اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سہرے اور گجرے اور مالا یہ سبھی ہندوانہ اور کافرانہ رسمیں ہیں، جو بدعت اور باعث گناہ ہیں، ان سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا لازم ہے اور اس موقع پر جو ہدیہ دولہا کو دیا جاتا ہے وہ ان رسموں میں شامل ہے، شریعت کی نظر میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم والخیر؛ و قال الطیبي: ہذا عام في الخلق والخلق والشعار۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب اللباس‘‘: ج ۱۳، ص: ۹۶، رقم: ۴۳۴۷)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق والفجار فہو منہم أي في الإثم۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود: ج ۵، ص: ۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص429

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2467/45-3741

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   فرضی کہانیاں یا اس طرح کے ناول جن کا مقصد اردو ادب  کو عام کرنا ہے،  اور جن کے اندر صرف فرضی باتیں ہوں، ان میں فحاشی،اسلامیات کا استہزاء،   مخرب اخلاق اور عشقیہ مضامین شامل نہ ہوں تو ایسی کتابوں اور ناولوں کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ان کتابوں کے پڑھنے سے ادبی فائدہ حاصل ہوتاہے۔  لیکن عام طور پر ناولوں کے اندرجھوٹ، عشق  اور  بے حیائی کی باتیں ہوتی ہیں  ، لوگ ان ناولوں میں لگ کر فرائض  سے اور نماز ،روزہ وغیرہ سے غافل ہوکر اپنے قیمتی اوقات ضائع کردیتے ہیں۔  ظاہر ہے ایسی کتابوں کا پڑھنا ذہن اوراخلاق میں فساد کا سبب بنے گا،  معاشرہ میں  برائی پھیلے گی ، اس وجہ سے اس طرح کی   کتابوں سے احتراز کرناچاہئے۔ اولیاء واکابر کے واقعات اور قصے کہانیوں پر  مشتمل بہت ساری کتابیں بازار میں موجود ہیں ان کو پڑھنا چاہئے اور ان  کو پھیلانا چاہئے تاکہ معاشرہ کی اصلاح میں ایک طرح کی  معاونت ہوسکے۔

قال اللہ تعالی:إن الذین یحبون أن تشیع الفاحشة فی الذین آمنوا لھم عذاب ألیم فی الدنیا والآخرة،واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون (سورہ نور، آیت:۱۹)، وقال أیضاً في مقام آخر:ومن الناس من یشتري لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم الآیة(سورہ لقمان، آیت:۶)، وقال التھانوي في أحکام القرآن (۳: ۲۰۰، ۲۰۱):وفذلکة الکلام أن اللھو علی أنواع؛ لھو مجرد، ولھو فیہ نفع وفائدة ولکن ورد الشرع بالنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد فی الشرع نھي صریح عنہ ولکنہ ثبت بالتجربة أنہ یکون ضررہ أعظم من نفعہ ملتحق بالمنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولم یغلب علی نفعہ ضررہ ولکن یشتغل فیہ بقصد التلھي،ولھو فیہ فائدة مقصودة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولیس فیہ مفسدة دینیة واشتغل بہ علی غرض صحیح لتحصیل الفائدة المطوبة لا بقصد التلھي، فھذہ خمسة أنواع، لا جائز فیھا إلا الأخیر الخامس فھو أیضاً لیس من إباحة اللھو في شییٴ؛بل إباحة ما کان لھواً صورة ثم خرج عن اللھویة بقصد صالح وغرض صحیح فلم یبق لھوا اھ

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2813/45-4399

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تبدیلیء جنس بنص قطعی   شرعا حرام ہے اور حرام کام کو حلال سمجھنا کفر ہے، اس لئے اس حرام کام کی قانون سازی میں حصہ داری ، فروغ دینے میں شرکت اوراس کی حمایت میں کھڑا ہونا حلال سمجھتے ہوئےکفر کا موجب ہوگا۔ ہاں اگر کوئی حرام سجھتاہے پھر بھی حمایت کرتاہے تو اس کو کافرقرار نہیں دیاجائے گا۔

{فِطْرَتَ الله الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْها لا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ الله} [سورۃ الروم:۳۰]

"عن عبد الله بن مسعود قال:’’لعن الله الواشمات والمستوشمات، والنامصات والمتنمصات، والمتفلجات للحسن، المغیرات خلق الله‘‘.(کتاب اللباس والزینۃ ، باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ ،ج:۲، ص:۲۰۵، ط:قدیمی)

والأصل أن من اعتقد الحرام حلالاً فإن کان حراماً لغیرہ کمال الغیر لا یکفر، وإن کان لعینہ فإن کان دلیلہ قطعیاً کفر وإلا فلا۔ (البحر الرائق: (206/5)
والا صل ان من اعتقد الحرام حلالا فان کان حراما لغیرہ کمال الغیر لا یکفر وان کان لعینہ فان کان دلیلہ قطعیا کفر والا فلا وقیل التفصیل فی العالم اما الجاہل فلا یفرق بین الحرام لعینہ ولغیرہ وانما الفرق فی حقہ ان ما کان قطعیا کفر بہ والا فلا فیکفر اذا قال الخمر لیس بحرام۔ (رد المحتار: (باب المرتد، مطلب فی منکر الاجماع، 393/3، ط: سعید)

إن استحلال المعصیة إذا ثبت کونہا معصیةً بدلالة قطعیة وکذا الاستہانة بہا کفر بأن یعدہا ہنیئةً سہلةً ویرتکبہا من غیر مبالاة بہا ویجریہا مجری المباحات في ارتکابہا، وکذا الاستہزاء علی الشریعة الغراء کفر؛ لأن ذلک من إمارات تکذیب الأنبیاء علیہم الصلاة والسلام (شرح فقہ أکبر لملا علي قاري:۲۵۴، ط: دارالإیمان، سہارنپور)

ومن یرضی بکفر غیرہ فقد اختلف فیہ المشائخ رحمہم اللہ في کتاب التخییر في کلمات الکفر إن رضي بکفر غیرہ لیعذب علی الخلود لا یکفر، وإن رضي بکفرہ؛ لیقول في اللہ ما لا یلیق بصفاتہ یکفر، وعلیہ الفتویٰ کذا في التاتارخانیة (ہندیة: ۲/۲۵۷، کتاب الحدود، فصل فی أحکام المرتدین، بلوچستان)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت حرام و گناہ کبیرہ ہے اس کو چھوڑنے کے بعد توبہ و استغفار لازم ہے۔ (۲)

(۲) {مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ م بَحِیْرَۃٍ وَّ لَا سَآئِبَۃٍ وَّ لَا وَصِیْلَۃٍ وَّلَا حَامٍلا وَّ لٰکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَط وَأَکْثَرُھُمْ لَا  یَعْقِلُوْنَ} (سورۃ المائدہ: ۱۰۳)
عن عائشۃ قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃ المصابیح،  ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷
)
 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص335

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دولہا یا دولہن کو غیر محرم اگر ابٹن لگائیں تو جائز نہیں ہے؛ تاہم اگر دولہن کو اس کی محرم عورتیں، ماں، خالہ، پھوپھی، بہنیں ابٹن لگائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

(۱) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شيء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
والإسلام قد حرم علی المرأۃ أن تکشف شیئاً من عورتہا أمام الأجانب خشیۃ الفتنۃ۔ (محمد علي الصابوني، روائع البیان: ج ۲، ص: ۱۷۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص429
 

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں میلاد کی منت درست نہیں؛ اس لئے اس منت کا پورا کرنا زید پر ضروری نہیں بلکہ اگر زید نے مروجہ طریقہ پر میلاد کرایا تو مرتکب بدعت ہوگا۔ اس سے پرہیز اولیٰ ہے؛ البتہ علماء وصلحاء سے وعظ کہلوانا اور نعت پڑھوانا اس میں اجر و ثواب ہے اس میں بھی مٹھائی وغیرہ کا رواجی انتظام نہ کیا جائے تاکہ جو حضرات اس میں شریک ہوں وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے شریک ہوں مٹھائی یا کسی قسم کے کھانے کا لالچ نہ ہو اس سے ثواب ختم ہوجائے گا۔ (۱)

(۱) لا یلزم النذر إلا إذا کان طاعۃ ولیس بواجب وکان من جنسہ واجب … علی التعیین فلا یصح النذر بالمعاصي ولا بالواجبات إلخ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ’’کتاب الصوم: الفن الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۷۱)
واعلم أنہم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثۃ کون المنذور لیس بمعصیۃ وکونہ من جنسہ واجب إلخ۔ (ابن نجیم البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل ومن نذر صوم یوم النحر‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص336

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزارات پر جانا، اور آیات قرآنی پڑھ کر میت کو ثواب پہنچانا، اور دعائے مغفرت کرنا، بلا شبہ جائز ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنت البقیع میں تشریف لے جاتے، اور ایصال ثواب، دعاء مغفرت فرماتے تھے؛ البتہ مزارات پر جاکر خلاف شریعت امور کرنا اور رونا، یا صاحب مزار سے امداد طلب کرنا جائز نہیں ہے، مگر توسل کی اجازت ہے، اور حضرت ابوبکر وعمر اور دوسرے اکابر صحابہؓ سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے دعاء میں وسیلہ اختیار کیا جہاں تک نیاز کی بات ہے تو اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے بلا شبہ یہ بدعت ہے، اور اگر مزار ہی پر جاکر ایصال ثواب کی نیت سے بکرا ذبح کرکے کھانا وغیرہ بناکر فقراء کو تقسیم کردیا جائے تو مباح ہے، ممنوع نہیں لیکن مزار ہی پر جاکر ایسا کرنے کو اگر ضروری سمجھا جائے گا تو بدعت میں شمار ہوگا، جو بکرا ذبح کیا جاتا ہے وہ اللہ ہی کے نام ذبح کرتا ہے، اور ایصال ثواب کے لئے ذبح کرتا ہے؛ اس لئے اس بکرے کے گوشت کو کھانا بھی جائز ہے مگر صرف غرباء کا حق ہے، جو صاحب نصاب ہو ان کے لئے اس کا کھانا مناسب نہیں، اور اگر نذر مانی گئی ہو تو اس صورت میں صاحب نصاب کو کھانا بھی جائز نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کلما کان لیلتہا من رسول اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم یخرج من آخر اللیل إلی البقیع فیقول السلام علیکم دار قوم مؤمنین إلخ۔ ( أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في التسلیم عن أہل القبور والدعاء والاستغفار لہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۳)
إن الاراقۃ لم تعقل قربۃ بنفسہا وإنما عرفت قربۃ بالشرع والشرع ورد بہا في مکان مخصوص، أو زمان مخصوص فیتبع مورد الشرع فیتقید کونہا قربۃ بالمکان الذي ورد الشرع بکونہا قربۃ فیہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’کتاب الحج‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص337

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کے قبرستان میں جانے کی ابتداًء ممانعت کی گئی تھی بعد میں اجازت دیدی گئی جس کی تصریح حدیث بخاری شریف میں موجود ہے؛ اس لئے عورتوں کا قبرستان میں جانا تو جائز ہے،(۱) لیکن وہاں جاکر نوحہ و گریہ وزاری بالکل منع اور ناجائز ہے، قبرستان میں جانے کی اجازت بھی اس صورت میں ہے کہ کوئی خطرہ نہ ہو اور محرم ساتھ ہو۔ اور غلاف یا چادر کا چڑھانا جائز نہیں ہے(۲) رات کو فاتحہ پڑھنے کے لئے آنے والوں کی سہولت کے پیش نظر روشنی کے لئے چراغ بھی جلایا جا سکتا ہے کسی اور وجہ سے نہیں جو چیز قبر پرچڑھائی گئی ہو اس کا کھانا بھی درست نہیں۔

(۱) (قولہ وقیل تحرم علی النساء إلخ) قال الرملي أما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ حمل الحدیث (لعن اللّٰہ زائرات القبور)، وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز ویکرہ إذا کن شواب کحضور الجماعۃ في المساجد۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الجنائز: فصل: السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۲)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور فزوروہا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في الذہاب إلی زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴)
عن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ،: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لعن زوارات القبور ]ص: ۳۶۳[) وفي الباب عن ابن عباس، وحسان بن ثابت: (ہذا حدیث حسن صحیح) وقد رأی بعض أہل العلم أن ہذا کان قبل أن یرخص النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم في زیارۃ القبور، فلما رخص دخل في رخصتہ الرجال والنساء، وقال بعضہم إنما کرہت زیارۃ القبور للنساء لقلۃ صبرہن وکثرۃ جزعہن۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: باب ما جاء في کراہیۃ زیارۃ القبور للنساء‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳، رقم: ۱۰۵۶)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا وکل بدعۃ ضلالۃ، وفي روایۃ: وشر الأمور مجدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
تکرہ الستور علی القبور۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فصل في اللبس‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۳)
وقولہم أولی بالاتباع حیث أصبح مثل تلک المسامحات والتعلات مثار اللبدع المنکرۃ والقبر السائرۃ، فتری العامۃ یلقون الزہور علی القبور۔ (معارف السنن، ’’باب التشدید من البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص338

اسلامی عقائد

Ref. No. 1003/41-164

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Recite Surah Taha (in juzz 16) and make Dua. And read ‘Yaa Lateefu’ as often as possible. May Allah make it easy for you!

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1465/42-894

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کل کے موجودہ یہودی اور نصرانی بھی  اہل کتاب میں شامل  ہیں گوکہ ان کا ایمان محرف توریت  و انجیل پر ہے۔  

مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں: قرآنِ کریم کی بے شمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہلِ کتاب ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعوے دار ہوں۔ خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گم راہیوں میں جا پڑے ہوں،  قرآنِ کریم نے جن کو اہلِ کتاب کا لقب دیا، انہیں کے بارے میں یہ بھی جابجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں۔  اور یہ بھی فرمایا کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو۔ ان حالات وصفات کے باوجود جب قرآن نے ان کو اہلِ کتاب قرار دیا تو معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ جب تک یہودیت و نصرانیت کو بالکل نہ چھوڑ دیں وہ اہلِ کتاب میں داخل ہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ سیئہ میں مبتلا ہوں۔ 

مسلمان کا نکاح کسی  کافرہ  اور دہریہ عورت سے  جائز نہیں جو کسی رسول پر ایمان نہ رکھتی  ہو۔   البتہ اگر کوئی عورت یہودیہ یا  نصرانیہ ہو اور اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو، تو اس سے مسلمان کا نکاح درست ہے۔ خیال رہے کہ   اہل کتاب عورتوں سے نکاح گرچہ جائز ہے مگر بہت سارے مفاسد کے پیش نظر ان سے نکاح کو مکروہ لکھا ہے۔اس لیے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں  مسلمانوں کو کتابیہ عورتوں کے نکاح سےمنع فرمادیاتھا۔

"عن نافع عن ابن عمر أنه کان یکره نکاح نساء أهل الکتاب ولایری بطعامهن بأسًا". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۵۹ دار الکتب العلمیة بیروت)"عن ابن عمر أنه کره نکاح نساء أهل الکتاب وقرأ: {وَلَاتَنْکِحُوْا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ} [البقرة: ۲۲۱]". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۶۰ بیروت) الدرالمختار میں ہے: "(وصح نكاح كتابية)، وإن كره تنزيهاً (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلهاً". (ج:۳،ص:۴۵،ط :سعید)وفی الشامیۃ: "(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ. قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ".   (ج:۳،ص:۴۵،ط:سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند