اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں میلاد کی منت درست نہیں؛ اس لئے اس منت کا پورا کرنا زید پر ضروری نہیں بلکہ اگر زید نے مروجہ طریقہ پر میلاد کرایا تو مرتکب بدعت ہوگا۔ اس سے پرہیز اولیٰ ہے؛ البتہ علماء وصلحاء سے وعظ کہلوانا اور نعت پڑھوانا اس میں اجر و ثواب ہے اس میں بھی مٹھائی وغیرہ کا رواجی انتظام نہ کیا جائے تاکہ جو حضرات اس میں شریک ہوں وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے شریک ہوں مٹھائی یا کسی قسم کے کھانے کا لالچ نہ ہو اس سے ثواب ختم ہوجائے گا۔ (۱)

(۱) لا یلزم النذر إلا إذا کان طاعۃ ولیس بواجب وکان من جنسہ واجب … علی التعیین فلا یصح النذر بالمعاصي ولا بالواجبات إلخ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ’’کتاب الصوم: الفن الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۷۱)
واعلم أنہم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثۃ کون المنذور لیس بمعصیۃ وکونہ من جنسہ واجب إلخ۔ (ابن نجیم البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل ومن نذر صوم یوم النحر‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص336

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزارات پر جانا، اور آیات قرآنی پڑھ کر میت کو ثواب پہنچانا، اور دعائے مغفرت کرنا، بلا شبہ جائز ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنت البقیع میں تشریف لے جاتے، اور ایصال ثواب، دعاء مغفرت فرماتے تھے؛ البتہ مزارات پر جاکر خلاف شریعت امور کرنا اور رونا، یا صاحب مزار سے امداد طلب کرنا جائز نہیں ہے، مگر توسل کی اجازت ہے، اور حضرت ابوبکر وعمر اور دوسرے اکابر صحابہؓ سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے دعاء میں وسیلہ اختیار کیا جہاں تک نیاز کی بات ہے تو اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے بلا شبہ یہ بدعت ہے، اور اگر مزار ہی پر جاکر ایصال ثواب کی نیت سے بکرا ذبح کرکے کھانا وغیرہ بناکر فقراء کو تقسیم کردیا جائے تو مباح ہے، ممنوع نہیں لیکن مزار ہی پر جاکر ایسا کرنے کو اگر ضروری سمجھا جائے گا تو بدعت میں شمار ہوگا، جو بکرا ذبح کیا جاتا ہے وہ اللہ ہی کے نام ذبح کرتا ہے، اور ایصال ثواب کے لئے ذبح کرتا ہے؛ اس لئے اس بکرے کے گوشت کو کھانا بھی جائز ہے مگر صرف غرباء کا حق ہے، جو صاحب نصاب ہو ان کے لئے اس کا کھانا مناسب نہیں، اور اگر نذر مانی گئی ہو تو اس صورت میں صاحب نصاب کو کھانا بھی جائز نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کلما کان لیلتہا من رسول اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم یخرج من آخر اللیل إلی البقیع فیقول السلام علیکم دار قوم مؤمنین إلخ۔ ( أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في التسلیم عن أہل القبور والدعاء والاستغفار لہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۳)
إن الاراقۃ لم تعقل قربۃ بنفسہا وإنما عرفت قربۃ بالشرع والشرع ورد بہا في مکان مخصوص، أو زمان مخصوص فیتبع مورد الشرع فیتقید کونہا قربۃ بالمکان الذي ورد الشرع بکونہا قربۃ فیہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’کتاب الحج‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص337

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کے قبرستان میں جانے کی ابتداًء ممانعت کی گئی تھی بعد میں اجازت دیدی گئی جس کی تصریح حدیث بخاری شریف میں موجود ہے؛ اس لئے عورتوں کا قبرستان میں جانا تو جائز ہے،(۱) لیکن وہاں جاکر نوحہ و گریہ وزاری بالکل منع اور ناجائز ہے، قبرستان میں جانے کی اجازت بھی اس صورت میں ہے کہ کوئی خطرہ نہ ہو اور محرم ساتھ ہو۔ اور غلاف یا چادر کا چڑھانا جائز نہیں ہے(۲) رات کو فاتحہ پڑھنے کے لئے آنے والوں کی سہولت کے پیش نظر روشنی کے لئے چراغ بھی جلایا جا سکتا ہے کسی اور وجہ سے نہیں جو چیز قبر پرچڑھائی گئی ہو اس کا کھانا بھی درست نہیں۔

(۱) (قولہ وقیل تحرم علی النساء إلخ) قال الرملي أما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ حمل الحدیث (لعن اللّٰہ زائرات القبور)، وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز ویکرہ إذا کن شواب کحضور الجماعۃ في المساجد۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الجنائز: فصل: السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۲)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور فزوروہا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في الذہاب إلی زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴)
عن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ،: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لعن زوارات القبور ]ص: ۳۶۳[) وفي الباب عن ابن عباس، وحسان بن ثابت: (ہذا حدیث حسن صحیح) وقد رأی بعض أہل العلم أن ہذا کان قبل أن یرخص النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم في زیارۃ القبور، فلما رخص دخل في رخصتہ الرجال والنساء، وقال بعضہم إنما کرہت زیارۃ القبور للنساء لقلۃ صبرہن وکثرۃ جزعہن۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: باب ما جاء في کراہیۃ زیارۃ القبور للنساء‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳، رقم: ۱۰۵۶)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا وکل بدعۃ ضلالۃ، وفي روایۃ: وشر الأمور مجدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
تکرہ الستور علی القبور۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فصل في اللبس‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۳)
وقولہم أولی بالاتباع حیث أصبح مثل تلک المسامحات والتعلات مثار اللبدع المنکرۃ والقبر السائرۃ، فتری العامۃ یلقون الزہور علی القبور۔ (معارف السنن، ’’باب التشدید من البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص338

اسلامی عقائد

Ref. No. 1003/41-164

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Recite Surah Taha (in juzz 16) and make Dua. And read ‘Yaa Lateefu’ as often as possible. May Allah make it easy for you!

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1465/42-894

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کل کے موجودہ یہودی اور نصرانی بھی  اہل کتاب میں شامل  ہیں گوکہ ان کا ایمان محرف توریت  و انجیل پر ہے۔  

مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں: قرآنِ کریم کی بے شمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہلِ کتاب ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعوے دار ہوں۔ خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گم راہیوں میں جا پڑے ہوں،  قرآنِ کریم نے جن کو اہلِ کتاب کا لقب دیا، انہیں کے بارے میں یہ بھی جابجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں۔  اور یہ بھی فرمایا کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو۔ ان حالات وصفات کے باوجود جب قرآن نے ان کو اہلِ کتاب قرار دیا تو معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ جب تک یہودیت و نصرانیت کو بالکل نہ چھوڑ دیں وہ اہلِ کتاب میں داخل ہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ سیئہ میں مبتلا ہوں۔ 

مسلمان کا نکاح کسی  کافرہ  اور دہریہ عورت سے  جائز نہیں جو کسی رسول پر ایمان نہ رکھتی  ہو۔   البتہ اگر کوئی عورت یہودیہ یا  نصرانیہ ہو اور اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو، تو اس سے مسلمان کا نکاح درست ہے۔ خیال رہے کہ   اہل کتاب عورتوں سے نکاح گرچہ جائز ہے مگر بہت سارے مفاسد کے پیش نظر ان سے نکاح کو مکروہ لکھا ہے۔اس لیے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں  مسلمانوں کو کتابیہ عورتوں کے نکاح سےمنع فرمادیاتھا۔

"عن نافع عن ابن عمر أنه کان یکره نکاح نساء أهل الکتاب ولایری بطعامهن بأسًا". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۵۹ دار الکتب العلمیة بیروت)"عن ابن عمر أنه کره نکاح نساء أهل الکتاب وقرأ: {وَلَاتَنْکِحُوْا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ} [البقرة: ۲۲۱]". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۶۰ بیروت) الدرالمختار میں ہے: "(وصح نكاح كتابية)، وإن كره تنزيهاً (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلهاً". (ج:۳،ص:۴۵،ط :سعید)وفی الشامیۃ: "(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ. قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ".   (ج:۳،ص:۴۵،ط:سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1844/43-1663

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمانہ آئندہ میں ہونے والے واقعہ کی یقینی طور پر کسی کو خبر نہیں ہے، یہ مغیبات الہیہ ہیں جن کا صحیح  علم صرف اور صرف اللہ تعالی کو ہے۔  زمانہ آئندہ میں کسی چیز کے متعلق خیر یا شر کی بات معلوم کرنا  یا بتانا  بھی شرکیہ عمل ہے،  یہ سخت گناہ کبیرہ ہے، اس لئے ان امور سے اجتناب لازم ہے۔  البتہ اللہ تعالی نے دنیا کا ایک نظام مقرر کیا ہے، اس مقرر کردہ نظام کے تحت کسی یقینی علامت کو دیکھ کر آئندہ زمانہ میں ہونے والی بات  کی خبردینا شرک یا غیب کا علم نہیں کہلائےگا، جیسے کہ کل صبح کا سورج اتنے بج کر اتنے منٹ پر طلوع ہوگا وغیرہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت موسیٰ نبی تھے بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے۔(۱)

(۱) {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِأٰیٰتِنَا إِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِہٖ فَقَالَ إِنِّيْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ۴۶} (سورۃ زخرف: ۴۶)
{وَإِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ ٰیقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ أَنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْط} (سورۃ الصف: ۵)

 فتاوی دارالعلوم وق دیوبند ج1ص218

اسلامی عقائد

Ref. No. 2419/44-3654

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ واقعہ کی حقیقت کا علم نہیں، شاید لوگوں نے ایک اندازہ لگاکر یہ بات کہی ہو، ورنہ قرآن میں اتنا تو صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اس کے خزانے اتنے زیادہ تھے کہ ان کی کنجیاں اتنی تعداد میں تھیں کہ ایک قوی جماعت بھی آسانی سے ان کا وزن نہیں اٹھاسکتی تھی۔ (معارف القرآن ، از مولانا شفیعؒ 6/665 نعیمیہ دیوبند) علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اس سلسلہ میں بہت سارے اقوال ذکر کرکے  مذکورہ واقعہ کو مبالغہ پر محمول کیا ہے۔  (روح المعانی 11/165 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رحمۃ للعالمین یہ صفت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خاص صفت نہیں ہے جس کا اطلاق کسی دوسرے پر نہ ہوسکے فتاویٰ رشیدیہ میں ہے کہ لفظ رحمۃ للعالمین صفت خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی نہیں ہے؛ بلکہ دیگر انبیاء اولیاء اور علماء بھی موجب رحمت عالم ہوتے ہیں مگر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس صفت میں سب سے اعلی ہیں لہٰذا اگر دوسرے پر اس لفظ کو بتاویل بول دیا جائے، تو جائز ہے۔ (۲) (۲) {وَمَآ أَرْسَلْنٰکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ہ۱۰۷} بما ذکر وبأمثالہ من الشرائع والأحکام وغیر ذلک مما ہو مناط لسعادۃ الدارین۔ (علامہ آلوسي، تفسیر روح المعاني، ’’سورۃ الأنبیاء: ۱۰۷‘‘: ج ۹، ص: ۹۹) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص219

اسلامی عقائد

Ref. No. 2418/45-3683

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اللہ تعالی ہر چیزپر قادر ہیں، کوئی بھی چیز اور کوئی بھی کام اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ تاہم کسی کام پر قادر ہونا، اور کسی کام کو بالفعل کرنا دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ اللہ تعالی جنتی کو جہنم میں اور جہنمی کو جنت میں ڈالنے پر مکمل قادر ہے اس کو کوئی روکنے یا ٹوکنے والا ہرگز نہیں ہے، البتہ اللہ تعالی کا یہ وعدہ ہے کہ  بے ایمان کو ہرگز جنت میں داخل نہیں کریں گے، اور یہ بھی فرمادیا کہ اللہ تعالی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ اس لئے اللہ تعالی قدرت کے باوجود کسی بےایمان شخص کو جنت میں کبھی بھی داخل نہیں فرمائیں گے۔ البتہ ایمان والوں کے ساتھ معاملہ مختلف ہوگا، جس کو چاہیں سزا کے بعد جنت میں داخل کریں اور جس کو چاہیں بغیر کسی سزا کے جنت میں داخل کردیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند