اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس تقریب میں اگر رسم ورواج کا دخل نہ ہو اور ایصال ثواب کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع نہ کیا گیا ہو، بس لوگ جمع ہیں، مٹھائی شربت وغیرہ شادی کی وجہ سے ہے توایصال ثواب کے لیے تلاوت میں کوئی حرج نہیں ہے؛ البتہ اگر بطور رسم دعوت دے کر قرآن خوانی کے لیے جمع کیا گیا تو درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ للقوم أن یقرؤوا القرآن جملۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلوٰۃ والتسبیح وقراء ۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص425
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس مسئلے میں اختلاف ہے، مگر تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بشر تھے، مثل دوسرے انسانوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ماں باپ سے پیدا ہوئے تھے، آپ کھاتے پیتے اور شادیاں کرتے تھے، اور انسانی زندگی کی ضروریات آپ کو بھی ہوتی تھیں؛ اس لئے آپ کا سایہ ہوتا تھا؛ لیکن دھوپ کی وجہ سے بسا اوقات آپ کے اوپر ابر سایہ کرتا تھا، اس لئے آپ کا سایہ محسوس ہی نہیں تھا جس کو لوگ عدم سایہ سمجھ کر نور مجسم کے قائل ہوگئے، جو خلاف حقیقت ہے ایسے لوگوں کے اعتقاد کو ختم کرنے کے لئے قرآن پاک میں فرمایا گیا۔ {قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوْحٰی إِلَيَّ}(۱) آپ لوگوں سے فرمادیجئے کہ میں بھی تم جیسا انسان ہوں، فرق یہ ہے کہ میرے پاس وحی آتی ہے تمہارے پاس وحی نہیں آتی، اس سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سراپا نور مجسم نہیں تھے؛ بلکہ آپ انسان ہی تھے؛ بلکہ دوسرے انسانوں کی طرح بشر تھے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے تھے، اور نور مجسم ہونے کا شبہ ہونے لگتا تھا کہ دنیا میں آپ جیسا حسین وجمیل انسان نہ آپ سے پہلے پیدا ہوا اور نہ ہی آپ کے بعد قیامت تک ایسا حسین وجمیل انسان پیدا ہوگا جیسا کہ شمائل ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔(۲)

(۱) سورۃ الکہف: ۰۱۱
(۲) فبینما أنا یوما بنصف النہار، إذا أنا بظل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقبلٌ،…قال عفان: حدثینہ حمادٌ، عن شمیسۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ثم سمعتہ بعد یحدثہ عن شمیسۃ، عن عائشۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقال: بعد في حج أو عمرۃ، قال: ولا أظنہ إلا قال: في حجۃ الوداع (أخرجہ أحمد بن حنبل،فی مسند ہ: ج ۴۱، ص: ۴۶۳، رقم: ۲۵۰۰۳)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم صلاۃ الصبح ثم مد یدہ ثم أخرہا فلما سلم قیل لہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لقد صنعت في صلاتک شیئاً لم تصنعہ في غیرہا … أیضا … قال: حتی لقد رأیت ظلي وظلکم فأومأت إلیکم أن استأخروا۔ (ابن قیم الجوزیۃ، حادي الأروح إلی بلاد الإفراح، ’’الباب الأول في بیان وجود الجنۃ الآن‘‘: ج ۱، ص: ۲۱)
فلما کان شہر ربیع الأول، دخل علیہا، فرات ظلہ۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ: ج ۴۴، ص: ۴۳۶)
حتی رأیت ظلي وظلکم إلخ۔ (محمد بن اسحاق بن خزیمۃ، صحیح ابن خزیمۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الرخصۃ في تناول المصلي الشيء‘‘: ص: ۲۰۷، رقم: ۸۹۲
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص212

اسلامی عقائد

Ref. No. 2420/45-3684

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان کے ادب و احترام کاخیال رکھنا چاہئے اور قبروں کی بے حرمتی سے بچناچاہئے،  اسی وجہ سے قبروں کے اوپر چلنے اور بیٹھنے سے منع  کیاگیا ہے۔ البتہ اگر جوتے  پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہوتو ان کو پہن کر قبرستان میں چلنے کی گنجائش ہے،اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ البتہ کوشش یہ ہو کہ قبروں کے اوپر پیر نہ پڑیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کے نیچے سے بھینس نکالنا بدعت ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایسے کام وطریقہ کو فوراً چھوڑ دینا لازم ہے۔(۱)

(۱) إذا کان للرجل جو الق وفیہا دراہم مکتوب فیہا شيء من القرآن، أو کان في الجوالق کتب الفقہ أو کتب التفسیر أو المصحف، إن کان علی وجہ الاستخفاف یکفر وإلا لا کذا في الغرائب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، ’’الباب الخامس: في آداب المسجد والقبلۃ، والمصحف‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۳)
لا یلقی في موضع یخل بالتعظیم کذا في القنیۃ۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۵)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)


 فتاوی دارالعلوم، وقف ویوبند ج1ص533

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر نبی کے لئے علیہ السلام کہنا یا لکھنا درست نہیں ہے۔ یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے۔ (۱)

۱) وأما السلام فنقل اللقاني في شرح جوہرۃ التوحید عن الإمام الجویني أنہ في معنی الصلاۃ، فلا یستعمل في الغائب ولا یفرد بہ غیر الأنبیاء فلا یقال عليٌّ علیہ السلام، وسواء في ہذا الأحیاء والأموات إلا في الحاضر إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الخنثیٰ: مسائل شتیٰ‘‘: ج ۱۰، ص: ۴۸۳)
قال القاضي عیاض: الذي ذہب إلیہ المحققون وأمیل إلیہ ما لنا لہ مالک وسفیان واختارہ غیر واحد من الفقہاء والمتکلمین أنہ یجب تخصیص النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسائر الأنبیاء- علیہم السلام- بالصلاۃ والتسلیم۔ (أیضاً: ص: ۴۸۴)
أنہ قولہ عليٌّ علیہ السلام من شعار أہل البدعۃ لا یستحسن فی مقام المرام۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر: ص: ۱۶۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص213
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پاؤں چھونا جاہلانہ رسم اور بدعت ہے، ایسی رسموں سے مسلمان کو پرہیز لازم ہے(۱) رخصتی اور ملاقات کے لئے سلام اور مصافحہ کافی ہے اور مسنون یہی ہے۔(۲)

۱) ویکرہ أن یقبل الرجل فم الرجل أو یدہ أو شیئاً منہ في قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ،
(وکذا) ما یفعلونہ من تقبیل (الأرض بین یدي العلماء) والعظماء فحرام والفاعل والراضي بہ أثمان: لأنہ عبادۃ الوثن وہل یکفر إن علی وجہ العبادۃ والتعظیم کفر وإن علی وجہ التحیۃ لا وصار آثماً مرتکباً للکبیرۃ والملتقط التواضع بغیر اللّٰہ حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۶)
(۲) إن المصافحۃ مستحبۃ عند کل لقاء، وأما ما اعتادہ الناس من المصافحۃ بعد صلاۃ الصبح والعصر، فلا أصل لہ في الشرع علی ہذا الوجہ … إنہ تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلاۃ بکل حال، لأن الصحابۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم ما صافحوا بعد أداء الصلاۃ، ولأنہا من سنن الروافض۔ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعیۃ أنہا بدعۃ مکروہۃ لا أصل لہا في الشرع … وقال ابن الحاج من المالکیۃ في المدخل: إنہا من البدع۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص534

اسلامی عقائد

Ref. No. 799/41-1000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جی یہ حدیث بخاری وغیرہ متعدد کتب حدیث میں ہے، "ان اللہ خلق آدم علی صورتہ " کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیداکیا ہے، یہاں "ہ" ضمیر بعض لوگوں کے نزدیک خود حضرت آدم علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے، یعنی آدم کو ان کی اپنی صورت پر بنایا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ "ہ" ضمیر اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے، اس لئے کہ بعض روایت میں "صورۃ الرحمن" بھی ہے۔ اور صورت سے مراد صفت ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم کو اپنی صفت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ (فیض الباری 6/187)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ تمام زبانوں کے خالق ہیں، اس لئے ہرطرح کی زبان کا پورا علم اللہ تعالیٰ رکھتے ہیں۔(۱) لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام زبانیں نہیں بولتے تھے۔(۲)

(۱) {وَمِنْ أٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَ أَلْوَانِکُمْ ط} (سورۃ الروم: ۲۲)
(۲) عن زید بن ثابت -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال لي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إني أکتب إلی قوم فأخاف أن یزیدوا عليّ أو  ینقصوا فتعلم السریانیۃ فتعلمتہا في سبعۃ عشر یوماً۔ (ابن حجر عسقلاني، الإصابۃ في تمییز الصحابۃ، زید بن ثابت‘‘: ج ۲، ص: ۲۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص214

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بریلوی جو مصافحہ نماز کے بعد کرتے ہیں اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر کرتے ہیں اور مصافحہ نہ کرنے والوں کو لعن طعن کرتے ہیں جس سے التزام مترشح ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو بدعت ہی کہا جائے گا اور جماعت میں جاتے وقت جو مصافحہ کرتے ہیں، اس کو نہ تو ضروری سمجھا جاتا ہے اور نہ اس کا التزام ہوتا ہے؛ بلکہ رخصتی کے لئے کرتے ہیں یا باہر سے آنے والے واعظ سے مصافحہ کرتے ہیں، پھر اس میں سب لوگ نہیں کرتے؛ بلکہ بعض کرتے ہیں اور بعض چھوڑ دیتے ہیں اور چھوڑنے والوں کو لعن طعن نہیں کیا جاتا؛ اس لیے یہ بدعت نہیں ہے۔(۱)

۱) وقد صرح بعض علمائنا وغیرہم بکراہۃ المصافحۃ المعتادۃ عقب الصلوٰۃ مع أن المصافحۃ سنۃ وما ذلک إلا لکونہا یم تؤثر في خصوص ہذا الموضع فالمواظبۃ علیہا توہم العوام بأنہا سنۃ فیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)
ویکرہ أن یقبل الرجل فم الرجل أو یدہ أو شیئاً منہ في قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ۔
(وکذا) ما یفعلونہ من تقبیل (الأرض بین یدي العلماء) والعظماء فحرام والفاعل والراضي بہ أثمان: لأنہ عبادۃ الوثن وہل یکفر إن علی وجہ العبادۃ والتعظیم کفر وإن علی وجہ التحیۃ لا وصار آثماً مرتکباً للکبیرۃ والملتقط التواضع بغیر اللّٰہ حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص534

اسلامی عقائد

Ref. No. 1327/42-705

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ظاہر یہ ہے کہ بھائی نے مذکورہ جملہ معاذ اللہ اللہ و رسول کی توہین کے لئے نہیں کہا ہے، اس لئے اس صورت میں  کفر لازم نہیں آیا، مذکورہ جملہ کہتے وقت اس کے دل میں کیا بات تھی وہی جانتا ہے۔ اس لئے اگر اس نے ایسا بطور توہین کے کہا ہو تو تجدید نکاح وتجدید ایمان ضروری ہے۔ اور اگر ایسا اس کے منھ سے نکل گیا تھا تو توبہ واستغفار کرے۔ اللہ نفس کے شر سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین۔

فالقائل لمن يأمر بالمعروف: أنت فضولي يخشى عليه الكفر فتح. (قوله: يخشى عليه الكفر) ؛ لأن الأمر بالمعروف وكذا النهي عن المنكر مما يعني كل مسلم، وإنما لم يكفر لاحتمال أنه لم يرد أن هذا فضول لا خير فيه بل أراد أن أمرك لا يؤثر أو نحو ذلك (شامی 5/106)
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند