اسلامی عقائد

Ref. No. 907/41-28B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صوفہ کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ اس کو پانی سے دھویاجائے اور ہر مرتبہ کے بعد اتنی دیر چھوڑدیاجائے کہ پانی ٹپکنا بندہوجائے، نچوڑنا دشوار ہو تو نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ اور اگر تر کپڑا نجاست لگی جگہ پر پھیردیاجائے تو بھی صوفہ پاک ہوجاتا ہے۔

(و) قدر (بتثليث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غيره) أي: غير منعصر مما يتشرب النجاسة وإلا فبقلعها۔

في حاشية الواني على الدرر. (قوله: أي: غير منعصر) أي: بأن تعذر عصره كالخزف أو تعسر كالبساط (الدرالمختار 1/332)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ میلاد (جس میں التزام قیام و شیرینی کی تقسیم اور غیر صحیح روایات کا بیان ہوتا ہے) کا پڑھنا نہ تو فرض ہے نہ واجب نہ مسنون و مستحب ہے بلکہ بدعت ہے، اس سے پرہیز ہر مسلمان کے لئے لازم اور ضروری ہے۔(۲)

البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اگر صحیح روایات پڑھی جائیں اور کوئی قیام وغیرہ کی رسمیں نہ کی جائیں اور اس خاص وقت کی تعیین دائمی طور پر نہ کی جائے تو میلاد باعث ثواب ہے۔(۱)
پس میلاد کی نذر ماننے سے میلاد کرانا ضروری نہیں ہے اگر مروجہ طریقہ پر میلاد کرائی جائے گی، تو نیکی برباد اور گناہ لازم آئے گا ،اس رقم کو جو میلاد پر خرچ کرنے کا ارادہ ہو غرباء و مساکین اور ضرورت مندوں پر خرچ کردے کہ اس کا ثواب اس کو مل جائے گا۔(۲)

(۲) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ -رحمہ اللّٰہ- تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
آنچہ بر قبور اولیاء عمارت ہائے رفیع بنا می کنند وچراغاں روشن کنند وازیں قبیل ہرچہ می کنند حرام است یا مکروہ۔
ترجمہ: وہ جو کچھ اولیاء کرام کی قبروں پر کیا جاتا ہے کہ اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں اور چراغ روشن کرتے ہیں اور اس قسم کی جو چیز بھی کرتے ہیں حرام ہے، یا مکروہ۔ (قاضی ثناء اللہ، مالابد منہ: ص: ۷۸)

(۱) الاحتال بذکر الولادۃ الشریفۃ إن کان خالیا من البدعات المروجۃ فہو جائز بل مندوب کسائر أذکارہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (امداد الفتاوی: ج ۶، ص: ۳۲۷)
(۲)  المولد الذي شاع في ہذا العصر وأحدثہ صوفي في عہد سلطان أربل ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
وأقبح منہ النذر بقراء ۃ المولد في المقابر۔ (أیضاً:)
ومع اشتمالہ علی الغناء واللعب وإیہاب ثواب ذلک إلی حضرۃ المصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ‘‘کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص332

اسلامی عقائد

Ref. No. 2539/45-3881

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ حقائق اور اخبار  جن کی حدیثیں متواتر طور پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، یعنی صحابہ سے لے کر بعد کی نسلوں تک ہر زمانے میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرنے والے اتنے لوگ رہے ہیں کہ ان کا کسی کذب بیانی یا غلط فہمی پر متفق ہونا عقلاً محال اور ناممکن ہے اور یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کی خبر دی ہے اور اپنی امت کو ان کے بارے میں بتلایا ہے۔ ایسی چیزوں کو علماء کی اصطلاح میں ’’ضروریات دین‘‘ کہتے ہیں ۔ یعنی وہ باتیں جن کے بارے میں یقین کے درجے میں یہ بات ثابت ہے کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے اور ان کی بابت اپنی امت کو تعلیم دی ہے۔

سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرنا جو ضروریاتِ دین ہیں ایمان کہلاتاہےاور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں، اگرچہ باقی تمام ضروریات  دین کی تصدیق کرتا ہو۔ اس لئے  ایسا شخص  جو متواتر احادیث کا  بلا تاویل منکر ہو وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے، البتہ اگر کوئی تاویل یا توجیہ پیش کرے جس سے کسی حدیث کا انکار لازم آئے تو ایسا شخص گمراہ ہے، جادۂ مستقیم سے ہٹاہوا ہے۔ ایسا شخص دین کے سلسلے میں لائق توجہ نہیں ہے، اس لئے  اپنے عقیدہ کی حفاظت کرنا اور ایسے شخص کی کتابوں اور مضامین  سے  دور رہنا  ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی پیر یا بزرگ کے نام پر جانور پالنے کا مقصد ہوتا ہے کہ اس کو اسی کے نام پر ذبح کیا جائے گا تو اگر اس کو پیر یا بزرگ ہی کے نام پر ذبح کیا جائے تو {ما أہل بہ لغیر اللّٰہ} کے نام پر ذبح کیا ہوا ہے اور اگر پیر یا بزرگ کا نام دینے سے مقصد یہ ہوکہ فلاں کو اس کا ثواب پہونچے، لیکن ذبح اللہ ہی کے نام پر ہو تو اس کا کھانا درست ہے اور ذبح جائز ہے، البتہ یہ طریقہ کہ فلاں کے نام کا جانور ہے پہلی صورت کی نشاندہی کرتا ہے؛ اس لئے اس طریقہ کو اختیار کرنا درست نہیں۔(۱)

(۱) لعن اللّٰہ من ذبح لغیرہ اللّٰہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأضاحي، باب تحریم الذبح‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۱، رقم: ۱۹۷۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
قال العلماء: لو أن مسلما ذابح ذبیحۃ …… وقصد بذبحہا التقرب إلی غیر اللّٰہ صار مرتداً فذبیحتہ مرتد۔ (امام طبري، جامع البیان: ج ۲، ص: ۱۲۰)
وأما النذر الذي ینذرہ أکثر العوام علی ما ہو مشاہد کأن یکون لإنسان غائب أو مریض، أو لہ حاحۃ ضروریۃ فیأتي بعض الصلحاء فیجعل سترہ علی رأسہ … إلی… فہذا النذر باطل بالإجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: قبیل باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص333

اسلامی عقائد

Ref. No. 1932/43-1832

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  استاذ کی فیس آپ پر قرض ہے، جہاں آپ پہلے رہتے تھے، وہاں کسی دوسرے کا نمبر اگر ہو تو ان سے  استاذ جی کا پتہ معلوم کرسکتے ہیں۔ اگر آپ نے ہر طرح کوشش کرلی مگر ان تک رسائی نہ ہوسکی اور کوئی سراغ نہ مل سکا تو اب ان کی جانب سے وہ پیسے غریبوں پر صدقہ کردیں کہ ان پیسوں کا ثواب ان تک پہونچ جائے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ بعد میں جب کبھی بھی ان کے بارے میں پتہ لگ جائے، اور ان تک رسائی حاصل ہوجائے  اور وہ صدقہ منظور نہ کرکے فیس کا مطالبہ کریں تو ان کی فیس ان کو ادا کرنی لازم ہوگی۔ اور پہلے جو کچھ آپ نے دیا وہ آپ کی طرف سے صدقہ ہوجائے گا۔

قال فی الدر: وعرف أي نادیٰ علیہا حیث وجدہا وفي المجامع الیٰ أن علم أن صاحبہا لا یطلبہا قال الشامی لم یجعل للتعریف مدة اتباعاً للسرخسي فإنہ بنی الحکم علی غالب الرأي، فیعرف القلیل والکثیر إلي أن یغلب علی رأیہ أن صاحبہ لا یطلبہ صححہ في الہدایة وفي المضمرات والجوہرة وعلیہ الفتویٰ،( ج: ۶/۴۳۶، الدر مع الرد )

فإن جاء صاحبھا وإلا تصدق بھا ، ایصالا للحق إلی المستحق وھو واجب بقدر الإمکان … فإن جاء صاحبھا یعنی بعد ما تصدق بھا ، فھو بالخیار إن شاء أمضی الصدقۃ ولہ ثوابھا؛لأن التصدق وإن حصل بإذن الشرع لم یحصل بإذنہ فیتوقف علی اجازتہ۔( الہدایہ: ۲؍۲۱۸)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2027/44-1992

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  افنان (الف کے ساتھ) کے معنی ہیں  'شاخ'۔ قرآن میں سورۃ رحمن میں یہ لفظ آیاہے۔ عفنان (عین کے ساتھ) یہ لفظ ہمیں کہیں نہیں ملا۔   غفران (غین  کے ساتھ) اس کے معنی ہیں معاف کرنے والا، یہ نام رکھاجاسکتاہے، البتہ 'عفران' (عین کے ساتھ) کسی لغت میں یہ لفظ ہمیں نہیں ملا۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:انبیاء کے معصوم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اندر گناہ کی بالکلیہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں اور ان کے اندر بھی بشری تقاضے ہوتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا نظام ہے کہ ان کی گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ اور انبیاء کرام گناہوں سے بچنے میں بے اختیار نہیں ہیں؛ بلکہ بااختیار ہیں، اوراپنے اختیار سے گناہوں سے بچنا یقینا کمال ہے۔(۱)

(۱) إن الأنبیاء معصومون۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’أول الأنبیاء آدم -علیہ السلام-وآخرہم محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-‘‘: ص: ۱۳۹)
والأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کلہم منزہون عن الصغائر والکبائر والکفر والقبائح … أي جمیعہم الشامل مرسلہم ومشاہیر ہم وغیرہم أولہم آدم علیہ الصلاۃ والسلام علی ما ثبت بالکتاب والسنۃ وإجماع الأمۃ … منزہون أي معصومون من جمیع المعاصي۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الأنبیاء منزہون عن الکبائر والصغائر‘‘: ص: ۹۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص210

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:(۱) نوٹوں کا ہار گلے میں ڈالنا غیروں کا طریقہ ہے، اس کو اختیار کرنا درست نہیں ہے اور مسرت وخوشی کے موقعہ پر پھولوں کا ہار ڈالنے میں مضائقہ نہیں؛ بشرطیکہ کسی غیر قوم کا شعار نہ ہو اور اس کو ضروری بھی نہ سمجھا جائے۔(۱)
(۲) اگر اس کو لازم نہ سمجھا جائے تو درست ہے؛ بلکہ دینے والے ہدیہ کے طور پر دیدیا کریں تو اس میں ثواب بھی ہے؛ لیکن آج کل یہ ایک رسم بن چکی ہے اور خوشی سے نہیں دیا جاتا؛ بلکہ بعد میں اس کو اپنی شادی میں وصول کرنا مقصود ہوتا ہے اور نہ دینے پر ناگواری ہوتی ہے؛ اس لئے بچنا ضروری ہے۔(۱)
(۳) بغرض اعلان نکاح دف بجانا درست ہے(۲) باجہ وغیرہ درست نہیں ہے، یہ فضول خرچی واسراف ہے، شادی میں سادگی مطلوب ہے۔(۳)
(۴) قطعاً جائز نہیں ہے۔
(۵) کھانا کھانا جائز ہے؛ مگر استطاعت سے زیادہ لڑکی والوں پر بوجھ نہ رکھا جائے۔(۴)
مذکورہ امور اگر ثواب سمجھ کرکیے جاتے ہیں تو بدعت ہیں۔
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
مسلم را تشبہ بکفار حرام است۔ (ثناء اللہ پانی پتی، مالا بد منہ: ص: ۱۳۳)
(۱) {وَمَآ أَتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِيْٓ أَمْوَالِ النَّاسِ فَلاَ یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج} (سورۃ الروم: ۳۹)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۲) أعلنوا ہذا النکاح واجعلوہ في المساجد واضربوا علیہ بالدفوف۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب النکاح، باب ما جاء في إعلان النکاح‘‘: ج ۲،ص: ۳۹۰، رقم: ۱۰۸۹)
(۳) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أعظم النکاح برکۃ أیسرہ مؤنۃ،ر واہ البیہقي في شعب الإیمان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب النکاح: الفصل الثالث‘‘: ج ۶، ص: ۲۵۰، رقم: ۳۰۹۷)
(۴) لڑکی والے بغیر التزام کے اپنی مرضی سے کھانا دیدیں تو مباح ہے نہ دیں تو کوئی الزام نہیں ہے۔ (کفایۃ المفتی: ج ۷، ص: ۴۷۱، فاروقیہ) جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے، تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر کھائیں گے، اپنے مہمان کو کھلانا تو شریعت کا حکم ہے۔ (فتاوی محمودیہ: ج ۱۲، ص: ۱۴۲)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص424
 

اسلامی عقائد

Ref. No. 37 / 1095

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مولانا وحیدالدین خان صاحب کےبہت سے عقائد ونظریات اہل سنت والجماعت دیوبند کے عقائد ونظریات سے متصادم ہیں، تاہم کسی وحیدی فرقہ کا ہمیں علم نہیں ہے۔ ان کی کتابوں میں جو نظریات ملتے ہیں بہت سے علماء نے ان پر قلم اٹھایا ہے اور ان نظریات کے بطلان کو واضح کیا ہے۔اس سلسلہ میں عرض ہے کہ  جو لوگ رطب ویابس کی تمیز رکھتے ہیں وہی ان کتابوں کو دیکھیں ۔ البتہ عوام کو ان کی کتابیں پڑھنے سے گریز کرنا چاہئے تاکہ ان کےاپنے نظریات متاثر نہ ہوں اورجمہور علماء کے عقائدپر ہی قائم رہیں۔    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/1152

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لغت میں ایمان کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے اور اسلام اطاعت و فرمانبرداری کا، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا بھی قلب اور سب عضاء و جوارح ، لیکن شرعا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعا اس وقت تک معتبر نہیں جب تک زبان سے اس تصدیق کا اظہار اور اطاعت و فرماں برداری کا اقرار نہ کرے اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرماں برداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو۔خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے مگر شرعا ایمان بدون اسلام کے اور اسلام بدون ایمان کے معتبر نہیں (خلاصہ معارف القرآن)۔ عرب کے محقق عالم دین شیخ عثیمن لکھتے ہیں کہ جب لفظ ایمان اور اسلام اکٹھے ہوں تو پھر اسلام سے ظاہر ی اعمال مراد لیے جاتے ہیں جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات اور اعضاء سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والامومن یا کمزور ایمان والامومن بھی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: قالت الاعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما لم یدخل الایمان فی قلوبکم اسی طرح منافق شخص ہے کہ اسے ظاہر ی طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے اور ایمان سے مراد باطنی یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اوریہ کام صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو حقیقی مومن ہے جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم و اذا تلیت علیہم آیاتہ زادتہم ایمانا و علی ربہم یتوکلون، الذین یقیمون الصلاۃ و مما رزقنہم ینفقون اولئک ہم المؤمنون حقا (انفال ۴۲)اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہوگا لہذا ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے (مجموع فتاوی و رسائل عثیمن ۴/۲۹) بہر حال اس طرح کی مختلف تعبیریں حضرات علماء سے منقول ہیں، لیکن اتنی بات طے ہے کہ ایمان کے لیے اسلام ضروری ہے اور اسلام کے لیے ایمان ضروری ہے، انسان کو اپنے ظاہر ی اعمال کے ساتھ باطنی اعمال اور قلبی یقین کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند