اسلامی عقائد

Ref. No. 1115/42-341

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کھیل میں وقت ضائع کرنا درست نہیں ہے، البتہ اس پر جو انعام ملا وہ حلال ہے۔  اس  پر جوئے کی تعریف صادق نہیں آتی ہے۔ تاہم  اگر کسی کھیل میں جوئے کی شکل ہو اور پیسے دینے کے بعد ہار جیت کی شکل ہو تو وہ حرام ہوگا۔  

یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون( المائدة، ۹۰)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1945/44-1875

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  پختہ زمین جیسے کہ ٹائل والے یا سیمنٹ والے فرش یا چھت پر نجاست اگر خشک ہوجائے  اور اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے تو وہ فرش پاک ہے۔ اور اس پر نماز پڑھنا درست ہے۔

البحر الرائق: (237/1، ط: دار الكتاب الاسلامي)

وإن كان اللبن مفروشا فجف قبل أن يقلع طهر بمنزلة الحيطان، وفي النهاية إن كانت الآجرة مفروشة في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعة تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لا تجوز صلاته.

الهندیة: (43/1، ط: دار الفکر)

" الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلها، فإن کانت رخوةً یصب الماء علیها ثلاثاً فتطهر، وإن کانت صلبةً قالوا: یصب الماء علیها وتدلك ثم تنشف بصوف أوخرقة، یفعل کذلك ثلاث مرات فتطهر، وإن صب علیها ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحها ولا لونها وترکت حتی جفت تطهر، کذا في فتاویٰ قاضی خان".

و فیھا أیضاً: (44/1، ط: دار الفکر)

’’( ومنها ) الجفاف وزوال الأثر الأرض تطهر باليبس وذهاب الأثر للصلاة لا للتيمم. هكذا في الكافي. ولا فرق بين الجفاف بالشمس والنار والريح والظل‘‘.

المحیط البرھانی: (200/1، ط: دار الکتب العلمیة)

البول إذا أصاب الأرض واحتیج إلی الغسل یصب الماء علیه ثم یدلك وینشف ذلك بصوف أو خرقة فإذا فعل ذلك ثلاثاً طهر، وإن لم یفعل ذلك ولكن صب علیه ماء کثیر حتی عرف أنه زالت النجاسة ولایوجد في ذلك لون ولا ریح، ثم ترک حتی نشفته الأرض کان طاهراً".

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد اسعد جلال

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2182/44-2288

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ Hala Maryam   لکھ سکتے ہیں۔  اللہ تعالی بچی کو سلامت رکھے، واالدین کی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک بنائے ۔ آمین

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نیاز کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ کسی بزرگ یا میت کے نام پر کھانا وغیرہ پکا کر کھلایا جائے اس سے اس کا تقرب مقصود ہو تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کھانا وغیرہ صرف اللہ کے نام پر پکایا جائے اور غرباء کو کھلایا جائے اور اس کا ثواب کسی میت یا مردہ کو بخش دیں یہ جائز ہے۔ پہلی صورت میں وہ کھانا حرام اور دوسری صورت میں جائز ہے۔ اگر کھانا نذر کا ہو تو صرف غرباء کے لئے جائز ہوگا۔ (۱) چھٹی کی دعوت کو لازم سمجھنا اور اس میں طرح طرح کی رسمیں بالکل درست نہیں، البتہ بچہ کی خوشی پر کسی بھی روز دعوت مسنون ہے؛ اس لئے عقیقہ کرنا جائز ہے۔ شادی کے پہلے دن حسب موقع وحسبِ ضرورت دعوت کرنا درست ہے جب کہ کوئی غیرشرعی امر نہ ہوتا ہو، البتہ شادی کے بعد کی دعوت ولیمہ مسنون ہے۔ سالگرہ پر کیک وغیرہ کاٹنا غیرقوموں کے طریقہ کو اختیار کرنا ہے جو جائز نہیں؛ البتہ اگر پیدائش کے دن یا کسی بھی دن اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کیا جائے اور احباب وغرباء کی دعوت بھی ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اس کو مروجہ سالگرہ کا رنگ نہ دیا جائے۔ (۱)

(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام ما لم یقصدوا صرفہا لفقراء الأنام۔ (ابن عابدین، الد المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)  

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص343

اسلامی عقائد

Ref. No. 1474/42-917

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صحابی ہونے کی تین شرائط ہیں ،حضور اکرم ﷺپر ایمان ،ایمان کی حالت میں آپؐ سے ملاقات اوراسلام ہی کی حالت میں وفات ۔ ملاقات میں دیکھنا ضروری نہیں ہے۔  جیسا کہ عبداللہ بن ام مکتوم ایک صحابی ہیں جو نابینا تھے۔

قال في شرح التحرير: والصحابي عند المحدثين وبعض الأصوليين من لقي النبي - صلى الله عليه وسلم - مسلما ومات على الإسلام، أو قبل النبوة ومات قبلها على الحنيفية كزيد بن عمرو بن نفيل، أو ارتد وعاد في حياته. (شامی، مقدمہ 1/13)

ثم الإسناد إما أن ينتهي إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- تصريحاً أو حكماً من قوله أو فعله أو تقريره، أو إلى الصحابي كذلك، وهو من لقي النبي -صلى الله عليه وسلم- مؤمناً به ومات على الإسلام ولو تخللت ردة في الأصح، أو إلى التابعي وهو من لقي الصحابي كذلك، فالأول المرفوع والثاني الموقوف والثالث المقطوع ومن دون التابعي فيه مثله .. " (شرح نخبۃ الفکر، وقد یکون مقلا فلایکثرالاخذ عنہ ج9ص1) ثم عرف الصحابي بأنه: من لقي النبي -صلى الله عليه وسلم- مؤمناً به ومات على الإسلام، ولو تخللت ردة، هذا ما رجحه ابن حجر -رحمه الله-، والمراد باللقاء ما هو أعم من المجالسة والمماشاة ووصول أحدهما إلى الآخر، وإن لم يكالمه، قال الحافظ: "والتعبير باللقي أولى من قول بعضهم: الصحابي من رأى النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ لأنه يخرج ابن أم مكتوم ونحوه من العميان، وهم صحابة بلا تردد"(شرح نخبۃ الفکر، المرفوع ج9ص26)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزار پر جو کچھ چڑھایا گیا خواہ وہ از قبیلِ رقوم ہو یا مٹھائی وغیرہ ہوں وہ سب غیر اللہ کے نام پر ہے، جو قرآن کریم کی آیت {وما أہل لغیر اللّٰہ بہ} میں داخل ہے(۲)؛ اس لئے وہ مال حرام ہے اور جب مال حرام ہوا تو اس کو اپنی یا مدرسہ کی ضروریات میں صرف کرنا نیز مدرسہ کے بچوں پر صرف کرنا بھی ناجائز وحرام ہی ہے۔ (۳)

(۲) {وَ مَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللّٰہِ} (سورۃ البقرۃ: ۱۷۳)       (۳) {وَلَا تَاْکُلُوْٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ البقرۃ: ۱۸۸)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام ما لم یقصدوا صرفہا لفقراء الأنام۔ (ابن عابدین، الد المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص:
۴۲۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص344

اسلامی عقائد

Ref. No. 1850/43-1660

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہرکے طلاق مغلظہ دینے کے بعد وہ عورت اس کے لئے حرام ہوگئی۔ اور حلالہ کا جو  مذکورہ طریقہ اختیار کیاگیا ہے وہ قطعا   درست نہیں ہے۔ عورت اب بھی اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہے۔ چھوٹے بھائی سے نکاح میں مہر کی مقدار بہت کم ہے۔ اس سلسلہ میں کسی  مقامی و ماہر مفتی صاحب سے ملاقات کرکے مسئلہ کو سمجھ لیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔  

وکرہ التزوج للثاني تحریما لحدیث لعن المحلل والمحلل لہ بشرط التحلیل کتزوجتک علی أن أحللک وان حلت للأول لصحة النکاح وبطلان الشرط۔۔۔۔۔۔۔ أما اذا أضمرا ذلک لا یکرہ، وکان الرجل ماجوراً لقصد الاصلاح۔۔۔۔ قال ابن عابدین: قولہ: (أما اذا أضمرا ذلک) محترز قولہ: بشرط التحلیل۔۔۔۔۔ وأورد السروجی أن الثابت عادة کا لثابت نصاً، أي: فیصیر شرط التحلیل کأنہ منصوص علیہ في العقد، فیکرہ، وأجاب في الفتح بأنہ لا یلزم من قصد الزوج ذلک أن یکون معروفاً بین الناس، انما ذلک فیمن نصب نفسہ لذلک وصار مشتہراً بہ۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۵/۴۷، ۴۸، کتاب الطلاق، باب الرجعة، ط: زکریا، احسن الفتاوی: ۵/۱۵۴، دار الاشاعت)

وكره) النكاح كراهة تحريم (بشرط التحليل) بأن يقول: تزوجتك على أن أحللك أو تقول هي، وعلى هذا حمل ما صححه الترمذي: (لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل والمحلل له) قيد باشتراط؛ لأنهما لو نوياه فقط لم يكره، بل يكون الرجل مأجورًا لقصده الإصلاح، وإن وصلية حلت (للأول)". النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 423)

"ومنها: الدخول من الزوج الثاني، فلاتحل لزوجها الأول بالنكاح الثاني حتى يدخل بها، وهذا قول عامة العلماء. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 188)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2184/44-2296

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  پوری جائداد بھائی بہن اس طرح تقسیم کریں کہ بھائیوں کو دو دو اور بہنوں کو ایک  یک حصہ ملے۔ لہذا کل جائداد کو سات حصوں میں تقسیم کریں گے ہر بھائی کو  دو حصے اور ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گیارہویں منانا کہیں سے ثابت نہیں، یہ محض ایک رسم ہے، نیز بہت سے اعتقادی، عملی واخلاقی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے واجب الترک ہے۔ (۱)

۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو باطلٌ وحرامٌ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص485

اسلامی عقائد

Ref. No. 1875

Ref. No. 1850/43-1660

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تین طلاق  کے بعد  بیوی حرام ہوگئی تو اب حکم یہ ہے کہ بعد عدت مطلقہ عورت آزاد ہوگئی وہ جہاں چاہے اپنا عقد ثانی کرسکتی ہے، تین طلاق دینے والے شوہر کو اب اس عورت پر کچھ اختیار نہیں،  عورت کو کوئی  نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا ہے کہ تین طلاق دینے والے سے دوبارہ نکاح کرے؛ عورت ہرطرح سے آزاد ہے کہ تین طلاق دینے والے شخص کے علاوہ کہیں بھی نکاح کرلے یا نہ کرے۔  البتہ طلاق مغلظہ کے بعد بغیر شرعی حلالہ کے سابق  شوہر سے نکاح جائز نہیں ہے۔  شرعی طور پر شوہر ثانی کا اپنی بیوی سے صحبت کرنا ضروری ہے۔ پھر عدت تین ماہواری گزرنے کے بعد شوہر اول سے اس عورت کا نکاح کیاجاسکتاہے۔

مذکورہ صورت میں جبکہ محمد افتخار سے نکاح کے بعد صحبت نہیں ہوئی ، صرف پانی کا گلاس پیش کرنا صحبت کے قائم مقام نہیں ہوسکتاہے۔ اس لئے   یہ عورت اپنے سابقہ شوہر سے ابھی نکاح نہیں کرسکتی ہے۔  عورت کسی دوسرے مرد سے یا پھر  محمد افتخار سے اگراس نے  ایک یا دو طلاقیں دیں  یا تین متفرق طلاقیں دیں  ، نکاح کرے، اور اس کے ساتھ زندگی گزارے۔ صرف حلالہ کی نیت سے نکاح کرنا گناہ کی بات ہے۔  شوہر ثانی اگر صحبت کرنے کے بعد طلاق دیدیتاہے یا اس کا انتقال ہوجاتاہے تو اب عورت شوہر اول سے نکاح کرسکتی ہے۔  الغرض شوہر اول سے نکاح کے حلال ہونے کے لئے  تین باتیں ضروری ہیں 1- دوسرے مرد سے نکاح کا صحیح ہونا، 2- شوہرثانی کا اس عورت سے صحبت کرنا، 3- عورت کی مکمل تین ماہواری کا گزرنا۔ اگر ان میں سے کہیں کمی رہ گئی تو عورت شوہر اول کے لئے حلال نہ ہوگی۔

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند