اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جن تقریبات میں گانے باجے ہوں، وہاں جانا گناہ ہے، اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے {فَلاَ  تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَہ۶۸}(۱)  کہ معلوم ہوجانے کے بعد ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھو اور فقہاء لکھتے ہیں ’’إن الملاہي کلہا حرام‘‘(۲) اور لکھتے ہیں ’’ولو علم قبل الحضور لا یحضر‘‘ یعنی اگر لہو لعب اور گانے بجانے کی اطلاع پہلے ہوجائے، تو ایسی دعوت میں نہ جائے۔ اگر جائے گا، تو گنہگار ہوگا۔(۳)

(۱) سورۃ الأنعام: ۶۸۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص:۲ ۳۔
(۳) ’’لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام، کل لہو المسلم حرام‘‘۔ والإطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعہ کالرقص والسخریۃ والتصفیق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنہا کلہا مکروہۃ لأنہا زي الکفار۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۶۰)
السماع والقول والرقص الذي یفعلہ المتصوفۃ في زماننا حرام، لا یجوز القصد إلیہ والجلوس علیہ وہو والغناء والمزامیر سواء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السابع في الغناء واللہو‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص448

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت تہوار نہیں ہے اس رات کو تہوار کے طور پر منانا بدعت ہے (۱) بلکہ بابرکت رات ہے اس میں اللہ کا ذکر، قرآن کریم کی تلاوت، گناہوں سے توبہ و استغفار، نماز وغیرہ دعائے خیر کرنی چاہئے اگلے روز روزہ بھی مستحب ہے۔(۲)

(۱) ومنہا وضع الحدود والتزام الکیفیات والہیئات والمعینۃ والتزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعین في الشریعۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، الاعتصام ، ’’الباب الأول في تعریف البدع إلخ‘‘: ج ۱، ص: ۳۹)
(۲) عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص496

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ سوال میں جن رسوم کا تذکرہ ہے، وہ بلاشبہ غیر اصولی رسوم ہیں، اس قسم کی رسوم پر عمل کرنا بسا اوقات گناہ کبیرہ تک پہنچادیتا ہے، پس مذکورہ صورت میں جو رسم ذکر کی گئی ہے کہ اگر بغیر چالے کے لڑکی شوہر کے گھر جا کر پندرہ دن رہے اور وہاں شوہر اس سے صحبت کرے تو اس صحبت کو بھی حرام سمجھا جاتا ہے اور بچہ کو بھی برادری کے لوگ حرام سمجھتے ہیں؛ حالاںکہ وہ شریعت اسلامیہ کی رو سے حلال ہے۔ (۱) پس برادری کے لوگوں کو ایسی رسم جاری کرنا بھی گناہ اور صحبت اور بچے دونوں کو حرام سمجھنا بھی گناہ در گناہ ہے اور برادری کے چودھری جو ان رسوم کو بتلاتے ہیں، وہ بھی سخت گناہگار ہیں۔ نکاح کے بعد لڑکی کو روکنا، رسوم کی پابندی کرنا اور شوہر کا بیوی سے جدا رہنا، یہ سب رسوم گناہ کا باعث ہیں؛ بلکہ مذکورہ رسوم پر عمل کرنا گناہ کبیرہ ہے اور اس رسم کو ختم کرنا باعث ثواب ہے۔(۱)

(۱) {ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَہ۸۷} (سورۃ المائدہ: ۸۷) (۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ما أحدث مما یخالف الکتاب أو السنۃ أو الأثر أو الإجماع فہو ضلالۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص449

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب معراج کی کوئی حتمی تاریخ ثابت نہیں ہے، اور نہ اس میں عبادت کرنی ثابت ہے،(۳) البتہ شب قدر،(۴) شب براء ت،(۵) عنداللہ بہت متبرک ہیں اور ان راتوں میں جتنی عبادت کی جائے باعث اجر و ثواب ہے؛ لیکن نوافل با جماعت نہ پڑھنی چاہئیں کیوںکہ وہ بدعت اورمکروہ ہے۔(۱)

(۳) إنا لم نجد فی کتب الأحادیث لا إثباتا ولا نفیا ما اشتہر بینہم من تخصیص الخامس عشر من رجب بالتعظیم والصوم والصلاۃ۔ (ما تثبت بالسنۃ: ص: ۱۹۲)
(۴) {إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ہجصلے   ۱  لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۵لا خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَھْرٍہ۳ط ؔ} (سورۃ القدر: ۱، ۳)
(۵) إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ص: ۱۱۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص497

اسلامی عقائد

Ref. No. 2484/45-3772

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روٹی کو اس طرح باندھنے کی گنجائش ہے، تاہم کوئی اور طریقہ علاج استعمال کیا جائے تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1761/43-1493

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جنت  کے معنی ٹھیک ہیں ، اس لئے نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم کسی صحابی اور کسی بزرگ نے اپنی بیٹی کا نام اس طرح نہیں  رکھا، حدیث میں اس کی نظیر بھی نہیں ملتی ہے، اس لئے  بہتر ہے کہ کسی صحابیہ کے نام پر بیٹیوں کا نام رکھاجائے۔   جنت کے معنی باغ کے ہیں اور آخرت میں ایمان والوں کا جو مسکن ہے اس کو جنت کہتے ہیں۔  

الجنۃ: الحدیقۃ ذات النخل والشجر ، الجنۃ: البستان، الجنۃ: دارالنعیم فی الاخرۃ، والجمع جنان (معجم الوسیط)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہندوستان میں بہت کثرت سے وہ برا در یاں اور خاندان ہیں، جن کے اجداد اور بزرگوں نے سیکڑوں سال قبل عارفین باللہ اور صوفیائے کرام کی تعلیمات، اخلاق، رواداری اور بزرگی سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ان بزرگوں نے ان کو ذکر واشغال (جو صوفیائے کرام کا معمول تھا) اور فرائض وواجبات، سنن ونوافل تو ان کو بتلائے اور عمل بھی کرایا؛ لیکن ان میں جو برادری اور خاندانی رسم ورواج تھے ان کے بارے میں ان کو ہدایت نہیں دی جاسکی، چوںکہ برادری اور خاندان کی غیر مسلموں سے قربت اور قرابت تو تھی ہی؛ اس لیے وہ مشرکانہ رسمیں ان میں باقی رہیں اور سماجی اصلاح کی طرف علماء نے بھی خصوصی توجہ نہیں دی، جس کا اثر یہ ہے کہ وہ رسمیں اب بھی مسلم خاندانوں میں چلی آرہی ہیں اور بعض علماء کی غلط روش سے بدعات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ باہر سے جومسلمان آئے اور مستقل باشندے اور ملکی ہوگئے، اختلاط کی وجہ سے وہ خاندان بھی ان رسموں اور بدعات سے نہ بچ سکے اور عام ابتلاء ہوگیا۔
نکاح وشادی کرنی نئی چیز یا نئی ایجاد نہیں، فقہائے اسلام نے اس کو عبادت میں شمار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صورتوں میں نکاح کرنا فرض ہے، بعض صورتوں میںواجب یا سنت اور بعض صورتوں میں مکروہ بھی ہے اور حرام بھی، نکاح اور تقریبات شادی کے موقع پر جو طریقہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین یا علماء وصوفیاء اور مقتدائوں نے اپنایا اور اختیار کیا ہو وہ اسلامی طریقہ ہی نہیں؛ بلکہ ایک ضابطہ ہے، جس پر مسلمانوں کو عمل کرنا ضروری ہے، نیوتہ کی رسم اسلامی رسم نہیں، یہ برادریوں کی رسم ہے، ایک نے اگر دیا ہے، تو دوسرے کو بھی دینا پڑتا ہے، یہ گویا ایک ہلکے قسم کا قرض ہوتا ہے، نیت امداد کی ہو، تو اس کو مباح کہہ سکتے ہیں؛(۱) لیکن اس رسم کو تو ضروری قرار دیا گیا ہے، اس لئے بدعت بن جاتا ہے، بدعت سے بچنا اور بچانا ضروری ہے۔

۱) لیس لنا عبادۃ شرعت من عہد آدم إلی الآن ثم تستمر في الجنۃ إلا النکاح والإیمان۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح‘‘: ج ۴، ص:۵۷)
وفي الفتاوی الخیریۃ: سئل فیما یرسلہ الشخص إلی غیرہ في الأعراس ونحوہا ہل یکون حکمہ حکم القرض فیلزمہ الوفاء بہ أم لا؟ أجاب: إن کان العرف بأنہم یدفعونہ علی وجہ البدل یلزم الوفاء بہ مثلیا فبمثلہ، وإن کان قیمیا فبقیمتہ، وإن کان العرف خلاف ذلک بأن کانوا یدفعونہ علی وجہ الہبۃ ولا ینظرون في ذلک إلی إعطاء البدل فحکمہ حکم الہبۃ في سائر أحکامہ فلا رجوع فیہ بعد الہلاک أو الاستہلاک، والأصل فیہ أن المعروف عرفا کالمشروط شرطاً، قلت: … والعرف في بلادنا مشترک، نعم في بعض القریٰ یعدونہ قرضا حتی أنہم في کل ولیمۃ یحضرون الکاتب یکتب لہم ما یہدی، فإذا جعل المہدي ولیمۃ یراجع المہدی الدفتر فیہدی الأول إلی الثاني مثل ما أہدی إلیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الہبۃ‘‘: ج ۵، ص: ۹۶، درر الحکام في شرح مجلۃ الأحکام: ج ۲، ص: ۴۸۱)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، ر
قم: ۲۹۴۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص450

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان راتوںمیں افضل ترین شب قدر ہے، جو رمضان المبارک میں ہوتی ہے۔ (۲) پھر شب براء ت ہے جو پندرہ شعبان کو ہوتی ہے، (۳) پھر دوسری راتیں ہیں۔
۲) {إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ہجصلے ۱  وَمَآ أَدْرٰئکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِہط ۲  لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ۵لا خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَھْرٍہ۳ط   تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ  وَالرُّوْحُ  فِیْھَا بِإِذْنِ رَبِّھِمْ ج مِنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلٰمٌ ھِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ہع۵    } (سورۃ القدر)
(۳) عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجۃ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص498

اسلامی عقائد

Ref. No. 2139/44-2198

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈارون کا نظریہ اسلامی نظریہ کے خلاف ہے، آپ اگر اس نظریہ کو مانتے نہیں ہیں تو اس نظریہ کو پڑھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے، ، اسی طرح سودی نظام کو سمجھنے کے لئے اس کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح غیراسلامی چیزوں کو سمجھنے کے لئے تاکہ ہم سمجھ کر اس کی حقیقت وقباحت لوگوں کے سامنے واضح کرسکیں، اور لوگوں کو اسلام کی حقانیت سے متعارف کراسکیں۔ ان چیزوں کوپڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر مذکورہ مقاصد کو پیش نظر رکھ کر پڑھاجائے تو امید ہے کہ اجر کا باعث ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2733/45-4258

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرنے کے بعد نیکوں کی ارواح علیین میں اوربروں  کی ارواح  سجین میں جاتی ہیں، علیین  ایمان والوں کا  اور سجین  کافر وں کا ٹھکانہ ہے۔ سجین سجن کے مادہ سے لیا گیا ہے جس کے مختلف معانی ہیں ۔ سخت و شدید زندان ، قعر جہنم میں ایک بہت ہی ہولناک وادی ، وہ جگہ جہاں کافروں  کے اعمال نامے رکھے جاتے ہیں ، اور جہنم کی آگ ۔تفسیر میں آیا ہے کہ سجّین ایک کتاب ہے جو برائیوں کے دیوان کا جامع ہے جس میں خدا نے جن و انس میں سے کافروں   کے اعمال کو مدون کیا ہے۔  اس کو سجین اس لئے کہا گیا کہ اس دیوان کے مشتملات ان کے جہنم میں مقید ہونے کا سبب ہوں گے ایمان والوں کی کتاب کے بر عکس جو علیین میں ہے ۔  سجین  ساتویں زمین  میں ہےاور علیین ساتویں آسمان پر ہیں۔

اہل السنة والجماعةکا عقیدہ ہے کہ انسان کی وفات سے لے کر قیامت قائم ہونے تک کا زمانہ عالم برزخ ہےخواہ  موت کے بعد جسم انسانی کے اجزاء مٹی میں ہوں یا سمندر کے پانی میں  یا جانوروں کےپیٹ میں،  یہ سب اس کے لئے قبر کے درجہ میں ہیں اور یہی برزخی زندگی کہلاتی ہے، اسی عالم برزخ میں روحِ انسانی اپنے بدن کی طرف متوجہ ہوتی ہے؛ تاکہ وہ منکر نکیر کے سوالات  کا جواب دے، اورقبر کی راحت وعذاب کو محسوس کرسکے؛

برزخ کے معنی رکاوٹ اور آڑکے آتے ہیں،  یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک  مرحلہ ہے ، عالم برزخ کا کچھ تعلق دنیا کے ساتھ ہوتا ہے اور کچھ آخرت کے ساتھ ہوتاہے۔ دنیا کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ اس کے عزیز و اقارب کےصدقہ و خیرات اور ذکر و اذکار سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ اورآخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔

"وقال کعب: أرواح الموٴمنین في علیین في السماء السابعة وأرواح الکفار في سجین في الأرض السابعة تحت جند إبلیس". (کتاب الروح، المسئلة الخامسة عشرة، این مستقر الأرواح ما بین الموت إلی یوم القیامة(

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِO لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَO

(سورۃ المومنون، 23 : 98 - 100، النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا. (سورۃ غافر، 40 : 46 )

۔ واختلف فیہ أنہ بالروح أو بالبدن أو بھما وھو الأصح منھما إلا أنا نومن بصحتہ ولا نشتغل بکیفیتہ۔ (شرح الفقہ الأکبر: ۱۲۴، شرح الصدور للسیوطی ۲۴۷بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند