اسلامی عقائد

Ref. No. 1452/42-911

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یتیم بچوں کی اعانت  کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایسا کرنا جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
DewaCash merupakan daftar situs agen idn slot and poker online terpercaya. Daftar Dewa Cash link judi terbaik and dapatkan bonus menarik, Minimal deposit Rp.10.000 http://bb-9ku.top

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر پہونچنے پر معلوم ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کون رشتہ دار ہے۔(۱)

(۱) اعلم أن مسئلۃ سماع الموتی وعدمہ من المسائل التی وقع الخلاف فیہا بین الصحابۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم فہذا عبد اللّٰہ بن عمر رضي للّٰہ تعالیٰ عنہما یثبت سماع الموتیٰ وہذہ أم المؤمنین عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا تنفیہ وإلی کل مالت طائفۃ من علماء الصحابۃ والتابعین۔ (أشرف علي تھانوي، أحکام القرآن: ج ۱، ص: ۱۶۳)
وقال ابن القیم رحمہ اللّٰہ: الأحادیث والأثار تدل علی أن الزائر متی جاء علم بہ المزور سمع سلامہ، وأنس بہ ورد علیہ، وہذا عام في الشہداء، وغیرہم۔ وأنہ لا توقیت في ذلک قال: وأصح من أثر الضحاک الدال علی التوقیت۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ص: ۶۲۰)
قولہ وقال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من أحد یمر بقبر أخیہ المؤمن کان یعرفہ في الدنیا فیسلم علیہ إلا عرفہ ورد علیہ السلام۔ (’’أیضاً:‘‘، ص: ۶۲۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص413

اسلامی عقائد

Ref. No. 2392/44-3623

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حج وعمرہ کے لئے احرام باندھنا شرط ہے، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے نماز کے لئے تکبیر تحریمہ، اس لئے احرام باندھتے وقت حج یا عمرہ کی نیت کرنے کے بعد تلبیہ پڑھنا یا اس کے قائم مقام کوئی ذکر کرنا فرض ہے، صرف نیت کرنے سے یا صرف تلبیہ پڑھنے سے آدمی محرم نہیں ہوتاہے، بلکہ نیت کے ساتھ تلبیہ یا بطور تعظیم کوئی ذکر مثلا لاالہ الا اللہ ، سبحان اللہ، الحمد للہ وغیرہ کہنا ضروری ہے، اس کے بغیر آدمی محرم نہیں ہوگا۔ اگر اسی حالت میں میقات میں داخل ہوا تو اس پر دم لازم ہوگا، البتہ اگر محرم احرام باندھتے وقت تلبیہ پڑھنا بھول جائےاور بعد میں میقات میں داخل ہونے سے پہلے تلبیہ پڑھ لے یا کوئی ذکر کرلے تو اس کا احرام درست ہوجائے گا، اور دَم لازم نہ ہوگا۔ اس لئے صورت مسئولہ میں اگر آپ نے نہ تلبیہ پڑھا اور نہ کوئی ذکر کیا جو اس کے قائم مقام ہو تو حج درست نہ ہو گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 1019

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف دیکھ لینے سے دوبارہ نکاح میں نہیں آجائے گی۔ شہوت کے ساتھ شرمگاہ دیکھنے  یا بو س و کنار کرنے سے رجعت ہوتی ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نفس قرأت قرآن کریم کے ذریعہ ایصال ثواب مستحسن ہے(۱)؛ لیکن چنوں اور دانوں پر فاتحہ کا التزام بلا شبہ بدعت ہے، ان کا ترک لازم ہے، پڑھے ہوئے چنے اگر نذر ومنت کے ہوں، تو مالداروں کو ان کا کھانا جائز نہیں ہے۔ (۲)

(۱) من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز وثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في القرأۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۲)
فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
(۲) أشرف علي تھانوي -رحمۃ اللّٰہ علیہ-، إمداد الفتاویٰ: ج ۵، ص: ۳۶۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص308

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر پہونچتے ہی فوراً پڑھنا شروع کردیں یا وقفہ سے پڑھیں دونوں صورتیں جائز اور درست ہیں اور سلام کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ ’’السلام علیکم  یا أہل القبور‘‘۔(۱)

(۱) مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الجنائز: باب زیارۃ القبور، الفصل الثاني: ج ۱، ص: ۱۵۴، رقم: ۱۷۶۵۔
قولہ ویقرأ یٰس لما ورد: من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰس خفف اللّٰہ عنہم یومئذ وکان لہ بعدد من فیہا حسنات۔ بحر وفي شرح اللباب ویقرأ من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار، مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱ )
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، أنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰس یعني أہدی ثوابہا للأموات خفف اللّٰہ عنہم یومئذ العذاب ورفعہ۔ (مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص414

اسلامی عقائد

Ref. No. 2526/45-3927

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ نے ثافی لکھا ہے، اس کا معنی معلوم نہیں ہے، کوئی دوسرا نام جس کا اچھا معنی ہو ، رکھ لیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2631/45-4042

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   ماہ رجب یا شعبان ؁ ٢ ہجری کو نماز ظہر میں تحویل قبلہ کا حکم اس جگہ آیا جہاں آج مسجد قبلتین موجود ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنو حارثہ سے تعلق رکھنے والے انصاری صحابی حضرت بشر بن البراء بن معرور کے گھر دعوت تھی حضرت بشر کے والد براء اور الدہ ام بشر کو بھی صحابیت کا شرف حاصل ہے ظہر کی دو رکعت پڑھا چکے تھے کہ سورہ بقرہ کی آیت ’’قد نری تقلب وجہک فی السماء الخ‘‘ نازل ہوئی، اس وقت آپ نے دوران نماز اپنا رخ تبدیل فرمایا۔

حضرت ابو بشر البراء بن معرور کہا کرتے تھے کہ خدا گواہ ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نماز پڑھی ہے جس کے آغاز میں قبلہ بیت المقدس تھا اور اختتام پر بیت اللہ قبلہ بن چکا تھا۔ (طبقات ابن سعد: ج ١،ص: ٢٤١،٢٤٢)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللہ التوفیق۔ تمام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے، اور ہر چیز اس کے علم میں ہے، لایعزب عنہ مثقال ذرة فی السموات والارض ولااصغر من ذلک ولا اکبر الا فی کتاب مبین۔  اللہ تعالی کے لئے کوئی مخصوص جگہ متعین نہیں، ، وہ ذات کسی مکان کی محتاج نہیں وہ تو واجب الوجود اور قدیم ہے، اور مکان وزمان وغیرہ حادث ہیں، اور بعض نصوص میں جو کسی خاص مکان کا ذکر ہے، تو اس سے مراد اس جگہ پر اللہ تعالی کی کسی خاص صفت کا غلبہ ہونا ہے، یا یہ کہ وہ جگہ اللہ تعالی کی خصوصی تجلیات کا مظہر ہے- وھو اللہ فی السموات وفی الارض – انہ سبحانہ وتعالی لکمال علمہ بمافیھا کٲنہ فیھا ﴿بیضاوی شریف﴾ استواء علی العرش سے بھی وہاں پراللہ تعالی کی خصوصی تجلی کا ہونا ہی مراد ہے، نہ یہ کہ وہ جگہ اللہ تعالی کے لئے محیط  ہے، شرح عقائد نسفی۔ واللہ اعلم