اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔    پوری حدیث بحوالہ نقل فرمائیں تو اس کا جواب لکھا جائے گا۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/863

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سنت کے خلاف ہے ، سنت یہ ہے کہ پورا 'السلام علیکم ' کہاجائے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں ایک بڑی تعداد کا کھانا بھی اپنے ذمہ ڈالنا جب کہ برداشت سے باہر ہو، شرعاً درست نہیں ہے۔(۱) ان رسوم کو شرعی اور لازمی درجہ دیدینا تو قطعاً جائز نہیں ہے؛ نیز اگرچندہ کو لازم قرار دیا جائے کہ بہر صورت دینا ہی پڑے گا، تو شرعاً درست نہیں ہے اور اگر اپنی مرضی سے کوئی دیدے تو شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ نیز ترغیب دلانے میں بھی کوئی حرج نہیں اور جو رقم مسجد میں آئے اس کا استعمال مسجد میں شرعاً درست ہے؛ نیز اگر حسب وسعت مشورہ دہندگان کو کھانا وغیرہ دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔(۲)

(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷) عن أبي الزبیر، عن جابر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا دعي أحدکم إلی طعام، فلیجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترک۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۴۳۰)
عن نافع، قال: سمعت عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أجیبوا ہذہ الدعوۃ إذا دعیتم لہا، قال: وکان عبد اللّٰہ بن عمر یأتي الدعوۃ في العرس، وغیر العرس، ویأتیہا وہو صائم۔ عن أبي شریح الکعبي: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ جائزتہ یومہ ولیلتہ الضیافۃ ثلاثۃ أیام وما بعد ذلک فہو صدقۃ ولا یحل لہ أن یثوي عندہ حتی یحرجہ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’باب ما جاء في الضیافۃ‘‘: ج۱، ص: ۲، رقم: ۳۷۴۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص446

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اجتماعی عبادت کے اہتمام پر کوئی شرعی دلیل معلوم نہیں ہوتی؛ اس لئے از خود اس کا اہتمام کرنا شرعاً درست نہیں (۱) ہاں اگر اتفاقاً فرد فرد ہوکر اجتماع ہوجائے، تو اس میں مضائقہ نہیں ہے اور بلا ضرورت یا ضرورت سے زائد روشنی اسراف اور ناجائز ہے۔ (۲)

(۱) والمتابعۃ کما تکون في الفعل تکون في الترک أیضاً، فمن واظب علی فعل لم یفعلہ الشارع فہو مبتدع۔ (ملا علي قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۹۳)
(۲) {وَأٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاہ۲۶ إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط} (سورۃ الإسراء: ۲۶ -۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص494

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی وعصری تعلیم حاصل کرنے میں شرعاً کوئی وجہ عدم جواز کی نہیں ہے ، بلکہ ہر وہ علم جو نفع بخش ہو اور جس سے انسان کو معرفت خدا وندی حاصل ہو، اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ البتہ دینی اسلامی مدرسہ اس کو کہا جاتا ہے کہ جس میں قرآن و حدیث اور ان سے متعلق علوم پڑھائے جائیں اور یہ ہی اس کا اصل مقصد ہے اگر اس کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جائیں تو وہ ضمنی ہوں اور اتنی حد تک ہوں کہ دیکھنے والے ان کو  ضمنی ہی سمجھیں اس سلسلہ میں صائب الرائے علماء کا جو فیصلہ ہو وہی معتبر ہے۔(۱)

(۱) عن زید بن ثابت رضي اللّٰہ عنہ، قال: أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أتعلم لہ کلمات من کتاب یہود قال: إني واللّٰہ ما آمن یہود علی کتابي، قال: فما مر بي نصف شہر حتی تعلمتہ لہ قال: فلما تعلمتہ کا إن ذا کتب إلی یہود کتبت إلیہم وإذا کتبوا إلیہ قرأت لہ کتابہم قال أبو عیسیٰ: ہذا حدیث حسنٌ صحیحٌ، وقد روي من غیر ہذا الوجہ عن زید بن ثابت۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الاستئذان، باب ما جاء في تعلیم السریانیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۰، رقم: ۲۷۱۵)
عن أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول: إذا صلی الصبح حین یسلم اللہم إني أسألک علماً نافعاً، ورزقاً طیباً، عملاً متقبلاً۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ، فیہا باب ما یقال بعد التسلیم‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۸، رقم: ۹۲۵)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’مقدمہ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۲۲۴)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص184

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے مواقع پر زیارت گاہوں اور قبرستان پر جانا اور اس کو ضروری سمجھنا التزام مالایلزم کے قبیل سے ہے، جو بدعت اور گمراہی ہے۔ ایسے رسم ورواج قابل ترک ہیں، تاکہ بدعت وضلالت کے گناہ سے انسان بچ سکے۔ اور ایسی بدعات ورسم ورواج میں پڑ کر، نمازوں کو کھو بیٹھنا سخت ترین گناہ ہے۔(۱)

(۱) وبالجملۃ ہذہ بدعۃ شرقیۃ منکرۃ۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن: ج ۱، ص: ۲۶۵)
وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شيء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ … (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عقبۃ بن عامر الجہني عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۷)
وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، مسند جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ: ج ۲۲، ص: ۲۳۷، رقم: ۱۴۳۳۴)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص447

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت کی فضیلت کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں ان کو تلقی بالقبول بھی حاصل ہے اور ان پر توارث بھی ہے؛ اس لیے شب برأت کی فضیلت کا انکار کرنا درست نہیں ہے۔ ہاں اس سلسلے میں بعض روایات ضعیف اور کمزور ہیں؛ لیکن بعض صحیح اور حسن درجہ کی بھی روایتیں ہیں؛ اس لیے مجموعہ روایات سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ابن ماجہ کی حدیث:
’’عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فإن اللّٰہ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی سماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر لي فأغفر لہ ألا مسترزق فأرزقہ ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر‘‘(۱) کا تعلق ہے اس کو متعدد محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے التقریب میں اس پر رد کیا ہے وہ میری نظر سے نہیں گزرا ہاں دیگر محدثین نے اس حدیث کی تضعیف کی ہے؛ لیکن اس رات کی فضیلت صرف اسی ایک حدیث سے ثابت نہیں ہے؛ بلکہ اس کے علاوہ دیگر احادیث بھی ہیں جن سے اس رات کی فضیلت پر استدلال کیا گیا ہے مثلاً:
’’وعن معاذ بن جبل رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم  قال: یطلع اللّٰہ إلی جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ إلا لمشرک أو لمشاحن‘‘(۱) اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث ہے:
’’إذا کان لیلۃ النصف من شعبان إطلع اللّٰہ إلی خلقہ فیغفر للمؤمنین ویمہل الکافرین ویدع أہل الحقد بحقدہم حتی یدعوہ‘‘(۲) اس حدیث پر شیخ البانی نے بھی صحیح کا حکم لگایا ہے۔ ترمذی میں روایت ہے:
’’إن اللّٰہ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان إلی السماء الدنیا، فیغفر لأکثر من عدد شعر غنم کلب‘‘(۳)
اس طرح کی متعدد احادیث ہیں جن میں اگرچہ بعض ضعیف ہیں؛ لیکن تعدد طرق کی وجہ سے ان کا ضعف ختم ہو جاتا ہے اور وہ روایت قابل قبول ہو جاتی ہے، اسی وجہ سے علماء کا ان روایات پر عمل رہاہے، محض ابن ماجہ کی ضعیف روایت کو دیکھ کر پندرہویں شعبان کا فضیلت کا بالکلیہ انکار کرنا درست نہیں ہے۔

(۱) مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۱) الترغیب والترہیب، ’’کتاب الأدب وغیرہ‘‘: ج ۳، ص: ۳۰۷، رقم: ۴۱۸۸۔
(۲) صحیح الترغیب والترہیب، ’’الترغیب في الحیاء‘‘: ج ۳، ص: ۳۴، رقم: ۲۷۷۱۔
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصوم: باب ما جاء في لیلۃ النصف من شعبان‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۶، رقم: ۷۳۹۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص495

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/872

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ کے خطبہ کے دوران  کسی  بھی قسم کا چندہ کرنا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں۔ ہمارے یہاں میت کو جنازہ کے لئے لے جانے کے بعد گھر میں عورتیں اجتماعی دعا کرتی ہیں کیا اس طرح عورتوں کا اجتماعی دعا کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں۔ اگر درست ہے تو اسکی دلیل اور اگر درست نہیں ہے تو اسکی وجہ قرآن وحدیث کی روشنی میں لکھ کر ممنون فرمائیں Md Sabir Shah Lilong Ushoipokpi Dist. Thoubal St. Manipur Pin. 795130

اسلامی عقائد

Ref. No. 1759/43-1494

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خود کشی کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور احادیث میں خودکشی کرنے والے کے بارے میں سخت عذاب کی خبر دی گئی ہے۔تاہم خودکشی کرنے والے کی موت  تقدیر سے الگ نہیں ہے، اور تقدیر اللہ رب العزت کے علم ازلی اور ابدی کو کہتے ہیں، اور اللہ کے علم میں ماضی اور مستقبل دونوں برابر ہیں۔ لہذا اللہ کے علم میں  اس کی موت اسی طرح  واقع ہونی تھی ،اور یہ حقیقت  ہےکہ سب کچھ اللہ کی قضاء و قدر کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوتاہے۔ بادی النظر میں معلوم ہوتاہے کہ موت وقت سے پہلے آگئی یا موت  کا مالک وہ خود ہوگیا ، سو ایسا نہیں ہے، یہ سب کچھ تقدیر الہی کے تابع  ہوکر ہی وقوع پذیر ہوا ہے۔ اور رہی بات ایسے لوگوں کی روحوں کا بھٹکنا ، سو ایسا عقیدہ شرعا درست نہیں ہے۔ جس طرح تمام روحوں کا حال ہے کہ اللہ نے ان کے حسب مرتبہ  عالم برزخ میں مقامات متعین کررکھے ہیں اسی طرح خودکشی کرنے والے کی روح بھی انہیں مقامات میں سے کسی جگہ عالم برزخ میں رہتی ہے، دنیا میں ایسی روحوں کا بھٹکتے رہنے کا عقیدہ اغلاط العوام میں سے ہے، ایسا عقیدہ فاسد اور بے بنیاد ہے، اس سے احتراز کرنا ضروری ہے۔

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنَ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ فَحَدِيدَتُهُ فِى يَدِهِ يَتَوَجَّأُ بِهَا فِى بَطْنِهِ فِى نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا وَمَنْ شَرِبَ سَمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَحَسَّاهُ فِى نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا وَمَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَرَدَّى فِى نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا (صحيح مسلم: 313، باب غلظ تحريم قتل الانسان نفسه)۔

وقد قال أبو عبيد إن مما أجل الله به رسوله أن يسلم عليه بعد وفاته كما كان يسلم عليه في حياته وهذا من جملة خصائصه صلى الله عليه وسلم وقد استنبط جوازه مما روى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يخرج إلى المقبرة ويقول: "السلام عليكم دار قوم مؤمنين" فإنه إذا أجاز ذلك في أهل المقبرة كان في النبي صلى الله عليه وسلم أجوز وهذا حسن قال القاضي لكن قول أبي عبيد أحسن لأنه عليه السلام سلم على أهل القبور بحضرتهم وقد جاء أن الأرواح قد تكون بأفنية القبور. (المعتصر من المختصر من مشکل الآثار، فی التشھد 1/54)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند