اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ مطلع کردیا تھا کہ ایسے مقامات پر شفاعت کا حق آپ کو ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان فرما دیا {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیہط ۳   إِنْ ھُوَ إِلَّا وَحْيٌ یُّوْحٰیہلا ۴ }(۱)

(۱) سورۃ النجم: ۳-۴۔

عن أبي موسیٰ الأشعري، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: خیّرت بین الشفاعۃ، وبین أن یدخل نصف أمتي الجنۃ، فأخرت الشفاعۃ، لأنہا أعم وأکفی، أترونہا للمتقین؟ لا، ولکنہا للمذنبین، الخطاّئین المتلوّثین۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سنہ، ’’أبواب الدعوات، باب ذکر الشفاعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۹، رقم: ۴۳۱۱)
عبد الرحمن بن عمرو الأوزاعي قال: مررت بجدک عبد الواحد بن عبد اللّٰہ بن بسر، وأنا غازٍ وہو أمیر علی حمص، فقال لي: یا أبا عمروٍ، ألا أحدثک بحدیثٍ یسرک، فو اللّٰہ لربما کتمتہ الولاۃ؟ قلت: بلی۔ قال: حدثني أبي عبد اللّٰہ بن بسرٍ قال: بینما نحن بفناء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوما جلوساً إذ خرج علینا مشرق الوجہ یتہلل، فقمنا في وجہہ، فقلنا: سرک اللّٰہ یا رسول اللّٰہ، إنہ لیسرنا ما نری من إشراق وجہک، فقال رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن جبریل أتاني آنفاً، فبشرني أن اللّٰہ أعطاني الشفاعۃ، وہي في أمتي للمذنبین المثقلین۔ (سلیمان بن أحمد، المعجم الأوسط: ج ۵، ص: ۳۰۳-۳۰۴، رقم: ۵۳۸۲)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص218
 

اسلامی عقائد
https://dud.edu.in/darulifta/?qa=6620/%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%88%D8%B1%D8%AD%D9%85%DB%83-%D9%88%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%81-%D8%A2%DB%8C%D9%88%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D9%88%D9%84%D8%AA%DB%92-%D8%A8%D9%86%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A8%D9%86%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%A8%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%AA%D8%A7-%D8%A8%DB%8C%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%8C&show=6620#q6620

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اذان اصل میں نماز وجماعت کا وقت ہوجانے کی اطلاع کے لیے ہے، فقہاء نے آگ لگ جانے یا غموں اور پریشانیوں کے دور کرنے کے لیے، اس کی اگرچہ اجازت دی ہے(۱)؛ لیکن رخصتی کے وقت کی کوئی نظیر نہیں، قطعاً غیر مشروع اور ناجائز ہے۔ (۲)

(۱) رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ، کما في أذان المولود، والمہموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الآذان‘‘: ج ۲، ص: ۸۲)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص426

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ہر مہینہ کی تاریخ کے تعین کے لئے رویت ہلال کا اہتمام کریں۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1214/42-517

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کے بالوں کو سیدھاکرانے کی گنجائش ہے۔ حدیث شریف میں  ہے : من کان لہ شعر فلیکرمہ  (سنن ابوداؤد باب فی اصلاح الشعر ، نعیمیہ دیوبندص 573)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ رسمیں ہیں ان سے پرہیز کرنا لازم ہے، کہ بسا اوقات ایسی رسموں میں بے پردگی اور سخت گناہ ہوجاتا ہے۔(۳) البتہ اگر دلہن خود سے یا اس کی کوئی بڑی اس کو بٹنا لگادیں کہ رنگ نکھر جائے اور دولہا کو پسند آجائے، تو اس میں مضائقہ نہیں(۴) نہ اس کا م کے لیے عورتوں کو، محلہ والوں کو، رشتہ داروں کو، اکٹھا کیا جائے، نہ کوئی شیرینی وغیرہ تقسیم کی جائے کہ اس میں نام وری بھی ہے اور رسم ورواج بھی، جس کی وجہ سے ایسا کرنا گناہ ہے ۔(۱)

(۳) {وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّص} (سورۃ النور: ۳۱)
(۴) قیل یا رسول اللّٰہ أي النساء خیر قال: التي تسرہ إذا نظر وتطیعہ إذا أمر ولا تخالفہ فیما یکرہ في نفسہا وما لہ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ-: ج ۱۵، ص: ۳۶، رقم: ۹۵۸۷) (شاملہ:ج۳۱، ص: ۴۱۱، رقم: ۹۶۵۸)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المتباریان لا یجابان ولا یؤکل طعامہا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب النکاح: باب الولیمۃ‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۱۰، رقم: ۳۲۲۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص427

اسلامی عقائد

Ref. No. 1848/43-1665

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچہ حاصل کرنے کے لئے مذکورہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ علماء نے اس طریقہ تولید کو ناجائز کہا ہے۔ اس لئے اس سے اجتناب کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا رسم ورواج کے خاموشی کے ساتھ اگر کسی موقع پر اس قسم کا ہدیہ بوقت شادی لڑکے یا لڑکی کو دیا جائے تو مضائقہ نہیں ہے، جب کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ’’تہادوا تحابوا‘‘(۲)  کہ ہدیہ دے کر محبت اور تعلقات بڑھاؤ؛ لیکن اگر ہدیہ کے طور پر نہیں؛ بلکہ بدلہ کے طور پر دیا، جیسا کہ آج کل شادی میں رواج بن چکا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔(۳)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’ في الأدب المفرد‘‘: ص: ۵۹۴۔
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۳) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص428

اسلامی عقائد

Ref. No. 1646/43-1231

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ کے گھر میں صرف محرم ہیں ، کوئی غیرمحرم مرد نہیں ہے تو بَرا پہننا ضروری نہیں ہے،  اسی طرح دوپٹہ  رکھنا بھی ضروری نہیں ہے، البتہ کپڑا ڈھیلا ڈھالا ہونا چاہئے کہ سینہ  کا ابھار واضح نہ ہو، اگر کپڑے تنگ ہیں تو کپڑا پہننے کے باوجود دوپٹہ لازمی طور پر  رکھناچاہئے ۔  کیونکہ عورت کا سینہ موضع شہوت ہے، اس لئے سینہ کھلاہو، یا سینہ کی ہیئت معلوم ہو تو یہ شہوانی ہیجان کا باعث ہوسکتی ہے۔  

یٰبَنِیْ آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْآتِکُمْ وَرِیْشًا (سورة الاعراف آیت۳۱۔ ) وبدن الحرة عورة إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا۔ (البحر الرائق: ۴۶۸/۱زکریا دیوبند) ینظر الرجل من محرمہ (ہی من لایحل لہ نکاحہا ابداً بنسب أو سبب) إلی الرأس والوجہ والصدر والساق والعضد إن امن شہوتہ وشہوتہا أیضاً وإلا لا، لاإلی الظہر والبطن والفخذ (الدر مع الرد: ۹/ ۵۲۶تا ۵۲۸، زکریا دیوبند) وأما في زماننا فمنع من الشابة قہستاني وغیرہ (۵۳۲، الدر مع الرد، زکریا) قال مشائخنا: تمنع المرأة الشابة من کشف وجہہا بین الرجال في زماننا للفتنة (بحر ۴۷۰/۱زکریا)۔

"إذا کان الثوب رقیقًا بحث یصف ماتحته أي لون البشرة لایحصل به سترة العورۃ (حلبی 214)  "أَنه صَلَّی اللَّه علیه وَسَلَّم  حذر أهله وَجَمِیع الْمُؤْمِنَات من لِبَاس رَقیق الثِّیاب الواصفة لأجسامهن بقوله: کم من کاسیة في الدنیا عاریة یوم القیامة، وفهم منه أن عقوبة لابسة ذلك أن تعری یوم القیامة".(عمدۃ القاری، باب ماکان النبي صلی الله علیه وسلم یتجوز من اللباس ، ج: ۲۲، ص: ۲۰، ط: دار إحیاء التراث العربي) "فکل لباس ینکشف معه جزء من عورة الرجل والمرأة لاتقره الشریعة الإسلامیة ..... وکذلك اللباس الرقیق أو اللا صق بالجسم الذي یحکي للناظر شکل حصة من الجسم الذي یجب ستره، فهو في حکم ماسبق في الحرمة وعدم الجواز" (تکملۃ فتح الملھم، کتاب اللباس والزینة 4/88) 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے مروجہ نذر ونیاز کرنا بدعت ہے اور یہ ناجائز امور میں سے ہے اس طرح کے کام سے بچنا ضروری ہے۔(۱)

(۱) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
وہو أیضاً: بدعۃ لم یرد فیہ شیء بہ علی أن الناس إنما یفعلون ذلک تعظیماً لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فالعوام معذورون لذلک بخلاف الخواص۔ (أحمد بن محمد، الفتاوی الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۵۸)
وأعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الد المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
وأما النذر الذي ینذرہ أکثر العوام علی ما ہو مشاہد کأن یکون    … لإنسان غائب أو مریض، أو لہ حاحۃ ضروریۃ فیأتي بعض الصلحاء فیجعل سترہ علی رأسہ … إلی… فہذا النذر باطل بالإجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: قبیل باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص334