اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:”ہیں“ جمع کے لئے بھی بولا جاتا ہے، اور احترام کے لئے بھی، جب کوئی مثلاً یوں کہے کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں“ تو یہ جملہ احترام میں بولا جاتا ہے؛ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ متعدد ہیں، اس لئے اس کا استعمال درست ہے۔

(إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ہ۹) (سورۃ الحجر، آیۃ: ۹) (إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِہجصلے ۱  ) (سورۃ القدر، آیۃ:۱) وأما قولہ: (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ) فہٰذہ الصیغۃ وإن کانت للجمع إلا أن ہذا من کلام الملوک عند إظہار التعظیم فإن الواحد منہم إذا فعل فعلا أو قال قولا قال: إنا فعلنا کذا وقلنا کذا فکذا ہہنا۔ (الرازي، التفسیر الکبیر، ”سورۃ الحجر: الآیات:۶-۹“: ج ۷، ص: ۳۲۱)

اسلامی عقائد

Ref. No. 1840/43-1671

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا معاملہ  ایک شخص سے ہے اور اس شخص کا معاملہ دوسرے کے ساتھ الگ ہے، آپ نے اس کو 20000 میں دیاہے، اور اس کے ذمہ رقم ادھار ہے، اب وہ اپنی مرضی سے دوسرے سے کم وبیش جتنے میں چاہے بیچے، یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔ اس لئے مذکورہ معاملہ درست  ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عام طور پر شادی کے موقعہ پر فلمی اور بے ہودہ گیت گائے جاتے ہیں، جو کہ ناجائز ہیں اور اگر خوشی کے اشعار ہوں، نامحرموں کا مجمع نہ ہو، آواز نا محرموں تک نہ جائے، تو جائز ہے۔(۲)

۲) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شیء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔…  (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
’’لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: کل لہو المسلم حرام‘‘۔ والإطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعہ کالرقص والسخریۃ والتصفیق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنہا کلہا مکروہۃ لأنہا زي الکفار۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۶۰)
السماع والقول والرقص الذي یفعلہ المتصوفۃ في زماننا حرام لا یجوز القصد إلیہ والجلوس علیہ وہو والغناء والمزامیر سواء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السابع عشر في الغناء واللہو‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۶)
وأما الغناء بذکر الفواحش والمنکرات من القول، فہو المحظور من الغناء۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ج ۳، ص: ۱۰۶۵، رقم: ۱۴۳۲)
وأما الغناء المعتاد عن المشتہرین بہ الذي یحرک الساکن ویہیج الکامن الذي فیہ وصف محاسن الصبیان والنساء ووصف الخمر ونحوہا من الأمور المحرمۃ فلا یختلف في تحریمہ۔ (العیني، عمدۃالقاري: ج ۶، ص: ۲۷۱
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص430

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خوشی کے موقع پر خوشی کی درازی کی دعا کرنا اور غم کے موقعہ پر تسلی کے الفاظ کہہ دینا درست ہے؛ اس لئے جمعہ مبارک کہنا یا کوئی اور جملہ بطور دعا کہہ دینا درست ہے، مگر اس کو ضروری سمجھنا غلط ہے؛ البتہ عید کی نماز کے بعد مصافحہ ومعانقہ کرنے کا عمل چونکہ اسلاف سے ثابت نہیں ہے؛ اس لئے اس سے احتراز لازم ہے۔(۱)

۱) عن جبیر بن نفیر قال: کان أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا انفقوا یوم العید یقول لبعض تقبل اللّٰہ منا ومنکم، (الحاوي للفتاوی: ج ۱، ص: ۱۱۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص540

اسلامی عقائد

Ref. No. 1110/42-337

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یزید کے متعلق احوط یہی ہے کہ سکوت اختیار کیا جائے۔ تفصیلی معلومات کے لئے حکیم الاسلام قاری محمد طیب علیہ الرحمۃ کی کتاب 'شہید کربلا اور یزید' کا مطالعہ کریں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:احادیث کی صراحت سے معلوم ہوتا ہے کہ دل سے تصدیق کرنے اور زبان سے اقرار کرنے کا نام ایمان ہے، دل سے تصدیق سے مراد یہ ہے کہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ ایک اور واجب الوجود ہے۔ فرشتے، اللہ کی کتابیں، اس کے رسول، یوم آخرت اور تقدیر سب برحق ہیں، اور زبان سے اقرار سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کا رسول ہونے کی زبان سے شہادت دے۔ اگر کوئی آدمی ان امور میں سے کسی کا انکار کردے تو وہ مؤمن نہیں ہے، اور اگر دین اسلام کی کسی چھوٹی یا بڑی چیز کا مذاق بنائے تو اس سے مذکورہ امور کے اعتقاد کا انکار لازم آتا ہے؛ اس لئے ایسا شخص دائرہئ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے۔

 وہو التصدیق الذي معہ أمن وطمانینۃ لغۃ، وفي الشرع تصدیق القلب بما جاء من عند الرب فکأن المؤمن یجعل بہ نفسہ آمنۃ من العذاب في الدارین، أو من التکذیب والمخالفۃ وہو إفعال من الأمن یقال أمنت وآمنت غیري، ثم یقال: أمنہ إذا صدقہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ”کتاب الإیمان“: ج ۱، ص: ۵۰۱)

وقد اختلف ہؤلاء علی أقوال: الأول إن الإیمان إقرار باللسان ومعرفۃ بالقلب وہو قول أبي حنیفۃ وعامۃ الفقہاء وبعض المتکلمین، الثاني: إن الإیمان ہو التصدیق بالقلب واللسان معا وہو قول بشر المریسي وأبي الحسن الأشعري، الثالث: إن الإیمان إقرار باللسان وإخلاص بالقلب۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ”کتاب الإیمان: باب الإیمان وقول النبي: بني الإسلام علی خمس“: ج ۱، ص: ۴۶۱)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ میلاد بدعت ہے، کہ اس میں بے بنیاد روایات پڑھی جاتی ہیں ایسی میلادوں سے پرہیز ضروری ہے۔(۱)

(۱) وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، مسند جابر بن عبد اللّٰہ -رضي اللّٰہ عنہ-: ج ۲۲، ص: ۲۳۷، رقم: ۱۴۳۳۴)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)… من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص431

اسلامی عقائد

Ref. No. 2681/45-0000

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  واللہ الموفق: صحابہ کرام کے وہ اقوال جن کی صراحت قرآن وحدیث میں نہ ہو وہ دو طرح کے ہیں ایک تووہ جو عقل سے ماوری ہیں جنہیں غیر قیاسی کہا جا تاہے دوسری قسم وہ جن کا تعلق عقل و فہم سے ہو جن کو قیاسی کہا جاتاہے غیر قیاسی مسائل میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے وہ بہر صورت قابل حجت ہے اس لیے کہ وہ فقہاء کی تصریحات کے مطابق مرفوع کے حکم میں ہے جیسے تعداد رکعات اور قیامت کی علامت وغیرہ جب کہ قیاسی مسائل میں اگر کسی صحابی کا قول مل جائے تو بھی دو شرطوں کے ساتھ قابل حجت ہے پہلی شرط یہ کہ وہ قول احکام شرع کے خلاف نہ ہوں دوسری شرط یہ ہے کہ کسی دوسرے صحابی کا قول اس کے خلاف نہ ہو یا خود راوی کا عمل ا س کے خلاف نہ ہو ۔امام ابوحنیفہ سے اس سلسلے میں منقول ہے کہ صحابہ کے اقوال میں اگر اختلاف ہو تو ہم صحابہ کے اقوال  میں سےکسی قول کو  اختیار کرتے ہیں اور صحابہ کے اقوال سے ہم باہر نہیں نکلتے ہیں ہاں اگر تابعین کے اقوال ہو تو ہم اس میں مز احمت کرتے ہیں خود امام ا حمد کا بھی یہی مسلک ہے کہ وہ صحابہ کے اقوال  میں سے ہی کسی کے قول کو لیتے ہیں ۔

ظهر من الصَّحَابَة الْفَتْوَى بِالرَّأْيِ ظهورا لَا يُمكن إِنْكَاره والرأي قد يخطىء فَكَانَ فَتْوَى الْوَاحِد مِنْهُم مُحْتملا مترددا بَين الصَّوَاب وَالْخَطَأ وَلَا يجوز ترك الرَّأْي بِمثلِهِ كَمَا لَا يتْرك بقول التَّابِعِيّ وكما لَا يتْرك أحد الْمُجْتَهدين فِي عصر رَأْيه بقول مُجْتَهد آخروَالدَّلِيل على أَن الْخَطَأ مُحْتَمل فِي فتواهم مَا رُوِيَ أَن عمر سُئِلَ عَن مَسْأَلَة فَأجَاب فَقَالَ رجل هَذَا هُوَ الصَّوَاب

فَقَالَ وَالله مَا يدْرِي عمر أَن هَذَا هُوَ الصَّوَاب أَو الْخَطَأ وَلَكِنِّي لم آل عَن الْحق وَقَالَ ابْن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ فِيمَا أجَاب بِهِ فِي المفوضة وَإِن كَانَ خطأ فمني وَمن الشَّيْطَان(اصول السرخسی،2/107)قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله :" إذا كان الصحابي من الفقهاء المعروفين بالفقه فإن قوله حجة بشرطين :الشرط الأول : ألا يخالف قول الله ورسوله ؛ فإن خالف قول الله ورسوله وجب طرحه والأخذ بما قال الله ورسوله .الشرط الثاني : ألا يخالف قول صحابي آخر ؛ فإن خالف قول صحابي آخر وجب النظر في الراجح ؛ لأنه ليس قول أحدهما أولى بالقبول من الآخر " انتهى من "لقاء الباب المفتوح" (59 /24) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1111/42-338

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی فرض نماز ذمہ میں رہ گئی ہے تو  اس کی قضا عصر کی نماز کے بعدمکروہ وقت  ( اصفرارشمس) سے پہلے پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر سورج پیلا پڑنا شروع ہوگیا تو اب قضا پڑھنا درست نہیں ہے۔ اب مغرب کے بعدقضا کریں۔   

والمراد بما بعد العصر قبل تغير الشمس، وأما بعده فلا يجوز فيه القضاء أيضا وإن كان قبل أن يصلي العصر (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق الاوقات التی یکرہ فیھا الصلوۃ 1/87)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان جو کفر کے مقابل ہے اس میں کمی زیادتی نہیں ہوتی؛ کیونکہ کمی کی صورت میں وہ شرعاً ایمان ہی نہیں کہلائے گا۔ اہل علم نے ایمان میں کمی و زیادتی کی جو بحث کی ہے اس کا تعلق اس معنی (ایمان بمقابل کفر) سے نہیں ہے؛ بلکہ ایمان کے تقاضہ کے مطابق

 احکام شرعیہ پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے دل میں جو نور پیدا ہو اور احکام شرعیہ کی اطاعت کرنے سے اعمال صالحہ میں روز بروز جو اضافہ ہوتا ہے اور مخالفت کرنے کی صورت میں جو گناہ کا صدور ہوتا ہے اس کو ایمان میں کمی زیادتی کہا گیا ہے۔ اور یہ صورت حال حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان میں بھی پائی جاتی ہے۔ اہل علم نے اس کے علاوہ بھی دوسرے معانی بیان کئے ہیں۔

 وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا لما أن تصدیق القلب أمر باطني لا بد لہ من علامۃ، فمن صدق بقلبہ ولم یقر بلسانہ فہو مؤمن عند اللّٰہ تعالیٰ وإن لم یکن مؤمنا في أحکام الدنیا۔ (أبو حنیفہ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”بحث في أن الإیمان ہو التصدیق والإقرار“: ص: ۳۴۱)

(أَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ إِیْمَانًاصلے ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ہ۳۷۱) (سورۃ آل عمران، آیۃ: ۳۷۱)

قالوا: ولا تظہر المغایرۃ بین قول أصحاب الحدیث وبین سائر أہل السنۃ، لأن امتثال الأوامر واجتناب الزواجر من کمال الإیمان إتفاقاً لا من ماہیتہ فالنزاع لفظي لا علی حقیقۃ، وکذلک اختلافہم في نقصان الإیمان وزیادتہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ”کتاب الإیمان: الفصل الأول“: ج ۱، ص: ۶۰۱)