اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:موت کی خبر پر اعلان کرکے فاتحہ خوانی کے لئے لوگوں کو جمع کرنے کی رسم اور اس کا التزام خلاف سنت اور مکروہ ہے(۱)، ہاں اہل میت اپنے خاص اعزاء واقرباء کو خبر دے کر دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کی درخواست کریں اور وہ لوگ کچھ پڑھ کر یا خیرات کرکے ثواب پہونچائیں اور دعائے مغفرت کریں اور دیگر رسوم کی قید کے بغیر اہل میت کے پاس آکر تعزیت کریں یعنی تسلی دیں، مثلاً: یہ کہیں کہ ’’أعظم اللّٰہ أجرک وأحسن عزائک وغفر لمیتک‘‘ یہ صورت جائز ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے انتقال پر خط سے تعزیت فرمائی تھی۔(۲)

(۱) من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزماً ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد، الفصل الأول‘‘: ج ۳، ص: ۲۶، رقم: ۹۴۶)
عن جریر بن عبد اللّٰہ قال: کنا نری الاجتماع إلی أہل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز: باب ما جاء في النہي عن الاجتماع  إلی أہل المیت‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیہ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
(۲) کتب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی معاذ بن جبل لما مات ولدہ سلام اللّٰہ علیک فإني أحمد اللّٰہ الذي لا إلہ إلا ہو أمل بعد فأعظم اللّٰہ لک الأجر وأہلک الصبر ورزقني وإیاک الشکر ثم إن أنفسنا وأموالنا وأہلینا وأولادنا من مواہب اللّٰہ المستودعۃ وعواریہ المستردۃ الخ۔ (الصغوري، نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس، ’’فصل في الصبر‘‘: ج ۱، ص: ۷۴)
(یکرہ) اتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقرآن للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص307

اسلامی عقائد

Ref. No. 2336/44-3517

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قرآن کریم کا احترام لازم ہے، اگر قرآن کے اوراق ناقابل استعمال ہوجائیں تو ان کو حفاظت کی غرض سے دفن کرنا جائز ہے، اور اس تدفین میں بھی احترام کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ لہذا  بغلی قبر کھود کر اس میں دفن کرنا بہتر ہےتاکہ مٹی ڈالنے میں اہانت کا شائبہ نہ ہو، اور اگر گڑھا کھود کر اس میں لکڑی لگادی جائے اور پھر مٹی ڈالی جائے تو بھی درست ہے۔ لکڑی لگانا ضروری تو نہیں ہے البتہ ایسی صورت اختیار کی جانی ضروری ہے کہ مٹی براہ راست قرآن پر نہ گرے کہ اہانت کا شبہہ پیدا ہو۔  اور اگرپاک کپڑے میں لپیٹ کر گڑھے میں ادب سے رکھ کر اس پر مٹی ڈال دی جائے تو بھی جائز ہے  کہ دفن کرنے والوں کے پیش نظر احترام ہے البتہ   بظاہر اہانت  کا  شبہہ ہے اس  وجہ سے مکروہ ہے۔  

"وفي الذخيرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراءة منه لايحرق بالنار، إليه أشار محمد، وبه نأخذ، ولايكره دفنه، وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة ويلحد له؛ لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إليه يد محدث ولا غبار ولا قذر تعظيماً لكلام الله عز وجل اهـ (رد المحتار - (6 / 422)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2515/45-3848

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں اگر شخص مذکور نے سلام پھیرنے کے بعد کوئی منافی صلاۃ کام نہیں کیا ہے تو آپ کے کھانسنے سے یا آپ کے کھڑے ہونے سے اس کو یاد آجائے اور وہ اپنی ایک رکعت پوری کرلے تو نماز درست ہوجائے گی، اعادہ کی ضروررت نہیں ہوگی، اور اگر منافی صلوۃ عمل پایاگیا  ،  مثلاً قبلہ کی طرف سے سینہ پھیرلیا یا آپ نے اس کو  بات چیت کے ذریعہ بتایا کہ آپ نے تین رکعتیں پڑھی ہیں تو اس صورت میں وہ نماز فاسد ہوجائے گی اور اس نماز کو از سر نو پڑھنا  ہی لازم ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 37 / 1050

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: انبیاء کے معصوم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اندر گناہ کی بالکلیہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں اور ان کے اندر بھی  بشری  تقاضے ہوتے ہیں مگر اللہ کی طرف سے ایسا نظام ہے کہ ان کی گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ اور انبیاء کرام گناہوں سے بچنے میں  بے اختیار نہیں ہیں بلکہ بااختیار ہیں، اوراپنے اختیار سے گناہوں سے بچنا یقینا کمال ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت کریمہ {اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰیہ۵ } آیات متشابہات میں سے ہے، جس کی متعینہ مراد صرف حق تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے۔ کسی شخص یا کسی جماعت کا اس آیت سے یہ سمجھنا کہ حق تعالیٰ شانہ کی ذات اور اس کا وجود عرش تک محدود ہے، البتہ اس کا علم ہر جگہ موجود ہے یہ قطعاً غلط ہے؛ کیونکہ حق تعالیٰ کی ذات و صفات محدود نہیں ہے، محدود ہونا تو مخلوق وممکن کی صفت ہے۔ حق تعالیٰ اور واجب الوجود اس سے منزہ اور بلند وبالا ہے؛ اس لئے یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے بالکل صحیح ہے اور حقیقت کے مطابق ہے، اس کی وجہ سے عقیدہ توحید میں ذرہ برابر بھی نقصان نہیں آتا، اگر کوئی شخص یا کوئی جماعت اس کو قرآن اور عقیدہ توحید کے خلاف کہے، تو وہ اس کی لاعلمی یا غلط فہمی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور حق تعالیٰ کی طرف سے مختلف کاموں کے لئے فرشتوں کو بھیجنا اور متعین کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ دنیاوی نظام کو اسباب کے ماتحت کیا گیا ہے، ورنہ حق تعالیٰ ان فرشتوں کے محتاج نہیں ہیں۔ (۱)

(۱) وأما الجہۃ والمکان فلا تجوز إثباتہا لہ تعالیٰ ونقول: إنہ تعالیٰ منزہ ومتعال عنہما وعن جمیع سمات الحدود۔ (خلیل السہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۳۹)

وہو شاہد علیکم أیہا الناس أینما کنتم یعلمکم ویعلم أعمالکم ومتقلبکم ومثواکم وہو علی عرشہ فوق السموات السبع۔ (أبو حیان،طبراني: ج ۲۷، ص: ۱۲۵)

ولا یتمکن في مکان لأن التمکن عبارۃ عن نفوذ بعد في آخر متوہم أو متحقق یسمونہ المکان إلخ … ولا یجري علیہ زمان إلخ۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیہ، ’’الدلیل علی کونہ تعالیٰ لا یوصف بالمائیۃ‘‘: ص: ۳۹)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی کسی بھی آیت کا اس طرح انکار کہ اسے اللہ کا کلام یا برحق نہ مانا جائے اور بلا کسی تاویل کے اس کا بالکلیہ انکار کر دیا جائے، یہ موجب ارتداد ہے اور قرآن کریم کے مطابق عمل نہ کرنا، موجب فسق ہے؛ اس لئے بشرط صحت سوال مذکورہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوگیا، اس کے ساتھ کسی طرح کا اسلامی تعلق، اسے کسی مدرسہ کا ذمہ دار بنانا اور اس سے اخوت کا برتاؤ جائز نہیں رہا۔ اس شخص پر واجب ہے کہ فوری طور پر اللہ تعالیٰ سے اپنے اس عظیم گناہ کی سچی توبہ کرے اور کلمہ توحید پڑھ کر اسلام میں داخل ہو؛ نیز لوگوں میں اپنی سچی توبہ کا اعلان کرے، اس کے بعد اس سے تعلقات جائز ہو جائیں گے۔ (۱)

نوٹ: اگر مذکورہ شخص کو کوئی شبہ ہو، تو قریبی علماء اس کے شبہ کو دور کرنے کی کوشش کریں اور ہر صورت میں اسے سمجھائیں۔

(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن واستخف بالقرآن أو بالمسجد أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیأ من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)

إذا أنکرالرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي الخزانۃ أو عاب فقد کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب السابع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

ویکفر إذا أنکر آیۃ من القرآن۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۰۵)

ومن جحد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ، أو آیۃ قلت: وکذا کلمۃ أو قراء ۃ متواترۃ، أو زعم أنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’فصل في القراء ۃ والصلاۃ‘‘: ص: ۲۷۸)

اسلامی عقائد

Ref. No. 2340/44-3521

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر مدرسہ میں غریب اور نادار طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اورمدرسہ ان کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کرتاہے اور  سرکاری رقم  ان کے اخراجات کےلئے  ناکافی ہے تو ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے عوام سے چندہ کرنا جائز ہے۔ اور ایسے مدرسہ میں چندہ دینا بھی جائز ہے۔ البتہ زکوۃ کی رقم  بغیر شرعی حیلہ تملیک کے،  تعمیرات اور تنخواہوں میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ 

لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين". (فتاوی عالمگیری(1/ 188،  کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مہروں کی معافی کا تعلق دل اور زبان سے ہے، میت کے کان میں کہنا کوئی ضرری نہیں، محض رسم ورواج بنا رکھا ہے، اگر مہر اداء یا معاف نہیں کیا گیا تو اس صورت میں مہر شوہر کے ذمہ واجب الاداء ہے، اور شوہر کے ترکہ میں سے پہلے بیوی کو مہر اور دیگر قرض کی ادائیگی ہوگی اس کے بعد وراثت تقسیم ہوگی اور دودھ معاف کرنے کی بھی رسم ہے، اس کی کوئی اصل شریعت اسلامیہ میں نہیں ہے اور نہ ہی اس کی معافی ہی شرعاً ضروری ہے؛ بلکہ ایسا کرنا جس سے کہ عورت پر ایک قسم کا دبائو ہو، جائز ہی نہیں ہے۔(۱)

(۱) {وَأٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ  نِحْلَۃً} (سورۃ النساء: ۴)
وتجب … عند وطء أو خلوۃ صحت من الزوج أو موت أحد ہما أو تزوج ثانیاً في العدۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب المہر‘‘: ج ۴، ص: ۲۳۳)
وإذا تأکد المہر بما ذکر لا یسقط بعد ذلک، وإن کانت الفرقۃ من قبلہا لأن البدل بعد تأکدہ لا یحتمل السقوط إلا بالإبراء۔ (’’أیضاً:‘‘)
والمہر یتأکد بأحد معان ثلاثۃ الدخول، والخلوۃ الصحیحۃ، وموت أحد الزوجین، سواء کان مسمی أو مہر المثل حتی لا یسقط منہ شيء بعد ذلک إلا بالإبراء  من صاحب الحق، کذا في البدائع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب النکاح: الباب السابع في المہر، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص410

اسلامی عقائد

Ref. No. 2671/45-4216

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر آپ کے شوہر نے آپ کو اور چار بچوں کو چھوڑا ہے اور والد کا بھی انتقال ہو چکا ہے تو صورت مذکورہ میں شوہر کی جائیداد میں آٹھواں حصہ آپ کا ہوگا اور اگر آپ کے شوہر کے والد زندہ ہیں تو ترکہ میں سے ان کا چھٹا حصہ اور آپ کے آٹھویں حصہ کے بعد مابقیہ کے پانچ حصے کرلئے جائیں، جن میں سے دو حصہ بیٹا کو اور ایک ایک حصہ تینوں بیٹیوں کو ملے گا پی ایف، گریجویٹی اور انشورنس کی رقم بھی مرحوم کا ترکہ ہے اس کو بھی باقی جائیداد میں شامل کر کے تقسیم کیا جائے گا، انشورنس میں جو رقم جمع کیا ہے وہ ترکہ ہوگا اور زائد رقم بلا نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے، نومنی میں بیوی کا نام ہے تو صرف بیوی تمام پیسوں کی مالک نہیں ہوگی، بلکہ تمام ورثہ اس میں شریک ہوں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1548/43-1054

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کتا اور بچھو دونوں ہی دشمن کی علامت ہیں۔ کالا کتا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ دشمن بہت قریبی ہے اور عزیز ترین ہے۔ اور یہ دیکھنا کہ بچھو کتے کو زخمی کر رہا ہے، یہ علامت ہے کہ خواب دیکھنے والے کے دو دشمن آپس میں متصادم و مخاصم ہوں گے، اور یہ شخص محفوظ رہے گا۔ صدقہ کے ذریعے تحفظ حاصل کریں۔ 

عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " باكروا بالصدقة، فإن البلاء لا يتخطى الصدقة " (شعب الایمان، التحریض علی صدقۃ التطوع 5/52)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند