ہاں اگر کچھ لوگ صرف اللہ کے لئے قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ جائز اور مستحسن ہے۔(۱)

(۱) فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
فللإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ عند أہل السنۃ والجماعۃ صلوٰۃ کان أو صوماً أو حجاً أو صدقۃ أو قراء ۃ للقرآن أو الأذکار أو غیر ذلک من أنواع البر ویصل ذلک إلی المیت وینفعہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۵؛ ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۱)
إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص304

اسلامی عقائد

Ref. No. 2401/44-3627

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو توبارش کے موسم میں  راستہ  میں موجود بارش کا پانی  اور کیچڑ عفو کے درجہ میں  ہے، اور گاڑیوں سے اٹھنے والے پانی  کا فوارہ بھی اسی حکم میں ہے، اس میں نماز درست ہے، علماء نے عموم بلوی  کی وجہ سے دفع حرج کے لئے اس کی گنجائش دی ہے۔ 

طین الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ، ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلوٰۃ معہ الخ۔ بل الأشبہ المنع بالقدر الفاحش منہ إلا لمن ابتلي بہ بحیث یجيء ویذہب في أیام الأوحال في بلادنا الشامیۃ؛ لعدم انفکاک طرقہا من النجاسۃ غالباً مع عسر الاحتراز بخلاف من لا یمر بہا أصلاً في ہٰذہ الحالۃ فلا یعفی في حقہ، حتی أن ہٰذا لا یصلي في ثوب ذاک۔ (شامی، ۱/۵۳۱)

سئل أبو نصر عن ماء الثلج الذي یجري علی الطریق، وفي الطریق سرقین ونجاسات یتبین فیہ أیتوضأ بہ؟ قال: متی ذہب أثر النجاسۃ ولونہا جاز، وفي الحجۃ: ماء الثلج والمطر یجري في الطریق إذا کان بعیداً من الأرواث یجوز التوضي بہ بلاکراہۃ۔ (فتاویٰ تاتارخانیۃ ۱؍۲۹۸ رقم: ۴۸۱/بحوالہ کتاب النوازل)

وبتغیر أحد أوصافہ من لون أو طعم أو ریح ینجس الکثیر ولو جاریاً إجماعاً۔ أما القلیل فینجس وإن لم یتغیر۔ (درمختار مع الشامي : ۱/۳۳۲)

ولا یضر بقاء أثر کلون وریح فلا یکلف في إزالتہ إلی ماء حارٍ أو صابون ونحوہ۔ (شامي : ۱/۵۳۷)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1712/43-1440

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی احکام  دوسروں سے فساد کو روکنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندرونی فساد کو روکنے کے لئے بھی ہیں۔ موسیقی گوکہ وقتی طور پر سکون دیتی ہے مگر انسان کی باطنی خرابیوں کا باعث  ہے۔حدیث میں آیاہے کہ اس سے دل کا نفاق پیدا ہوتاہے۔ آپ اس موضوع سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کریں، جیسے "احکام اسلام عقل کی نظر میں" اور "اشرف الجواب" از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ۔"حجۃ اللہ البالغہ"، "احیاء العلوم"،  "الموافقات  "لابراہیم بن موسی الشاطبی ۔ اسرار الشریعہ من اعلام الموقعین لابن القیم، وغیرہ

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ فاتحہ رسم وبدعت ہے، جسے ترک کرنا واجب ہے۔(۱) بقدر گنجائش مالی صدقہ کرکے یا غرباء کو کھانا کھلاکر، میت کو ثواب پہونچانا چاہئے جو جائز اور امر مستحسن ہے۔(۲)

(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیہ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم …مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
(۲) فللإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ عند أہل السنۃ والجماعۃ صلوٰۃ کان أو صوماً أو حجاً صدقۃ أو قراء ۃ للقرآن أو الأذکار أو غیر ذلک من أنواع البر ویصل ذلک إلی المیت وینفعہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۵، ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص305

اسلامی عقائد

Ref. No. 1629/43-1188

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  معتوہ  اس کو کہتے ہیں جو کبھی عقل کی باتیں کرے اور کبھی بے عقلوں  والی باتیں کرے۔ ایسے شخص کی عقل میں کمی اور ایک گونہ خرابی اور فساد پایا جاتاہے، اب یہ فساد کس درجہ کا ہے اس کی بناء پر فیصلہ کیا جائے گا، اس وجہ سے اس پر کلمات کفریہ کی وجہ سے ارتداد کا اور کفر کا حکم لگانے میں توقف کیا جائے گا۔

(قوله ومعتوه) عزاه في النهر إلى السراج، وهو الناقص العقل وقيل المدهوش من غير جنون كذا في المغرب، وفي إحكامات الأشباه أن حكمه حكم الصبي العاقل فتصح العبادات منه ولا تجب، وقيل: هو كالمجنون وقيل كالبالغ العاقل. اهـ. قلت: والأول هو الذي صرح به الأصوليون ومقتضاه أن تصح ردته لكنه لا يقتل كما هو حكم الصبي العاقل تأمل. ثم رأيت في الخانية قال: وأما ردة المعتوه فلم تذكر في الكتب المعروفة قال مشايخنا هو في حكم الردة بمنزلة الصبي. اهـ. (شامی، باب المرتد 4/224)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروّجہ فاتحہ بدعت ہے؛ اس لئے اس کی مٹھائی وغیرہ میں شرکت درست نہیں۔(۱)

(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیہ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للامر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص306

اسلامی عقائد

Ref. No. 2444/45-3707

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  امہات المؤمنین کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ قرآن کی تصریح کے مطابق تمام مومنین کی مائیں ہیں ان کا احترام و اکرام  فرض ہے،وہ جنت میں اعلی مقام پر  فائز ہوںگی ، امہات المؤمنین جنت میں رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کی حیثیت سے ہی رہیں گی اس کی صراحت بعض روایات میں ہے ، بعض روایت میں حضرت عائشہ کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں آپ کی بیوی ہوں گی ۔في رواية الترمذي: «إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ(سنن الترمذی ؛حدیث نمبر: 3880)۔اسی طرح حضور ﷺ نے حضرت حفصہ کو طلاق دیا تو جبرئیل امین تشریف لائے اور فرمایا کہ ان سے رجوع فرمالیں اس لیے کہ یہ آپ کی بیوی ہیں دنیا میں بھی اور جنت میں بھی ۔عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ تَطْلِيقَةً، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: " يَا مُحَمَّدُ طَلَّقْتَ حَفْصَةَ تَطْلِيقَةً وَهِيَ صَوَّامَةٌ قَوَّامَةٌ، وَهِيَ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَفِي الْجَنَّةِ (شرح مشکل الآثار ،حدیث نمبر: 4615) عن هشام بن عروة، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " طلق سودة، فلما خرج إلى الصلاة أمسكت بثوبه، فقالت: مالي في الرجال من حاجة، ولكني أريد أن أحشر في أزواجك قال: فرجعها وجعل يومها لعائشة رضي الله عنها(السنن الکبری، للبیہقی،حدیث نمبر:13435)

ابن کثیر نے لکھا ہے کہ تمام ازواج مطہرات جنت میں آپ کی بیویاں ہوگی اور تمام مخلوق سے افضل مقام و مرتبہ میں حضور ﷺ کے ساتھ ہوں گی۔.
۔" ثم ذكر عدله وفضله في قوله: ( وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ )، أي: يطع الله ورسوله ويستجب ( نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا ) أي: في الجنة، فإنهن في منازل رسول الله صلى الله عليه وسلم، في أعلى عليين، فوق منازل جميع الخلائق، في الوسيلة التي هي أقرب منازل الجنة إلى العرش " انتهى من "تفسير ابن كثير" (6/408)  ۔  

(2) تمام صحابہ کرام جنتی ہیں اس کی بشارت قرآن میں بھی ہے اور احادیث میں بھی ہے ،اور یہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے ،حضرت مولانا ادریس کاندھلوی نے عقائد اسلام میں لکھاہے: صحابہ کرام اگر چہ انبیاء کی  طرح معصوم نہیں ہیں ، مگر خدا تعالی کا ان سے راضی ہونا اور جنت میں ان کا جانا قطعی اور یقینی ہے جس میں ذرہ برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیو ں کہ یہ دونوں باتیں رضائے خداوندی کا پروانہ اور جنت کی خوشخبری صحابہ کے لیے قرآن وحدیث سے ثابت ہیں ان کے علاوہ کسی کے لیے یہ دونوں باتیں قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہیں ،(عقائد اسلام ص:168)

وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {التوبة:100قال أبو محمد بن حزم رحمه الله: ثم نقطع على أن كل من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم بنية صادقة ولو ساعة، فإنه من أهل الجنة لا يدخل النار لتعذيب، إلا أنهم لا يلحقون بمن أسلم قبل الفتح، وذلك لقول الله عز وجل: لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح وقاتل أولئك أعظم درجة من الذين أنفقوا من بعد وقاتلوا وكلا وعد الله الحسنى. انتهى

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 39/1021

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرلینا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1713/43-1441

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وتر کی تیسری  رکعت میں دعائے قنوت بھول کر رکوع میں چلے جانے اور پھر یاد آنے پر واپس نہیں لوٹنا چاہیئے تھا بلکہ اخیر میں سجدہ سہو کرکے نماز مکمل ہوجاتی۔ لیکن اگر واپس  کھڑے ہوکر  دعائے قنوت پڑھ لی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوئی اورجب آخر میں سجدہ سہو کرلیا تو تلافی ہوگئی اوروتر  کی نماز درست  ہوگئی۔ لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کما لو سہا عن القنو ت فرکع فانہ لو عاد وقنت لاتفسد صلاتہ علی الاصح (شامی، ج:۲، ص: ۸۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند