اسلامی عقائد

Ref. No. 992/41-157

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد شرعی تحت الثری سے آسمان کی فضا تک مسجد کے حکم میں ہوتی ہے۔ وحاصلہ ان شرط کونہ مسجد ا ان یکون سفلہ وعلوہ مسجدا ینقطع حق العبد عنہ  لقولہ تعالی وان المساجد للہ ۔  (شامی)

سوال میں مذکور دونوں صورتوں میں بنائی گئی عمارت مسجد شرعی کے حکم میں نہیں ہے، بلکہ مصلی یا جماعت خانہ کہلائے گا۔

ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پورے حصہ کو یا کچھ حصہ کو مکمل طور پر مسجد بنادیا جائے  اور پھر حسب ضرورت وہاں مسجد ہی میں دینی تعلیم بھی ہوجایا کرے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2171/44-2285

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ جگہ سرکاری نہیں تھی بلکہ برادری کے لوگوں کے پیسے سے خریدی گئی تھی، تو اگر ان کے مالکان کا علم ہے تو ان کو لوٹادیا جائے۔ اور اگر اس کا علم نہیں ہوسکتاہے اور تمام منہیاران رہتواروں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے تو جو لوگ اس پنچایتی جگہ کے بننے کے وقت وہاں تھے اور اب وہاں نہیں رہتے ہیں تو ان کا بھی حصہ ہوگا، اور اگر وہ پیسے والد کو مل رہے ہیں تو بھائی کے ساتھ بہنوں کا بھی حصہ ہوگا۔

اگر معاملات کو سمجھنے یا طے کرنے میں دشواری ہو تو کسی شرعی دارالقضاء سے یا کسی ماہر مفتی سے معاملہ طے کرالیا اور تقسیم کرالی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حیات برزخی ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر اطہر میں اپنے جسد مبارک کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ الحاوی للفتاوی میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
حیاۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبرہ ہو وسائر الأنبیاء معلومۃ عندنا علما قطعیا لما قام عندنا من الأدلۃ في ذلک وتواترت (بہ) الأخبار، وقد ألف البیہقي جزئا في حیاۃ الأنبیاء في قبورہم، فمن الأخبار الدالۃ علی ذلک ما أخرجہ مسلم عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیلۃ أسري بہ مر بموسی علیہ السلام وہو یصلي في قبرہ، وأخرج أبو نعیم في الحلیۃ عن ابن عباس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بقبر موسی علیہ السلام وہو قائم یصلي فیہ، وأخرج أبو یعلی في مسندہ، والبیہقي في کتاب حیاۃ الأنبیاء عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلون، وأخرج أبو نعیم في الحلیۃ عن یوسف بن عطیۃ قال: سمعت ثابتا البناني یقول لحمید الطویل: ہل بلغک أن أحدا یصلي في قبرہ إلا الأنبیاء؟ قال: لا، وأخرج أبو داود والبیہقي عن أوس بن أوس الثقفي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من أفضل أیامکم یوم الجمعۃ فأکثروا علي الصلاۃ فیہ، فإن صلاتکم تعرض علي، قالوا: یا رسول اللّٰہ وکیف تعرض علیک صلاتنا وقد أرمت؟ یعني: بلیت، فقال: إن اللّٰہ حرم علی الأرض أن تأکل أجسام الأنبیاء، وأخرج البیہقي في شعب الإیمان، والأصبہاني في الترغیب عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی عليّ عند قبري سمعتہ ومن صلی علي نائیا بلغتہ۔
’’وأخرج البخاري في تاریخہ عن عمار سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن للّٰہ تعالیٰ ملکا أعطاہ أسماع الخلائق قائم علی قبري فما من أحد یصلي علي صلاۃ إلا بلغتہا، وأخرج البیہقي في حیاۃ الأنبیاء، والأصبہاني في الترغیب عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی علی مائۃ في یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ، قضی اللّٰہ لہ مائۃ حاجۃ سبعین من حوائج الأخرۃ وثلاثین من حوائج الدنیا، ثم وکل اللّٰہ بذلک ملکا یدخلہ عليَّ في قبري کما یدخل علیکم الہدایا‘‘(۱)

(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا احادیث سے ثابت ہے؛بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دعا مانگنے کی ترغیب و تعلیم دی ہے، اس لیے آپ کے وسیلے سے دعا مانگنے کا انکار اور اسے شرک قرار دینا غلط ہے۔
’’عن عثمان بن حنیف، أن رجلا ضریر البصر أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: أدع اللّٰہ أن یعافیني قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فہو خیر لک۔ قال: فادعہ، قال: فأمرہ أن یتوضّأ فیحسن وضوئہ ویدعو بہذا الدعاء: اللہم إني أسألک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمۃ، إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضی لي، اللہم فشفعہ في قال أبو عیسیٰ ہذا حدیث حسن صحیح غریب‘‘۔(۱)
ومن أداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، لیستجاب الدُّعَاء،(۲) وقال الشوکاني في ’’ تحفۃ الذاکرین‘‘: وفي الحدیث دلیل علی جواز التوسل برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی اللّٰہ عز وجل، مع اعتقاد أن الفاعل ہو اللّٰہ سبحانہ وتعالی، وأنہ المعطی والمانع، ما شاء اللّٰہ کان، وما لم یشأ لم یکن‘‘(۳)

(۳) صحابہ کرام تمام کے تمام عادل اور معیار حق ہیں، صحابہ کرام نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس قدر دین برحق سیکھا وہ دوسروں کو اسی طرح پہنچایا اس میں اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا، کوئی حکم نہیں بدلا، کوئی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط منسوب نہیں کی جس بات کو صحابہ کرام نے یہ فرمایا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے وہ بالکل صحیح ہے اس کو صحیح ماننا لازم ہے، صحابہ کرام پراگر اعتماد نہ ہو او ران کے نقل دین کو حق تسلیم نہ کیا جائے تو پھر سارے دین سے اعتماد ختم ہوجائے گا اور صحیح دین دوسرے تک پہونچانے کی صورت نہیں رہے گی جیسا کہ روافض نے صحابہ کرام پر اعتماد نہیں کیا تو ان کے نزدیک نہ احادیث قابل اعتماد ہیں اور نہ قرآن پر ان کو اعتماد ہے، ان کے پاس دین برحق پہنچنے کی کوئی صورت نہیں ہے اور وہ اس نعمت الٰہی اور ذریعہ نجات سے محروم ہیں لہٰذا نقل دین میںصحابہ معیار حق ہیں جن حضرات کے یہ خیالات ہیںوہ غلط ہیں ان کو اس سے توبہ کرنا چاہیے تاہم وہ مسلمان ہیں ان کو سلام کرنا، ان کی دعوت قبول کرنا، ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے اگرچہ کراہت ضرور ہے اسی طرح نکاح بھی درست ہے تاہم اگر مصلحت نکاح کے خلاف ہو تو احتراز بہتر ہے۔(۱)

۱) الحاوي للفتاویٰ، ’’أنباء الأذکیاء بحیاۃ الأنبیاء‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸۔

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما جاء في جامع الدعوات، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، رقم: ۳۵۷۸۔
(۲) الشاہ ولي اللّٰہ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ:ج ۲، ص: ۱۰۔
(۳) علامہ شوکاني، تحفۃ الذاکرین، ’’باب: صلاۃ الضرر والحاجۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲۔

(۱) ویکف عن ذکر الصحابۃ إلا بخیر لما ورد عن الأحادیث الصحیحۃ في مناقبہم، ووجوب الکف عن الطعن فیہم کقولہ علیہ السلام: لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذہبا ما بلغ مد أحد ہم ولا نصیفہ إلخ۔ (علامہ سعد الدین تفنازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث یجب الکف عن الطعن في الصحابۃؓ‘‘: ص: ۱۶۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص 205

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی کوئی اصل نہیں اور ایسا اعتقاد واجب الترک ہے۔ اس سے بدعات کو فروغ ملتا ہے اور بے اصل وبے بنیاد چیزیں مذہب میں داخل ہوجاتی ہیں اور لوگ اس کو شریعت سمجھنے لگتے ہیں۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم:
۱۷۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص531

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سرور کائنات جناب محمد رسول اللہ علیہ وسلم اولادِ آدم سے ہیں اور جس طرح آدم علیہ السلام باعتبار تخلیقی عناصر بشر ہیں اور بشری صفات کھانے پینے سونے جاگنے نکاح وطلاق بیماری وصحت وغیرہ امور سے بے نیاز اور بری نہیں تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر اور مذکورہ صفات سے متصف تھے۔ اور یہ صفات بشریہ نبوت کے منافی نہیں ہیں، ان کو نبوت کے منافی سمجھنا درست نہیں ہے۔ البتہ بشر ہونے کے باوجود حق جل مجدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سی خصوصیات سے نوازا، اپنا حبیب اور خلیل بنایا، قرآن پاک آپ پر نازل فرمایا، ہر قسم کے گناہوں سے آپ کو معصوم رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ واہل بیت کو وہ درجہ دیا کہ پیغمبروں کے بعد کسی کو نہیں ملا، اور اپنی رضاء اور نجات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں منحصر کر دیا، چنانچہ انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کرنے سے گمراہی کی تاریکیوں سے نکل کر صراط مستقیم کی روشنی میں آجاتا ہے پھر نافرمانی کی ہلاکتوں سے بچ کر جہنم سے نجات اور جنت میں دخول کی سعادت حاصل کرتا ہے، اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفت نورانیت سے بھر پور متصف ہیں۔(۱)

(۱) {قُلْ إِنَّمَآ  أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی إِلَیَّ أَنَّمَآ إِلٰھُکُمْ  إِلٰہٌ وَّاحِدٌ ج} (سورۃ کہف: ۱۱۰)
{ذٰلِکَ بِأَنَّہٗ کَانَتْ تَأْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا أَبَشَرٌ یَّھْدُوْنَنَاز فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ط} (سورۃ التغابن: ۶)
عن أم سلمۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنکم تختصمون إليّ وإنما أنا بشر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الأحکام، باب ما جاء في الشدید علی من یقضی لہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸، رقم:۱۳۳۹)
وقد أرسل اللّٰہ تبارک وتعالیٰ رسلا من البشر إلی البشر مبشرین لأہل الإیمان والطاعۃ بالجنۃ والثواب، ومنذرین لأہل الکفر والعصیان بالنار والعقاب۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’محبث النبوّات‘‘: ص: ۱۳۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص 208

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث شریف میں ہے کہ: ایک صحابیؓ فرماتے ہیں کہ: میرا ہاتھ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مبارک ہاتھوں میں تھا(۲)، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ: دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا مسنون ہے، بدعت نہیں ہے، جو بات حدیث سے ثابت ہو اس کو بدعت کہنا غلط ہے۔ (۳)

(۲) سمعت ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہما یقول: علمني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکفي بین کفیہ التشہد کما یعلمني السورۃ من القرآن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاستئذان: باب المصافحۃ‘‘: ج ۲ ص: ۹۲۶، رقم: ۶۲۶۵)
(۳) والحق أن مصافحتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثابتۃ بالید وبالیدین إلا أن المصافحۃ بید واحدۃ لما کانت شعار أہل الفرنج وجب ترکہ کذلک۔ (علامہ رشید أحمد، گنگوہی، (الہند) الکوکب الدري: ج ۳، ص: ۳۹۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص532

اسلامی عقائد

Ref. No. 1483/42-906

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسیلمہ کذاب دعوی نبوت کی وجہ سے کافر و مرتد ہوگیاتھا اسی وجہ سے اسے قتال کیا گیاتھا، بغاوت ضمنی چیز تھی  ۔(2) مسیلمہ کذاب کو اس کے دعوی نبوت کی وجہ سے مرتد کہا جائے گا زندیق نہیں ۔علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں مختلف جگہ اس کو مرتد قرار دیا ہے ہاںآپ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں دو گروہ تھے ایک مرتد تھاجیسے مسیلمہ کا گروہ اور ایک باغیوں کا گروہ تھا جو اسلام پر رہتے ہوئے زکوۃ دینے سے انکار کررہاتھااور دونوں سے ہی قتال کیا گیا تھا اور مسیلمہ نے فوج تیار کی تھی اور اپنی فوج کےساتھ جنگ کے لیے آیا تھا اس لیے شبہ ہورتاہے کہ وہ باغی تھا یا مرتد تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مرتد تھا۔
(3) دعوت مرتد کو بھی دی جاسکتی ہے او رزندیق کو بھی یہی وجہ ہے کہ علماء نے زندیق کے توبہ قبول کرنے کی بات کہی ہے تاہم چوں کہ زندیق اس شخص کو کہتے ہیں جو ا پنے عقائد کفریہ کو دجل و تلبیس نیز ملمع سازی کرتے ہوئے اس خباثت باطنیہ کو اسلامی صورت میں ظاہر کرتا ہے اس لیے ایسے شخص کو اسلامی دعوت مفید نہیں ہوتی ہے اس لیے کہ اپنے دجل و فریب سے لوگوں کے سامنے اپنے اسلام کو دکھا کر باطل کی اسلامی تاویل کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ۔

كانوا صنفين صنف ارتدوا عن الدين ونابدوا الملة وعادوا إلى كفرهم وهم الذين عناهم أبو هريرة بقوله " وكفر من كفر من العرب " وهذه الفرقة طائفتان إحداهما أصحاب مسيلمة من بني حنيفة وغيرهم الذين صدقوه على دعواه في النبوة وأصحاب الأسود العنسي ومن كان من مستجيبيه من أهل اليمن وغيرهم وهذه الفرقة بأسرها منكرة لنبوة سيدنا محمد - صلى الله عليه وسلم  - مدعية للنبوة لغيره فقاتلهم أبو بكر رضي الله تعالى عنه حتى قتل الله مسيلمة باليمامة والعنسي بالصنعاء وانقضت جموعهم وهلك أكثرهم والطائفة الثانية ارتدوا عن الدين فأنكروا الشرائع وتركوا الصلاة والزكاة وغيرهما من أمور الدين وعادوا إلى ما كانوا عليه في الجاهلية فلم يكن مسجد لله تعالى في بسيط الأرض إلا ثلاثة مساجد مسجد مكة ومسجد المدينة ومسجد عبد القيس في البحرين في قرية يقال لها جواثى والصنف الآخر هم الذين فرقوا بين الصلاة والزكاة فأقروا بالصلاة وأنكروا فرض الزكاة ووجوب أدائها إلى الإمام وهؤلاء على الحقيقة أهل بغي وإنما لم يدعوا بهذا الاسم في ذلك الزمان خصوصا لدخولهم في غمار أهل الردة فأضيف الاسم في الجملة إلى الردة إذ كانت أعظم الأمرين وأهمهما وأرخ قتال أهل البغي في زمن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه إذا كانوا منفردين في زمانه لم يختلطوا بأهل الشرك(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ، باب وجوب الزکاۃ ،8/244) ۔وذهب مالك إلى أن توبة الزنديق لا تقبل ويحكى ذلك أيضا عن أحمد وقال النووي اختلف أصحابنا في قبول توبة الزنديق وهو الذي ينكر الشرع جملة فذكروا فيه خمسة أوجه لأصحابنا أصحها والأصوب منها قبولها مطلقا للأحاديث الصحيحة المطلقة. والثاني لا تقبل ويتحتم قتله لكنه إن صدق فيه توبته نفعه ذلك في الدال الآخرة وكان من أهل الجنة. والثالث أنه إن تاب مرة واحدة قبلت توبته فإن تكرر ذلك منه لم تقبل. والرابع إن أسلم ابتداء من غير طلب قبل منه وإن كان تحت السيف فلا تقبل. والخامس إن كان داعيا إلى الضلال لم تقبل منه وإلا قبل منه (قلت) تقبل توبة الزنديق عندنا وعن أبي حنيفة إذا أوتيت بزنديق استتبه فإن تاب قبلت توبته وفي رواية عن أصحابنا لا تقبل توبته. وفيه أن الردة لا تسقط الزكاة عن المرتد إذا وجبت في ماله قاله في التوضيح (ایضا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص مسلمان نہیں ہے تا وقتیکہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی رسالت کا اقرار نہ کرلے؛ پس ایسا شخص دائمی دوزخ کا مستحق ہے۔(۱)

(۱) {ٰیٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ أَمَنُوْٓا أَمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِيْ أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُط وَمَنْ  یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْأَخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا ہ۱۳۶} (سورۃ النساء: ۱۳۶)
{أٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَط کُلٌّ أٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا زق غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ہ۲۸۵} (سورۃ البقرۃ: ۲۸۵)
وعن أبي سعید الخدري -رضي اللّٰہ عنہ- قال: لقیہ رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- وأبو بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما -یعني ابن صیّاد- في بعض طرق المدینۃ، فقال لہ رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- أتشہد أني رسول اللّٰہ؟ فقال ہو:أتشہد أني رسول اللّٰہ؟ فقال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-: آمنت باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ، ما ذا تری؟ قال: أری عرشاً علی الماء۔ فقال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- تری عرش إبلیس علی البحر وما تری؟ قال: أری صادقین وکاذباً، أو کاذبین وصادقاً، فقال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-: ’’لبّس علیہ فدعوہ‘‘ رواہ مسلم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب قصۃ ابن صیاد، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۵۵، رقم: ۵۴۹۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص210

اسلامی عقائد

Ref. No. 2536/45-3892

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی شخص کے انتقال ہوجانے کے بعد اس کا تمام تر چھوڑا ہوا مال اس کے ورثہ کا ہوجاتاہے اور مرنے والے کی ملکیت اس پر سے ختم ہوجاتی ہےاب قرضوں کی ادائیگی اور وصیت کے نافذ کرنے کے بعد فوری طورپر ان کی جائداد کو تقسیم کرنا ضروری ہے اس میں کسی قسم کی تاخیر ناجائزاورحرام ہے۔خاص طورپر کسی وارث پر تمام جائداد پر قابض رہنا اور دیگر ورثہ کو محروم کرنا حرام ہے۔{وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ}.. [آل عمران : 133].قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالی نے مغفرت کے اعمال کی طرف جلدی کرنے کا حکم دیا ہے ابن عاشور کہتے ہیں اس کا تعلق تمام اسباب مغفرت اور دخول جنت کے اسباب میں حقوق کی ادائیگی ہے خواہ حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد ہو اور حقوق الناس میں ترکہ کی تقسیم بھی ہے مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(ابن ماجہ)عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثًا فَرَضَهُ اللَّهُ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ (بیہقی)قال العلامة المُناوي: "أفاد أن حرمان الوارث حرام، بل قضية هذا الوعيد أنه كبيرة، وبه صَرَّح الذهبي وغيره"
حدیث میں ہے کہ جو کسی کے میراث کو کاٹے گا یا وراثت سے محروم کرنے کی کوشش کرے گااللہ تعالی جنت کے اس کے حصہ کو ختم کردے گا۔ یہ حدیث میراث نہ دینے وا لوں اور دوسروں ورثہ کو محروم کرنے کے سلسلے میں بہت سخت ہے علامہ مناوی نے لکھاہےکہ وارث کو محروم کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے ۔نیز میراث سے منع کرنایا اس میں بلا عذر کے تاخیر کرنا دوسروں کے حقو پر دست درازی اور تعدی کرنا اور دوسروں کے حقوق کو چٹ کرجاناہے اور یہ ظلم ہے اور ظلم گناہ کبیرہ ہے جس پر اللہ تعالی نے وعید کا تذکرہ کیاہے ۔عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)(مسلم شریف) وروى البخاري عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ».(بخاری )اسی طرح میراث نہ دینا یہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانا ہے جس پر بھی قرآن میں وعید ہے {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ}.. [النساء: 29]عن أبي حميد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه» وذلك لما حرم الله مال المسلم على المسلم(مسند احمد 39/18،حدیث نمبر:23605)لا یجوز لاحد أن یتصرف فی ملک غیرہ بلا اذنہ أو وکالتہ منہ أو ولایۃ علیہ وان فعل کان ضامنا(شرح المجلۃ،رستم1/61)
چوں کہ مورث کی جائداد پر قبضہ کرنا اور دوسرے وارثوں کو محروم کرنا یہ گناہ کبیرہ اور ظلم ہے ایسے لوگوں کی نماز یں اللہ تعالی کے یہاں قبول نہیں ہوتی ہیں اگرچہ فریضہ ساقط ہوجاتاہے،وہ ان جائدادوں سے کھارہے ہیں تو ظلما دوسروں کا مال کھارہے رہے ہیںجس پر سخت وعید ناززل ہوئی ہے اس لیے بخت بانو کو چاہیے کہ جلد سے جلد شوہر کے ترکہ کو تمام ورثہ کے درمیان شرعی طورپر تقسیم کردیں اور تاخیر کی تمام ورثہ سے معافی مانگیں لیکن اگر انہوں نے تقسیم نہیں کیا اور فوت گئیں تو اس صورت میں شوہر کی جو جائداد ہے پہلے ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگی پھر بخت بانو کے حصے میں جو کچھ آیا ہے اس کو بخت بانو کے ورثہ میں تقسیم کیا جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ کا سوال واضح نہیں ہے۔ اپنا سوال تفصیل کے ساتھ دوبارہ لکھ کر بھیجیں تو جواب دیاجائے گا۔ ان شاء اللہ

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند