اسلامی عقائد

Ref. No. 1111/42-338

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی فرض نماز ذمہ میں رہ گئی ہے تو  اس کی قضا عصر کی نماز کے بعدمکروہ وقت  ( اصفرارشمس) سے پہلے پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر سورج پیلا پڑنا شروع ہوگیا تو اب قضا پڑھنا درست نہیں ہے۔ اب مغرب کے بعدقضا کریں۔   

والمراد بما بعد العصر قبل تغير الشمس، وأما بعده فلا يجوز فيه القضاء أيضا وإن كان قبل أن يصلي العصر (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق الاوقات التی یکرہ فیھا الصلوۃ 1/87)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان جو کفر کے مقابل ہے اس میں کمی زیادتی نہیں ہوتی؛ کیونکہ کمی کی صورت میں وہ شرعاً ایمان ہی نہیں کہلائے گا۔ اہل علم نے ایمان میں کمی و زیادتی کی جو بحث کی ہے اس کا تعلق اس معنی (ایمان بمقابل کفر) سے نہیں ہے؛ بلکہ ایمان کے تقاضہ کے مطابق

 احکام شرعیہ پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے دل میں جو نور پیدا ہو اور احکام شرعیہ کی اطاعت کرنے سے اعمال صالحہ میں روز بروز جو اضافہ ہوتا ہے اور مخالفت کرنے کی صورت میں جو گناہ کا صدور ہوتا ہے اس کو ایمان میں کمی زیادتی کہا گیا ہے۔ اور یہ صورت حال حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان میں بھی پائی جاتی ہے۔ اہل علم نے اس کے علاوہ بھی دوسرے معانی بیان کئے ہیں۔

 وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا لما أن تصدیق القلب أمر باطني لا بد لہ من علامۃ، فمن صدق بقلبہ ولم یقر بلسانہ فہو مؤمن عند اللّٰہ تعالیٰ وإن لم یکن مؤمنا في أحکام الدنیا۔ (أبو حنیفہ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”بحث في أن الإیمان ہو التصدیق والإقرار“: ص: ۳۴۱)

(أَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ إِیْمَانًاصلے ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ہ۳۷۱) (سورۃ آل عمران، آیۃ: ۳۷۱)

قالوا: ولا تظہر المغایرۃ بین قول أصحاب الحدیث وبین سائر أہل السنۃ، لأن امتثال الأوامر واجتناب الزواجر من کمال الإیمان إتفاقاً لا من ماہیتہ فالنزاع لفظي لا علی حقیقۃ، وکذلک اختلافہم في نقصان الإیمان وزیادتہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ”کتاب الإیمان: الفصل الأول“: ج ۱، ص: ۶۰۱)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہرجگہ حاضر وناظر ہونا خدا تعالیٰ کی صفت ہے جس میں کوئی مخلوق (خواہ عام انسان ہوں یا انبیاء علیہ السلام ہوں) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر جاننا گویا اس صفت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا ہے جو جرأت اور جسارت بیجا ہوگی اور بسا اوقات اس سے شرک تک پہونچ سکتا ہے، پس ایسے مسلمانوں کے غلط عقائد سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے خصوصی اوصاف میں کسی کو شریک کرنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔(۱) باقی رہا سلام پڑھنا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر ناظر جان کر سلام پڑھا جائے، تو مطلقاً جائز نہیں؛ البتہ اس عقیدے کے بغیر اگر پڑھا جائے تو انفرادی اور اجتماعی طور پر درورد شریف پڑھنا جائز ہے اور ثواب کا باعث ہے؛ البتہ اجتماعی ہیئت پر درود شریف پڑھنے کو لازم اور ضروری سمجھنا درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ شَھِیْدًا ہع۳۳} (سورۃ النساء: ۳۳)

{إِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْئٍم بَصِیْرٌہ۱۹} (سورۃ الملک: ۱۹)
{وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (سورۃ الأنعام: ۵۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص220

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے موقعہ پر گھر میں صفائی کرنا جائز ہے(۱)؛ البتہ فوٹو وغیرمہذب تصاویر باعث گناہ ہے۔(۲)

(۱) النظافۃ من الإیمان۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الاستئذان والأدب، باب ما جاء فی النظافۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۷، رقم: ۲۷۹۹)
(۲) وظاہر الکلام النووي في شرح مسلم الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان، وقال: وسواء صنعہ لما یمتہن أو لغیرہ فصنعتہ حرام بکل حال۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع لا بأس بتکلیم المصلی وإجابتہ برأسہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص432

اسلامی عقائد

Ref. No. 1219/42-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قبرستان میں موجود درختوں  کو اگر کسی خاص مصرف کے لئے وقف نہ کیا گیا ہو تو ان  کو بیچ کر ان کی  رقم مسجد میں لگائی جاسکتی ہے۔  البتہ درختوں کو کاٹتے ہوئے قبروں کی حرمت کا پورا خیال رکھاجائے۔

سئل نجم الدین فی مقبرۃٍ فیھا اشجار ھل یجوز صرفھا الی عمارۃ المسجد قال نعم ان لم تکن وقفاً علی وجہ آخر۔ (الھندیۃ 4/476)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وہ دوبارہ اسلام لا سکتا ہے، ارتداد سے توبہ کرے اور کلمہ طیبہ  پڑھ کر مسلمان ہوجائے۔

وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام وإن تبرأ عما انتقل إلیہ کفی کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ”کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا الطوع“: ج ۲، ص: ۷۶۲)

وإسلامہ أن یتبرأ عن الأدیان سوی الإسلام أو عما انتقل إلیہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ”کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا“: ج ۶، ص: ۱۶۳)

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص فاسق تو یقینا ہے اور گناہ گار ہے جب تک وہ صراحتاً علم غیب کا دعویٰ نہ کرے اس وقت اس کی تکفیر نہیں کرنی چاہئے۔(۱) (۱) {وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (سورۃ الأنعام: ۵۹) {قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُط} (سورۃ النمل: ۶۵) وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ مؤمن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح والرجوع عن ذلک، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص222

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خیر القرون میں نکاح کے وقت کلمہ پڑھوانا ثابت نہیں ہے، کلمہ تو ہر وقت پڑھنے کی چیز ہے، نکاح خواں کو چاہیے کہ لڑکے سے قبول کروائے، ایسے طریقہ پر کہ قریب بیٹھنے والے سن لیں تاکہ بوقت ضرورت نکاح کے لیے ان کی شہادت معتبر ہو سکے۔(۱)

(۱) حدثنا محمد بن بشار …… عن رجل من بني سلیم قال خطبت إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إمامۃ بنت عبد المطلب فانکحوني من غیر أن یتشہد۔ (خلیل أحمد سہارنپور، بذل المجہود، کتاب النکاح، باب: في خطبۃ النکاح: ج ۳، ص: ۲۴۶)
فکم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہاً۔ (مجموعہ رسائل اللکھنوي سباحۃ الکفر في الجہر بالذکر: ج ۳، ص: ۳۴؛ امدادیہ: ج ۱، ص: ۴۹۸)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص432

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان کے لئے دو چیزوں پر یقین ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا یقین، یہاں پر صرف قرآن پر یقین ہے جو ناکافی ہے، ایسے شخص کو شرعاً مومن نہیں کہا جائے گا۔

 وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام، وإن تبرأ عما

انتقل إلیہ کفی، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ”کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین ومنہا الطوع“: ج ۲، ص: ۷۶۲)

من لم یقر بعض الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام أو لم یرض بسنۃ من سنن المرسلین فقد کفر۔ (أیضاً: موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام: ج ۲، ص: ۵۷۲)

وإسلامہ أن یتبرأ عن الأدیان سوی الإسلام أو عما انتقل إلیہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ”کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا“: ج ۶، ص: ۱۶۳)

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:یہ غیر مسلموں کی رسمیں ہیں، بدعت اور گناہ ہیں، ان سے پرہیز لازم ہے۔(۲) اور ایسے مواقع پر اکثر عورتیں غیر محرم کے سامنے آجاتی ہیں، جن کے دیکھنے کا گناہ علیحدہ ہے، ایسی رسموں سے ہر مسلمان پر پر ہیز ضروری ہے۔(۱)

(۲) في شرح الکرخي النظر إلی وجہ الأجنبیۃ الحرۃ لیس بحرام ولکنہ یکرہ کغیر حاجۃ وظاہرہ الکراہۃ ولو بلا شہوۃ قولہ: (وإلا فحرام) أي إن کان عن شہوۃ حرم قولہ (وأما في زماننا فمنع من الشابۃ) لا لإنہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في النظر والمس، مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۹، ص: ۵۳۲)…ولا یحل لہ أن یمس وجہہا ولا کفہا وإن کان یأمن الشہوۃ وہذا إذا کانت شابۃ تشتہي فإن کانت لا تشتہي لا بأس بمصافحتہا ومس یدہا کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني: فیما یحل للرجل النظر إلیہ‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۱)
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص433