اسلامی عقائد

Ref. No. 1948/44-1860

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شوہر نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دی ہے تو عدت کے اندر رجوع کرسکتاہے، اور اگر عدت گزرگئی تو دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔ لیکن اگر شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں  تواب شرعی اعتبار سے عورت مکمل طور پر نکاح سے نکل گئی ، اور عورت و مرد میں میاں بیو ی کا رشتہ باقی نہیں رہا، دونوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوگئے، پردہ لازم ہوگیا۔ اب ان کا آپس میں ملنا یا ایک ساتھ رہنا  شرعا حرام ہے۔  اب وہ عورت  عدت گزارکر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 187)

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً".

فتاوی ہندیہ: "المطلقة الرجعية تتشوف وتتزين ويستحب لزوجها أن لايدخل عليها حتى يؤذنها أو يسمعها خفق نعليه إذا لم يكن من قصده المراجعة وليس له أن يسافر بها حتى يشهد على رجعتها كذا في الهداية". (10/193)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس میں رسوم کی پابندی(۲) مزید براں غیر محرموں سے بے پردگی ہوتی ہے پس ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔(۳)

(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)
(۳) وفي کتاب الخنثیٰ من الأصل إن نظر المرأۃ من الرجل الأجنبي بمنزلۃ نظر الرجل إلی محارمہ لأنہ النظر إلی خلاف الجنس أغلظ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في النظر والمس‘‘: ج ۹، ص: ۵۳۳)
النظر إلی وجہ الأجنبیۃ إذا لم یکن عن شہوۃ لیس بحرام لکنہ مکروہ، کذا في السراجیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني: فیما یحل للرجل النظر إلیہ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص434
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنے پر جب کہ پابندی کی جارہی ہے اوریہ طریقہ قرونِ ثلاثہ میں سے کسی قرن میں اپنایا نہیں گیا نہ اسلاف ہی سے ثابت ہے اور نہ اکابر امت سے  اس لیے اس کو بدعت ہی کہا جائے گا۔ بدعت کی تعریف یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جو عبادت کے طریقہ پر ثواب کی نیت سے کی جائے اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا زمانہ صحابہؓ وتابعین میں علت پائے جانے کے باوجود نہ کی گئی ہو، اب اگرچہ آپ اس کو رسم نہیں مان رہے، لیکن مابعد میں ایسا نہ کرنے والوں پر طعن و تشنیع کی جائے گی اور اس بدعت کے موجد آپ حضرات قرار دئیے جائیں گے اور حوادث بدعت بلاشبہ گناہ ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)…ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إیاکم ومُحدَثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’أول کتاب السنۃ، باب في لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص486

اسلامی عقائد

Ref. No. 1087 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔دیگر مسالک کے لوگوں کا بھی احترام لازم ہے۔ اچھے اخلاق سے پیش آنا ایمان کی علامت ہے، اسے بہرحال ملحوظ رکھنا چاہئے۔ دوسروں کا مذاق بنانے اور نازیبا حرکت کرنے سے کسی خیرکی توقع نہیں کیجاسکتی۔ ان کو اچھے  اور مشفقانہ لہجے میں سمجھانا چاہئے۔ ان سےاچھے تعلقات اگر رکھیں گے تو وہ آپ کی بات سنیں گے اور حق کو قبول کریں گے۔ ان کے دل میں صحابی کی عظمت پیداکرنے کے لئے صحابہ کے واقعات سنائے جائیں ، اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جبکہ وہ صحابہ کی شان اپنے اندر پیداکریں ۔ اس لئے اہل حق کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے، وجادلھم بالتی ھی احسن۔ ﴿القرآن﴾۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ عنہا میں شادیوں کے موقعہ پر عورتوں کا اس قسم کا اجتماع نیک اعمال نماز وغیرہ سے روکنے والا اور بے پردگی وفحش گوئی (جو حرام ہے) تک پہونچا دینے والا ہے؛ اس لیے عورتوں کا مجمع حرام اور ناجائز ہوگا، جن سے ہر مسلمان عورت کے لئے پرہیز لازم ہے۔ (۱)

(۱) في شرح الکرخي النظر إلی وجہ الأجنبیۃ الحرۃ لیس بحرام ولکنہ یکرہ کغیر حاجۃ وظاہرہ الکراہۃ ولو بلا شہوۃ قولہ: (وإلا فحرام) أي إن کان عن شہوۃ حرام قولہ (وأما في زماننا فمنع من الشابۃ) لا لأنہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في النظر والمس‘‘: ج ۹، ص: ۵۳۲)
ولا یحل لہ أن یمس وجہہا ولا کفہا وإن کان یأمن الشہوۃ وہذا إذا کانت شابۃ تشتہي فإن کانت لا تشتہي لا بأس بمصافحتہا ومس یدہا کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني: فیما یحل للرجل النظر إلیہ، وأما النظر إلی الأجنبیات‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص435

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جشن میلاد النبی کا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد سلف صالحین میں کوئی رواج نہیں رہا اور نہ ہی اسے قربت و طاعت قرار دیا گیا اب کچھ جگہوں پر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جشن منایا جانے لگا اس تکلیف دہ صورت حال پر کنڑول کے لئے علماء کرام نے وعظ و خطاب کو اختیار کیاجس کی برکت سے اس صورت حال پر کافی حد تک کنٹرول ہوا لہٰذا جشن میلاد غیر شرعی و بدعت ہے اور اس میں ڈھول باجا وغیرہ ناجائز ہے، نیز وعظ و خطاب کے لئے ثواب سمجھ کر اور جشن کی وجہ سے اسی رات کی تعیین بھی درست نہیں۔(۱)

(۱) واستماعہ کالرقص والسخریۃ والتصفیق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق فإنہا کلہا مکروہۃ لأنہا زي الکفار واستماع ضرب الدف والمزمار وغیر ذلک حرام۔ (ابن عبادین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۶۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث… في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص488

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر عضو کا چوتھائی حصہ کھل گیا تو نماز نہیں ہوگی، اگر اس سے کم ہے تو نماز ہوجائے گی۔ اسی طرح گیلے کپڑے میں ستر صاف نظر آئے، تو نماز نہیں ہوگی، بھر پور احتیاط ضروری ہے۔(۱)
(۱) الثوب الرقیق الذي یصف ما تحتہ لا تجوز الصلوٰۃ فیہ: کذا في التبیین۔ ولو کان علیہ قمیص لیس غیرہ وکان إذا سجد لا یری أحد عورتہ؛ لکن لو نظر إلیہ إنسان من تحتہ رأی عورتہ فہذا لیس بشيء، قلیل الإنکشاف عفو لأن فیہ بلویٰ ولا بلویٰ في الکبیر فلا یجعل عفواً، الربع وما فوقہ کثیر وما دون الربع قلیل: وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث: في شروط الصلوٰۃ، الفصل الأول: في الطہارۃ وستر العورۃ‘‘ج ۱، ص: ۱۱۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وتجمع بالأجزاء لو في عضو واحد وإلا فبالقدر فإن بلغ ربع أدناہا کأذن منع۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج ۲، ص: ۸۳، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فإن صلت وربع ساقہا مکشوف أو ثلثہا تعید الصلوٰۃ عند أبي حنیفۃؒ ومحمدؒ وإن کا أقل من الربع لا تعید۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ التي تتقدمہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۳، دار الکتاب، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص265

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 39/1056

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  غائب کی شہادت معتبر نہیں البتہ اگر آواز پہچانتا ہواور کسی قسم کا شبہ نہ ہو تو  ٹیلیفون پر دی گئی خبر معتبر ہوگی۔  خبروشہادت میں فرق بھی ملحوظ رکھاجائے کسی عالم سے بالمشافہ سمجھ لیں۔  واللہ اعلم بالصواب 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آتش بازی اور پٹاخے چھوڑنا اور نام ونمود کے لیے اپنی کمائی برباد کرنا، حرام کاموں میں لگانا، مال برباد اور گناہ لازم کا مصداق ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی کمائی جائز کاموں میں خرچ کریں، البتہ نکاح کے اعلان کے لئے شرعی حدود میں گنجائش ہے۔(۱)

(۱) {وَالَّذِیْنَ إِذَآ أَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاہ۶۷} (سورۃ الفرقان: ۶۷)
{إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط} (سورۃ الإسراء: ۲۷)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶
۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص436

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، صحابۂ کرامؓ، حضرات ائمہ اور اسلاف عظام سے بھی ثابت نہیں ہے۔ مگر بعض مرتبہ حالات اور وطنی غیر مسلم پڑوسیوں کی وجہ سے اپنی اجتماعیت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے لئے بھی کچھ کرنا ضروری ہوجاتا ہے اس لحاظ کے ساتھ کہ حدود شرعی سے تجاوز نہ ہو اور اس کو عقیدہ نہ بنا لیا جائے۔پس اس بات کا خیال رکھتے ہوئے وقتِ ضرورت امور مذکور کے کرنے کی گنجائش ہے اور اختلاف اس پر مناسب نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
المولود الذي شاع في ہذا العصر …… ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
ونظیر ذلک فعل کثیر عند ذکر مولدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ووضع أمہ لہ من القیام۔ وہو أیضاً: بدعۃ لم یرد فیہ شيء بہ علی أن الناس إنما یفعلون ذلک تعظیماً لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فالعوام معذورون لذلک بخلاف الخواص۔ (أحمد بن محمد، الفتاویٰ الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۵۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص488