اسلامی عقائد

Ref. No. 1844/43-1663

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمانہ آئندہ میں ہونے والے واقعہ کی یقینی طور پر کسی کو خبر نہیں ہے، یہ مغیبات الہیہ ہیں جن کا صحیح  علم صرف اور صرف اللہ تعالی کو ہے۔  زمانہ آئندہ میں کسی چیز کے متعلق خیر یا شر کی بات معلوم کرنا  یا بتانا  بھی شرکیہ عمل ہے،  یہ سخت گناہ کبیرہ ہے، اس لئے ان امور سے اجتناب لازم ہے۔  البتہ اللہ تعالی نے دنیا کا ایک نظام مقرر کیا ہے، اس مقرر کردہ نظام کے تحت کسی یقینی علامت کو دیکھ کر آئندہ زمانہ میں ہونے والی بات  کی خبردینا شرک یا غیب کا علم نہیں کہلائےگا، جیسے کہ کل صبح کا سورج اتنے بج کر اتنے منٹ پر طلوع ہوگا وغیرہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت موسیٰ نبی تھے بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے۔(۱)

(۱) {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِأٰیٰتِنَا إِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِہٖ فَقَالَ إِنِّيْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ۴۶} (سورۃ زخرف: ۴۶)
{وَإِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ ٰیقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ أَنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْط} (سورۃ الصف: ۵)

 فتاوی دارالعلوم وق دیوبند ج1ص218

اسلامی عقائد

Ref. No. 2419/44-3654

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ واقعہ کی حقیقت کا علم نہیں، شاید لوگوں نے ایک اندازہ لگاکر یہ بات کہی ہو، ورنہ قرآن میں اتنا تو صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اس کے خزانے اتنے زیادہ تھے کہ ان کی کنجیاں اتنی تعداد میں تھیں کہ ایک قوی جماعت بھی آسانی سے ان کا وزن نہیں اٹھاسکتی تھی۔ (معارف القرآن ، از مولانا شفیعؒ 6/665 نعیمیہ دیوبند) علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اس سلسلہ میں بہت سارے اقوال ذکر کرکے  مذکورہ واقعہ کو مبالغہ پر محمول کیا ہے۔  (روح المعانی 11/165 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رحمۃ للعالمین یہ صفت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خاص صفت نہیں ہے جس کا اطلاق کسی دوسرے پر نہ ہوسکے فتاویٰ رشیدیہ میں ہے کہ لفظ رحمۃ للعالمین صفت خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی نہیں ہے؛ بلکہ دیگر انبیاء اولیاء اور علماء بھی موجب رحمت عالم ہوتے ہیں مگر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس صفت میں سب سے اعلی ہیں لہٰذا اگر دوسرے پر اس لفظ کو بتاویل بول دیا جائے، تو جائز ہے۔ (۲) (۲) {وَمَآ أَرْسَلْنٰکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ہ۱۰۷} بما ذکر وبأمثالہ من الشرائع والأحکام وغیر ذلک مما ہو مناط لسعادۃ الدارین۔ (علامہ آلوسي، تفسیر روح المعاني، ’’سورۃ الأنبیاء: ۱۰۷‘‘: ج ۹، ص: ۹۹) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص219

اسلامی عقائد

Ref. No. 2418/45-3683

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اللہ تعالی ہر چیزپر قادر ہیں، کوئی بھی چیز اور کوئی بھی کام اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ تاہم کسی کام پر قادر ہونا، اور کسی کام کو بالفعل کرنا دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ اللہ تعالی جنتی کو جہنم میں اور جہنمی کو جنت میں ڈالنے پر مکمل قادر ہے اس کو کوئی روکنے یا ٹوکنے والا ہرگز نہیں ہے، البتہ اللہ تعالی کا یہ وعدہ ہے کہ  بے ایمان کو ہرگز جنت میں داخل نہیں کریں گے، اور یہ بھی فرمادیا کہ اللہ تعالی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ اس لئے اللہ تعالی قدرت کے باوجود کسی بےایمان شخص کو جنت میں کبھی بھی داخل نہیں فرمائیں گے۔ البتہ ایمان والوں کے ساتھ معاملہ مختلف ہوگا، جس کو چاہیں سزا کے بعد جنت میں داخل کریں اور جس کو چاہیں بغیر کسی سزا کے جنت میں داخل کردیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود شریف، گیارھویں، بارھویں اولیا کرام کے مزارات پر سجدہ کرنا نماز جنازہ کے بعد فاتحہ دعاء، تیجہ، چالیسواں، دعاء بعد جنازہ مخصوص اوقات میں، مخصوص طریقہ پر زیارت قبور فرقہ رضاخانیت کے مروجہ امور ہیں، شریعت اسلامیہ میںان کا کوئی ثبوت نہیں؛ لہٰذا ان مروجہ طریقوں پر، ان امور کو انجام دینا، بدعت وخلاف شریعت ہے۔ تفصیل کے لئے ’’اصلاح الرسوم‘‘ حضرت تھانوی، ’’فاتحہ کا صحیح طریقہ‘‘، ’’رضاخانیت کا تنقیدی جائزہ‘‘، ’’اعلی حضرت کا دین‘‘، ’’مسئلہ ایصالِ ثواب‘‘ وغیرہ اکابر دیوبند کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ) متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
من تعبد للّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ في غیر أزمانہا، فقد تعبد ببدعۃ حقیقۃ لا إضافیۃ فلاجہۃ لہا إلی المشروع، بل غلبت علیہا جہۃ الإبتداع، فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدع الإضافیۃ ہل یعتد بہا عبادات‘‘: ج ۲، ص: ۲۶)
وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
ویکرہ عند القبر ما لم یعہد من السنۃ والمعہود منہا لیس إلا زیارۃ والدعاء عندہ قائماً، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:     الباب الحادي والعشرون، في الجنائز، الفصل السادس: في القبر والدفن والنقل من مکان إلیٰ آخر‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷)
ولا یمسح القبر ولا یقبلہ ولا یمسہ فإن ذلک من عادۃ النصاریٰ، کذا في شرح الشرعۃ۔ (أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)
لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرساً۔ (المظہري، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص538

اسلامی عقائد

Ref. No. 1215/42-522

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کمیشن پر چندہ کرنے کو مفتیان کرام نے ممنوع لکھا ہے ، ہاں خرچ و انعام درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی میں مذکورہ جملہ بولنا رسول خدا کی توہین کرنا ہے اوراہانت رسول کفر ہے بس ایسا جملہ بولنے والا شرعاً کافر ہوجاتا ہے۔ اس کو چاہئے کہ ایمان قبول کرے اور ہمیشہ ہمیشہ توبہ و استغفار کرتا رہے اورمولانا اسماعیل شہید ؒ کی کتاب میں یا کسی تحریر میں ایسا جملہ نہیں ہے جو شخص ان کی طرف ایسی باتوں کو منسوب کرتا ہے وہ بہتان طراز اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔(۱)

۱) {إِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ یُّقَتَّلُوْٓا أَوْ یُصَلَّبُوْٓا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیْہِمْ  وَأَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ أَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِي الْأٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْم’‘ ہلا ۳۳ إِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ ج فَاعْلَمُوْٓا أَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہع ۳۴} (سورۃ المائدہ: ۳۳، ۳۴)
والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلاً أو لا عباً کفر عند الکل۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۰)
وقال مع ذلک: إن الأنبیاء -علیہم السلام- عصواً فکافر، … ولو قال: ’’محمد در ویشک بود‘‘ أو قال: ’’جامد پیغمبر ربماک بود‘‘ أو قال: قد کان طویل الظفر، فقد قیل: یکفر مطلقاً، وقد قیل یکفر إذا قال علی وجہ الإہانۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص220

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ نے چونکہ اپنی مرضی سے مذہب اسلام قبول کیا ہے، اس لئے آپ مسلمان ہوگئے ہیں، مسلمانوں کو چاہئے کہ آپ کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ کریں اور خود آپ بھی اسلام کے مطابق عمل کرتے رہیں، ”إن شاء اللّٰہ“ نجات ومغفرت ہوگی۔

ولو قال الیہودي أو النصراني: لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، تبرأت عن الیہودیۃ ولم یقل مع ذلک دخلت في الإسلام لا یحکم بإسلامہ حتی لو مات لا یصلي علیہ، فإن قال مع ذلک: دخلت في الإسلام فحینئذٍ یحکم بإسلامہ ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ”کتاب السیر: الباب الثاني، في کیفیۃ القتال“: ج ۲، ص: ۲۱۲)

لو قال الحربي: أنا مسلم صار مسلماً وعصم دمہ ومالہ۔ (الفتاویٰ السراجیہ، ”کتاب السیر، باب الإسلام“: ج ۲، ص: ۲۹۲)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فجر کے علاوہ میں نماز کی اطلاع دینے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے؛ تاہم متأخرین نے اس کی اجازت دی ہے اور اس کو اچھا سمجھا ہے، لوگوں کی سستی کو دیکھتے ہوئے؛ لہٰذا ضرورت کے وقت اتفاقاً ہو، تو کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) (ویثوّب الخ) ہو لغۃ مطلق العود إلی الإعلام بعد الإعلام وشرعاً ہو العود إلی الإعلام المخصوص، قولہ: (بعد الأذان) علی الأصح لا بعد الإقامۃ کما ہو اختیار علماء الکوفۃ، قولہ: (في جمیع الأوقات) استحسنہ المتأخرون وقد روي أحمد في السنن والبزار وغیرہما بإسناد حسن موقوفاً علي ابن مسعود ما رآہ المسلمون حسناً فہو عند اللّٰہ حسن۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۸)

واستحسن المتأخرون التثویب: التثویب ہو الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفہ أہل کل بلدۃ من الأذانین مثل الصلوٰۃ الصلوٰۃ قوموا إلی الصلوٰۃ وغیرہما وقال: إنہ مکروہ في غیر الفجر، فیہ حدیثان ضعیفان أحدہما للترمذي وابن ماجہ۔ (مجمع الأنہر في ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۶۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص539