اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پاؤں چھونا جاہلانہ رسم اور بدعت ہے، ایسی رسموں سے مسلمان کو پرہیز لازم ہے(۱) رخصتی اور ملاقات کے لئے سلام اور مصافحہ کافی ہے اور مسنون یہی ہے۔(۲)

۱) ویکرہ أن یقبل الرجل فم الرجل أو یدہ أو شیئاً منہ في قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ،
(وکذا) ما یفعلونہ من تقبیل (الأرض بین یدي العلماء) والعظماء فحرام والفاعل والراضي بہ أثمان: لأنہ عبادۃ الوثن وہل یکفر إن علی وجہ العبادۃ والتعظیم کفر وإن علی وجہ التحیۃ لا وصار آثماً مرتکباً للکبیرۃ والملتقط التواضع بغیر اللّٰہ حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۶)
(۲) إن المصافحۃ مستحبۃ عند کل لقاء، وأما ما اعتادہ الناس من المصافحۃ بعد صلاۃ الصبح والعصر، فلا أصل لہ في الشرع علی ہذا الوجہ … إنہ تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلاۃ بکل حال، لأن الصحابۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم ما صافحوا بعد أداء الصلاۃ، ولأنہا من سنن الروافض۔ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعیۃ أنہا بدعۃ مکروہۃ لا أصل لہا في الشرع … وقال ابن الحاج من المالکیۃ في المدخل: إنہا من البدع۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص534

اسلامی عقائد

Ref. No. 799/41-1000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جی یہ حدیث بخاری وغیرہ متعدد کتب حدیث میں ہے، "ان اللہ خلق آدم علی صورتہ " کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیداکیا ہے، یہاں "ہ" ضمیر بعض لوگوں کے نزدیک خود حضرت آدم علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے، یعنی آدم کو ان کی اپنی صورت پر بنایا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ "ہ" ضمیر اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے، اس لئے کہ بعض روایت میں "صورۃ الرحمن" بھی ہے۔ اور صورت سے مراد صفت ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم کو اپنی صفت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ (فیض الباری 6/187)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ تمام زبانوں کے خالق ہیں، اس لئے ہرطرح کی زبان کا پورا علم اللہ تعالیٰ رکھتے ہیں۔(۱) لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام زبانیں نہیں بولتے تھے۔(۲)

(۱) {وَمِنْ أٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَ أَلْوَانِکُمْ ط} (سورۃ الروم: ۲۲)
(۲) عن زید بن ثابت -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال لي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إني أکتب إلی قوم فأخاف أن یزیدوا عليّ أو  ینقصوا فتعلم السریانیۃ فتعلمتہا في سبعۃ عشر یوماً۔ (ابن حجر عسقلاني، الإصابۃ في تمییز الصحابۃ، زید بن ثابت‘‘: ج ۲، ص: ۲۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص214

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بریلوی جو مصافحہ نماز کے بعد کرتے ہیں اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر کرتے ہیں اور مصافحہ نہ کرنے والوں کو لعن طعن کرتے ہیں جس سے التزام مترشح ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو بدعت ہی کہا جائے گا اور جماعت میں جاتے وقت جو مصافحہ کرتے ہیں، اس کو نہ تو ضروری سمجھا جاتا ہے اور نہ اس کا التزام ہوتا ہے؛ بلکہ رخصتی کے لئے کرتے ہیں یا باہر سے آنے والے واعظ سے مصافحہ کرتے ہیں، پھر اس میں سب لوگ نہیں کرتے؛ بلکہ بعض کرتے ہیں اور بعض چھوڑ دیتے ہیں اور چھوڑنے والوں کو لعن طعن نہیں کیا جاتا؛ اس لیے یہ بدعت نہیں ہے۔(۱)

۱) وقد صرح بعض علمائنا وغیرہم بکراہۃ المصافحۃ المعتادۃ عقب الصلوٰۃ مع أن المصافحۃ سنۃ وما ذلک إلا لکونہا یم تؤثر في خصوص ہذا الموضع فالمواظبۃ علیہا توہم العوام بأنہا سنۃ فیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)
ویکرہ أن یقبل الرجل فم الرجل أو یدہ أو شیئاً منہ في قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ۔
(وکذا) ما یفعلونہ من تقبیل (الأرض بین یدي العلماء) والعظماء فحرام والفاعل والراضي بہ أثمان: لأنہ عبادۃ الوثن وہل یکفر إن علی وجہ العبادۃ والتعظیم کفر وإن علی وجہ التحیۃ لا وصار آثماً مرتکباً للکبیرۃ والملتقط التواضع بغیر اللّٰہ حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص534

اسلامی عقائد

Ref. No. 1327/42-705

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ظاہر یہ ہے کہ بھائی نے مذکورہ جملہ معاذ اللہ اللہ و رسول کی توہین کے لئے نہیں کہا ہے، اس لئے اس صورت میں  کفر لازم نہیں آیا، مذکورہ جملہ کہتے وقت اس کے دل میں کیا بات تھی وہی جانتا ہے۔ اس لئے اگر اس نے ایسا بطور توہین کے کہا ہو تو تجدید نکاح وتجدید ایمان ضروری ہے۔ اور اگر ایسا اس کے منھ سے نکل گیا تھا تو توبہ واستغفار کرے۔ اللہ نفس کے شر سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین۔

فالقائل لمن يأمر بالمعروف: أنت فضولي يخشى عليه الكفر فتح. (قوله: يخشى عليه الكفر) ؛ لأن الأمر بالمعروف وكذا النهي عن المنكر مما يعني كل مسلم، وإنما لم يكفر لاحتمال أنه لم يرد أن هذا فضول لا خير فيه بل أراد أن أمرك لا يؤثر أو نحو ذلك (شامی 5/106)
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1636/43-1211

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   جس شخص کے پاس نصاب کے بقدر مال نہ ہو ،  اس کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہوجاتی ہے۔ البتہ اس کو نصاب سے زائد مال یک مشت دینا مکروہ ہے گوکہ اس سے بھی زکوۃ دہندہ کی زکوۃ ادا ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر نصاب کے بقدر کسی کے پاس مال ہو جائے، چاہے وہ چند گھنٹہ پہلے ہی مالک ِ نصاب ہوا ہو اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے ؛ ایسے شخص کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔  لہذا صورت مذکورہ میں اگر طالب علم کے پاس نصاب کے بقدر مال جمع ہوگیا تو اس کو زکوۃ دینا  اور لیناجائز نہیں ہے۔البتہ ایسا کرسکتے ہیں کہ زکوۃ کی ایک  رقم کو ٹکٹ بنانے میں خرچ کردیا، پھر مستحق ہوگیا، زکوۃ کی دوسری رقم لی اس سے فیس ادا رکردیا، پھر زکوۃ کی رقم آئی اور اس سے کمرہ کا کرایہ ادا کردیا، یا کتاب وغیرہ خریدلی، تو اس طرح زکوۃ کی رقم اپنے اخراجات میں صرف کرسکتاہے۔  زکوۃ دینے والا اگر کوئی ایک بندہ ہے تو وہ زکوۃ کی ساری رقم یک مشت نہ دے بلکہ موقع بموقع مختلف ضروریات میں دیتارہے۔  ایک شکل یہ بھی ہے کہ کسی سے بطور قرض  ، ایک موٹی رقم لے لے اور اپنی ضروریات میں صرف کرے، اور اس قرض کی ادائیگی کے لئے زکوۃ کی  بڑی رقم  یک مشت لے کر ادائیگی کردے۔

"فهذه جهات الزكاة، وللمالك أن يدفع إلى كل واحد، وله أن يقتصر على صنف واحد، كذا في الهداية. وله أن يقتصر على شخص واحد، كذا في فتح القدير. والدفع إلى الواحد أفضل إذا لم يكن المدفوع نصاباً، كذا في الزاهدي. ويكره أن يدفع إلى رجل مائتي درهم فصاعداً، وإن دفعه جاز، كذا في الهداية. هذا إذا لم يكن الفقير مديوناً فإن كان مديوناً فدفع إليه مقدار ما لو قضى به دينه لايبقى له شيء أو يبقى دون المائتين لا بأس به، وكذا لو كان معيلاً جاز أن يعطى له مقدار ما لو وزع على عياله يصيب كل واحد منهم دون المائتين، كذا في فتاوى قاضي خان. وندب الإغناء عن السؤال في ذلك اليوم، كذا في التبيين". (الھندیۃ 1/188) "(وكره إعطاء فقير نصاباً) أو أكثر (إلا إذا كان) المدفوع إليه (مديوناً أو) كان (صاحب عيال) بحيث (لو فرقه عليهم لايخص كلا) أو لايفضل بعد دينه (نصاب) فلايكره، فتح".( شامی 2/353)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس شخص کو اپنا عمل اور اپنی عبادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کرنی چاہئے اگر ان جانے میں خلاف سنت کچھ ہوگیا ہے تو اس کی معافی خدا تعالیٰ سے مانگیں، اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی پوری اور قوی امید ہے۔(۱) {إِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج}(۲)

(۱) {إِنَّمَاالتَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓئَ بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاہ۱۷} (سوۃر النساء: ۱۷)
عن قتادۃ أنہ کان یحدث: أن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا یقولون: کل ذنب أصابہ عبد فہو بجہالۃ۔ عن قتادۃ: ’’للذین یعملون السوء بجہالۃ‘‘، قال: اجتمع أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرأوا أن کل شيء عصي بہ فہو ’’بجہالۃ‘‘ عمداً أو کان غیرہ۔
عن مجاہد في قولہ: ’’للذین یعملون السوء بجہالۃ‘‘، قال: کل من عصی ربہ فہو جاہل حتی ینزع عن معصیتہ۔ (محمد بن جرید الطبري: جامع البیان، ’’سورۃ النساء: ۱۷‘‘: ج ۸، ص: ۸۹، رقم: ۸۸۳۲-۸۸۳۳)
وقال عکرمۃ: أمور الدنیا کلہا جہالۃ یعني ما اختص بہا وحرج عن طاعۃ أدلۃ۔ (أبو حبان محمد بن یوسف، البحر المحیط، ’’سورۃ النساء: ۱۷‘‘: ج ۳، ص: ۵۶۱)
(۲) سورۃ النساء: ۴۸۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص535

اسلامی عقائد

Ref. No. 2592/45-4091

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    مذکورہ جملہ کہنا دینی باتوں کے استخفاف کے طور پر نہیں ہے، بلکہ دین کی باتوں کا کثرت سے سننا و سنانا بتانا ہے، نیز  دین کی باتوں کا کسی خاص انداز سے سننے سنانے کو لازم سمجھنے پر رد بھی ہوسکتاہے، اس لئے محض اس جملہ کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 824/41-1025

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 'اب' کے معنی باپ اور والا کے آتے ہیں، ناموں میں عام طور پر 'اب' کے معنی والا ہوتاہے، اس لئے ابوالاعلی کے معنی ہوئے اعلی والا، یعنی اعلی اوصاف والا وغیرہ جیسے ابوالحسن ہے۔ اس لئے اس نام میں شرک کی کوئی وجہ نہیں  سمجھ میں آتی ہے، مفتی صاحب سے ہی شرک کی وجہ معلوم کریں، جہاں تک مودودی کا تعلق ہے تو یہ مولانا مودودی کی طرف انتساب کرکے لوگ اپنے نام کے ساتھ بھی جوڑ لیتے ہیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کتب تفاسیر اور احادیث کی صحیح روایات سے ثابت ہے کہ ہر خطہ زمین کے بسنے والوں کی ہدایت اور عقائد کی درستگی اور اصلاح حال کے لئے انبیاء کرام مبعوث ہوئے ہیں تو ہندوستان کیوں محروم رکھا جاتا ہے اولیاء عارفین و اصحاب کشف نے بعض مقامات پر نور کی روشنی محسوس کرکے بتلایا بھی ہے کہ یہاں نبی کی قبر معلوم ہوتی ہے یا یہ کہ یہاں نبی کا آنا محسوس ہوتا ہے۔ بعض مفسرین کتب نے یہ بھی لکھا کہ ذوالکفل جن کا تذکرہ قرآن پاک میں ہے نبی تھے جنہوں نے بخارا کابل سے لے کر مغربی ہندوستان اور چین کے علاقہ تک تبلیغ کی۔ رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں یہود ونصاریٰ توریت وانجیل کی روشنی میں جن انبیاء اور رسل کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرتے تھے۔ انہی کے نام قرآن پاک میں موجود ہیں ورنہ انبیاء علیہم السلام کی تعداد مفسرین نے ایک لاکھ سے زائد لکھی ہے۔(۱)فقط: واللہ اعلم بالصواب

(۱) {إِنَّآ أَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ط وَإِنْ مِّنْ أُمَّۃٍ إِلَّا خَلاَ  فِیْھَا نَذِیْرٌہ۲۴} (سورۃ الفاطر: ۲۴)
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُوْلًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَج} (سورۃ النحل: ۳۶)
{وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًاہ۱۵} (سورۃ الإسراء: ۱۵)
{ذٰلِکَ أَنْ لَّمْ یَکُنْ رَّبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّأَھْلُھَا غٰفِلُوْنَ ہ۱۳۱} (سورۃ الانعام: ۱۳۱)
{وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰھُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْھُمْ عَلَیْکَط} (سورۃ النساء: ۱۶۴)
وعن الإمام أحمد عن أبي أمامۃ قال أبو ذرِّ: قلت یا رسول اللّٰہ کم وفاء عدۃ الأنبیاء-علیہم السلام-؟ قال: مائۃ ألف وأربعۃ وعشرون ألفا الرسل من ذلک ثلاث مائۃ وخمسۃ عشر جما غفیراً۔ (ملا علي قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب أحوال القیامۃ، باب بدؤ الخلق وذکر الأنبیاء -علیہم السلام-، الفصل الثالث‘‘: ج ۱۰، ص: ۴۱۷، رقم:۵۷۳۷)
إن عدد دہم لیس بمعلوم قطعاً، فینبغي أن یقال: آمنت بجمیع الأنبیاء أولہم آدم وآخرہم محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- معراج، فلا یجب اعتقاد أنہم مأۃ ألف وأربعۃ وعشرون ألفا، وأن الرسل منہم ثلاث مأۃ وثلاثۃ وعشرون لأنہ خبر آحاد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في عدد الأنبیاء والرسل -علیہم السلام-‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص215