Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 2027/44-1992
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ افنان (الف کے ساتھ) کے معنی ہیں 'شاخ'۔ قرآن میں سورۃ رحمن میں یہ لفظ آیاہے۔ عفنان (عین کے ساتھ) یہ لفظ ہمیں کہیں نہیں ملا۔ غفران (غین کے ساتھ) اس کے معنی ہیں معاف کرنے والا، یہ نام رکھاجاسکتاہے، البتہ 'عفران' (عین کے ساتھ) کسی لغت میں یہ لفظ ہمیں نہیں ملا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:انبیاء کے معصوم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اندر گناہ کی بالکلیہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں اور ان کے اندر بھی بشری تقاضے ہوتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا نظام ہے کہ ان کی گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ اور انبیاء کرام گناہوں سے بچنے میں بے اختیار نہیں ہیں؛ بلکہ بااختیار ہیں، اوراپنے اختیار سے گناہوں سے بچنا یقینا کمال ہے۔(۱)
(۱) إن الأنبیاء معصومون۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’أول الأنبیاء آدم -علیہ السلام-وآخرہم محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-‘‘: ص: ۱۳۹)
والأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کلہم منزہون عن الصغائر والکبائر والکفر والقبائح … أي جمیعہم الشامل مرسلہم ومشاہیر ہم وغیرہم أولہم آدم علیہ الصلاۃ والسلام علی ما ثبت بالکتاب والسنۃ وإجماع الأمۃ … منزہون أي معصومون من جمیع المعاصي۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الأنبیاء منزہون عن الکبائر والصغائر‘‘: ص: ۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص210
اسلامی عقائد
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:(۱) نوٹوں کا ہار گلے میں ڈالنا غیروں کا طریقہ ہے، اس کو اختیار کرنا درست نہیں ہے اور مسرت وخوشی کے موقعہ پر پھولوں کا ہار ڈالنے میں مضائقہ نہیں؛ بشرطیکہ کسی غیر قوم کا شعار نہ ہو اور اس کو ضروری بھی نہ سمجھا جائے۔(۱)
(۲) اگر اس کو لازم نہ سمجھا جائے تو درست ہے؛ بلکہ دینے والے ہدیہ کے طور پر دیدیا کریں تو اس میں ثواب بھی ہے؛ لیکن آج کل یہ ایک رسم بن چکی ہے اور خوشی سے نہیں دیا جاتا؛ بلکہ بعد میں اس کو اپنی شادی میں وصول کرنا مقصود ہوتا ہے اور نہ دینے پر ناگواری ہوتی ہے؛ اس لئے بچنا ضروری ہے۔(۱)
(۳) بغرض اعلان نکاح دف بجانا درست ہے(۲) باجہ وغیرہ درست نہیں ہے، یہ فضول خرچی واسراف ہے، شادی میں سادگی مطلوب ہے۔(۳)
(۴) قطعاً جائز نہیں ہے۔
(۵) کھانا کھانا جائز ہے؛ مگر استطاعت سے زیادہ لڑکی والوں پر بوجھ نہ رکھا جائے۔(۴)
مذکورہ امور اگر ثواب سمجھ کرکیے جاتے ہیں تو بدعت ہیں۔
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
مسلم را تشبہ بکفار حرام است۔ (ثناء اللہ پانی پتی، مالا بد منہ: ص: ۱۳۳)
(۱) {وَمَآ أَتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِيْٓ أَمْوَالِ النَّاسِ فَلاَ یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج} (سورۃ الروم: ۳۹)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۲) أعلنوا ہذا النکاح واجعلوہ في المساجد واضربوا علیہ بالدفوف۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب النکاح، باب ما جاء في إعلان النکاح‘‘: ج ۲،ص: ۳۹۰، رقم: ۱۰۸۹)
(۳) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أعظم النکاح برکۃ أیسرہ مؤنۃ،ر واہ البیہقي في شعب الإیمان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب النکاح: الفصل الثالث‘‘: ج ۶، ص: ۲۵۰، رقم: ۳۰۹۷)
(۴) لڑکی والے بغیر التزام کے اپنی مرضی سے کھانا دیدیں تو مباح ہے نہ دیں تو کوئی الزام نہیں ہے۔ (کفایۃ المفتی: ج ۷، ص: ۴۷۱، فاروقیہ) جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے، تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر کھائیں گے، اپنے مہمان کو کھلانا تو شریعت کا حکم ہے۔ (فتاوی محمودیہ: ج ۱۲، ص: ۱۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص424
اسلامی عقائد
Ref. No. 37 / 1095
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: مولانا وحیدالدین خان صاحب کےبہت سے عقائد ونظریات اہل سنت والجماعت دیوبند کے عقائد ونظریات سے متصادم ہیں، تاہم کسی وحیدی فرقہ کا ہمیں علم نہیں ہے۔ ان کی کتابوں میں جو نظریات ملتے ہیں بہت سے علماء نے ان پر قلم اٹھایا ہے اور ان نظریات کے بطلان کو واضح کیا ہے۔اس سلسلہ میں عرض ہے کہ جو لوگ رطب ویابس کی تمیز رکھتے ہیں وہی ان کتابوں کو دیکھیں ۔ البتہ عوام کو ان کی کتابیں پڑھنے سے گریز کرنا چاہئے تاکہ ان کےاپنے نظریات متاثر نہ ہوں اورجمہور علماء کے عقائدپر ہی قائم رہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 40/1152
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لغت میں ایمان کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے اور اسلام اطاعت و فرمانبرداری کا، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا بھی قلب اور سب عضاء و جوارح ، لیکن شرعا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعا اس وقت تک معتبر نہیں جب تک زبان سے اس تصدیق کا اظہار اور اطاعت و فرماں برداری کا اقرار نہ کرے اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرماں برداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو۔خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے مگر شرعا ایمان بدون اسلام کے اور اسلام بدون ایمان کے معتبر نہیں (خلاصہ معارف القرآن)۔ عرب کے محقق عالم دین شیخ عثیمن لکھتے ہیں کہ جب لفظ ایمان اور اسلام اکٹھے ہوں تو پھر اسلام سے ظاہر ی اعمال مراد لیے جاتے ہیں جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات اور اعضاء سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والامومن یا کمزور ایمان والامومن بھی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: قالت الاعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما لم یدخل الایمان فی قلوبکم اسی طرح منافق شخص ہے کہ اسے ظاہر ی طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے اور ایمان سے مراد باطنی یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اوریہ کام صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو حقیقی مومن ہے جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم و اذا تلیت علیہم آیاتہ زادتہم ایمانا و علی ربہم یتوکلون، الذین یقیمون الصلاۃ و مما رزقنہم ینفقون اولئک ہم المؤمنون حقا (انفال ۴۲)اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہوگا لہذا ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے (مجموع فتاوی و رسائل عثیمن ۴/۲۹) بہر حال اس طرح کی مختلف تعبیریں حضرات علماء سے منقول ہیں، لیکن اتنی بات طے ہے کہ ایمان کے لیے اسلام ضروری ہے اور اسلام کے لیے ایمان ضروری ہے، انسان کو اپنے ظاہر ی اعمال کے ساتھ باطنی اعمال اور قلبی یقین کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس تقریب میں اگر رسم ورواج کا دخل نہ ہو اور ایصال ثواب کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع نہ کیا گیا ہو، بس لوگ جمع ہیں، مٹھائی شربت وغیرہ شادی کی وجہ سے ہے توایصال ثواب کے لیے تلاوت میں کوئی حرج نہیں ہے؛ البتہ اگر بطور رسم دعوت دے کر قرآن خوانی کے لیے جمع کیا گیا تو درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ للقوم أن یقرؤوا القرآن جملۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلوٰۃ والتسبیح وقراء ۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص425
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس مسئلے میں اختلاف ہے، مگر تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بشر تھے، مثل دوسرے انسانوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ماں باپ سے پیدا ہوئے تھے، آپ کھاتے پیتے اور شادیاں کرتے تھے، اور انسانی زندگی کی ضروریات آپ کو بھی ہوتی تھیں؛ اس لئے آپ کا سایہ ہوتا تھا؛ لیکن دھوپ کی وجہ سے بسا اوقات آپ کے اوپر ابر سایہ کرتا تھا، اس لئے آپ کا سایہ محسوس ہی نہیں تھا جس کو لوگ عدم سایہ سمجھ کر نور مجسم کے قائل ہوگئے، جو خلاف حقیقت ہے ایسے لوگوں کے اعتقاد کو ختم کرنے کے لئے قرآن پاک میں فرمایا گیا۔ {قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوْحٰی إِلَيَّ}(۱) آپ لوگوں سے فرمادیجئے کہ میں بھی تم جیسا انسان ہوں، فرق یہ ہے کہ میرے پاس وحی آتی ہے تمہارے پاس وحی نہیں آتی، اس سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سراپا نور مجسم نہیں تھے؛ بلکہ آپ انسان ہی تھے؛ بلکہ دوسرے انسانوں کی طرح بشر تھے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے تھے، اور نور مجسم ہونے کا شبہ ہونے لگتا تھا کہ دنیا میں آپ جیسا حسین وجمیل انسان نہ آپ سے پہلے پیدا ہوا اور نہ ہی آپ کے بعد قیامت تک ایسا حسین وجمیل انسان پیدا ہوگا جیسا کہ شمائل ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔(۲)
(۱) سورۃ الکہف: ۰۱۱
(۲) فبینما أنا یوما بنصف النہار، إذا أنا بظل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقبلٌ،…قال عفان: حدثینہ حمادٌ، عن شمیسۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ثم سمعتہ بعد یحدثہ عن شمیسۃ، عن عائشۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقال: بعد في حج أو عمرۃ، قال: ولا أظنہ إلا قال: في حجۃ الوداع (أخرجہ أحمد بن حنبل،فی مسند ہ: ج ۴۱، ص: ۴۶۳، رقم: ۲۵۰۰۳)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم صلاۃ الصبح ثم مد یدہ ثم أخرہا فلما سلم قیل لہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لقد صنعت في صلاتک شیئاً لم تصنعہ في غیرہا … أیضا … قال: حتی لقد رأیت ظلي وظلکم فأومأت إلیکم أن استأخروا۔ (ابن قیم الجوزیۃ، حادي الأروح إلی بلاد الإفراح، ’’الباب الأول في بیان وجود الجنۃ الآن‘‘: ج ۱، ص: ۲۱)
فلما کان شہر ربیع الأول، دخل علیہا، فرات ظلہ۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ: ج ۴۴، ص: ۴۳۶)
حتی رأیت ظلي وظلکم إلخ۔ (محمد بن اسحاق بن خزیمۃ، صحیح ابن خزیمۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الرخصۃ في تناول المصلي الشيء‘‘: ص: ۲۰۷، رقم: ۸۹۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص212
اسلامی عقائد
Ref. No. 2420/45-3684
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان کے ادب و احترام کاخیال رکھنا چاہئے اور قبروں کی بے حرمتی سے بچناچاہئے، اسی وجہ سے قبروں کے اوپر چلنے اور بیٹھنے سے منع کیاگیا ہے۔ البتہ اگر جوتے پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہوتو ان کو پہن کر قبرستان میں چلنے کی گنجائش ہے،اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ البتہ کوشش یہ ہو کہ قبروں کے اوپر پیر نہ پڑیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کے نیچے سے بھینس نکالنا بدعت ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایسے کام وطریقہ کو فوراً چھوڑ دینا لازم ہے۔(۱)
(۱) إذا کان للرجل جو الق وفیہا دراہم مکتوب فیہا شيء من القرآن، أو کان في الجوالق کتب الفقہ أو کتب التفسیر أو المصحف، إن کان علی وجہ الاستخفاف یکفر وإلا لا کذا في الغرائب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، ’’الباب الخامس: في آداب المسجد والقبلۃ، والمصحف‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۳)
لا یلقی في موضع یخل بالتعظیم کذا في القنیۃ۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۵)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم، وقف ویوبند ج1ص533
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر نبی کے لئے علیہ السلام کہنا یا لکھنا درست نہیں ہے۔ یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے۔ (۱)
۱) وأما السلام فنقل اللقاني في شرح جوہرۃ التوحید عن الإمام الجویني أنہ في معنی الصلاۃ، فلا یستعمل في الغائب ولا یفرد بہ غیر الأنبیاء فلا یقال عليٌّ علیہ السلام، وسواء في ہذا الأحیاء والأموات إلا في الحاضر إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الخنثیٰ: مسائل شتیٰ‘‘: ج ۱۰، ص: ۴۸۳)
قال القاضي عیاض: الذي ذہب إلیہ المحققون وأمیل إلیہ ما لنا لہ مالک وسفیان واختارہ غیر واحد من الفقہاء والمتکلمین أنہ یجب تخصیص النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسائر الأنبیاء- علیہم السلام- بالصلاۃ والتسلیم۔ (أیضاً: ص: ۴۸۴)
أنہ قولہ عليٌّ علیہ السلام من شعار أہل البدعۃ لا یستحسن فی مقام المرام۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر: ص: ۱۶۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص213