Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ رسمیں ہیں ان سے پرہیز کرنا لازم ہے، کہ بسا اوقات ایسی رسموں میں بے پردگی اور سخت گناہ ہوجاتا ہے۔(۳) البتہ اگر دلہن خود سے یا اس کی کوئی بڑی اس کو بٹنا لگادیں کہ رنگ نکھر جائے اور دولہا کو پسند آجائے، تو اس میں مضائقہ نہیں(۴) نہ اس کا م کے لیے عورتوں کو، محلہ والوں کو، رشتہ داروں کو، اکٹھا کیا جائے، نہ کوئی شیرینی وغیرہ تقسیم کی جائے کہ اس میں نام وری بھی ہے اور رسم ورواج بھی، جس کی وجہ سے ایسا کرنا گناہ ہے ۔(۱)
(۳) {وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّص} (سورۃ النور: ۳۱)
(۴) قیل یا رسول اللّٰہ أي النساء خیر قال: التي تسرہ إذا نظر وتطیعہ إذا أمر ولا تخالفہ فیما یکرہ في نفسہا وما لہ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ-: ج ۱۵، ص: ۳۶، رقم: ۹۵۸۷) (شاملہ:ج۳۱، ص: ۴۱۱، رقم: ۹۶۵۸)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المتباریان لا یجابان ولا یؤکل طعامہا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب النکاح: باب الولیمۃ‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۱۰، رقم: ۳۲۲۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص427
اسلامی عقائد
Ref. No. 1848/43-1665
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچہ حاصل کرنے کے لئے مذکورہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ علماء نے اس طریقہ تولید کو ناجائز کہا ہے۔ اس لئے اس سے اجتناب کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا رسم ورواج کے خاموشی کے ساتھ اگر کسی موقع پر اس قسم کا ہدیہ بوقت شادی لڑکے یا لڑکی کو دیا جائے تو مضائقہ نہیں ہے، جب کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ’’تہادوا تحابوا‘‘(۲) کہ ہدیہ دے کر محبت اور تعلقات بڑھاؤ؛ لیکن اگر ہدیہ کے طور پر نہیں؛ بلکہ بدلہ کے طور پر دیا، جیسا کہ آج کل شادی میں رواج بن چکا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔(۳)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’ في الأدب المفرد‘‘: ص: ۵۹۴۔
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۳) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص428
اسلامی عقائد
Ref. No. 1646/43-1231
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ کے گھر میں صرف محرم ہیں ، کوئی غیرمحرم مرد نہیں ہے تو بَرا پہننا ضروری نہیں ہے، اسی طرح دوپٹہ رکھنا بھی ضروری نہیں ہے، البتہ کپڑا ڈھیلا ڈھالا ہونا چاہئے کہ سینہ کا ابھار واضح نہ ہو، اگر کپڑے تنگ ہیں تو کپڑا پہننے کے باوجود دوپٹہ لازمی طور پر رکھناچاہئے ۔ کیونکہ عورت کا سینہ موضع شہوت ہے، اس لئے سینہ کھلاہو، یا سینہ کی ہیئت معلوم ہو تو یہ شہوانی ہیجان کا باعث ہوسکتی ہے۔
یٰبَنِیْ آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْآتِکُمْ وَرِیْشًا (سورة الاعراف آیت۳۱۔ ) وبدن الحرة عورة إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا۔ (البحر الرائق: ۴۶۸/۱زکریا دیوبند) ینظر الرجل من محرمہ (ہی من لایحل لہ نکاحہا ابداً بنسب أو سبب) إلی الرأس والوجہ والصدر والساق والعضد إن امن شہوتہ وشہوتہا أیضاً وإلا لا، لاإلی الظہر والبطن والفخذ (الدر مع الرد: ۹/ ۵۲۶تا ۵۲۸، زکریا دیوبند) وأما في زماننا فمنع من الشابة قہستاني وغیرہ (۵۳۲، الدر مع الرد، زکریا) قال مشائخنا: تمنع المرأة الشابة من کشف وجہہا بین الرجال في زماننا للفتنة (بحر ۴۷۰/۱زکریا)۔
"إذا کان الثوب رقیقًا بحث یصف ماتحته أي لون البشرة لایحصل به سترة العورۃ (حلبی 214) "أَنه صَلَّی اللَّه علیه وَسَلَّم حذر أهله وَجَمِیع الْمُؤْمِنَات من لِبَاس رَقیق الثِّیاب الواصفة لأجسامهن بقوله: کم من کاسیة في الدنیا عاریة یوم القیامة، وفهم منه أن عقوبة لابسة ذلك أن تعری یوم القیامة".(عمدۃ القاری، باب ماکان النبي صلی الله علیه وسلم یتجوز من اللباس ، ج: ۲۲، ص: ۲۰، ط: دار إحیاء التراث العربي) "فکل لباس ینکشف معه جزء من عورة الرجل والمرأة لاتقره الشریعة الإسلامیة ..... وکذلك اللباس الرقیق أو اللا صق بالجسم الذي یحکي للناظر شکل حصة من الجسم الذي یجب ستره، فهو في حکم ماسبق في الحرمة وعدم الجواز" (تکملۃ فتح الملھم، کتاب اللباس والزینة 4/88)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے مروجہ نذر ونیاز کرنا بدعت ہے اور یہ ناجائز امور میں سے ہے اس طرح کے کام سے بچنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
وہو أیضاً: بدعۃ لم یرد فیہ شیء بہ علی أن الناس إنما یفعلون ذلک تعظیماً لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فالعوام معذورون لذلک بخلاف الخواص۔ (أحمد بن محمد، الفتاوی الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۵۸)
وأعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الد المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
وأما النذر الذي ینذرہ أکثر العوام علی ما ہو مشاہد کأن یکون … لإنسان غائب أو مریض، أو لہ حاحۃ ضروریۃ فیأتي بعض الصلحاء فیجعل سترہ علی رأسہ … إلی… فہذا النذر باطل بالإجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: قبیل باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص334
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سہرے اور گجرے اور مالا یہ سبھی ہندوانہ اور کافرانہ رسمیں ہیں، جو بدعت اور باعث گناہ ہیں، ان سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا لازم ہے اور اس موقع پر جو ہدیہ دولہا کو دیا جاتا ہے وہ ان رسموں میں شامل ہے، شریعت کی نظر میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم والخیر؛ و قال الطیبي: ہذا عام في الخلق والخلق والشعار۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب اللباس‘‘: ج ۱۳، ص: ۹۶، رقم: ۴۳۴۷)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق والفجار فہو منہم أي في الإثم۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود: ج ۵، ص: ۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص429
اسلامی عقائد
Ref. No. 2467/45-3741
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فرضی کہانیاں یا اس طرح کے ناول جن کا مقصد اردو ادب کو عام کرنا ہے، اور جن کے اندر صرف فرضی باتیں ہوں، ان میں فحاشی،اسلامیات کا استہزاء، مخرب اخلاق اور عشقیہ مضامین شامل نہ ہوں تو ایسی کتابوں اور ناولوں کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ان کتابوں کے پڑھنے سے ادبی فائدہ حاصل ہوتاہے۔ لیکن عام طور پر ناولوں کے اندرجھوٹ، عشق اور بے حیائی کی باتیں ہوتی ہیں ، لوگ ان ناولوں میں لگ کر فرائض سے اور نماز ،روزہ وغیرہ سے غافل ہوکر اپنے قیمتی اوقات ضائع کردیتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی کتابوں کا پڑھنا ذہن اوراخلاق میں فساد کا سبب بنے گا، معاشرہ میں برائی پھیلے گی ، اس وجہ سے اس طرح کی کتابوں سے احتراز کرناچاہئے۔ اولیاء واکابر کے واقعات اور قصے کہانیوں پر مشتمل بہت ساری کتابیں بازار میں موجود ہیں ان کو پڑھنا چاہئے اور ان کو پھیلانا چاہئے تاکہ معاشرہ کی اصلاح میں ایک طرح کی معاونت ہوسکے۔
قال اللہ تعالی:إن الذین یحبون أن تشیع الفاحشة فی الذین آمنوا لھم عذاب ألیم فی الدنیا والآخرة،واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون (سورہ نور، آیت:۱۹)، وقال أیضاً في مقام آخر:ومن الناس من یشتري لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم الآیة(سورہ لقمان، آیت:۶)، وقال التھانوي في أحکام القرآن (۳: ۲۰۰، ۲۰۱):وفذلکة الکلام أن اللھو علی أنواع؛ لھو مجرد، ولھو فیہ نفع وفائدة ولکن ورد الشرع بالنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد فی الشرع نھي صریح عنہ ولکنہ ثبت بالتجربة أنہ یکون ضررہ أعظم من نفعہ ملتحق بالمنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولم یغلب علی نفعہ ضررہ ولکن یشتغل فیہ بقصد التلھي،ولھو فیہ فائدة مقصودة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولیس فیہ مفسدة دینیة واشتغل بہ علی غرض صحیح لتحصیل الفائدة المطوبة لا بقصد التلھي، فھذہ خمسة أنواع، لا جائز فیھا إلا الأخیر الخامس فھو أیضاً لیس من إباحة اللھو في شییٴ؛بل إباحة ما کان لھواً صورة ثم خرج عن اللھویة بقصد صالح وغرض صحیح فلم یبق لھوا اھ
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2813/45-4399
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تبدیلیء جنس بنص قطعی شرعا حرام ہے اور حرام کام کو حلال سمجھنا کفر ہے، اس لئے اس حرام کام کی قانون سازی میں حصہ داری ، فروغ دینے میں شرکت اوراس کی حمایت میں کھڑا ہونا حلال سمجھتے ہوئےکفر کا موجب ہوگا۔ ہاں اگر کوئی حرام سجھتاہے پھر بھی حمایت کرتاہے تو اس کو کافرقرار نہیں دیاجائے گا۔
{فِطْرَتَ الله الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْها لا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ الله} [سورۃ الروم:۳۰]
"عن عبد الله بن مسعود قال:’’لعن الله الواشمات والمستوشمات، والنامصات والمتنمصات، والمتفلجات للحسن، المغیرات خلق الله‘‘.(کتاب اللباس والزینۃ ، باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ ،ج:۲، ص:۲۰۵، ط:قدیمی)
والأصل أن من اعتقد الحرام حلالاً فإن کان حراماً لغیرہ کمال الغیر لا یکفر، وإن کان لعینہ فإن کان دلیلہ قطعیاً کفر وإلا فلا۔ (البحر الرائق: (206/5)
والا صل ان من اعتقد الحرام حلالا فان کان حراما لغیرہ کمال الغیر لا یکفر وان کان لعینہ فان کان دلیلہ قطعیا کفر والا فلا وقیل التفصیل فی العالم اما الجاہل فلا یفرق بین الحرام لعینہ ولغیرہ وانما الفرق فی حقہ ان ما کان قطعیا کفر بہ والا فلا فیکفر اذا قال الخمر لیس بحرام۔ (رد المحتار: (باب المرتد، مطلب فی منکر الاجماع، 393/3، ط: سعید)
إن استحلال المعصیة إذا ثبت کونہا معصیةً بدلالة قطعیة وکذا الاستہانة بہا کفر بأن یعدہا ہنیئةً سہلةً ویرتکبہا من غیر مبالاة بہا ویجریہا مجری المباحات في ارتکابہا، وکذا الاستہزاء علی الشریعة الغراء کفر؛ لأن ذلک من إمارات تکذیب الأنبیاء علیہم الصلاة والسلام (شرح فقہ أکبر لملا علي قاري:۲۵۴، ط: دارالإیمان، سہارنپور)
ومن یرضی بکفر غیرہ فقد اختلف فیہ المشائخ رحمہم اللہ في کتاب التخییر في کلمات الکفر إن رضي بکفر غیرہ لیعذب علی الخلود لا یکفر، وإن رضي بکفرہ؛ لیقول في اللہ ما لا یلیق بصفاتہ یکفر، وعلیہ الفتویٰ کذا في التاتارخانیة (ہندیة: ۲/۲۵۷، کتاب الحدود، فصل فی أحکام المرتدین، بلوچستان)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت حرام و گناہ کبیرہ ہے اس کو چھوڑنے کے بعد توبہ و استغفار لازم ہے۔ (۲)
(۲) {مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ م بَحِیْرَۃٍ وَّ لَا سَآئِبَۃٍ وَّ لَا وَصِیْلَۃٍ وَّلَا حَامٍلا وَّ لٰکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَط وَأَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ} (سورۃ المائدہ: ۱۰۳)
عن عائشۃ قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص335
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دولہا یا دولہن کو غیر محرم اگر ابٹن لگائیں تو جائز نہیں ہے؛ تاہم اگر دولہن کو اس کی محرم عورتیں، ماں، خالہ، پھوپھی، بہنیں ابٹن لگائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)
(۱) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شيء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
والإسلام قد حرم علی المرأۃ أن تکشف شیئاً من عورتہا أمام الأجانب خشیۃ الفتنۃ۔ (محمد علي الصابوني، روائع البیان: ج ۲، ص: ۱۷۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص429