Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نفس قرأت قرآن کریم کے ذریعہ ایصال ثواب مستحسن ہے(۱)؛ لیکن چنوں اور دانوں پر فاتحہ کا التزام بلا شبہ بدعت ہے، ان کا ترک لازم ہے، پڑھے ہوئے چنے اگر نذر ومنت کے ہوں، تو مالداروں کو ان کا کھانا جائز نہیں ہے۔ (۲)
(۱) من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز وثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في القرأۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۲)
فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
(۲) أشرف علي تھانوي -رحمۃ اللّٰہ علیہ-، إمداد الفتاویٰ: ج ۵، ص: ۳۶۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص308
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر پہونچتے ہی فوراً پڑھنا شروع کردیں یا وقفہ سے پڑھیں دونوں صورتیں جائز اور درست ہیں اور سلام کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ ’’السلام علیکم یا أہل القبور‘‘۔(۱)
(۱) مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الجنائز: باب زیارۃ القبور، الفصل الثاني: ج ۱، ص: ۱۵۴، رقم: ۱۷۶۵۔
قولہ ویقرأ یٰس لما ورد: من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰس خفف اللّٰہ عنہم یومئذ وکان لہ بعدد من فیہا حسنات۔ بحر وفي شرح اللباب ویقرأ من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار، مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱ )
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، أنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰس یعني أہدی ثوابہا للأموات خفف اللّٰہ عنہم یومئذ العذاب ورفعہ۔ (مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص414
اسلامی عقائد
Ref. No. 2526/45-3927
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ثافی لکھا ہے، اس کا معنی معلوم نہیں ہے، کوئی دوسرا نام جس کا اچھا معنی ہو ، رکھ لیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2631/45-4042
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماہ رجب یا شعبان ٢ ہجری کو نماز ظہر میں تحویل قبلہ کا حکم اس جگہ آیا جہاں آج مسجد قبلتین موجود ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنو حارثہ سے تعلق رکھنے والے انصاری صحابی حضرت بشر بن البراء بن معرور کے گھر دعوت تھی حضرت بشر کے والد براء اور الدہ ام بشر کو بھی صحابیت کا شرف حاصل ہے ظہر کی دو رکعت پڑھا چکے تھے کہ سورہ بقرہ کی آیت ’’قد نری تقلب وجہک فی السماء الخ‘‘ نازل ہوئی، اس وقت آپ نے دوران نماز اپنا رخ تبدیل فرمایا۔
حضرت ابو بشر البراء بن معرور کہا کرتے تھے کہ خدا گواہ ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نماز پڑھی ہے جس کے آغاز میں قبلہ بیت المقدس تھا اور اختتام پر بیت اللہ قبلہ بن چکا تھا۔ (طبقات ابن سعد: ج ١،ص: ٢٤١،٢٤٢)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللہ التوفیق۔ تمام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے، اور ہر چیز اس کے علم میں ہے، لایعزب عنہ مثقال ذرة فی السموات والارض ولااصغر من ذلک ولا اکبر الا فی کتاب مبین۔ اللہ تعالی کے لئے کوئی مخصوص جگہ متعین نہیں، ، وہ ذات کسی مکان کی محتاج نہیں وہ تو واجب الوجود اور قدیم ہے، اور مکان وزمان وغیرہ حادث ہیں، اور بعض نصوص میں جو کسی خاص مکان کا ذکر ہے، تو اس سے مراد اس جگہ پر اللہ تعالی کی کسی خاص صفت کا غلبہ ہونا ہے، یا یہ کہ وہ جگہ اللہ تعالی کی خصوصی تجلیات کا مظہر ہے- وھو اللہ فی السموات وفی الارض – انہ سبحانہ وتعالی لکمال علمہ بمافیھا کٲنہ فیھا ﴿بیضاوی شریف﴾ استواء علی العرش سے بھی وہاں پراللہ تعالی کی خصوصی تجلی کا ہونا ہی مراد ہے، نہ یہ کہ وہ جگہ اللہ تعالی کے لئے محیط ہے، شرح عقائد نسفی۔ واللہ اعلم
اسلامی عقائد
Ref. No. 1426/42-869
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دعا کی قبولیت کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں، اس لئے جو دعا مانگی جائے بعینہ وہ قبول ہوکرمشاہدہ میں آجائے یہ ضروری نہیں ہے۔ مذکور شخص کا غصہ کی حالت میں بولاگیا جملہ کفریہ ہے۔ اس سے توبہ کرنا ضروری ہے، اور اس میں تجدید ایمان کے بعد تجدید نکاح بھی لازم ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1549/43-1052
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوتیلی ماں ہمیشہ کے لئے محرم ہے، باپ کے طلاق دینے کے بعد بھی وہ محرم ہے، پوری زندگی میں اس کے ساتھ کبھی بھی کسی سوتیلے لڑکےکا نکاح نہیں ہوسکتاہے۔ البتہ سوتیلی ماں کا خرچ از روئے شرع آپ پر لازم نہیں ہے، ہاں اگر وہ ضرورتمند ہے تو اس کے ساتھ حسن سلوک کے طور پر اپنی حیثیت کے بقدر خرچ کرنا چاہئے۔آپ نے جس عورت سے شادی کرلی اور اس کے ساتھ صحبت بھی کرلی تو اس بیوی کی پہلے شوہر سے موجود اولاد آپ کے لئے ہمیشہ کے لئے محرم ہوگئی، اور اس سلسلہ میں اس کی اولاد اپنی اولاد جیسی ہوگئی جن سے کبھی بھی نکاح نہیں ہوسکتاہے، تاہم ان کا خرچ آپ پر لازم نہیں ہے بلکہ ان کے باپ پر لازم ہے جو زندہ ہے کہ وہ ان کا خرچ برداشت کرے، اگر وہ زندہ نہ ہو تو بھی آپ پر ان بچیوں کا خرچ نہیں آئے گا۔اور بیوی جب تک آپ کے نکاح میں ہے، بیوی کا خرچ تو آپ کے ذمہ ہی رہے گا، سابقہ شوہر پر اس عورت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اوراگر آپ نے اس بیوی کو طلاق دیدی تو بھی ان بچیوں کا خرچ ان کے والد کے ذمہ ہی رہے گا،آپ کے ذمہ نہیں آئے گا۔ علاوہ ازیں آگر آپ ازراہ حسن سلوک حسب حیثیت ان کو کچھ دیدیں یا ان کا خرچ برداشت کریں تو یہ اچھی بات ہوگی اور عنداللہ ماجور ہوں گے ان شاء اللہ۔
{ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء} [سورۃ النساء: 22] وقوله تعالى : ( ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء [ إلا ما قد سلف إنه كان فاحشة ومقتا وساء سبيلا ] ) يحرم تعالى زوجات الآباء تكرمة لهم ، وإعظاما واحتراما أن توطأ من بعده ، حتى إنها لتحرم على الابن بمجرد العقد عليها ، وهذا أمر مجمع عليه (تفسیر ابن کثیر سلامۃ، 2/245، الباب 20، سورۃ النساء الآیۃ 22)
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة" ۔۔۔۔۔"و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد". ۔۔۔۔۔ "الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة". (الھندیۃ، الفصل الرابع في نفقة الأولاد 1/560-562 ط: رشيدية)
وأما الربيبة وهي بنت المرأة فلا تحرم بمجرد العقد على أمها حتى يدخل بها، فإن طلق الأم قبل الدخول بها جاز له أن يتزوج بنتها، ولهذا قال: {وربائبكم اللاتي في حجوركم من نسائكم اللاتي دخلتم بهن فإن لم تكونوا دخلتم بهن فلا جناح عليكم} [أي] (12) في تزويجهن، فهذا خاص بالربائب وحدهن (تفسیر ابن کثیر سلامۃ 2/249 الباب 24 سورۃ النساء الآیۃ 23)
مطلب. الكلام على نفقة الأقارب (قوله ورجع على الأب إذا أيسر) في جوامع الفقه: إذا لم يكن للأب مال والجد أو الأم أو الخال أو العم موسر يجبر على نفقة الصغير ويرجع بها على الأب إذا أيسر، وكذا يجبر الأبعد إذا غاب الأقرب؛ فإن كان له أم موسرة فنفقته عليها؛ وكذا إن لم يكن له أب إلا أنها ترجع في الأول. اهـ فتح. قلت: وهذا هو الموافق لما يأتي من أنه لا يشارك الأب في نفقة أولاده أحد (شامی، مطلب الصغیر والمکتسب نفقۃ فی کسبہ 3/613)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2337/44-3518
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نیچے والی ٹنکی کے ناپاک ہونے کی وجہ سے اوپر والی ٹنکی کا پانی ناپاک نہیں ہوگا، کیونکہ نیچے والی ٹنکی کا پانی اوپر نہیں جاتاہے، صرف دونوں کا ایک پائپ سے جڑا ہونا ناپاک ہونے کے لئے کافی نہیں ہے؛اگر اوپر سے آنے والا پاک پانی نیچے والی ٹنکی کے ناپاک پانی سے پائپ میں جمع ہوکر نکلتاہے تو پھر یہ پانی بلاشبہ ناپاک ہوگا۔ اگر پائپ کسی جگہ ٹوٹا ہوا ہو تو اس کا جو پانی باہر کی جانب ہوتاہے وہ اندر نہیں جاتا، اس لئے اگر اس ٹوٹی جگہ پر کوئی نجاست گرے تو غالب یہ ہے کہ نجاست کا اثر پانی کے ساتھ باہر ہی رہ جائے گا، اندر سرایت نہیں کرے گا، اس لئے اس کی وجہ سے اس پائپ کا پانی ناپاک قرار نہیں دیاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ فاتحہ کا التزام بدعت ہے(۱)؛ البتہ سورۂ فاتحہ یا کسی اور سورۃ کو پڑھ کر ایصال ثواب کردیا جائے،(۲) اس میں مردے کا نام کافی ہے، ماں باپ کا نام لینا ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سب کا علم ہے۔ تاہم نام لے بھی لیا تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۳)
(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
(یکرہ) اتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقرآن للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
(۲) للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أو صوماً أو صدقۃ أو غیرہا۔ (أیضاً: مطلب: في القراء ۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
(۳) {إِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِہ۳۸ } (سورۃ الفاطر: ۳۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص309
اسلامی عقائد
Ref. No. 39 / 1022
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 1۔فرشتے نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، وہ تمام بشری تقاضوں سے پاک ہوتے ہیں۔ 2۔ اس بات کا ہمیں حتمی علم نہیں، قرآن میں فرمایا کہ وعلم آدم الاسماء کلھا کہ ہم نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔ واللہ اعلم بالصواب
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند