Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1743/43-1498
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ﷺ سے دسترخوان پر کھانا ثابت ہے اور دستر خوان بچھا کر کھانا سنت ہے۔ آپ نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں خود دستر خوان پر کھانے کا ثبوت ہے ، حدیث میں سفر کا لفظ ہے جس کے معنی چمڑے کے دسترخوان کے ہیں ۔جہاں تک حدیث میں خوان کا لفظ ہےجس پر آپ ﷺ نہیں کھاتے تھے اس سے مخصوص قسم کا دسترخوان مراد ہے جو عام طورپر متکبرین لوگ استعمال کرتے تھے اور عموما یہ زمین سے کچھ بلندہوتاتھا اسی لیے بعض لوگوں نے کرسی کے سامنے ٹیبل پر کھانے سے اس کی تفسیر کی ہے ۔آپ ﷺ کھانے میں تواضع اور بندگی کا مظاہرہ کرتے ستھے اس لیے زمین پر دستر خوان بچھاکرکھاتے تھے ۔
وعن وهب بن كيسان قال كان أهل الشأم يعيرون ابن الزبير يقولون يا ابن ذات النطاقين. فقالت له أسماء يا بنى إنهم يعيرونك بالنطاقين، هل تدرى ما كان النطاقان إنما كان نطاقى شققته نصفين، فأوكيت قربة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بأحدهما، وجعلت فى سفرته آخر،-قوله: (السفرة) ما يوضع عليه الطعام من جلد، والخوان هو الصيني من خشب، وليس بطوالة منبر، ولا بمنضدة تصلى الله عليه وسلم - قوله: (على سكرجة) صحاف صغار، يوضع فيها ألوان من الطعام، والمراد نفي الألوان من طعامه.قوله: (ولا أكل على خوان) وهو لفظ فارسي، وحرف الواو لا تتلفظ في الفارسية، فإذا عربت تلفظ بها.(فیض الباری ،باب الخبزالمرقق،رقم 5388)
ولا أكل على خوان قط " أي ولا أكل في حياته كلها على مائدة من تلك الموائد النحاسية المرتفعة عن الأرض التي يأكل عليها العظماء والمترفون: " قيل لقتادة فعلى ما كانوا يأكلون " أي على أي شيء يأكل محمد - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه " قال: على السفر " التي تمد على الأرض تواضعاً وزهداً في الدنيا ومظاهرها. فقه الحديث: دل هذا الحديث على أنه - صلى الله عليه وسلم - اختار لنفسه طريق الزهد(منار القاری شرح صحیح البخاری، باب الخبز المرقق والاکل علی الخوان،5/144)
خُونْجا أو خُونْجة: (من الفارسية خوان واللاحقة التركية للتصغير): منضدة صغيرة توضع عليها الصحاف، صينية من الخشب أو المعدن تقدم عليها الأواني والصحون والأكواب وغير ذلك(تکملۃ المعاجم العربیۃ،4/244
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگرگھر کے لوگ جمع ہوں اور ساتھ میں کوئی فرد یا چند افرادبھی جمع ہوکر تلاوت وغیر ہ کریں اور یہ لوگ میت کے لیے ایصال ثواب کریں اور کسی کی طرح اجرت وغیرہ کی کوئی بات نہ ہو تو درست ہے اور جو کھانا ان کے لیے تیار کیا گیا ہے اس کا کھانادرست ہے (۱) اور مالدار لوگ اجرت کے طور پر پڑھنے کے لیے نہیں آئے ہیںاور نہ ہی وہ کھانا صدقہ و خیرات کا ہے؛ بلکہ لوگ جمع ہیں تو کھانا بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ ہاں اگر اکثر غرباء ہوتے تو شبہ ہوتا کہ کھانا صدقہ کے طور پر ہے یا پڑھنے والے اجرت کے طور پر پڑھ رہے ہیں۔ تاہم اس میں ثواب کی نیت معلوم نہیں ہوتی؛ بلکہ دکھاوا معلوم ہوتا ہے اس سے پرہیز ہی کرنا بہتر ہے۔ (۲) ہاں اگر بطور اجرت ہے، جیسا کہ عام طور پر ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کے موقع پر ہوتا ہے تو مالداروں کے لیے کھانا ناجائز ہے۔
(۱) یکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی المقبرۃ في المواسم واتخاذ الدعوۃ بقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام أو الإخلاص۔ قال البرہان الحلبي: ولا یخلو عن نظر لأنہ لا دلیل علی الکراہۃ إلا حدیث جریر المتقدم۔ (الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في حملہا ودفنہا: ص: ۶۱۷)
(۲) والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قرائۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ۔ وفیہا من کتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاما للفقراء کان حسنا۔ وأطال في ذلک في المعراج۔ وقال: وہذہ الأفعال کلہا للسمعۃ والریاء فیحترز عنہا، لأنہم لا یریدون بہا وجہ اللّٰہ تعالی۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
قال تاج الشریعۃ في شرح الہدایۃ: إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقارء۔ وقال العیني: في شرح الہدایۃ: ویمنع القارئ للدنیا، والآخذ والمعطی آثمان۔ فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال؛ فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا ’’إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘‘۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص415
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/1007
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرایہ کے مکان وغیرہ میں اصلاح و مرمت کی اصل ذمہ داری مالک مکان کی ہوتی ہے اس لیے کہ کرایہ دار نفع وصول کرتا ہے اور اس نفع کے عوض وہ اجرت دیتاہے اس لیے کرایہ کے سامان میں اگر کوئی خرابی ہوتی ہے اس کی ذمہ داری مالک کے اوپر ہوتی ہے۔تاہم اگر دونوں باہم مشورہ سے یہ طے کرلیں کہ کرایہ کے سامان میں اصلاح و مرمت کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی اور جن چیزوں کے اصلاح کی بات کی گئی ہے وہ متعین بھی ہے تواس طرح کی شرط لگانا درست ہے اور خراب ہونےکی صورت میں اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی ۔تاہم مذکورہ مسئلہ میں جو خرابی ہوئی ہے اس کی ذمہ داری مالک پر ہوگی کرایہ دار پر نہیں ہوگی اس لیے کہ کرایہ دار پر اصلاح و مرمت کی ذمہ ڈالنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اگر کرایہ دار کی کوتاہی اور غلطی سے سامان خراب ہوا تو اس کی اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی جب کی یہاں پر جو سامان خراب ہوا ہے اس میں کرایہ دار کی کوئی غلطی نہیں ہے اس لیے ان چیزوں کی اصلاح کی ذمہ داری مالک مکان پر ہوگی۔"وإن تكارى داراكل شهر بعشرة على أن يعمرها ويعطي أجر حارسها ونوابها فهذا فاسد؛ لأن ما يعمر به الدار على رب الدار والثانيةكذلك عليه فهي الجباية بمنزلة الخ راج فهي مجهولة فقد شرط لنفسه شيئاً مجهولا مع العشرة. وضم المجهول إلى المعلوم يجعل الكل مجهولا "(السرخسي: المبسوط ( ١٥/١٤٩)فإن قلت: «نهى - صلى الله عليه وسلم - عن بيع وشرط» فيلزم أن يكون العرف قاضيا على الحديث.قلت: ليس بقاض عليه، بل على القياس؛ لأن الحديث معلوم بوقوع النزاع المخرج للعقد عن المقصود به وهو قطع المنازعة، والعرف ينفي النزاع فكان موافقا لمعنى الحديث، فلم يبق من الموانع إلا القياس. والعرف قاض عليه اهـ ملخصا. قلت: وتدل عبارة البزازية والخانية، وكذا مسألة القبقاب على اعتبار العرف الحادث، ومقتضى هذا أنه لو حدث عرف في شرط غير الشرط في النعل والثوب والقبقاب أن يكون معتبرا إذا لم يؤد إلى المنازعة،(فتاوی شامی ٥/٨٨)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2029/44-1999
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق دینے کا اختیار صرف مرد کو ہے۔ عورت کو طلاق کا اختیار بالکل نہیں ہے۔ اگر عورت اپنے شوہر کو طلاق دے گی تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ تاہم شریعت نے عورت کے لئے خلع رکھا ہے۔ عورت اپنے شوہرسے مہر کی معافی یا کچھ پیسوں کے عوض شوہر سے طلاق لے سکتی ہے۔ اگر شوہر کسی صورت طلاق دینے کے لئے تیار نہ ہو تو عورت دارالقضاء سے رجوع کرسکتی ہے؛ قاضی اپنے اعتبار سے مناسب سمجھے گا تو نکاح کو فسخ کردے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کے لئے ایصال ثواب کرنا بلا تعیینِ ایام شریعت مطہرہ میں جائز ہے اور مقصود بھی ہے؛ لیکن اس کے لئے ہر شخص اپنے اپنے مقام پر تلاوت کر سکتا ہے اور تسبیحات بھی پڑھ سکتا ہے اجتماعی طور پر مجلس لگانے کی ضرورت نہیں ہے، علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اجتماعی طور پر قرآن کی تلاوت کو بدعت کہا ہے:
’’ومن البدع الإضافیۃ التي تقرب من الحقیقۃ أن یکون الأصل العبادۃ مشروعا إلا أنہا تخرج عن أصل شرعیتہا بغیر دلیل توہما أنہا باقیۃ علی أصلہا تحت مقتضی الدلیل وذلک بأن یقید إطلاقہا بالرأي أو یطلق تقییدہا وبالجملۃ فتخرج عن حدہا الذي حد لہا‘‘(۱)
مزید امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ آگے لکھتے ہیں: ’’ومن ذلک قراء ۃ القرآن بہیئۃ الاجتماع‘‘(۲) یہ سب رسم رواج کے طور پر کیا جاتا ہے جو کہ غیر مشروع ہے؛ اس لیے ایسے رسم ورواج اور بدعات میں شرکت کرنے سے آس پڑوس اور محلہ وغیرہ کے سب ہی لوگوں کو پر ہیز کرنا چاہئے۔
’’وہذا کلہ إن فرضنا أصل العبادۃ مشروعا فإن کان أصلہا غیر مشروع فہي بدعۃ حقیقیۃ مرکبۃ‘‘(۱) ’’فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ‘‘(۲)
آج کل ایصال ثواب کے لئے خود ساختہ طور پر رسمیں گھڑھ لی گئی ہیں شریعت کی نظر میں یہ بے اصل اور اکابر اسلاف سے یہ ثابت نہیں ہے ’’من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد‘‘ (۳) ایسے ہی قرآن خوانی ایصال ثواب کے لئے ہو، تو اس کی اجرت ممنوع ہے اور قرآن خوانی کے بعد کھانا کھلانا شیرنی وغیرہ تقسیم کرنا اجرت میں شمار ہوگا؛ اس لئے ایصال وثواب کے لئے اس طرح مجلس قائم کرنا دعوت کرنا بدعت اور ناجائز ہے، اس سے نہ پڑھنے والے کو ثواب ملتا ہے اور نہ ہی میت کو جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري‘‘(۴) ’’فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز‘‘(۵)
(۱) أبو إسحاق، الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۲) ’’أیضاً‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
(۱) أبو إسحاق، الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۲۔
(۲) ابن عابدین،الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ، من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷۔
(۴) أبو إسحاق الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، ’’البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۵) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص417
اسلامی عقائد
Ref. No. 2529/45-3876
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدہ کی وفات کے وقت جو اولاد زندہ تھی ، ان کو میراث میں شرعاً حصہ ملے گا، اور جن اولاد کا انتقال والدہ کی حیات میں ہی ہوگیاتھاان کو شرعا میراث میں حصہ نہیں ملے گا، لہذا جس بھائی کا انتقال والدہ کی حیات میں ہوگیا تھا اس کا یا اس کی اولاد کا میراث میں شرعا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ البتہ جس بھائی کا انتقال والدہ کی وفات کے بعد ہوا ہے، وہ تمام بھائی بہنوں کے ساتھ میراث میں اپنے حصہ کا حقدار ہے، اس کا حصہ اس کی اولاد کو دیدیاجائے گا جو وہ آپس میں شرعی ضابطہ سے تقسیم کرلیں گے۔
بہر حال اب کل ترکہ تین بھائی اور پانچ بہنوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر ایک بھائی کو دوہرا ،اور ہر ایک بہن کو اکہرا حصہ ملے گا۔ لہذا ماں کا کل ترکہ گیارہ حصوں میں تقسیم کریں گے؛ ہر ایک بھائی کو دو دو حصے اور ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا۔
تقسیم کے بعد اگر یہ ورثاء اپنے حصہ میں سے اپنی مرضی سے متوفی بھائی کی اولاد پر کچھ خرچ کریں یا ان کو دیدیں توبہت اچھا ہے، اس کار ثواب پر اجر عظیم کے مستحق ہوں گے، ان شاء اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 39/1081
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ :۔۱/ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ،أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ، وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ،وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورہ الانعام آیت 101)، اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے اولاد اور بیوی کی واضح نفی کی گئی ہے۔۲/ اللہ تعالی کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، وہ ان تمام بشری تقاضوں سے پاک ہیں۔ ۳/ اللہ ساری زبانوں کے عالم بھی ہیں اور خالق بھی ہیں۔ دنیا میں جتنے علوم ہم رکھتے ہیں، ان کا پورا پورا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور لاتعداد وبے شمار چیزیں جو دنیا کا کوئی فرد نہیں جانتا وہ بھی اللہ کے علم میں ہے وہ علیم و خبیر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن خوانی و ایصال ثواب بلا شبہ درست ہے اور اس کے لیے کوئی دن مقرر کرلینے میں بھی حرج نہیں تاکہ اعزاء و اقرباء ایصال ثواب میں شریک ہوجائیں، لیکن کسی دن کی اس طرح تعیین درست نہیں ہے کہ تیسرا ہی دن ہونا ضروری ہے یا چالیسواں ہی ہونا ضروری ہے۔(۱)
(۱) عن جریر بن عبد اللّٰہ البجليِّ قال: کنا نعد الاجتماع إلی أہل المیت وصنیعۃ الطعام بعد دفنہ من النیاحۃ۔ (أخرجہ أحمد، مسندہ، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ: ج ۱، ص: ۵۰۵، رقم: ۶۹۰۵)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ومنہا الوصیۃ من المیت باتخاذ الطعام والضیافۃ یوم موتہ أو بعدہ وبإعطاء دراہم لمن یتلو القرآن لروحہ أو یسبح أو یہلل لہ وکلہا بدع منکرات باطلۃ، والمأخوذ منہا حرام للآخذ، وہو عاص بالتلاوۃ والذکر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص419
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:افطار کے وقت اس طرح اجتماعی دعاء وایصال ثواب کا ثبوت کہیں دیکھا نہیں(۱) اگر اتفاق سے اس طرح دعاء کی گئی تو کوئی حرج نہیں، لیکن اس کو سنت سمجھ کر اس کا التزام نہ کیا جائے۔(۲)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
(۲) من أحدث حدثا أو آوي محدثا فعلیہ لعنۃ اللّٰہ والملائکۃ والناس أجمعین لا یقبل اللّٰہ منہ صرفاً ولا عدلاً۔ (فتاویٰ عزیزی فارسي، رسالہ بیع کنیزان: ص: ۷۵؛ بحوالہ کفایت المفتي: ج ۲، ص: ۲۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص420
اسلامی عقائد
Ref. No. 2633/45-4040
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈاکٹر کے لئے مخصوص لیب والوں سے ٹیست کرانے پر بالخصوص میڈیکل اسٹور سے دوا خریدنے پر مجبور کرنا اور کمیشن لینا شرعاً ناجائز ہے، کیونکہ ڈاکٹر مریض کو دیکھنے اور دوا تجویز کرنے کی فیس لینا ہے اس پر لازم ہے کہ مریض کے ساتھ ہمدردی وخیرخواہی کرے اس لئے ڈاکٹروں کا کمیشن لینا خیر خواہی کے خلاف ہے جب کہ شرعی حکم ہے:’’وینصح لہ اذا غاب أو شہد‘‘ (ترمذی: رقم: ٢٧٣٧)
حکم خدا وندی ہے:
یا ایہا الذین آمنوا لاتأکلوا أموالکم بینکم بالباطل‘‘ اس کی تفسیر میں علامہ آلوسی نے فرمایا ’’والمعنی لا یأکل بعضکم أموال بعض والمراد بالباطل ما یخالف الشرع کالربا والقمار البخس والظلم‘‘ (تفسیر روح المعانی: ج ٥، ص: ١٧، النساء: ٢٩)
صورت مسئولہ میں ڈاکٹر کی طرف سے کوئی ایسا عمل نہیں پایا گیا جس پر شرعاً معاوضہ لینا جائز ہو، بلکہ کمیشن کے نام پر لینا رشوت ہے، جس پر لینے اوردینے والے دونوں گناہگار ہوں گے، البتہ اگر کمیشن نہ دینے پر لیب کے بند ہونے کا یقین ہو تو کمیشن دینے کی گنجائش ہوگی البتہ لینا ناجائز ہی ہوگا۔
لأن الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجر‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الاجارۃ‘‘: ج ٩،ص: ٠٣١)
وکذلک اذا قال ہذا لقول شخص معین فدلہ علیہ بالقول بدون عمل فلیس لہ اجرۃ لأن الدلالۃ والاشارۃ لیستا مما یؤخذ علیہما اجر‘‘ (درر الاحکام شرح مجلۃ الاحکام: ج ١، ص: ٥٠٢، ٥٠٣)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند