اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنا قرآن وحدیث یا آثار صحابہؓ اور تعامل تابعین وغیرہم سے ثابت نہیں، ایسا کرنے کو ضروری یا باعث ثواب سمجھنا بدعت میں شمار ہوگا، اور اس متعلق جو روایات ہیں وہ موضوع ہیں۔
’’قال الإمام الجلیل السیوطی: ’’الأحادیث التی رویت في تقبیل الأنامل وجعلہا علی العینین عند سماع اسمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن المؤذن في کلمۃ الإشہاد کلہا موضوعات‘‘۔
علامہ جراحی کہتے ہیں ’’ولم یصح في المرفوع من کل شیئ‘‘ علامہ سخاوی نے ’’المقاصد الحسنہ‘‘ میں لکھا ہے: ’’بل کلہ مختلف موضوع‘‘۔(۱)

(۱) مسح العینین بباطن أنملتي السبابتین بعد تقبیلہما عند سماع أشہد أن محمد رسول اللّٰہ من المؤذن لا یصح۔ (أحمد طاہر، تذکرۃ الموضوعات: ج ۱، ص: ۳۴)
مسح العینین بباطن أنملتي السبابتین بعد تقبیلہما عند سماع قول المؤذن أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، مع قولہ: أشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ، رضیت باللّٰہ ربا، وبالإسلام دینا، وبمحمد نبیا، وذکر الدیملي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق أنہ لما سمع قول المؤذن أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ قال: ہذا، وقبل باطن الأنملتین السبابتین ومسح عینیہ، فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من فعل مثل ما فعل خلیلي فقد حلت علیہ شفاعتي، ولا یصح۔ (شمس الدین، المقاصد الحسنۃ: ج ۱، ص: ۶۰۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص536

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد پر فضیلت حاصل ہے قرآن کریم میں ہے: ’’ولقد کرمنا بني آدم‘‘ اور احادیث سے بھی یہ ہی مستفاد ہوتا ہے۔(۱)

۱) {وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ أٰدَمَ} ]الإسراء: ۷۰[ الأولیٰ أن یقال: عوام المؤمنین أفضل من عوام الملائکۃ، وخواصّ المؤمنین أفضل من خواصّ الملائکۃ قال تعالی: {إِنَّ الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِلا أُولٰٓئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِہط۷  } وفي قولہ: إن البشر أفضل من الملک، بمعنی: أن ہذا الجنس لما وجد فیہم الأکمل من الرسل، أو الأکمل أفضل من ہذ الجنس لعدم وجودہم فیہم فتأمل۔ (رواہ ابن ماجہ) قلت: وحدیث ’’المؤمن أعظم حرمۃ من الکعبۃ‘‘۔ في ابن ماجہ بسند عن بن عمر أن النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- قال ونظر إلی الکعبۃ: (لحرمۃ المؤمن أعظم عند اللّٰہ حرمۃ منک) وہو بعض حدیث طویلٍ۔ (ملا علي قاري، ’’کتاب أحوال القیامۃ وبدء الخلق، باب بدء الخلق وذکر الأنبیاء، الفصل الثالث‘‘: ج ۱۰، ص: ۴۱۲، رقم: ۵۷۳۳)
أجمعت الأمۃ علی أن الأنبیاء أفضل الخلیقۃ و أن نبیّنا -علیہ الصلاۃ والسلام- أفضلہم و أن أفضل الخلائق بعد الأنبیاء الملائکۃ الأربعۃ وحملۃ العرش والروحانیون ورضوان ومالک؛ وأن الصحابۃ والتابعین والشہداء والصالحین أفضل من سائر الملائکۃ۔ واختفلوا بعد ذلک، فقال الإمام: سائر الناس من المسلمین افضل من سائر الملائکۃ وقالا:سائر الملائکۃ أفضل اہـ۔ ملخصا۔ … وحاصلہ أنہ قسم البشر إلی ثلاثۃ أقسام: خواص کالأنبیاء وأوساط کالصالحین من الصابحۃ وغیرہم وعوام کباقي الناس۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في عدد الأنبیاء والرسل -علیہم السلام-‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص216

اسلامی عقائد

Ref. No. 2038/44-2013

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو مچھلیاں خارجی سبب سے مرتی ہیں، جیسے پانی سے باہر نکالنے کی وجہ سے مرجائیں تو وہ حلال ہیں۔ اور جو مچھلیاں پانی میں خود طبعی موت مرجائیں وہ احناف کے نزدیک حلال نہیں ہیں۔ مچھلی میں رگوں کا خون نہیں ہوتاہے جو ناپاک ہے، اس لئے ذبح کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔

ماالقی البحر او جزر عنہ فکلوہ ومامات فیہ و طفا فلاتاکلوہ (سنن ابی داؤد الرقم 3815 باب فی اکل الطافی من السمک)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:لفظ ’’یا‘‘ اس کے لئے استعمال ہوتا ہے جو سامنے موجود ہو اسی لئے روضۂ اطہر پر اس کا استعمال درست ہے کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور جہاں موجود نہیں وہاں لفظ ’’یا‘‘ کا استعمال درست نہیں ہے جو لوگ ہر جگہ لفظ ’’یا‘‘ سے پکارتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرجگہ موجود مانتے ہیں جب کہ یہ درست نہیں ہے ہر جگہ موجود ہونا صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔(۱)

۱) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی علی عند قبري سمعتہ ومن صلی عليّ نائیا أ بلغتہ۔ (رواہ  البیہقي في شعب الإیمان، (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الفصل الثالث‘‘: ج ۳، ص: ۱۷، رقم: ۹۳۴)
وعن ابن مسعود قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (إن للّٰہ ملائکۃً سیاحین في الأرض یبلغوني من أمتي السلام)۔ رواہ النسائي والدارمي، (أیضاً: الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص: ۹، رقم: ۹۲۴)
حیاۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبرہ ہو وسائر الأنبیاء معلومۃ عندنا علما قطعیاً لما قام عندنا من الأدلّۃ في ذلکوتواترت ]بہ[ الأخبار، وقد ألف البیہقی جزء اً في حیاۃ الأنبیاء في قبورہم، فمن الأخبار الدّالۃ وعلی ذلک ما أخرجہ مسلم عن أنس: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیلۃ أسري بہ مر بموسیٰ علیہ السلام وہو یصلي في قبرہ۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، الحاوي للفتاوی: ج۲، ص: ۱۷۸)
عن عمرو بن شرجیل رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال عبد اللّٰہ: قال رجل: یا رسول اللّٰہ أي الذنب أکبر عند اللّٰہ؟ قال: أن تدعوا للّٰہ ندا وہو خلقک۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان، باب بیان کون الشرک أقبح الذنوب‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۸۳)
ویکفر بقولہ: أرواح المشائخ حاضرۃ تعلم۔ (إبراہیم بن محمد، مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۵)
وعلی ما ذکرنا یکون الواقف مستقبلاً وجہہ -علیہ الصلاۃ والسلام- وبصرہ فیکون أولیٰ، ثم یقول في موقفہ: السلام علیک یا رسول اللّٰہ إلخ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج: مسائل منثورۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص217

اسلامی عقائد

Ref. No. 1210/42-511

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   (1) ایسے تہواروں کے موقع پر مارکیٹ میں جو چھوٹ ملتی ہے، خواہ مسلم کی طرف سے ہو یا غیرمسلم کی طرف سے، ان سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (2) اگر مٹھائی کسی دیوی دیوتا پر چڑھاوے کہ نہ ہو اور اس میں کسی ناپاک چیز کی آمیزش کا اندیشہ بھی نہ ہو تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عام طور پر دوکاندار جو مٹھائی اپنے گراہکوں کو کھلاتے رہتے ہیں اس میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی ، اس لئے اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ مطلع کردیا تھا کہ ایسے مقامات پر شفاعت کا حق آپ کو ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان فرما دیا {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیہط ۳   إِنْ ھُوَ إِلَّا وَحْيٌ یُّوْحٰیہلا ۴ }(۱)

(۱) سورۃ النجم: ۳-۴۔

عن أبي موسیٰ الأشعري، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: خیّرت بین الشفاعۃ، وبین أن یدخل نصف أمتي الجنۃ، فأخرت الشفاعۃ، لأنہا أعم وأکفی، أترونہا للمتقین؟ لا، ولکنہا للمذنبین، الخطاّئین المتلوّثین۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سنہ، ’’أبواب الدعوات، باب ذکر الشفاعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۹، رقم: ۴۳۱۱)
عبد الرحمن بن عمرو الأوزاعي قال: مررت بجدک عبد الواحد بن عبد اللّٰہ بن بسر، وأنا غازٍ وہو أمیر علی حمص، فقال لي: یا أبا عمروٍ، ألا أحدثک بحدیثٍ یسرک، فو اللّٰہ لربما کتمتہ الولاۃ؟ قلت: بلی۔ قال: حدثني أبي عبد اللّٰہ بن بسرٍ قال: بینما نحن بفناء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوما جلوساً إذ خرج علینا مشرق الوجہ یتہلل، فقمنا في وجہہ، فقلنا: سرک اللّٰہ یا رسول اللّٰہ، إنہ لیسرنا ما نری من إشراق وجہک، فقال رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن جبریل أتاني آنفاً، فبشرني أن اللّٰہ أعطاني الشفاعۃ، وہي في أمتي للمذنبین المثقلین۔ (سلیمان بن أحمد، المعجم الأوسط: ج ۵، ص: ۳۰۳-۳۰۴، رقم: ۵۳۸۲)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص218
 

اسلامی عقائد
https://dud.edu.in/darulifta/?qa=6620/%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%88%D8%B1%D8%AD%D9%85%DB%83-%D9%88%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%81-%D8%A2%DB%8C%D9%88%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D9%88%D9%84%D8%AA%DB%92-%D8%A8%D9%86%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A8%D9%86%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%A8%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%AA%D8%A7-%D8%A8%DB%8C%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%8C&show=6620#q6620

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اذان اصل میں نماز وجماعت کا وقت ہوجانے کی اطلاع کے لیے ہے، فقہاء نے آگ لگ جانے یا غموں اور پریشانیوں کے دور کرنے کے لیے، اس کی اگرچہ اجازت دی ہے(۱)؛ لیکن رخصتی کے وقت کی کوئی نظیر نہیں، قطعاً غیر مشروع اور ناجائز ہے۔ (۲)

(۱) رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ، کما في أذان المولود، والمہموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الآذان‘‘: ج ۲، ص: ۸۲)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص426

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ہر مہینہ کی تاریخ کے تعین کے لئے رویت ہلال کا اہتمام کریں۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1214/42-517

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کے بالوں کو سیدھاکرانے کی گنجائش ہے۔ حدیث شریف میں  ہے : من کان لہ شعر فلیکرمہ  (سنن ابوداؤد باب فی اصلاح الشعر ، نعیمیہ دیوبندص 573)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند