اسلامی عقائد
Ref. No. 39 / 1020 الجواب وباللہ التوفیق بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہماری معلومات کے مطابق شیعہ اثناعشریہ کی معتبر کتابوں میں جوان کے عقائد مذکور ہیں مثلا قرآن کریم کے لانے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام سے غلطی کا عقیدہ یا موجودہ قرآن کے نامکمل ہونے کا عقیدہ وغیرہ کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ان کی لڑکیوں سے نکاح وغیرہ سے گریز کرنا لازم ہے۔ اور جو اس طرح کے کفریہ عقائد سے پاک ہوں ان سے نکاح جائز ہے تاہم احتراز احوط ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/882

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس لفظ سے "ہمیشہ ہمیش کے لئے حرام الخ۔۔۔۔"۔ کیا مراد تھی؟ اگر طلاق مراد تھی تو طلاق واقع ہوئی،ایلاء وغیرہ مراد ہو تو وہ ہے؟ مراد ظاہر کرکے سوال کیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2367/44-3578

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اس تنظیم کے عقائد و نظریات سے واقفیت نہیں ہے، بہتر ہے کہ مقامی  مفتیان کرام وعلماء عظام کی طرف رجوع کیاجائے، اور ان کے فتوی پر عمل کیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1557/43-1079

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت عدت وفات چار ماہ دس دن گزارے گی۔ 21 اپریل کو صبح پانچ بجے جو عدت شروع ہوئی وہ 29 اگست بوقت صبح پانچ بجے پوری ہوگی، اس طرح 130 دن  پورے ہوں گے۔ عدت وفات حائضہ اور غیر حائضہ دونوں کے لئے چار ماہ دس دن ہے ۔  البتہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ بچہ کی پیدائش پر عدت پوری ہوجائے گی، اور اس میں ایام کی تعیین نہیں ہے۔   

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (سورۃ البقرۃ 234)

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا  (سورۃ الطلاق 4)

"وإذا مات الرجل عن امرأة الحرة فعدتها أربعة أشهر و عشرة و هذه العدة لاتجب إلا في نكاح صحيح". (الجوھرۃ النیرۃ، باب العدۃ، 2/154 ط:مكتبة حقاني) العدة (للموت أربعة أشهر) بالأهلة لو في الغرة كما مر (وعشر) من الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت.. (شامی 3/510) "في المحيط: إذا اتفق عدة الطلاق و الموت في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلية وإن نقصت عن العدد، وإن اتفق في وسط الشهر، فعند الإمام يعتبر بالأيام، فتعتد في الطلاق بتسعين يوماً، وفي الوفاة بمائة وثلاثين" (شامی 3/509)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ افعال کے مرتکب کو خارج از اسلام قرار دیا جائے گا، اگر وہ مسلمان کہلاتا ہے اور یہ افعال کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں، مرتد ہے۔ (۱)

(۱) {مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ إِیْمَانِہٖٓ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ج وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ  ہ۱۰۶}(سورۃ النحل، آیۃ: ۱۰۶)

قال تعالیٰ: {وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِيْ الْأٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ} (سورۃ آل عمران: ۸۵)

وقال تعالیٰ: {إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْإِسْلَامُ} (آل عمران: ۱۹)

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1743/43-1498

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ﷺ سے دسترخوان پر کھانا ثابت ہے اور دستر خوان بچھا کر کھانا سنت ہے۔ آپ نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں خود دستر خوان پر کھانے کا ثبوت ہے ، حدیث میں سفر کا لفظ ہے جس کے معنی چمڑے کے دسترخوان کے ہیں ۔جہاں تک حدیث میں خوان کا لفظ ہےجس پر آپ ﷺ نہیں کھاتے تھے اس سے مخصوص قسم کا دسترخوان مراد ہے جو عام طورپر متکبرین لوگ استعمال کرتے تھے اور عموما یہ زمین سے کچھ بلندہوتاتھا اسی لیے بعض لوگوں نے کرسی کے سامنے ٹیبل پر کھانے سے اس کی تفسیر کی ہے ۔آپ ﷺ کھانے میں تواضع اور بندگی کا مظاہرہ کرتے ستھے اس لیے زمین پر دستر خوان بچھاکرکھاتے تھے ۔

وعن وهب بن كيسان قال كان أهل الشأم يعيرون ابن الزبير يقولون يا ابن ذات النطاقين. فقالت له أسماء يا بنى إنهم يعيرونك بالنطاقين، هل تدرى ما كان النطاقان إنما كان نطاقى شققته نصفين، فأوكيت قربة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بأحدهما، وجعلت فى سفرته آخر،-قوله: (السفرة) ما يوضع عليه الطعام من جلد، والخوان هو الصيني من خشب، وليس بطوالة منبر، ولا بمنضدة تصلى الله عليه وسلم - قوله: (على سكرجة) صحاف صغار، يوضع فيها ألوان من الطعام، والمراد نفي الألوان من طعامه.قوله: (ولا أكل على خوان) وهو لفظ فارسي، وحرف الواو لا تتلفظ في الفارسية، فإذا عربت تلفظ بها.(فیض الباری ،باب الخبزالمرقق،رقم 5388)

ولا أكل على خوان قط " أي ولا أكل في حياته كلها على مائدة من تلك الموائد النحاسية المرتفعة عن الأرض التي يأكل عليها العظماء والمترفون: " قيل لقتادة فعلى ما كانوا يأكلون " أي على أي شيء يأكل محمد - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه " قال: على السفر " التي تمد على الأرض تواضعاً وزهداً في الدنيا ومظاهرها. فقه الحديث: دل هذا الحديث على أنه - صلى الله عليه وسلم - اختار لنفسه طريق الزهد(منار القاری شرح صحیح  البخاری، باب الخبز المرقق والاکل علی الخوان،5/144)
خُونْجا أو خُونْجة: (من الفارسية خوان واللاحقة التركية للتصغير): منضدة صغيرة توضع عليها الصحاف، صينية من الخشب أو المعدن تقدم عليها الأواني والصحون والأكواب وغير ذلك(تکملۃ المعاجم العربیۃ،4/244

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگرگھر کے لوگ جمع ہوں اور ساتھ میں کوئی فرد یا چند افرادبھی جمع ہوکر تلاوت وغیر ہ کریں اور یہ لوگ میت کے لیے ایصال ثواب کریں اور کسی کی طرح اجرت وغیرہ کی کوئی بات نہ ہو تو درست ہے اور جو کھانا ان کے لیے تیار کیا گیا ہے اس کا کھانادرست ہے (۱) اور مالدار لوگ اجرت کے طور پر پڑھنے کے لیے نہیں آئے ہیںاور نہ ہی وہ کھانا صدقہ و خیرات کا ہے؛ بلکہ لوگ جمع ہیں تو کھانا بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ ہاں اگر اکثر غرباء ہوتے تو شبہ ہوتا کہ کھانا صدقہ کے طور پر ہے یا پڑھنے والے اجرت کے طور پر پڑھ رہے ہیں۔ تاہم اس میں ثواب کی نیت معلوم نہیں ہوتی؛ بلکہ دکھاوا معلوم ہوتا ہے اس سے پرہیز ہی کرنا بہتر ہے۔ (۲) ہاں اگر بطور اجرت ہے، جیسا کہ عام طور پر ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کے موقع پر ہوتا ہے تو مالداروں کے لیے کھانا ناجائز ہے۔

(۱) یکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی المقبرۃ في المواسم واتخاذ الدعوۃ بقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام أو الإخلاص۔ قال البرہان الحلبي: ولا یخلو عن نظر لأنہ لا دلیل علی الکراہۃ إلا حدیث جریر المتقدم۔ (الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في حملہا ودفنہا: ص: ۶۱۷)
(۲) والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قرائۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ۔ وفیہا من کتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاما للفقراء کان حسنا۔ وأطال في ذلک في المعراج۔ وقال: وہذہ الأفعال کلہا للسمعۃ والریاء فیحترز عنہا، لأنہم لا یریدون بہا وجہ اللّٰہ تعالی۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
قال تاج الشریعۃ في شرح الہدایۃ: إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقارء۔ وقال العیني: في شرح الہدایۃ: ویمنع القارئ للدنیا، والآخذ والمعطی آثمان۔ فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال؛ فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا ’’إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘‘۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص415

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/1007

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرایہ کے مکان وغیرہ میں اصلاح و مرمت کی اصل ذمہ داری مالک مکان کی ہوتی ہے اس لیے کہ کرایہ دار نفع وصول کرتا ہے اور اس نفع کے عوض وہ اجرت دیتاہے اس لیے کرایہ کے سامان میں اگر کوئی خرابی ہوتی ہے اس کی ذمہ داری مالک کے اوپر ہوتی ہے۔تاہم اگر دونوں باہم مشورہ سے یہ طے کرلیں کہ کرایہ کے سامان میں اصلاح و مرمت کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی اور جن چیزوں کے اصلاح کی بات کی گئی ہے وہ متعین بھی ہے تواس طرح کی شرط لگانا درست ہے اور خراب ہونےکی صورت میں اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی ۔تاہم مذکورہ مسئلہ میں جو خرابی ہوئی ہے اس کی ذمہ داری مالک پر ہوگی کرایہ دار پر نہیں ہوگی اس لیے کہ کرایہ دار پر اصلاح و مرمت کی ذمہ ڈالنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اگر کرایہ دار کی کوتاہی اور غلطی سے سامان خراب ہوا تو اس کی اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی جب کی یہاں پر جو سامان خراب ہوا ہے اس میں کرایہ دار کی کوئی غلطی نہیں ہے اس لیے ان چیزوں کی اصلاح کی ذمہ داری مالک مکان پر ہوگی۔"وإن تكارى داراكل شهر بعشرة على أن يعمرها ويعطي أجر حارسها ونوابها فهذا فاسد؛ لأن ما يعمر به الدار على رب الدار والثانيةكذلك عليه فهي الجباية بمنزلة الخ راج فهي مجهولة فقد شرط لنفسه شيئاً مجهولا مع العشرة. وضم المجهول إلى المعلوم يجعل الكل مجهولا "(السرخسي: المبسوط ( ١٥/١٤٩)فإن قلت: «نهى - صلى الله عليه وسلم - عن بيع وشرط» فيلزم أن يكون العرف قاضيا على الحديث.قلت: ليس بقاض عليه، بل على القياس؛ لأن الحديث معلوم بوقوع النزاع المخرج للعقد عن المقصود به وهو قطع المنازعة، والعرف ينفي النزاع فكان موافقا لمعنى الحديث، فلم يبق من الموانع إلا القياس. والعرف قاض عليه اهـ ملخصا. قلت: وتدل عبارة البزازية والخانية، وكذا مسألة القبقاب على اعتبار العرف الحادث، ومقتضى هذا أنه لو حدث عرف في شرط غير الشرط في النعل والثوب والقبقاب أن يكون معتبرا إذا لم يؤد إلى المنازعة،(فتاوی شامی ٥/٨٨)

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2029/44-1999

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق دینے کا اختیار صرف مرد کو ہے۔ عورت کو طلاق کا اختیار بالکل نہیں ہے۔ اگر عورت اپنے شوہر کو طلاق دے گی تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ تاہم شریعت نے عورت کے لئے خلع رکھا ہے۔ عورت اپنے شوہرسے  مہر کی معافی یا کچھ پیسوں کے عوض شوہر سے طلاق لے سکتی ہے۔  اگر شوہر کسی صورت طلاق دینے کے لئے تیار نہ ہو تو عورت دارالقضاء سے رجوع کرسکتی ہے؛ قاضی  اپنے اعتبار سے مناسب سمجھے گا تو نکاح کو فسخ  کردے گا۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کے لئے ایصال ثواب کرنا بلا تعیینِ ایام شریعت مطہرہ میں جائز ہے اور مقصود بھی ہے؛ لیکن اس کے لئے ہر شخص اپنے اپنے مقام پر تلاوت کر سکتا ہے اور تسبیحات بھی پڑھ سکتا ہے اجتماعی طور پر مجلس لگانے کی ضرورت نہیں ہے، علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اجتماعی طور پر قرآن کی تلاوت کو بدعت کہا ہے:
’’ومن البدع الإضافیۃ التي تقرب من الحقیقۃ أن یکون الأصل العبادۃ مشروعا إلا أنہا تخرج عن أصل شرعیتہا بغیر دلیل توہما أنہا باقیۃ علی أصلہا تحت مقتضی الدلیل وذلک بأن یقید إطلاقہا بالرأي أو یطلق تقییدہا وبالجملۃ فتخرج عن حدہا الذي حد لہا‘‘(۱)
مزید امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ آگے لکھتے ہیں: ’’ومن ذلک قراء ۃ القرآن بہیئۃ الاجتماع‘‘(۲) یہ سب رسم رواج کے طور پر کیا جاتا ہے جو کہ غیر مشروع ہے؛ اس لیے ایسے رسم ورواج اور بدعات میں شرکت کرنے سے آس پڑوس اور محلہ وغیرہ کے سب ہی لوگوں کو پر ہیز کرنا چاہئے۔
’’وہذا کلہ إن فرضنا أصل العبادۃ مشروعا فإن کان أصلہا غیر مشروع فہي بدعۃ حقیقیۃ مرکبۃ‘‘(۱) ’’فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ‘‘(۲)
آج کل ایصال ثواب کے لئے خود ساختہ طور پر رسمیں گھڑھ لی گئی ہیں شریعت کی نظر میں یہ بے اصل اور اکابر اسلاف سے یہ ثابت نہیں ہے ’’من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد‘‘ (۳) ایسے ہی قرآن خوانی ایصال ثواب کے لئے ہو، تو اس کی اجرت ممنوع ہے اور قرآن خوانی کے بعد کھانا کھلانا شیرنی وغیرہ تقسیم کرنا اجرت میں شمار ہوگا؛ اس لئے ایصال وثواب کے لئے اس طرح مجلس قائم کرنا دعوت کرنا بدعت اور ناجائز ہے، اس سے نہ پڑھنے والے کو ثواب ملتا ہے اور نہ ہی میت کو جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري‘‘(۴) ’’فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز‘‘(۵)

(۱) أبو إسحاق، الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۲) ’’أیضاً‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
(۱)  أبو إسحاق، الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۲۔
(۲) ابن عابدین،الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ، من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷۔
(۴) أبو إسحاق الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، ’’البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۵) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص417