Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1724/43-1412
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ایک ہی سوال میں کئی سوالات کرڈالے ، آئندہ اس کا خیال رکھیں کہ ایک بار میں ایک ہی سوال کریں تاکہ جواب میں سہولت ہو اور جلد جواب دیاجاسکے۔ آپ کے سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں: (1) ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد ہی ظہر کی نماز پڑھی جاسکتی ہے، فرض نماز ہمیشہ جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہئے ، اور کسی عذرشرعی کے بغیر جماعت کا ترک کرنا باعث گناہ ہے، اس لئے دوکان کھولنے کے لئے جانے سے پہلے ظہر کی نماز جماعت سے مسجد میں پڑھ لیاکریں۔ گھر پرنماز پڑھنا اور اس کو معمول بنالینا بڑا گناہ ہے۔ (2) منتخب احادیث نامی کتاب ایک اچھی کتاب ہے جس میں حدیثیں جمع کی گئی ہیں، ان پر عمل کرنے میں اور گھروں میں اس کی تعلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، احادیث پڑھنے اور سننے کا اولین مقصد ان پر عمل کرنا ہی ہونا چاہئے۔ (3) راستہ کی چھینٹوں کے بارے میں اگر غالب گمان ان کے پاک ہونے کا ہو تو ان کو پاک سمجھاجائے گا اور اگر غالب گمان اس کے ناپاک ہونے کا ہے تو اس کو ناپاک سمجھاجائے گا مثلا گٹر کا پانی یا نجاست اس میں شامل ہو توناپاک ہے، (4) طوطا شرعا حلال جانور ہے، یہ جانور اگرچہ کھانے میں اپنے پنجوں کا استعمال کرتاہے مگر پنجوں سے شکار نہیں کرتاہے، اس لئے حلال ہے۔ طوطے کی بیٹ پاک ہے، کیونکہ جو پرندے حلال ہیں اور ہوا میں بیٹ کرتے ہیں ان کی بیٹ پاک ہے۔
(1) (قوله: وذكر هو وغيره إلخ ) قال في النهر: وفي المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة، وهذا معنى قول بعضهم: تسميتها واجبة، وسنة مؤكدة سواء، إلا أن هذا يقتضي الاتفاق على أن تركها بلا عذر يوجب إثمًا مع أنه قول العراقيين، والخراسانيون على أنه يأثم إذا اعتاد الترك، كما في القنية ا هـ . وفي شرح المنية للحلبي: والأحكام تدل على الوجوب من أن تاركها من غير عذر يعزر وترد شهادته ويأثم الجيران بالسكوت عنه، وهذه كلها أحكام الواجب، وقد يوفق بأن ترتيب الوعيد في الحديث، وهذه الأحكام مما يستدل به على الوجوب مقيد بالمداومة على الترك، كما هو ظاهر قوله عليه السلام: {لايشهدون الصلاة} وفي الحديث الآخر: {يصلون في بيوتهم} كما يعطيه ظاهر إسناد المضارع، نحو بنو فلان يأكلون البر أي عادتهم فيكون الواجب الحضور أحيانًا، والسنة المؤكدة التي تقرب منه المواظبة عليها وحينئذ فلا منافاة بين ما تقدم وبين قوله عليه السلام: {صلاة الرجل في الجماعة تفضل على صلاته في بيته أو سوقه سبعًا وعشرين ضعفًا} ا هـ . (قوله: إذا تركها استخفافًا) أي تهاونًا وتكاسلًا، وليس المراد حقيقة الاستخفاف الذي هو الاحتقار فإنه كفر (قوله: حتى لو صلى في بيته بزوجته إلخ ) سيأتي خلافه عن الحلواني من أنه لاينال الثواب ويكون بدعةً ومكروهًا۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ (3 / 385)
قلت: وهذا صریح في أن وجوب الجماعة إنما یتأدی بجماعة المسجد لا بجماعة البیوت ونحوها، فما ذکره صاحب القنیة اختلف العلماء في إقامتها في البیت، والأصح أنها کإقامتها في المسجد إلا في الفضیلة، وهو ظاهر مذهب الشافعي اهـ. کذا في حاشیة البحر لابن عابدین لایصح مالم ینقل نقلًا صریحًا عن أصحاب المذهب ویرده ماذکرنا من الأحادیث في المتن، فالصحیح أن الجماعة واجبة مع وجوب إتیانها في المسجد، ومن أقامها في البیت وهو یسمع النداء فقد أساء وأثم". ((اعلاء السنن4/188 باب وجوب إتیان الجماعة في المسجد عند عدم العلة، إدارة القرآن کراچی)
(3) مطلب في العفو عن طين الشارع (قوله: وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اهـ. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لا يمر بها أصلا في هذه الحالة فلا يعفى في حقه حتى إن هذا لا يصلي في ثوب ذاك. اهـ. (3) "فتاوی شامی" (1/ 324)
(4) (و منها) خرء بعض الطيور من الدجاج و البط، و جملة الكلام فيه أن الطيور نوعان: نوع لا يذرق في الهواء و نوع يذرق في الهواء.
(أما) ما لايذرق في الهواء كالدجاج و البط فخرؤهما نجس؛ لوجود معنى النجاسة فيه، و هو كونه مستقذرا لتغيره إلى نتن و فساد رائحة فأشبه العذرة، و في الإوز عن أبي حنيفة رحمه الله روايتان، روى أبو يوسف رحمه الله عنه أنه ليس بنجس، و روى الحسن رحمه الله عنه أنه نجس، (و ما) يذرق في الهواء نوعان أيضا: ما يؤكل لحمه كالحمام و العصفور و العقعق و نحوها، و خرؤها طاهر عندنا، و عند الشافعي نجس، وجه قوله أن الطبع قد أحاله إلى فساد فوجد معنى النجاسة، فأشبه الروث و العذرة. (و لنا) إجماع الأمة فإنهم اعتادوا اقتناء الحمامات في المسجد الحرام و المساجد الجامعة مع علمهم أنها تذرق فيها، و لو كان نجسا لما فعلوا ذلك مع الأمر بتطهير المسجد، و هو قوله تعالى: {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125] و روي عن ابن عمر - رضي الله عنهما - أن حمامة ذرقت عليه فمسحه و صلى، و عن ابن مسعود - رضي الله عنه - مثل ذلك في العصفور، و به تبين أن مجرد إحالة الطبع لا يكفي للنجاسة ما لم يكن للمستحيل نتن و خبث رائحة تستخبثه الطباع السليمة، و ذلك منعدم ههنا على أنا إن سلمنا ذلك لكان التحرز عنه غير ممكن؛ لأنها تذرق في الهواء فلا يمكن صيانة الثياب و الأواني عنه، فسقط اعتباره للضرورة كدم البق و البراغيث و حكى مالك في هذه المسألة الإجماع على الطهارة، و مثله لا يكذب فلئن لم يثبت الإجماع من حيث القول يثبت من حيث الفعل و هو ما بينا. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ج:1، ص:62، ط: دار الكتب العلمية) ’’(و خرء) كل طير لا يذرق في الهواء كبط أهلي (و دجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولا فطاهر و إلا فمخفف. (الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:1، ص:316-321، ط: دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1929/43-1837
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں تین طلاق کو ایس ایم ایس یا کال پر معلق کیا ہے اور اس میں وقت کی تحدید نہیں ہے، اس لئے جب بھی نکاح کرے گا چاہے دس سال بعد کرے ، طلاق واقع ہوگی۔ آپ کے مفتی صاحب کا فتوی درست نہیں ہے، شرط و جزاء میں تین سال سے زیادہ کا دورانیہ نہیں ہوسکتاہے یہ مہمل بات ہے۔ جبکہ آپ کے ایس ایم ایس میں اس طرح کی کوئی قید بھی نہیں ہے۔ پس آپ کے بولے گئے الفاظ کی وجہ سے یہ یمین منعقد ہوگی اور نکاح کے بعد طلاق واقع ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2120/44-2182
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر پاک کپڑوں کو ناپاک کپڑوں کے ساتھ ملا کر ایک ساتھ دھویاگیا اور تمام کپڑوں کو تین مرتبہ تین علاحدہ پانی سے دھویاگیا تو تمام کپڑے پاک شمار ہوں گے ۔ ناپاک کپڑا دھونے کی وجہ سے نل، جگہ وغیرہ ناپاک نہیں ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ جملہ امور بدعت میں داخل ہیں اور نذر کا کھانا صرف غرباء کو کھلانا چاہئے اس پر مروجہ فاتحہ وغیرہ بدعت ہے۔ (۱)
(۱) یکرہ اتخاذ الدعوۃ لقرأۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام والإخلاص۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
کذا في مأۃ مسائل: ص: ۱۰۸۔؛ کذا في فتاوی رشیدیہ: ص: ۹۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص332
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:چالیسواں وغیرہ جائز نہیں ہے اسی طرح کسی غیر ضروری دعوت کو ضروری سمجھنا بھی درست نہیں ایسی دعوتوں میں شرکت سے احتراز کیا جائے، خواہ کسی قابل احترام شخص کی طرف سے کیوں نہ ہو(۱) یہ خلاف شرع اور بدعت ہے، البتہ اگر ایصال ثواب کی نیت سے دعوت ہو، تو غرباء کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۲)
(۱) إن البدعۃ المذمومۃ ہو الحدث في الدین من أن لا یکون في عہد الصحابۃ والتابعین ولا دل علیہ دلیل شرعي۔ (شرح المقاصد: ج ۲، ص: ۲۷۱)
(۲) {إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} (سورۃ التوبہ: ۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص423
اسلامی عقائد
Ref. No. 907/41-28B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صوفہ کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ اس کو پانی سے دھویاجائے اور ہر مرتبہ کے بعد اتنی دیر چھوڑدیاجائے کہ پانی ٹپکنا بندہوجائے، نچوڑنا دشوار ہو تو نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ اور اگر تر کپڑا نجاست لگی جگہ پر پھیردیاجائے تو بھی صوفہ پاک ہوجاتا ہے۔
(و) قدر (بتثليث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غيره) أي: غير منعصر مما يتشرب النجاسة وإلا فبقلعها۔
في حاشية الواني على الدرر. (قوله: أي: غير منعصر) أي: بأن تعذر عصره كالخزف أو تعسر كالبساط (الدرالمختار 1/332)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ میلاد (جس میں التزام قیام و شیرینی کی تقسیم اور غیر صحیح روایات کا بیان ہوتا ہے) کا پڑھنا نہ تو فرض ہے نہ واجب نہ مسنون و مستحب ہے بلکہ بدعت ہے، اس سے پرہیز ہر مسلمان کے لئے لازم اور ضروری ہے۔(۲)
البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اگر صحیح روایات پڑھی جائیں اور کوئی قیام وغیرہ کی رسمیں نہ کی جائیں اور اس خاص وقت کی تعیین دائمی طور پر نہ کی جائے تو میلاد باعث ثواب ہے۔(۱)
پس میلاد کی نذر ماننے سے میلاد کرانا ضروری نہیں ہے اگر مروجہ طریقہ پر میلاد کرائی جائے گی، تو نیکی برباد اور گناہ لازم آئے گا ،اس رقم کو جو میلاد پر خرچ کرنے کا ارادہ ہو غرباء و مساکین اور ضرورت مندوں پر خرچ کردے کہ اس کا ثواب اس کو مل جائے گا۔(۲)
(۲) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ -رحمہ اللّٰہ- تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
آنچہ بر قبور اولیاء عمارت ہائے رفیع بنا می کنند وچراغاں روشن کنند وازیں قبیل ہرچہ می کنند حرام است یا مکروہ۔
ترجمہ: وہ جو کچھ اولیاء کرام کی قبروں پر کیا جاتا ہے کہ اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں اور چراغ روشن کرتے ہیں اور اس قسم کی جو چیز بھی کرتے ہیں حرام ہے، یا مکروہ۔ (قاضی ثناء اللہ، مالابد منہ: ص: ۷۸)
(۱) الاحتال بذکر الولادۃ الشریفۃ إن کان خالیا من البدعات المروجۃ فہو جائز بل مندوب کسائر أذکارہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (امداد الفتاوی: ج ۶، ص: ۳۲۷)
(۲) المولد الذي شاع في ہذا العصر وأحدثہ صوفي في عہد سلطان أربل ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
وأقبح منہ النذر بقراء ۃ المولد في المقابر۔ (أیضاً:)
ومع اشتمالہ علی الغناء واللعب وإیہاب ثواب ذلک إلی حضرۃ المصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ‘‘کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص332
اسلامی عقائد
Ref. No. 2539/45-3881
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ حقائق اور اخبار جن کی حدیثیں متواتر طور پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، یعنی صحابہ سے لے کر بعد کی نسلوں تک ہر زمانے میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرنے والے اتنے لوگ رہے ہیں کہ ان کا کسی کذب بیانی یا غلط فہمی پر متفق ہونا عقلاً محال اور ناممکن ہے اور یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کی خبر دی ہے اور اپنی امت کو ان کے بارے میں بتلایا ہے۔ ایسی چیزوں کو علماء کی اصطلاح میں ’’ضروریات دین‘‘ کہتے ہیں ۔ یعنی وہ باتیں جن کے بارے میں یقین کے درجے میں یہ بات ثابت ہے کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے اور ان کی بابت اپنی امت کو تعلیم دی ہے۔
سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرنا جو ضروریاتِ دین ہیں ایمان کہلاتاہےاور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں، اگرچہ باقی تمام ضروریات دین کی تصدیق کرتا ہو۔ اس لئے ایسا شخص جو متواتر احادیث کا بلا تاویل منکر ہو وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے، البتہ اگر کوئی تاویل یا توجیہ پیش کرے جس سے کسی حدیث کا انکار لازم آئے تو ایسا شخص گمراہ ہے، جادۂ مستقیم سے ہٹاہوا ہے۔ ایسا شخص دین کے سلسلے میں لائق توجہ نہیں ہے، اس لئے اپنے عقیدہ کی حفاظت کرنا اور ایسے شخص کی کتابوں اور مضامین سے دور رہنا ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی پیر یا بزرگ کے نام پر جانور پالنے کا مقصد ہوتا ہے کہ اس کو اسی کے نام پر ذبح کیا جائے گا تو اگر اس کو پیر یا بزرگ ہی کے نام پر ذبح کیا جائے تو {ما أہل بہ لغیر اللّٰہ} کے نام پر ذبح کیا ہوا ہے اور اگر پیر یا بزرگ کا نام دینے سے مقصد یہ ہوکہ فلاں کو اس کا ثواب پہونچے، لیکن ذبح اللہ ہی کے نام پر ہو تو اس کا کھانا درست ہے اور ذبح جائز ہے، البتہ یہ طریقہ کہ فلاں کے نام کا جانور ہے پہلی صورت کی نشاندہی کرتا ہے؛ اس لئے اس طریقہ کو اختیار کرنا درست نہیں۔(۱)
(۱) لعن اللّٰہ من ذبح لغیرہ اللّٰہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأضاحي، باب تحریم الذبح‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۱، رقم: ۱۹۷۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
قال العلماء: لو أن مسلما ذابح ذبیحۃ …… وقصد بذبحہا التقرب إلی غیر اللّٰہ صار مرتداً فذبیحتہ مرتد۔ (امام طبري، جامع البیان: ج ۲، ص: ۱۲۰)
وأما النذر الذي ینذرہ أکثر العوام علی ما ہو مشاہد کأن یکون لإنسان غائب أو مریض، أو لہ حاحۃ ضروریۃ فیأتي بعض الصلحاء فیجعل سترہ علی رأسہ … إلی… فہذا النذر باطل بالإجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: قبیل باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص333
اسلامی عقائد
Ref. No. 1932/43-1832
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استاذ کی فیس آپ پر قرض ہے، جہاں آپ پہلے رہتے تھے، وہاں کسی دوسرے کا نمبر اگر ہو تو ان سے استاذ جی کا پتہ معلوم کرسکتے ہیں۔ اگر آپ نے ہر طرح کوشش کرلی مگر ان تک رسائی نہ ہوسکی اور کوئی سراغ نہ مل سکا تو اب ان کی جانب سے وہ پیسے غریبوں پر صدقہ کردیں کہ ان پیسوں کا ثواب ان تک پہونچ جائے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ بعد میں جب کبھی بھی ان کے بارے میں پتہ لگ جائے، اور ان تک رسائی حاصل ہوجائے اور وہ صدقہ منظور نہ کرکے فیس کا مطالبہ کریں تو ان کی فیس ان کو ادا کرنی لازم ہوگی۔ اور پہلے جو کچھ آپ نے دیا وہ آپ کی طرف سے صدقہ ہوجائے گا۔
قال فی الدر: وعرف أي نادیٰ علیہا حیث وجدہا وفي المجامع الیٰ أن علم أن صاحبہا لا یطلبہا قال الشامی لم یجعل للتعریف مدة اتباعاً للسرخسي فإنہ بنی الحکم علی غالب الرأي، فیعرف القلیل والکثیر إلي أن یغلب علی رأیہ أن صاحبہ لا یطلبہ صححہ في الہدایة وفي المضمرات والجوہرة وعلیہ الفتویٰ،( ج: ۶/۴۳۶، الدر مع الرد )
فإن جاء صاحبھا وإلا تصدق بھا ، ایصالا للحق إلی المستحق وھو واجب بقدر الإمکان … فإن جاء صاحبھا یعنی بعد ما تصدق بھا ، فھو بالخیار إن شاء أمضی الصدقۃ ولہ ثوابھا؛لأن التصدق وإن حصل بإذن الشرع لم یحصل بإذنہ فیتوقف علی اجازتہ۔( الہدایہ: ۲؍۲۱۸)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند