اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود شریف، گیارھویں، بارھویں اولیا کرام کے مزارات پر سجدہ کرنا نماز جنازہ کے بعد فاتحہ دعاء، تیجہ، چالیسواں، دعاء بعد جنازہ مخصوص اوقات میں، مخصوص طریقہ پر زیارت قبور فرقہ رضاخانیت کے مروجہ امور ہیں، شریعت اسلامیہ میںان کا کوئی ثبوت نہیں؛ لہٰذا ان مروجہ طریقوں پر، ان امور کو انجام دینا، بدعت وخلاف شریعت ہے۔ تفصیل کے لئے ’’اصلاح الرسوم‘‘ حضرت تھانوی، ’’فاتحہ کا صحیح طریقہ‘‘، ’’رضاخانیت کا تنقیدی جائزہ‘‘، ’’اعلی حضرت کا دین‘‘، ’’مسئلہ ایصالِ ثواب‘‘ وغیرہ اکابر دیوبند کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ) متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
من تعبد للّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ في غیر أزمانہا، فقد تعبد ببدعۃ حقیقۃ لا إضافیۃ فلاجہۃ لہا إلی المشروع، بل غلبت علیہا جہۃ الإبتداع، فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدع الإضافیۃ ہل یعتد بہا عبادات‘‘: ج ۲، ص: ۲۶)
وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
ویکرہ عند القبر ما لم یعہد من السنۃ والمعہود منہا لیس إلا زیارۃ والدعاء عندہ قائماً، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:     الباب الحادي والعشرون، في الجنائز، الفصل السادس: في القبر والدفن والنقل من مکان إلیٰ آخر‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷)
ولا یمسح القبر ولا یقبلہ ولا یمسہ فإن ذلک من عادۃ النصاریٰ، کذا في شرح الشرعۃ۔ (أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)
لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرساً۔ (المظہري، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص538

اسلامی عقائد

Ref. No. 1215/42-522

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کمیشن پر چندہ کرنے کو مفتیان کرام نے ممنوع لکھا ہے ، ہاں خرچ و انعام درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی میں مذکورہ جملہ بولنا رسول خدا کی توہین کرنا ہے اوراہانت رسول کفر ہے بس ایسا جملہ بولنے والا شرعاً کافر ہوجاتا ہے۔ اس کو چاہئے کہ ایمان قبول کرے اور ہمیشہ ہمیشہ توبہ و استغفار کرتا رہے اورمولانا اسماعیل شہید ؒ کی کتاب میں یا کسی تحریر میں ایسا جملہ نہیں ہے جو شخص ان کی طرف ایسی باتوں کو منسوب کرتا ہے وہ بہتان طراز اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔(۱)

۱) {إِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ یُّقَتَّلُوْٓا أَوْ یُصَلَّبُوْٓا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیْہِمْ  وَأَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ أَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِي الْأٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْم’‘ ہلا ۳۳ إِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ ج فَاعْلَمُوْٓا أَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہع ۳۴} (سورۃ المائدہ: ۳۳، ۳۴)
والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلاً أو لا عباً کفر عند الکل۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۰)
وقال مع ذلک: إن الأنبیاء -علیہم السلام- عصواً فکافر، … ولو قال: ’’محمد در ویشک بود‘‘ أو قال: ’’جامد پیغمبر ربماک بود‘‘ أو قال: قد کان طویل الظفر، فقد قیل: یکفر مطلقاً، وقد قیل یکفر إذا قال علی وجہ الإہانۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص220

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ نے چونکہ اپنی مرضی سے مذہب اسلام قبول کیا ہے، اس لئے آپ مسلمان ہوگئے ہیں، مسلمانوں کو چاہئے کہ آپ کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ کریں اور خود آپ بھی اسلام کے مطابق عمل کرتے رہیں، ”إن شاء اللّٰہ“ نجات ومغفرت ہوگی۔

ولو قال الیہودي أو النصراني: لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، تبرأت عن الیہودیۃ ولم یقل مع ذلک دخلت في الإسلام لا یحکم بإسلامہ حتی لو مات لا یصلي علیہ، فإن قال مع ذلک: دخلت في الإسلام فحینئذٍ یحکم بإسلامہ ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ”کتاب السیر: الباب الثاني، في کیفیۃ القتال“: ج ۲، ص: ۲۱۲)

لو قال الحربي: أنا مسلم صار مسلماً وعصم دمہ ومالہ۔ (الفتاویٰ السراجیہ، ”کتاب السیر، باب الإسلام“: ج ۲، ص: ۲۹۲)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فجر کے علاوہ میں نماز کی اطلاع دینے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے؛ تاہم متأخرین نے اس کی اجازت دی ہے اور اس کو اچھا سمجھا ہے، لوگوں کی سستی کو دیکھتے ہوئے؛ لہٰذا ضرورت کے وقت اتفاقاً ہو، تو کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) (ویثوّب الخ) ہو لغۃ مطلق العود إلی الإعلام بعد الإعلام وشرعاً ہو العود إلی الإعلام المخصوص، قولہ: (بعد الأذان) علی الأصح لا بعد الإقامۃ کما ہو اختیار علماء الکوفۃ، قولہ: (في جمیع الأوقات) استحسنہ المتأخرون وقد روي أحمد في السنن والبزار وغیرہما بإسناد حسن موقوفاً علي ابن مسعود ما رآہ المسلمون حسناً فہو عند اللّٰہ حسن۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۸)

واستحسن المتأخرون التثویب: التثویب ہو الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفہ أہل کل بلدۃ من الأذانین مثل الصلوٰۃ الصلوٰۃ قوموا إلی الصلوٰۃ وغیرہما وقال: إنہ مکروہ في غیر الفجر، فیہ حدیثان ضعیفان أحدہما للترمذي وابن ماجہ۔ (مجمع الأنہر في ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۶۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص539

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:”ہیں“ جمع کے لئے بھی بولا جاتا ہے، اور احترام کے لئے بھی، جب کوئی مثلاً یوں کہے کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں“ تو یہ جملہ احترام میں بولا جاتا ہے؛ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ متعدد ہیں، اس لئے اس کا استعمال درست ہے۔

(إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ہ۹) (سورۃ الحجر، آیۃ: ۹) (إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِہجصلے ۱  ) (سورۃ القدر، آیۃ:۱) وأما قولہ: (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ) فہٰذہ الصیغۃ وإن کانت للجمع إلا أن ہذا من کلام الملوک عند إظہار التعظیم فإن الواحد منہم إذا فعل فعلا أو قال قولا قال: إنا فعلنا کذا وقلنا کذا فکذا ہہنا۔ (الرازي، التفسیر الکبیر، ”سورۃ الحجر: الآیات:۶-۹“: ج ۷، ص: ۳۲۱)

اسلامی عقائد

Ref. No. 1840/43-1671

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا معاملہ  ایک شخص سے ہے اور اس شخص کا معاملہ دوسرے کے ساتھ الگ ہے، آپ نے اس کو 20000 میں دیاہے، اور اس کے ذمہ رقم ادھار ہے، اب وہ اپنی مرضی سے دوسرے سے کم وبیش جتنے میں چاہے بیچے، یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔ اس لئے مذکورہ معاملہ درست  ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عام طور پر شادی کے موقعہ پر فلمی اور بے ہودہ گیت گائے جاتے ہیں، جو کہ ناجائز ہیں اور اگر خوشی کے اشعار ہوں، نامحرموں کا مجمع نہ ہو، آواز نا محرموں تک نہ جائے، تو جائز ہے۔(۲)

۲) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شیء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔…  (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
’’لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: کل لہو المسلم حرام‘‘۔ والإطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعہ کالرقص والسخریۃ والتصفیق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنہا کلہا مکروہۃ لأنہا زي الکفار۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۶۰)
السماع والقول والرقص الذي یفعلہ المتصوفۃ في زماننا حرام لا یجوز القصد إلیہ والجلوس علیہ وہو والغناء والمزامیر سواء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السابع عشر في الغناء واللہو‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۶)
وأما الغناء بذکر الفواحش والمنکرات من القول، فہو المحظور من الغناء۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ج ۳، ص: ۱۰۶۵، رقم: ۱۴۳۲)
وأما الغناء المعتاد عن المشتہرین بہ الذي یحرک الساکن ویہیج الکامن الذي فیہ وصف محاسن الصبیان والنساء ووصف الخمر ونحوہا من الأمور المحرمۃ فلا یختلف في تحریمہ۔ (العیني، عمدۃالقاري: ج ۶، ص: ۲۷۱
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص430

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خوشی کے موقع پر خوشی کی درازی کی دعا کرنا اور غم کے موقعہ پر تسلی کے الفاظ کہہ دینا درست ہے؛ اس لئے جمعہ مبارک کہنا یا کوئی اور جملہ بطور دعا کہہ دینا درست ہے، مگر اس کو ضروری سمجھنا غلط ہے؛ البتہ عید کی نماز کے بعد مصافحہ ومعانقہ کرنے کا عمل چونکہ اسلاف سے ثابت نہیں ہے؛ اس لئے اس سے احتراز لازم ہے۔(۱)

۱) عن جبیر بن نفیر قال: کان أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا انفقوا یوم العید یقول لبعض تقبل اللّٰہ منا ومنکم، (الحاوي للفتاوی: ج ۱، ص: ۱۱۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص540

اسلامی عقائد

Ref. No. 1110/42-337

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یزید کے متعلق احوط یہی ہے کہ سکوت اختیار کیا جائے۔ تفصیلی معلومات کے لئے حکیم الاسلام قاری محمد طیب علیہ الرحمۃ کی کتاب 'شہید کربلا اور یزید' کا مطالعہ کریں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند