اسلامی عقائد

Ref. No. 1426/42-869

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دعا کی قبولیت کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں، اس لئے جو دعا مانگی جائے بعینہ وہ قبول ہوکرمشاہدہ میں آجائے یہ ضروری نہیں ہے۔ مذکور شخص کا غصہ کی حالت میں بولاگیا جملہ کفریہ ہے۔ اس سے توبہ کرنا ضروری ہے، اور اس میں تجدید ایمان کے بعد تجدید نکاح بھی لازم ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1549/43-1052

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوتیلی ماں   ہمیشہ کے لئے محرم ہے، باپ کے طلاق دینے کے بعد بھی وہ محرم ہے، پوری زندگی میں اس کے ساتھ کبھی بھی کسی سوتیلے لڑکےکا نکاح نہیں ہوسکتاہے۔  البتہ سوتیلی ماں کا خرچ از روئے شرع آپ پر لازم نہیں ہے، ہاں اگر وہ ضرورتمند ہے  تو اس کے ساتھ حسن سلوک  کے طور پر اپنی حیثیت کے بقدر خرچ کرنا چاہئے۔آپ نے جس عورت سے شادی کرلی اور اس کے ساتھ صحبت بھی کرلی تو اس  بیوی کی پہلے شوہر سے موجود اولاد آپ کے لئے  ہمیشہ کے لئے محرم ہوگئی، اور اس سلسلہ میں اس کی اولاد اپنی اولاد جیسی ہوگئی جن سے کبھی بھی نکاح نہیں ہوسکتاہے، تاہم ان کا خرچ آپ پر لازم نہیں ہے بلکہ ان کے باپ پر لازم ہے جو زندہ ہے کہ وہ ان کا خرچ برداشت کرے، اگر وہ زندہ نہ ہو تو بھی آپ پر ان بچیوں کا خرچ نہیں آئے گا۔اور بیوی جب تک آپ کے نکاح میں ہے، بیوی کا خرچ تو آپ کے ذمہ ہی رہے گا، سابقہ شوہر پر اس عورت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اوراگر آپ نے اس بیوی کو طلاق دیدی تو بھی ان بچیوں کا خرچ ان کے والد کے ذمہ ہی رہے گا،آپ کے ذمہ نہیں آئے گا۔ علاوہ ازیں آگر آپ ازراہ حسن سلوک حسب حیثیت ان کو کچھ دیدیں یا ان کا خرچ برداشت کریں تو یہ اچھی بات ہوگی اور عنداللہ ماجور ہوں گے ان شاء اللہ۔

{ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء} [سورۃ النساء: 22] وقوله تعالى : ( ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء [ إلا ما قد سلف إنه كان فاحشة ومقتا وساء سبيلا ] ) يحرم تعالى زوجات الآباء تكرمة لهم ، وإعظاما واحتراما أن توطأ من بعده ، حتى إنها لتحرم على الابن بمجرد العقد عليها ، وهذا أمر مجمع عليه (تفسیر ابن کثیر سلامۃ، 2/245، الباب 20، سورۃ النساء الآیۃ 22)

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة" ۔۔۔۔۔"و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد". ۔۔۔۔۔ "الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة". (الھندیۃ، الفصل الرابع في نفقة الأولاد 1/560-562 ط: رشيدية)

وأما الربيبة وهي بنت المرأة فلا تحرم بمجرد العقد على أمها حتى يدخل بها، فإن طلق الأم قبل الدخول بها جاز له أن يتزوج بنتها، ولهذا قال: {وربائبكم اللاتي في حجوركم من نسائكم اللاتي دخلتم بهن فإن لم تكونوا دخلتم بهن فلا جناح عليكم} [أي] (12) في تزويجهن، فهذا خاص بالربائب وحدهن (تفسیر ابن کثیر سلامۃ 2/249 الباب 24 سورۃ النساء الآیۃ 23)

مطلب. الكلام على نفقة الأقارب (قوله ورجع على الأب إذا أيسر) في جوامع الفقه: إذا لم يكن للأب مال والجد أو الأم أو الخال أو العم موسر يجبر على نفقة الصغير ويرجع بها على الأب إذا أيسر، وكذا يجبر الأبعد إذا غاب الأقرب؛ فإن كان له أم موسرة فنفقته عليها؛ وكذا إن لم يكن له أب إلا أنها ترجع في الأول. اهـ فتح. قلت: وهذا هو الموافق لما يأتي من أنه لا يشارك الأب في نفقة أولاده أحد (شامی، مطلب الصغیر والمکتسب نفقۃ فی کسبہ 3/613)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2337/44-3518

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نیچے والی ٹنکی  کے ناپاک ہونے کی وجہ سے اوپر والی ٹنکی کا پانی  ناپاک نہیں ہوگا، کیونکہ نیچے والی ٹنکی کا پانی اوپر نہیں جاتاہے، صرف دونوں کا ایک پائپ سے جڑا ہونا ناپاک ہونے کے لئے کافی نہیں  ہے؛اگر اوپر سے آنے والا پاک پانی نیچے والی ٹنکی کے ناپاک پانی سے پائپ میں جمع ہوکر نکلتاہے تو پھر یہ پانی بلاشبہ ناپاک ہوگا۔ اگر پائپ کسی جگہ ٹوٹا ہوا ہو تو اس کا جو پانی باہر کی جانب ہوتاہے وہ اندر نہیں جاتا، اس لئے اگر اس  ٹوٹی جگہ پر کوئی نجاست گرے تو غالب یہ ہے کہ نجاست کا اثر پانی کے ساتھ باہر ہی رہ جائے گا، اندر سرایت نہیں کرے گا، اس لئے اس کی وجہ سے اس پائپ کا پانی ناپاک قرار نہیں دیاجائے گا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ فاتحہ کا التزام بدعت ہے(۱)؛ البتہ سورۂ فاتحہ یا کسی اور سورۃ کو پڑھ کر ایصال ثواب کردیا جائے،(۲) اس میں مردے کا نام کافی ہے، ماں باپ کا نام لینا ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سب کا علم ہے۔ تاہم نام لے بھی لیا تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۳)

(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
(یکرہ) اتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقرآن للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
(۲) للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أو صوماً أو صدقۃ أو غیرہا۔ (أیضاً: مطلب: في القراء ۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
(۳) {إِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِہ۳۸ } (سورۃ الفاطر: ۳۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص309

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 1022

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 1۔فرشتے نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، وہ تمام بشری تقاضوں سے پاک ہوتے ہیں۔ 2۔ اس بات کا ہمیں حتمی  علم نہیں، قرآن میں فرمایا کہ وعلم آدم الاسماء کلھا کہ ہم نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 895/41-15B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو غیرمسلم ہمیں ہماری عید وغیرہ کے موقع پر مبارکبادی دیتے ہیں، ان کو ان کے تہوار میں رسمی طور پر مبارکباردی پیش کرنے  کی گنجائش ہے۔  تاہم ان کے مذہبی رسومات میں کسی قسم کی شرکت یا اس سے رضامندی کا اظہار درست نہیں ہے۔

ویھدی المجوس یوم النیروز من اطعمتھم الاشراف ومن کان لھم معرفۃ لایحل اخذ ذلک علی وجہ الموافقۃ معھم وان اخذہ لاعلی ذلک الوجہ لاباس بہ والاحتراز اسلم۔ (الفتاوی البزازیۃ علی ھامشۃ الھندیۃ 333)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1451/42-937

الجواب وباللہ التوفیق:

بسم اللہ الرحمن ا لرحیم:۔خواب میں سانپ کو دیکھنا عاطور پر دشمنی کی علامت ہوتی ہے سانپ دیکھنے والے کا کوئی دشمن ہے جو نقصان پہونچانا چاہتا ہے،لیکن آپ کی بیوی کو خواب میں سانپ نے کوئی نقصان نہیں پہونچایا، اس سے اشارہ اس جانب ہے کہ دشمن کا آپ کی بیوی پر غلبہ نہیں ہوگا،آئندہ جب کبھی براخواب دیکھیں تو "اعوذ باللہ من شرھا" یا "اعوذ باللہ من الشیطان الر جیم" پڑھ لیا کریں،نیز بڑوں سے منقول ہے کہ ایسے موقع پر صدقات وغیرہ بھی کردئیے جائیں تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ قرآن خوانی خود بدعت ہے(۱)، البتہ اگر بلاالتزام واہتمام کچھ حضرات بغیر لالچ طعام وغیرہ کے محض اخلاصِ قلب کے ساتھ قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردیں تو مضائقہ نہیں(۲)، جمعہ کے لئے بلانے کا التزام بھی نہ کرنا چاہئے کہ اذانِ جمعہ اس کے لئے کافی ہے۔(۳)

(۱) (یکرہ) اتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقرآن للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
(۲) للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أو صوماً أو صدقۃ أو غیرہا۔ (أیضاً: مطلب: في القراء ۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
(۳) لا ینبغي لأحد أن یقول لمن فوقہ في العلم والجاہ حان وقت الصلاۃ سوی المؤذن، لأنہ استفضال لنفسہ، قلت: وہذا خاص بالتثویب للأمیر ونحوہ علی قول أبي یوسف رحمہ اللہّٰ فأفہم۔ (أیضاً: ’’باب الأذان، مطلب: في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص310

اسلامی عقائد

Ref. No. 1551/43-1056

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جو جانور گھر کاپلاہوا ہو یا خریدتے وقت قربانی کی نیت نہ ہو بلکہ بعد میں قربانی کی نیت کی ہو  تو وہ جانور قربانی کے لیے متعین نہیں ہوگا، اس لیے اس  جانور کا دودھ پینا درست ہے۔ اس میں امیر و غریب سب برابر ہیں۔

جو جانور ایام قربانی سے پہلے خریدا گیا اس کی جگہ دوسرا جانور کم قیمت میں خریدنا جائزہے۔   اور جو رقم بچ گئی اس کو اپنے ذاتی استعمال میں لا سکتاہے، اور اس میں غنی و فقیر سب برابر ہیں۔  ایام قربانی میں اگر غریب نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اب اس کو بیچنا جائز نہیں، اگر بیچا تو باقی رقم صدقہ کرے۔

ولو کان فی ملک انسان شاۃ فنوی ان یضحی بھا او اشتری شاۃ ولم ینو الاضحیۃ وقت الشراء ثم نوی بعد ذالک ان یضحی بھا لا یجب علیہ سواء کان غنیا او فقیرا لان النیۃ لم تقارن الشراء فلا تعتبر (بدائع الصنائع کتاب الاضحیۃ 6/276)

ولو حلب اللبن من الأضحية قبل الذبح أو جز صوفها يتصدق به، ولا ينتفع به، كذا في الظهيرية. وإذا ذبحها في وقتها جاز له أن يحلب لبنها ويجز صوفها وينتفع به؛ لأن القربة أقيمت بالذبح، والانتفاع بعد إقامة القربة مطلق كالأكل، كذا في المحيط.

وإن كان في ضرعها لبن ويخاف ينضح ضرعها بالماء البارد، فإن تقلص وإلا حلب وتصدق، ويكره ركوبها واستعمالها كما في الهدي، فإن فعل فنقصها فعليه التصدق بما نقص، وإن آجرها تصدق بأجرها، ولو اشترى بقرة حلوبة وأوجبها أضحية فاكتسب مالا من لبنها يتصدق بمثل ما اكتسب ويتصدق بروثها، فإن كان يعلفها فما اكتسب من لبنها أو انتفع من روثها فهو له، ولا يتصدق بشيء، كذا في محيط السرخسي. (الھندیۃ، الباب السادس فی بیان ما یستحب فی الاضحیۃ 5/301) وإن حلب اللبن من الأضحية قبل الذبح أو جز صوفها يتصدق بهما ولا ينتفع بهما اهـ. وقال في البدائع وإن انتفع تصدق بمثله وإن تصدق بقيمته جاز (درر الحکام شرح غرر الاحکام، ما یصح للاضحیۃ 1/270)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جمعرات، جمعہ، ہفتہ اور پیر کے دن قبرستان جانا افضل ہے اور کسی بھی دن کسی بھی وقت جانا جائز ہے(۱) اور شامی میں ان ایام کو افضل لکھا ہے، ایک جگہ کھڑے ہوکر سب کو ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے۔(۲)

(۱) إلا أن الأفضل یوم الجمعۃ والسبت والإثنین والخمیس۔(ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
(۲) سئل ابن حجر المکي عما لو قرأ لأہل المقبرۃ الفاتحۃ ہل یقسم الثواب بینہم أو یصل لکل منہم ثواب ذلک کاملاً فأجاب بأنہ أفتی جمع بالثاني وہو اللائق۔(ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في القراء ۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص311