اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دن مقرر کر کے مسجد میں درود شریف پڑھنے کا التزام کرنا درست نہیں ہے(۱) اتفاقاً ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے۔

(۱) عن ابن مسعود رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أنہ أخرج جماعۃ من المسجد یہللون ویصلون علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جہراً وقال ما أراکم إلا مبتدعین۔ (ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص420

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عقیقہ کرنا مسنون ہے جو ساتویں دن یا اس کے بعد کبھی بھی ہو جائے لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا اللہ کے نام عقیقہ کی نیت سے ذبح کیا جائے، پھر اس کو تقسیم کردیا جائے یا پکاکر لوگوں کو غریب امیر رشتہ داروں وغیرہ کو کھلا دیا جائے اور بچے کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کردی جائے۔
مذکورہ فی السوال طریقہ جو رائج ہے اس میں مسنون عقیقہ ادا نہیں ہوتا اور اگر رسم ورواج کے طور پر ہو تو بدعت ہوجائے گا، جس سے بچنا ضروری ہے، جہاں تک ہو سکے عقیقہ کردیا جائے اس سے بچہ کے سر سے بلائیں اور آفات بھی دور ہوجاتی ہیں۔ (۱)

(۱) عن سمرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: کل غلام رہینۃ بعقیقۃ، تذبح عنہ یوم السابع، وتحلق رأسہ، ویدمیٰ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ،…بقیہ  ’’کتاب الضحایا: باب في العقیقۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۲، رقم: ۲۸۳۷)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عمل رسماً جائز نہیں، ہاں ضرورتاً جائز ہے، ضرورت پوری ہونے پر بند کردینا چاہئے اسراف جائز نہیں۔(۱)
اگر بتی کو بھی رسم کے طور پر جلانا درست نہیں۔ غیروں کے ساتھ مشابہت سے بچنا چاہئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ (۲){یأیہا الذین آمنوا لا تکونو کالذین کفروا}(۳)

(۱) إن إضاعۃ المال والتبذیر بأي وجہ کان کالرشوۃ والقمار والربوا وغیرہ ذلک حرام إجماعاً۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري: ج ۱، ص: ۲۶۹)
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب القمیص والأقبیۃ ولبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱۔
(۳) سورۃ آل عمران: ۱۵۶۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص530

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کے لئے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’آب حیات‘‘ اور حضرت مولانا محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’انبیاء کی حیات‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔(۱) نیز حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی متعدد تصانیف میں یہ مسئلہ موجودہے جمال قاسمی میں بھی ایک مکتوب میں نہایت واضح طور پر مثال دے کر ادلۂ نقلیہ اور عقلیہ سے اس کو ثابت کیا ہے۔

(۱) حضرۃ الرسالۃ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حي في قبرہ الشریف وحیوتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دنیویۃ من غیر تکلیف وہي مختصۃ بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبجمیع الأنبیاء صلوات اللّٰہ علیہم۔ (خلیل احمد سہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۱۳){وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا ط بَلْ أَحْیَآئٌ عِنْدَرَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ ہلا۱۶۹} (سورۃ آل عمران: ۱۶۹)
فذہب جماعۃ من العلماء إلی أن ہذہ الحیوۃ مختص بالشہداء، والحق عندي عدم اختصاصہا بہم بل حیوۃ الأنبیاء أقوی منہم وأشد ظہورا آثارہا في الخارج حتی لا یجوز النکاح بأزواج النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- بعد وفاتہ بخلاف الشہید۔ (محمد ثناء اللّٰہ، تفسیر مظہري، ’’سورۃ بقرۃ: ۱۵۴‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۰)
عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من صلی علي عند قبري سمعتہ، ومن صلی علي نائیا أبلغتہ۔ (أبوبکر البیہقي، ’’شعب الإیمان، الخامس عشر: باب في تعلیم النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- وإجلالہ وتوقیرہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸، رقم: ۱۵۸۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص 203
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ کی ہمت افزائی کے طور پر ایسا کیا جائے تو مباح ہے، ممنوع نہیں؛ لیکن اس کو رسم بنانا درست نہیں۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص531

اسلامی عقائد

Ref. No. 992/41-157

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد شرعی تحت الثری سے آسمان کی فضا تک مسجد کے حکم میں ہوتی ہے۔ وحاصلہ ان شرط کونہ مسجد ا ان یکون سفلہ وعلوہ مسجدا ینقطع حق العبد عنہ  لقولہ تعالی وان المساجد للہ ۔  (شامی)

سوال میں مذکور دونوں صورتوں میں بنائی گئی عمارت مسجد شرعی کے حکم میں نہیں ہے، بلکہ مصلی یا جماعت خانہ کہلائے گا۔

ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پورے حصہ کو یا کچھ حصہ کو مکمل طور پر مسجد بنادیا جائے  اور پھر حسب ضرورت وہاں مسجد ہی میں دینی تعلیم بھی ہوجایا کرے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2171/44-2285

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ جگہ سرکاری نہیں تھی بلکہ برادری کے لوگوں کے پیسے سے خریدی گئی تھی، تو اگر ان کے مالکان کا علم ہے تو ان کو لوٹادیا جائے۔ اور اگر اس کا علم نہیں ہوسکتاہے اور تمام منہیاران رہتواروں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے تو جو لوگ اس پنچایتی جگہ کے بننے کے وقت وہاں تھے اور اب وہاں نہیں رہتے ہیں تو ان کا بھی حصہ ہوگا، اور اگر وہ پیسے والد کو مل رہے ہیں تو بھائی کے ساتھ بہنوں کا بھی حصہ ہوگا۔

اگر معاملات کو سمجھنے یا طے کرنے میں دشواری ہو تو کسی شرعی دارالقضاء سے یا کسی ماہر مفتی سے معاملہ طے کرالیا اور تقسیم کرالی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حیات برزخی ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر اطہر میں اپنے جسد مبارک کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ الحاوی للفتاوی میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
حیاۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبرہ ہو وسائر الأنبیاء معلومۃ عندنا علما قطعیا لما قام عندنا من الأدلۃ في ذلک وتواترت (بہ) الأخبار، وقد ألف البیہقي جزئا في حیاۃ الأنبیاء في قبورہم، فمن الأخبار الدالۃ علی ذلک ما أخرجہ مسلم عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیلۃ أسري بہ مر بموسی علیہ السلام وہو یصلي في قبرہ، وأخرج أبو نعیم في الحلیۃ عن ابن عباس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بقبر موسی علیہ السلام وہو قائم یصلي فیہ، وأخرج أبو یعلی في مسندہ، والبیہقي في کتاب حیاۃ الأنبیاء عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلون، وأخرج أبو نعیم في الحلیۃ عن یوسف بن عطیۃ قال: سمعت ثابتا البناني یقول لحمید الطویل: ہل بلغک أن أحدا یصلي في قبرہ إلا الأنبیاء؟ قال: لا، وأخرج أبو داود والبیہقي عن أوس بن أوس الثقفي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من أفضل أیامکم یوم الجمعۃ فأکثروا علي الصلاۃ فیہ، فإن صلاتکم تعرض علي، قالوا: یا رسول اللّٰہ وکیف تعرض علیک صلاتنا وقد أرمت؟ یعني: بلیت، فقال: إن اللّٰہ حرم علی الأرض أن تأکل أجسام الأنبیاء، وأخرج البیہقي في شعب الإیمان، والأصبہاني في الترغیب عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی عليّ عند قبري سمعتہ ومن صلی علي نائیا بلغتہ۔
’’وأخرج البخاري في تاریخہ عن عمار سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن للّٰہ تعالیٰ ملکا أعطاہ أسماع الخلائق قائم علی قبري فما من أحد یصلي علي صلاۃ إلا بلغتہا، وأخرج البیہقي في حیاۃ الأنبیاء، والأصبہاني في الترغیب عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی علی مائۃ في یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ، قضی اللّٰہ لہ مائۃ حاجۃ سبعین من حوائج الأخرۃ وثلاثین من حوائج الدنیا، ثم وکل اللّٰہ بذلک ملکا یدخلہ عليَّ في قبري کما یدخل علیکم الہدایا‘‘(۱)

(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا احادیث سے ثابت ہے؛بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دعا مانگنے کی ترغیب و تعلیم دی ہے، اس لیے آپ کے وسیلے سے دعا مانگنے کا انکار اور اسے شرک قرار دینا غلط ہے۔
’’عن عثمان بن حنیف، أن رجلا ضریر البصر أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: أدع اللّٰہ أن یعافیني قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فہو خیر لک۔ قال: فادعہ، قال: فأمرہ أن یتوضّأ فیحسن وضوئہ ویدعو بہذا الدعاء: اللہم إني أسألک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمۃ، إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضی لي، اللہم فشفعہ في قال أبو عیسیٰ ہذا حدیث حسن صحیح غریب‘‘۔(۱)
ومن أداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، لیستجاب الدُّعَاء،(۲) وقال الشوکاني في ’’ تحفۃ الذاکرین‘‘: وفي الحدیث دلیل علی جواز التوسل برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی اللّٰہ عز وجل، مع اعتقاد أن الفاعل ہو اللّٰہ سبحانہ وتعالی، وأنہ المعطی والمانع، ما شاء اللّٰہ کان، وما لم یشأ لم یکن‘‘(۳)

(۳) صحابہ کرام تمام کے تمام عادل اور معیار حق ہیں، صحابہ کرام نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس قدر دین برحق سیکھا وہ دوسروں کو اسی طرح پہنچایا اس میں اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا، کوئی حکم نہیں بدلا، کوئی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط منسوب نہیں کی جس بات کو صحابہ کرام نے یہ فرمایا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے وہ بالکل صحیح ہے اس کو صحیح ماننا لازم ہے، صحابہ کرام پراگر اعتماد نہ ہو او ران کے نقل دین کو حق تسلیم نہ کیا جائے تو پھر سارے دین سے اعتماد ختم ہوجائے گا اور صحیح دین دوسرے تک پہونچانے کی صورت نہیں رہے گی جیسا کہ روافض نے صحابہ کرام پر اعتماد نہیں کیا تو ان کے نزدیک نہ احادیث قابل اعتماد ہیں اور نہ قرآن پر ان کو اعتماد ہے، ان کے پاس دین برحق پہنچنے کی کوئی صورت نہیں ہے اور وہ اس نعمت الٰہی اور ذریعہ نجات سے محروم ہیں لہٰذا نقل دین میںصحابہ معیار حق ہیں جن حضرات کے یہ خیالات ہیںوہ غلط ہیں ان کو اس سے توبہ کرنا چاہیے تاہم وہ مسلمان ہیں ان کو سلام کرنا، ان کی دعوت قبول کرنا، ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے اگرچہ کراہت ضرور ہے اسی طرح نکاح بھی درست ہے تاہم اگر مصلحت نکاح کے خلاف ہو تو احتراز بہتر ہے۔(۱)

۱) الحاوي للفتاویٰ، ’’أنباء الأذکیاء بحیاۃ الأنبیاء‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸۔

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما جاء في جامع الدعوات، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، رقم: ۳۵۷۸۔
(۲) الشاہ ولي اللّٰہ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ:ج ۲، ص: ۱۰۔
(۳) علامہ شوکاني، تحفۃ الذاکرین، ’’باب: صلاۃ الضرر والحاجۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲۔

(۱) ویکف عن ذکر الصحابۃ إلا بخیر لما ورد عن الأحادیث الصحیحۃ في مناقبہم، ووجوب الکف عن الطعن فیہم کقولہ علیہ السلام: لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذہبا ما بلغ مد أحد ہم ولا نصیفہ إلخ۔ (علامہ سعد الدین تفنازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث یجب الکف عن الطعن في الصحابۃؓ‘‘: ص: ۱۶۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص 205

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی کوئی اصل نہیں اور ایسا اعتقاد واجب الترک ہے۔ اس سے بدعات کو فروغ ملتا ہے اور بے اصل وبے بنیاد چیزیں مذہب میں داخل ہوجاتی ہیں اور لوگ اس کو شریعت سمجھنے لگتے ہیں۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم:
۱۷۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص531

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سرور کائنات جناب محمد رسول اللہ علیہ وسلم اولادِ آدم سے ہیں اور جس طرح آدم علیہ السلام باعتبار تخلیقی عناصر بشر ہیں اور بشری صفات کھانے پینے سونے جاگنے نکاح وطلاق بیماری وصحت وغیرہ امور سے بے نیاز اور بری نہیں تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر اور مذکورہ صفات سے متصف تھے۔ اور یہ صفات بشریہ نبوت کے منافی نہیں ہیں، ان کو نبوت کے منافی سمجھنا درست نہیں ہے۔ البتہ بشر ہونے کے باوجود حق جل مجدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سی خصوصیات سے نوازا، اپنا حبیب اور خلیل بنایا، قرآن پاک آپ پر نازل فرمایا، ہر قسم کے گناہوں سے آپ کو معصوم رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ واہل بیت کو وہ درجہ دیا کہ پیغمبروں کے بعد کسی کو نہیں ملا، اور اپنی رضاء اور نجات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں منحصر کر دیا، چنانچہ انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کرنے سے گمراہی کی تاریکیوں سے نکل کر صراط مستقیم کی روشنی میں آجاتا ہے پھر نافرمانی کی ہلاکتوں سے بچ کر جہنم سے نجات اور جنت میں دخول کی سعادت حاصل کرتا ہے، اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفت نورانیت سے بھر پور متصف ہیں۔(۱)

(۱) {قُلْ إِنَّمَآ  أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی إِلَیَّ أَنَّمَآ إِلٰھُکُمْ  إِلٰہٌ وَّاحِدٌ ج} (سورۃ کہف: ۱۱۰)
{ذٰلِکَ بِأَنَّہٗ کَانَتْ تَأْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا أَبَشَرٌ یَّھْدُوْنَنَاز فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ط} (سورۃ التغابن: ۶)
عن أم سلمۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنکم تختصمون إليّ وإنما أنا بشر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الأحکام، باب ما جاء في الشدید علی من یقضی لہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸، رقم:۱۳۳۹)
وقد أرسل اللّٰہ تبارک وتعالیٰ رسلا من البشر إلی البشر مبشرین لأہل الإیمان والطاعۃ بالجنۃ والثواب، ومنذرین لأہل الکفر والعصیان بالنار والعقاب۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’محبث النبوّات‘‘: ص: ۱۳۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص 208