اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان کے لئے دو چیزوں پر یقین ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا یقین، یہاں پر صرف قرآن پر یقین ہے جو ناکافی ہے، ایسے شخص کو شرعاً مومن نہیں کہا جائے گا۔

 وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام، وإن تبرأ عما

انتقل إلیہ کفی، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ”کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین ومنہا الطوع“: ج ۲، ص: ۷۶۲)

من لم یقر بعض الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام أو لم یرض بسنۃ من سنن المرسلین فقد کفر۔ (أیضاً: موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام: ج ۲، ص: ۵۷۲)

وإسلامہ أن یتبرأ عن الأدیان سوی الإسلام أو عما انتقل إلیہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ”کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا“: ج ۶، ص: ۱۶۳)

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:یہ غیر مسلموں کی رسمیں ہیں، بدعت اور گناہ ہیں، ان سے پرہیز لازم ہے۔(۲) اور ایسے مواقع پر اکثر عورتیں غیر محرم کے سامنے آجاتی ہیں، جن کے دیکھنے کا گناہ علیحدہ ہے، ایسی رسموں سے ہر مسلمان پر پر ہیز ضروری ہے۔(۱)

(۲) في شرح الکرخي النظر إلی وجہ الأجنبیۃ الحرۃ لیس بحرام ولکنہ یکرہ کغیر حاجۃ وظاہرہ الکراہۃ ولو بلا شہوۃ قولہ: (وإلا فحرام) أي إن کان عن شہوۃ حرم قولہ (وأما في زماننا فمنع من الشابۃ) لا لإنہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في النظر والمس، مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۹، ص: ۵۳۲)…ولا یحل لہ أن یمس وجہہا ولا کفہا وإن کان یأمن الشہوۃ وہذا إذا کانت شابۃ تشتہي فإن کانت لا تشتہي لا بأس بمصافحتہا ومس یدہا کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني: فیما یحل للرجل النظر إلیہ‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۱)
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص433

اسلامی عقائد

Ref. No. 1113/42-340

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں، لگاسکتے ہیں۔ اس سوال کی کیا وجہ ہے اس کو بھی لکھنا چاہئے۔ اگر پپیتا کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ ہو تو اس کی اصلاح ضروری ہے۔    

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔ {وَلَوْکُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ، وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْٓئُ} (الآیۃ) دوسر جگہ ارشاد باری {ھُوَ اللّٰہُ الَّذِيْ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَج عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِج ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُہ۲۲} (الآیۃ) جس کا واضح مقصد یہ ہے کہ عالم الغیب درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس کے سواء کوئی بھی عالم غیب ہوتا تو آپ اپنے لئے اچھائیاں جمع کرتے اور آپ کو کوئی تکلیف نہ پہونچتی۔ حالانکہ آپ کو زہر بھی دیا گیا اور آپ کو تیر مار کر لہولہان بھی کیا گیا۔ دندان مبارک بھی شہید ہوا جس کا آپ کو پہلے سے علم نہیں تھا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم دیا گیا وہ اللہ تعالیٰ نے دیا اور بتلایا آپ کو ذاتی طور پر اس کا علم نہیں ہوا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ہیں؛ کیونکہ یہ صفت خاص خداوند قدوس کی ہے اس لئے یہ عقیدہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہیں کھلی ہوئی بدعت اور گمراہی ہے مسلمانوں کو ایسے عقیدے سے باز رہنا چاہئے۔(۱

(۱) {وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (سورۃ الأنعام: ۵۹)
{قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُط} (سورۃ النمل: ۶۵)
{عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ أَحَدًا ہلا ۲۶ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ} (سورۃ الجن: ۲۷)
ولعل الحق أن یقال: إن علم الغیب المنفي عن غیرہ جل وعلا ہو ما کان للشخص لذاتہ أي لا واسطۃ في ثبوتہ لہ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، (تابع) ’’سورۃ النمل‘‘: ج ۱۰، ص: ۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص223

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرطِ صحت سوال صورت مسئولہ میں مزاروں پر یا درخت وغیرہ پر غیر اللہ کے نام پر مٹھائیاں، شیرنی یا مرغہ وغیرہ چڑھانا سخت گناہ ہے، غیراللہ کے نام پر مذکورہ فعل کا ارتکاب حرام اور ناجائز ہے اس طرح کے چڑھاوے سے غیراللہ سے مدد اور نصرت مانگنا ہوا جو بالاجماع باطل ہے اور اہل سنت والجماعت کے عقیدے اور طریقے کے خلاف بھی ہے؛ اس لئے ایسی غلط باتوں سے پرہیز کرنا اور بچنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔
’’واعلم ان النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام‘‘(۱)۔ ’’ومنہ أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر‘‘(۲) لا یجوزما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر الختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج۲، ص: ۴۳۹۔                        (۲) ’’أیضاً‘‘:
(۳) ثناء اللّٰہ پاني پتي رحمہ اللّٰہ، تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص340

اسلامی عقائد

Ref. No. 1114/42-352

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنا لائسنس چند روپیوں کے عوض دوسروں کو دینا شرعا جائز نہیں ہے اور اس میں ملکی قانون کی خلاف ورزی بھی ہے۔  اس لئے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1471/42-919

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درود شریف پڑھنے کی نذر ماننا  صحیح ہے اور  اس کا پورا کرنا واجب ہے نہ کرنے پر گنہ گار ہوگا۔  اگر کسی نے چند منتیں مانیں اور پھر کسی وجہ سے ان کو پورا نہ کرسکا تو اس پر قضا نہیں البتہ ہر نذر کے بدلہ   ایک قسم کا کفارہ دینا ہوگا؛ یعنی دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو بقدر ستر پوشی کپڑا دینا یا غلام آزاد کرانا۔ اگر ان مذکورہ تین کفاروں میں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو تین دن کے مسلسل روزہ رکھنے ہوں گے۔ متعدد نذروں کا ایک کفارہ ہے یا متعدد، اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔ تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ ہر نذر کا الگ الگ کفارہ ادا کرے۔

ولو نذر التسبيحات دبر الصلاة لم يلزمه، ولو نذر أن يصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - كل يوم كذا لزمه وقيل لا(شامی، کتاب الایمان 3/738) (شرح التنویر 3/105)

"فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة ، ونحو ذلك." (بدائع الصنائع 6/333)   وقد روي عن محمد - رحمه الله تعالى - قال: إن علق النذر بشرط يريد كونه كقوله إن شفى الله مريضي أو رد غائبي لا يخرج عنه بالكفارة كذا في المبسوط. ويلزمه عين ما سمى كذا في فتاوى قاضي خان (الھندیۃ، الفصل الثانی فی الکفارۃ 2/65)
(وإن علق النذر بشرط فوجد الشرط فعليه الوفاء بنفس النذر) لإطلاق الحديث، «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى» ) وهذا دليل لزوم الوفاء بالمنذور وهو حديث غريب إلا أنه مستغنى عنه، ففي لزوم المنذور الكتاب والسنة والإجماع، قال تعالى {وليوفوا نذورهم} [الحج: 29] (فتح القدیرللکمال، فصل فی الکفارۃ 5/92)

لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَۚ-فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍؕ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍؕ-ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْؕ-وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(سورۃ المائدۃ 89) لَا نذر فِي مَعْصِيّة الله وكفارته كَفَّارَة يَمِين وَمن نذر نذرا لَا يطيقه فَعَلَيهِ كَفَّارَة يَمِين (النتف فی الفتاوی للسعدی، النذور فی المعصیۃ 1/195)

قال علي نذر الله أو يمين الله أو عهد الله (قوله إذا علقه بشرط) أي بمحلوف عليه حتى يكون يمينا منعقدة مثل علي نذر الله لأفعلن كذا أو لا أفعل كذا، فإذا لم يف بما حلف لزمته كفارة اليمين (شامی، کتاب الایمان 3/717)

إذا حلف الرجل على أمر لا يفعله أبدا ثم حلف في ذلك المجلس ومجلس آخر لا أفعله أبدا ثم فعله كانت عليه كفارة يمينين وهذا إذا نوى يمينا أخرى، أو نوى التغليظ، أو لم يكن له نية وإذا نوى بالكلام الثاني اليمين عليه كفارة واحدة وروي عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - قال: هذا إذا كانت يمينه بحجة، أو عمرة، أو صوم، أو صدقة فأما إذا كانت يمينه بالله فلا يصح نيته وعليه كفارتان قال: أبو يوسف - رحمه الله تعالى - هذا أحسن ما سمعناه منه وإذا كان إحدى اليمينين بحجة والأخرى بالله فعليه كفارة وحجة كذا في المبسوط. (الفتاوی الھندیۃ الفصل الاول فی تحلیف الظلمۃ وفیما ینوی 2/57)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حاضر و ناظر کے الفاظ تو واقعی عربی زبان کے ہیں، مگر یہ ضروری نہیں کہ قرآن پاک نے عربی زبان کے تمام ہی الفاظ کو ذکر کیا ہو، بلکہ اس کے قریب قریب الفاظ ہیں جن کو قرآن پاک نے استعمال کیا ہے، قرآن پاک میں ہے {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌج وَھُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُہ۱۱} جن سے خدا کا حاضر و ناظر ہونا ثابت ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَھُوَ مَعَھُمْ إِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِط} (الآیۃ) دوسری آیت۔ {عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِج ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُہ۲۲} (الآیۃ) اس طرح کی آیت کا مفہوم اللہ تعالیٰ کے حاضرو ناظر ہونے کو بیان کرتا ہے۔(۱)

(۱) فاللّٰہ تعالیٰ أعلم بجمیع الموجودات لا یعزب عن علمہ مثقال ذرۃ في العلویات والسفلیات، وأنہ تعالیٰ یعلم الجہر والسر وما یکون أخفی من المغیبات إلخ۔ أیضاً۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في شرح الصفات الذاتیۃ وبیان مسمیاتہا‘‘:ص: ۳۴)
{وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (سورۃ الأنعام: ۵۹)
{یَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفٰی ہ۷} (سورۃ طٰہٰ: ۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص224

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال رسوم کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے؛ اس لئے یہ رسمیں بدعت ہوکر واجب الترک ہیں، ایسے گلگلوں کا کھانا ان کو تقسیم کرنا وغیرہ غیر شرعی رسم میں شرکت کرنا ہے اور {تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ} میں داخل ہو کر یہ بھی درست نہیں۔ ایسی رسوم میں شرکت نہ کی جائے اور ائمہ و مؤذنین وغیرہ نمازیوں کو چاہئے کہ ایسی رسوم کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔(۱)

(۱) وشر الأمور محدثاتہا وکل بدعۃ ضلالۃ، وفي روایۃ: وشر الأمور مجدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
وقولہم أولی بالاتباع حیث أصبح مثل تلک المسامحات والتعلات مثار اللبدع المنکرۃ والقبر السائرۃ، فتری العامۃ یلقون الزہور علی القبور۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید من البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۵)أخرجہ الشموع إلی رأس القبور في اللیالي الأول بدعۃ کذا في السراجیۃ: ج ۵، ص: ۳۳۱)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
بفعل النساء من نذرالزیت لسیدي عبد القادر یوقد في المنارۃ جہۃ المشرق فہو باطلٌ، واقبح منہ النذر بقراء ۃ المولد في المنابر ومع اشتمالہ علی الغناء واللعب وإیہاب ثواب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص341

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر مسلم بھی امت محمدیہ کے تحت آتے ہیں، اس حیثیت سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور تبلیغ کے مخاطب وہ بھی ہیں۔ ایسے لوگوں کو امت دعوت کہتے ہیں اور جو مسلم ہیں ان کو امت اجابت کہتے ہیں۔(۱)

(۱) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’باب فضل الوضوء والغر المحجلین‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص163