اسلامی عقائد

Ref. No. 895/41-15B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو غیرمسلم ہمیں ہماری عید وغیرہ کے موقع پر مبارکبادی دیتے ہیں، ان کو ان کے تہوار میں رسمی طور پر مبارکباردی پیش کرنے  کی گنجائش ہے۔  تاہم ان کے مذہبی رسومات میں کسی قسم کی شرکت یا اس سے رضامندی کا اظہار درست نہیں ہے۔

ویھدی المجوس یوم النیروز من اطعمتھم الاشراف ومن کان لھم معرفۃ لایحل اخذ ذلک علی وجہ الموافقۃ معھم وان اخذہ لاعلی ذلک الوجہ لاباس بہ والاحتراز اسلم۔ (الفتاوی البزازیۃ علی ھامشۃ الھندیۃ 333)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1451/42-937

الجواب وباللہ التوفیق:

بسم اللہ الرحمن ا لرحیم:۔خواب میں سانپ کو دیکھنا عاطور پر دشمنی کی علامت ہوتی ہے سانپ دیکھنے والے کا کوئی دشمن ہے جو نقصان پہونچانا چاہتا ہے،لیکن آپ کی بیوی کو خواب میں سانپ نے کوئی نقصان نہیں پہونچایا، اس سے اشارہ اس جانب ہے کہ دشمن کا آپ کی بیوی پر غلبہ نہیں ہوگا،آئندہ جب کبھی براخواب دیکھیں تو "اعوذ باللہ من شرھا" یا "اعوذ باللہ من الشیطان الر جیم" پڑھ لیا کریں،نیز بڑوں سے منقول ہے کہ ایسے موقع پر صدقات وغیرہ بھی کردئیے جائیں تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ قرآن خوانی خود بدعت ہے(۱)، البتہ اگر بلاالتزام واہتمام کچھ حضرات بغیر لالچ طعام وغیرہ کے محض اخلاصِ قلب کے ساتھ قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردیں تو مضائقہ نہیں(۲)، جمعہ کے لئے بلانے کا التزام بھی نہ کرنا چاہئے کہ اذانِ جمعہ اس کے لئے کافی ہے۔(۳)

(۱) (یکرہ) اتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقرآن للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
(۲) للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أو صوماً أو صدقۃ أو غیرہا۔ (أیضاً: مطلب: في القراء ۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
(۳) لا ینبغي لأحد أن یقول لمن فوقہ في العلم والجاہ حان وقت الصلاۃ سوی المؤذن، لأنہ استفضال لنفسہ، قلت: وہذا خاص بالتثویب للأمیر ونحوہ علی قول أبي یوسف رحمہ اللہّٰ فأفہم۔ (أیضاً: ’’باب الأذان، مطلب: في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص310

اسلامی عقائد

Ref. No. 1551/43-1056

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جو جانور گھر کاپلاہوا ہو یا خریدتے وقت قربانی کی نیت نہ ہو بلکہ بعد میں قربانی کی نیت کی ہو  تو وہ جانور قربانی کے لیے متعین نہیں ہوگا، اس لیے اس  جانور کا دودھ پینا درست ہے۔ اس میں امیر و غریب سب برابر ہیں۔

جو جانور ایام قربانی سے پہلے خریدا گیا اس کی جگہ دوسرا جانور کم قیمت میں خریدنا جائزہے۔   اور جو رقم بچ گئی اس کو اپنے ذاتی استعمال میں لا سکتاہے، اور اس میں غنی و فقیر سب برابر ہیں۔  ایام قربانی میں اگر غریب نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اب اس کو بیچنا جائز نہیں، اگر بیچا تو باقی رقم صدقہ کرے۔

ولو کان فی ملک انسان شاۃ فنوی ان یضحی بھا او اشتری شاۃ ولم ینو الاضحیۃ وقت الشراء ثم نوی بعد ذالک ان یضحی بھا لا یجب علیہ سواء کان غنیا او فقیرا لان النیۃ لم تقارن الشراء فلا تعتبر (بدائع الصنائع کتاب الاضحیۃ 6/276)

ولو حلب اللبن من الأضحية قبل الذبح أو جز صوفها يتصدق به، ولا ينتفع به، كذا في الظهيرية. وإذا ذبحها في وقتها جاز له أن يحلب لبنها ويجز صوفها وينتفع به؛ لأن القربة أقيمت بالذبح، والانتفاع بعد إقامة القربة مطلق كالأكل، كذا في المحيط.

وإن كان في ضرعها لبن ويخاف ينضح ضرعها بالماء البارد، فإن تقلص وإلا حلب وتصدق، ويكره ركوبها واستعمالها كما في الهدي، فإن فعل فنقصها فعليه التصدق بما نقص، وإن آجرها تصدق بأجرها، ولو اشترى بقرة حلوبة وأوجبها أضحية فاكتسب مالا من لبنها يتصدق بمثل ما اكتسب ويتصدق بروثها، فإن كان يعلفها فما اكتسب من لبنها أو انتفع من روثها فهو له، ولا يتصدق بشيء، كذا في محيط السرخسي. (الھندیۃ، الباب السادس فی بیان ما یستحب فی الاضحیۃ 5/301) وإن حلب اللبن من الأضحية قبل الذبح أو جز صوفها يتصدق بهما ولا ينتفع بهما اهـ. وقال في البدائع وإن انتفع تصدق بمثله وإن تصدق بقيمته جاز (درر الحکام شرح غرر الاحکام، ما یصح للاضحیۃ 1/270)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جمعرات، جمعہ، ہفتہ اور پیر کے دن قبرستان جانا افضل ہے اور کسی بھی دن کسی بھی وقت جانا جائز ہے(۱) اور شامی میں ان ایام کو افضل لکھا ہے، ایک جگہ کھڑے ہوکر سب کو ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے۔(۲)

(۱) إلا أن الأفضل یوم الجمعۃ والسبت والإثنین والخمیس۔(ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
(۲) سئل ابن حجر المکي عما لو قرأ لأہل المقبرۃ الفاتحۃ ہل یقسم الثواب بینہم أو یصل لکل منہم ثواب ذلک کاملاً فأجاب بأنہ أفتی جمع بالثاني وہو اللائق۔(ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في القراء ۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص311

اسلامی عقائد
Ref. No. 39 / 1020 الجواب وباللہ التوفیق بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہماری معلومات کے مطابق شیعہ اثناعشریہ کی معتبر کتابوں میں جوان کے عقائد مذکور ہیں مثلا قرآن کریم کے لانے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام سے غلطی کا عقیدہ یا موجودہ قرآن کے نامکمل ہونے کا عقیدہ وغیرہ کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ان کی لڑکیوں سے نکاح وغیرہ سے گریز کرنا لازم ہے۔ اور جو اس طرح کے کفریہ عقائد سے پاک ہوں ان سے نکاح جائز ہے تاہم احتراز احوط ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/882

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس لفظ سے "ہمیشہ ہمیش کے لئے حرام الخ۔۔۔۔"۔ کیا مراد تھی؟ اگر طلاق مراد تھی تو طلاق واقع ہوئی،ایلاء وغیرہ مراد ہو تو وہ ہے؟ مراد ظاہر کرکے سوال کیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2367/44-3578

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اس تنظیم کے عقائد و نظریات سے واقفیت نہیں ہے، بہتر ہے کہ مقامی  مفتیان کرام وعلماء عظام کی طرف رجوع کیاجائے، اور ان کے فتوی پر عمل کیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1557/43-1079

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت عدت وفات چار ماہ دس دن گزارے گی۔ 21 اپریل کو صبح پانچ بجے جو عدت شروع ہوئی وہ 29 اگست بوقت صبح پانچ بجے پوری ہوگی، اس طرح 130 دن  پورے ہوں گے۔ عدت وفات حائضہ اور غیر حائضہ دونوں کے لئے چار ماہ دس دن ہے ۔  البتہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ بچہ کی پیدائش پر عدت پوری ہوجائے گی، اور اس میں ایام کی تعیین نہیں ہے۔   

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (سورۃ البقرۃ 234)

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا  (سورۃ الطلاق 4)

"وإذا مات الرجل عن امرأة الحرة فعدتها أربعة أشهر و عشرة و هذه العدة لاتجب إلا في نكاح صحيح". (الجوھرۃ النیرۃ، باب العدۃ، 2/154 ط:مكتبة حقاني) العدة (للموت أربعة أشهر) بالأهلة لو في الغرة كما مر (وعشر) من الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت.. (شامی 3/510) "في المحيط: إذا اتفق عدة الطلاق و الموت في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلية وإن نقصت عن العدد، وإن اتفق في وسط الشهر، فعند الإمام يعتبر بالأيام، فتعتد في الطلاق بتسعين يوماً، وفي الوفاة بمائة وثلاثين" (شامی 3/509)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ افعال کے مرتکب کو خارج از اسلام قرار دیا جائے گا، اگر وہ مسلمان کہلاتا ہے اور یہ افعال کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں، مرتد ہے۔ (۱)

(۱) {مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ إِیْمَانِہٖٓ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ج وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ  ہ۱۰۶}(سورۃ النحل، آیۃ: ۱۰۶)

قال تعالیٰ: {وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِيْ الْأٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ} (سورۃ آل عمران: ۸۵)

وقال تعالیٰ: {إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْإِسْلَامُ} (آل عمران: ۱۹)