اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ فاتحہ خوانی، نیاز اور کونڈے وغیرہ بھرنا بدعت ہے اور ناجائز امور ہیں۔ (۱)

(۱) تعیین فاتحہ برشیرینی از طعام دریں شبہات از احادیث وروایات کتب معتبرہ ثابت نہ شدہ۔ (مأۃ مسائل: ص: ۱۰۸)
 یکرہ اتخاذ الدعوۃ لقرأۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام والإخلاص۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸))

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص330

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں مذکورہ تمام رواج اور رسمیں (دسواں بیسواں منانا اس میں گوشت وغیرہ کا اہتمام) شرعاً ناجائز ہیں ان کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے نیز میت کے اعمال کی قبولیت اور عدم قبولیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں میت کے جنتی یا دوزخی ہونے کا مدار اس کے اعمال اور عقیدے پر ہے ان برائیوں اور ناجائز امور میں حصہ نہ لیا جائے اور اس میں لوگوں کے برا بھلا کہنے اور طعن وتشنیع کی پروا نہ کی جائے۔(۲)

(۲) یکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
 کم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہ۔ (سباحۃ الفکر لعبد الحي: ص:
۷۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص421

اسلامی عقائد

Ref. No. 1725/43-1411

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس جگہ خزانہ ہوتاہے اسی جگہ چوری ہوتی ہےاور ڈاکہ ڈالاجاتاہے۔ آپ کے اندر ایمان کی دولت موجود ہے اس لئے اس میں غلط خیال آتے ہیں جن پر آپ کا اختیار اور کنٹرول نہیں ہے۔ ایسے وساوس سے ایمان پر کوئی فرق نہیں آئے گا بلکہ یہ تو ایمان کی علامت ہے، بشرطیکہ زبان سے کچھ بھی نہ کہا ہو۔ اگر کلمات کفر زبان سے نکل گئے، اللہ تعالی کو زبان سے برابھلا کہہ دیا تو  ایمان جاتارہا اس لئے کہ زبان چلانا اپنےاختیار میں تھا، ایسی صورت میں تجدید ایمان وتجدید نکاح ضروری ہے۔  وسوسوں کے دفعیہ کے لئے مندرجہ ذیل کلمات کثرت سے پڑھیں: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ،  اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه ،  هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم، ربِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ ۔  اور اپنے  آپ کو زیادہ سے زیادہ کاموں میں مصروف رکھیں۔ ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ: «أَو قد وجدتموه»؟ قَالُوا: نعم. قَالَ: «ذَاك صَرِيح الْإِيمَان» . رَوَاهُ مُسلم". (مشكاة المصابيح (1/ 26)

"( «في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به» ) أي: نجد في قلوبنا أشياء قبيحة نحو: من خلق الله؟ وكيف هو؟ ومن أي شيء؟ وما أشبه ذلك مما يتعاظم النطق به لعلمنا أنه قبيح لايليق شيء منها أن نعتقده، ونعلم أنه قديم، خالق الأشياء، غير مخلوق، فما حكم جريان ذلك في خواطرنا؟ ... (صريح الإيمان) أي: خالصه يعني أنه أمارته الدالة صريحاً على رسوخه في قلوبكم، وخلوصها من التشبيه، والتعطيل؛ لأن الكافر يصر على ما في قلبه من تشبيه الله سبحانه بالمخلوقات، ويعتقده حسنا، ومن استقبحها، وتعاظمها لعلمه بقبحها، وأنها لاتليق به تعالى كان مؤمناً حقاً، وموقناً صدقاً فلا تزعزعه شبهة، وإن قويت، ولا تحل عقد قلبه ريبة، وإن موهت، ولأن من كان إيمانه مشوباً يقبل الوسوسة، ولايردها". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 136)

"وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خلق كَذَا؟ مَنْ خَلَقَ كَذَا؟ حَتَّى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ؟ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ". "وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ: آمَنت بِاللَّه وَرُسُله".(مشكاة المصابيح (1/ 26)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ طریقہ غیر اسلامی ہے، اہل سنت والجماعت کے عقیدے اور طریقہ کے خلاف اور بدعت ہے، اسلامی طریقہ تو یہ ہے کہ ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا جائے یعنی اللہ کے نام پر قربانی بچے کی طرف سے کی جائے اور اس کے بال کٹواکر اس کے وزن کے مطابق چاندی غرباء پر تقسیم کی جائے اس کے علاوہ مذکورہ فعل مشرکانہ ہے جو بالکل بے اصل ہے طریقۂ سنت کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرنا بدعت اور باعث گناہ ہے ایسی غلط باتوں اور رسموں سے ہر مسلمان پر پرہیز کرنا لازم ہے۔ (۱) ۱) وأما النذر الذي ینذرہ أکثر العوام علی ما ہو مشاہد کأن یکون لإنسان غائب أو مریض، أو لہ حاجۃ ضروریۃ فیأتي بعض الصلحاء فیجعل سترہ علی رأسہ فہذا النذر باطل بالإجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: باب ما یلزم الوفاء بہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۹۳) إن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو بالإجماع باطل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص331

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی کے انتقال پر تیجہ، دسواں ورسم اور اس کے بعد دعوت وغیرہ کا اہتمام، اس کے لئے مردو عورتوں کا اجتماع، یہ سب بدعت و گمراہی ہے۔ جس سے بچنا لازم اور ضروری ہے جو حضرات اسے جلسہ تعزیت کہتے ہیں وہ سوچیں کہ کیا جلسہ تعزیت کے لیے و خاص تاریخ اور خاص وقت کی تعیین کو لازم سمجھنا اور اس کا التزام کہیں سے ثابت ہے، اگر بغیر کسی التزام دن و وقت جلسہ تعزیت ہو، تو اس کو کون منع کرتا ہے، لیکن غیر لازم کو لازم سمجھنا اور ان کو دین و شریعت کا کام سمجھ کر کرنا ان سب پر اصرار اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن جریر بن عبد اللّٰہ البجليِّ قال: (کنا نعد الاجتماع إلی أہل المیت وصنیعۃ الطعام بعد دفنہ من النیاحۃ۔ (أخرجہ أحمد، مسندہ، ’’مسند عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۵، رقم: ۶۹۰۵)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱) ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ومنہا الوصیۃ من المیت باتخاذ الطعام والضیافۃ یوم موتہ أو بعدہ وبإعطاء دراہم لمن یتلو القرآن لروحہ أو یسبح أو یہلل لہ وکلہا بدع منکرات باطلۃ، والمأخوذ منہا حرام للآخذ، وہو عاص بالتلاوۃ والذکر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۸
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص422
 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1724/43-1412

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ایک ہی   سوال میں کئی سوالات کرڈالے ، آئندہ اس کا خیال رکھیں کہ ایک بار میں ایک ہی سوال کریں تاکہ جواب میں سہولت ہو اور جلد  جواب دیاجاسکے۔  آپ کے سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں: (1) ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد ہی ظہر کی نماز پڑھی جاسکتی ہے، فرض نماز ہمیشہ جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہئے ، اور کسی عذرشرعی کے بغیر جماعت کا ترک کرنا باعث گناہ ہے، اس لئے  دوکان کھولنے کے لئے جانے سے پہلے ظہر کی نماز جماعت سے مسجد میں پڑھ لیاکریں۔  گھر پرنماز پڑھنا اور اس کو معمول بنالینا بڑا گناہ ہے۔   (2) منتخب احادیث   نامی کتاب ایک اچھی کتاب ہے جس میں حدیثیں جمع کی گئی ہیں، ان پر عمل کرنے میں اور گھروں میں  اس کی تعلیم  کرنے میں کوئی حرج  نہیں ہے، احادیث پڑھنے اور سننے کا اولین مقصد ان پر عمل کرنا ہی ہونا چاہئے۔ (3) راستہ کی چھینٹوں کے بارے میں اگر  غالب گمان ان کے پاک ہونے کا ہو تو ان کو پاک سمجھاجائے گا اور اگر غالب گمان اس کے ناپاک ہونے کا ہے تو اس کو ناپاک سمجھاجائے گا مثلا گٹر کا پانی یا نجاست اس میں شامل ہو توناپاک ہے،  (4) طوطا شرعا حلال جانور ہے، یہ جانور اگرچہ کھانے میں اپنے پنجوں کا استعمال کرتاہے مگر پنجوں سے شکار نہیں کرتاہے، اس لئے حلال ہے۔ طوطے کی بیٹ پاک ہے، کیونکہ جو پرندے حلال ہیں اور ہوا میں بیٹ کرتے ہیں ان کی بیٹ پاک ہے۔

(1) (قوله: وذكر هو وغيره إلخ ) قال في النهر: وفي المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة، وهذا معنى قول بعضهم: تسميتها واجبة، وسنة مؤكدة سواء، إلا أن هذا يقتضي الاتفاق على أن تركها بلا عذر يوجب إثمًا مع أنه قول العراقيين، والخراسانيون على أنه يأثم إذا اعتاد الترك، كما في القنية ا هـ . وفي شرح المنية للحلبي: والأحكام تدل على الوجوب من أن تاركها من غير عذر يعزر وترد شهادته ويأثم الجيران بالسكوت عنه، وهذه كلها أحكام الواجب، وقد يوفق بأن ترتيب الوعيد في الحديث، وهذه الأحكام مما يستدل به على الوجوب مقيد بالمداومة على الترك، كما هو ظاهر قوله عليه السلام: {لايشهدون الصلاة} وفي الحديث الآخر: {يصلون في بيوتهم} كما يعطيه ظاهر إسناد المضارع، نحو بنو فلان يأكلون البر أي عادتهم فيكون الواجب الحضور أحيانًا، والسنة المؤكدة التي تقرب منه المواظبة عليها وحينئذ فلا منافاة بين ما تقدم وبين قوله عليه السلام: {صلاة الرجل في الجماعة تفضل على صلاته في بيته أو سوقه سبعًا وعشرين ضعفًا} ا هـ . (قوله: إذا تركها استخفافًا) أي تهاونًا وتكاسلًا، وليس المراد حقيقة الاستخفاف الذي هو الاحتقار فإنه كفر (قوله: حتى لو صلى في بيته بزوجته إلخ ) سيأتي خلافه عن الحلواني من أنه لاينال الثواب ويكون بدعةً ومكروهًا۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ (3 / 385)

 قلت: وهذا صریح في أن وجوب الجماعة إنما یتأدی بجماعة المسجد لا بجماعة البیوت ونحوها، فما ذکره صاحب القنیة اختلف العلماء في إقامتها في البیت، والأصح أنها کإقامتها في المسجد إلا في الفضیلة، وهو ظاهر مذهب الشافعي اهـ. کذا في حاشیة البحر لابن عابدین لایصح مالم ینقل نقلًا صریحًا عن أصحاب المذهب ویرده ماذکرنا من الأحادیث في المتن، فالصحیح أن الجماعة واجبة مع وجوب إتیانها في المسجد، ومن أقامها في البیت وهو یسمع النداء فقد أساء وأثم". ((اعلاء السنن4/188 باب وجوب إتیان الجماعة في المسجد عند عدم العلة، إدارة القرآن کراچی)

(3) مطلب في العفو عن طين الشارع (قوله: وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اهـ. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لا يمر بها أصلا في هذه الحالة فلا يعفى في حقه حتى إن هذا لا يصلي في ثوب ذاك. اهـ. (3) "فتاوی شامی" (1/ 324)

(4) (و منها) خرء بعض الطيور من الدجاج و البط، و جملة الكلام فيه أن الطيور نوعان: نوع لا يذرق في الهواء و نوع يذرق في الهواء.

(أما) ما لايذرق في الهواء كالدجاج و البط فخرؤهما نجس؛ لوجود معنى النجاسة فيه، و هو كونه مستقذرا لتغيره إلى نتن و فساد رائحة فأشبه العذرة، و في الإوز عن أبي حنيفة رحمه الله روايتان، روى أبو يوسف رحمه الله عنه أنه ليس بنجس، و روى الحسن رحمه الله عنه أنه نجس، (و ما) يذرق في الهواء نوعان أيضا: ما يؤكل لحمه كالحمام و العصفور و العقعق و نحوها، و خرؤها طاهر عندنا، و عند الشافعي نجس، وجه قوله أن الطبع قد أحاله إلى فساد فوجد معنى النجاسة، فأشبه الروث و العذرة. (و لنا) إجماع الأمة فإنهم اعتادوا اقتناء الحمامات في المسجد الحرام و المساجد الجامعة مع علمهم أنها تذرق فيها، و لو كان نجسا لما فعلوا ذلك مع الأمر بتطهير المسجد، و هو قوله تعالى: {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125] و روي عن ابن عمر - رضي الله عنهما - أن حمامة ذرقت عليه فمسحه و صلى، و عن ابن مسعود - رضي الله عنه - مثل ذلك في العصفور، و به تبين أن مجرد إحالة الطبع لا يكفي للنجاسة ما لم يكن للمستحيل نتن و خبث رائحة تستخبثه الطباع السليمة، و ذلك منعدم ههنا على أنا إن سلمنا ذلك لكان التحرز عنه غير ممكن؛ لأنها تذرق في الهواء فلا يمكن صيانة الثياب و الأواني عنه، فسقط اعتباره للضرورة كدم البق و البراغيث و حكى مالك في هذه المسألة الإجماع على الطهارة، و مثله لا يكذب فلئن لم يثبت الإجماع من حيث القول يثبت من حيث الفعل و هو ما بينا. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ج:1، ص:62، ط: دار الكتب العلمية) ’’(و خرء) كل طير لا يذرق في الهواء كبط أهلي (و دجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولا فطاهر و إلا فمخفف. (الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:1، ص:316-321، ط: دار الفكر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1929/43-1837

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں تین طلاق کو ایس ایم ایس یا کال پر معلق کیا ہے اور اس میں وقت کی تحدید نہیں ہے، اس لئے جب بھی نکاح کرے گا چاہے دس سال بعد کرے ، طلاق واقع ہوگی۔ آپ کے مفتی صاحب کا فتوی درست نہیں ہے، شرط و جزاء میں تین سال سے زیادہ کا دورانیہ نہیں ہوسکتاہے یہ مہمل بات ہے۔ جبکہ آپ کے ایس ایم ایس میں اس طرح کی کوئی قید بھی نہیں ہے۔ پس آپ کے بولے گئے الفاظ کی وجہ سے یہ یمین منعقد ہوگی اور نکاح کے بعد طلاق واقع ہوجائے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2120/44-2182

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر پاک کپڑوں کو ناپاک کپڑوں کے ساتھ ملا کر ایک ساتھ دھویاگیا اور تمام کپڑوں کو تین مرتبہ تین علاحدہ پانی سے دھویاگیا تو تمام کپڑے پاک شمار ہوں گے ۔ ناپاک کپڑا دھونے کی وجہ سے نل، جگہ وغیرہ ناپاک نہیں ہوتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ جملہ امور بدعت میں داخل ہیں اور نذر کا کھانا صرف غرباء کو کھلانا چاہئے اس پر مروجہ فاتحہ وغیرہ بدعت ہے۔ (۱)

(۱) یکرہ اتخاذ الدعوۃ لقرأۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام والإخلاص۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
کذا في مأۃ مسائل: ص: ۱۰۸۔؛ کذا في فتاوی رشیدیہ: ص: ۹۳۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص332

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:چالیسواں وغیرہ جائز نہیں ہے اسی طرح کسی غیر ضروری دعوت کو ضروری سمجھنا بھی درست نہیں ایسی دعوتوں میں شرکت سے احتراز کیا جائے، خواہ کسی قابل احترام شخص کی طرف سے کیوں نہ ہو(۱) یہ خلاف شرع اور بدعت ہے، البتہ اگر ایصال ثواب کی نیت سے دعوت ہو، تو غرباء کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۲)

(۱) إن البدعۃ المذمومۃ ہو الحدث في الدین من أن لا یکون في عہد الصحابۃ والتابعین ولا دل علیہ دلیل شرعي۔ (شرح المقاصد: ج ۲، ص: ۲۷۱)
(۲) {إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} (سورۃ التوبہ: ۶۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص423