اسلامی عقائد

Ref. No. 2529/45-3876

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدہ کی وفات کے وقت جو اولاد زندہ تھی ، ان کو میراث میں شرعاً  حصہ  ملے گا، اور جن  اولاد کا انتقال والدہ کی حیات میں ہی  ہوگیاتھاان کو شرعا میراث میں حصہ نہیں ملے گا، لہذا جس بھائی کا انتقال والدہ کی حیات میں ہوگیا تھا اس کا یا اس کی  اولاد کا میراث میں شرعا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ البتہ جس بھائی کا انتقال والدہ کی وفات کے بعد ہوا ہے، وہ تمام بھائی بہنوں کے ساتھ میراث میں اپنے حصہ  کا حقدار ہے، اس کا حصہ اس کی اولاد کو دیدیاجائے گا جو وہ آپس میں شرعی ضابطہ سے تقسیم کرلیں گے۔

بہر حال اب کل ترکہ تین بھائی اور پانچ بہنوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر ایک بھائی کو دوہرا ،اور ہر ایک بہن کو اکہرا حصہ ملے گا۔ لہذا ماں کا کل ترکہ  گیارہ حصوں میں تقسیم کریں گے؛ ہر ایک بھائی کو دو دو حصے اور ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

تقسیم کے بعد اگر یہ ورثاء اپنے حصہ میں سے اپنی مرضی سے متوفی بھائی کی اولاد پر کچھ خرچ کریں یا ان کو دیدیں توبہت اچھا ہے، اس کار ثواب پر اجر عظیم کے مستحق ہوں گے، ان شاء اللہ۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 39/1081

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ :۔۱/  بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ،أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ، وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ،وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورہ الانعام آیت 101)،  اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے اولاد اور بیوی کی واضح نفی کی گئی ہے۔۲/  اللہ تعالی کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، وہ ان تمام بشری تقاضوں سے پاک ہیں۔ ۳/ اللہ ساری زبانوں کے عالم  بھی ہیں اور خالق بھی ہیں۔ دنیا میں جتنے علوم ہم رکھتے ہیں، ان کا پورا پورا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور لاتعداد وبے شمار چیزیں جو دنیا کا کوئی فرد نہیں جانتا وہ بھی اللہ کے علم میں ہے وہ علیم و خبیر ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن خوانی و ایصال ثواب بلا شبہ درست ہے اور اس کے لیے کوئی دن مقرر کرلینے میں بھی حرج نہیں تاکہ اعزاء و اقرباء ایصال ثواب میں شریک ہوجائیں، لیکن کسی دن کی اس طرح تعیین درست نہیں ہے کہ تیسرا ہی دن ہونا ضروری ہے یا چالیسواں ہی ہونا ضروری ہے۔(۱)

(۱) عن جریر بن عبد اللّٰہ البجليِّ قال: کنا نعد الاجتماع إلی أہل المیت وصنیعۃ الطعام بعد دفنہ من النیاحۃ۔ (أخرجہ أحمد، مسندہ، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ: ج ۱، ص: ۵۰۵، رقم: ۶۹۰۵)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ومنہا الوصیۃ من المیت باتخاذ الطعام والضیافۃ یوم موتہ أو بعدہ وبإعطاء دراہم لمن یتلو القرآن لروحہ أو یسبح أو یہلل لہ وکلہا بدع منکرات باطلۃ، والمأخوذ منہا حرام للآخذ، وہو عاص بالتلاوۃ والذکر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص419
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:افطار کے وقت اس طرح اجتماعی دعاء وایصال ثواب کا ثبوت کہیں دیکھا نہیں(۱) اگر اتفاق سے اس طرح دعاء کی گئی تو کوئی حرج نہیں، لیکن اس کو سنت سمجھ کر اس کا التزام نہ کیا جائے۔(۲)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
(۲) من أحدث حدثا أو آوي محدثا فعلیہ لعنۃ اللّٰہ والملائکۃ والناس أجمعین لا یقبل اللّٰہ منہ صرفاً ولا عدلاً۔ (فتاویٰ عزیزی فارسي، رسالہ بیع کنیزان: ص: ۷۵؛ بحوالہ کفایت المفتي: ج ۲، ص: ۲۹۷
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص420

اسلامی عقائد

Ref. No. 2633/45-4040

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈاکٹر کے لئے مخصوص لیب والوں سے ٹیست کرانے پر بالخصوص میڈیکل اسٹور سے دوا خریدنے پر مجبور کرنا اور کمیشن لینا شرعاً ناجائز ہے، کیونکہ ڈاکٹر مریض کو دیکھنے اور دوا تجویز کرنے کی فیس لینا ہے اس پر لازم ہے کہ مریض کے ساتھ ہمدردی وخیرخواہی کرے اس لئے ڈاکٹروں کا کمیشن لینا خیر خواہی کے خلاف ہے جب کہ شرعی حکم ہے:’’وینصح لہ اذا غاب أو شہد‘‘ (ترمذی: رقم: ٢٧٣٧)

حکم خدا وندی ہے:

یا ایہا الذین آمنوا لاتأکلوا أموالکم بینکم بالباطل‘‘ اس کی تفسیر میں علامہ آلوسی نے فرمایا ’’والمعنی لا یأکل بعضکم أموال بعض والمراد بالباطل ما یخالف الشرع کالربا والقمار البخس والظلم‘‘ (تفسیر روح المعانی: ج ٥، ص: ١٧، النساء: ٢٩)

صورت مسئولہ میں ڈاکٹر کی طرف سے کوئی ایسا عمل نہیں پایا گیا جس پر شرعاً معاوضہ لینا جائز ہو، بلکہ کمیشن کے نام پر لینا رشوت ہے، جس پر لینے اوردینے والے دونوں گناہگار ہوں گے، البتہ اگر کمیشن نہ دینے پر لیب کے بند ہونے کا یقین ہو تو کمیشن دینے کی گنجائش ہوگی البتہ لینا ناجائز ہی ہوگا۔

لأن الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجر‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الاجارۃ‘‘: ج ٩،ص: ٠٣١)

وکذلک اذا قال ہذا لقول شخص معین فدلہ علیہ بالقول بدون عمل فلیس لہ اجرۃ لأن الدلالۃ والاشارۃ لیستا مما یؤخذ علیہما اجر‘‘ (درر الاحکام شرح مجلۃ الاحکام: ج ١، ص: ٥٠٢، ٥٠٣)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دن مقرر کر کے مسجد میں درود شریف پڑھنے کا التزام کرنا درست نہیں ہے(۱) اتفاقاً ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے۔

(۱) عن ابن مسعود رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أنہ أخرج جماعۃ من المسجد یہللون ویصلون علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جہراً وقال ما أراکم إلا مبتدعین۔ (ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص420

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عقیقہ کرنا مسنون ہے جو ساتویں دن یا اس کے بعد کبھی بھی ہو جائے لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا اللہ کے نام عقیقہ کی نیت سے ذبح کیا جائے، پھر اس کو تقسیم کردیا جائے یا پکاکر لوگوں کو غریب امیر رشتہ داروں وغیرہ کو کھلا دیا جائے اور بچے کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کردی جائے۔
مذکورہ فی السوال طریقہ جو رائج ہے اس میں مسنون عقیقہ ادا نہیں ہوتا اور اگر رسم ورواج کے طور پر ہو تو بدعت ہوجائے گا، جس سے بچنا ضروری ہے، جہاں تک ہو سکے عقیقہ کردیا جائے اس سے بچہ کے سر سے بلائیں اور آفات بھی دور ہوجاتی ہیں۔ (۱)

(۱) عن سمرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: کل غلام رہینۃ بعقیقۃ، تذبح عنہ یوم السابع، وتحلق رأسہ، ویدمیٰ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ،…بقیہ  ’’کتاب الضحایا: باب في العقیقۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۲، رقم: ۲۸۳۷)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عمل رسماً جائز نہیں، ہاں ضرورتاً جائز ہے، ضرورت پوری ہونے پر بند کردینا چاہئے اسراف جائز نہیں۔(۱)
اگر بتی کو بھی رسم کے طور پر جلانا درست نہیں۔ غیروں کے ساتھ مشابہت سے بچنا چاہئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ (۲){یأیہا الذین آمنوا لا تکونو کالذین کفروا}(۳)

(۱) إن إضاعۃ المال والتبذیر بأي وجہ کان کالرشوۃ والقمار والربوا وغیرہ ذلک حرام إجماعاً۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري: ج ۱، ص: ۲۶۹)
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب القمیص والأقبیۃ ولبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱۔
(۳) سورۃ آل عمران: ۱۵۶۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص530

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کے لئے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’آب حیات‘‘ اور حضرت مولانا محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’انبیاء کی حیات‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔(۱) نیز حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی متعدد تصانیف میں یہ مسئلہ موجودہے جمال قاسمی میں بھی ایک مکتوب میں نہایت واضح طور پر مثال دے کر ادلۂ نقلیہ اور عقلیہ سے اس کو ثابت کیا ہے۔

(۱) حضرۃ الرسالۃ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حي في قبرہ الشریف وحیوتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دنیویۃ من غیر تکلیف وہي مختصۃ بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبجمیع الأنبیاء صلوات اللّٰہ علیہم۔ (خلیل احمد سہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۱۳){وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا ط بَلْ أَحْیَآئٌ عِنْدَرَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ ہلا۱۶۹} (سورۃ آل عمران: ۱۶۹)
فذہب جماعۃ من العلماء إلی أن ہذہ الحیوۃ مختص بالشہداء، والحق عندي عدم اختصاصہا بہم بل حیوۃ الأنبیاء أقوی منہم وأشد ظہورا آثارہا في الخارج حتی لا یجوز النکاح بأزواج النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- بعد وفاتہ بخلاف الشہید۔ (محمد ثناء اللّٰہ، تفسیر مظہري، ’’سورۃ بقرۃ: ۱۵۴‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۰)
عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من صلی علي عند قبري سمعتہ، ومن صلی علي نائیا أبلغتہ۔ (أبوبکر البیہقي، ’’شعب الإیمان، الخامس عشر: باب في تعلیم النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- وإجلالہ وتوقیرہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸، رقم: ۱۵۸۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص 203
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ کی ہمت افزائی کے طور پر ایسا کیا جائے تو مباح ہے، ممنوع نہیں؛ لیکن اس کو رسم بنانا درست نہیں۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص531