Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نیاز کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ کسی بزرگ یا میت کے نام پر کھانا وغیرہ پکا کر کھلایا جائے اس سے اس کا تقرب مقصود ہو تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کھانا وغیرہ صرف اللہ کے نام پر پکایا جائے اور غرباء کو کھلایا جائے اور اس کا ثواب کسی میت یا مردہ کو بخش دیں یہ جائز ہے۔ پہلی صورت میں وہ کھانا حرام اور دوسری صورت میں جائز ہے۔ اگر کھانا نذر کا ہو تو صرف غرباء کے لئے جائز ہوگا۔ (۱) چھٹی کی دعوت کو لازم سمجھنا اور اس میں طرح طرح کی رسمیں بالکل درست نہیں، البتہ بچہ کی خوشی پر کسی بھی روز دعوت مسنون ہے؛ اس لئے عقیقہ کرنا جائز ہے۔ شادی کے پہلے دن حسب موقع وحسبِ ضرورت دعوت کرنا درست ہے جب کہ کوئی غیرشرعی امر نہ ہوتا ہو، البتہ شادی کے بعد کی دعوت ولیمہ مسنون ہے۔ سالگرہ پر کیک وغیرہ کاٹنا غیرقوموں کے طریقہ کو اختیار کرنا ہے جو جائز نہیں؛ البتہ اگر پیدائش کے دن یا کسی بھی دن اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کیا جائے اور احباب وغرباء کی دعوت بھی ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اس کو مروجہ سالگرہ کا رنگ نہ دیا جائے۔ (۱)
(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام ما لم یقصدوا صرفہا لفقراء الأنام۔ (ابن عابدین، الد المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص343
اسلامی عقائد
Ref. No. 1474/42-917
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صحابی ہونے کی تین شرائط ہیں ،حضور اکرم ﷺپر ایمان ،ایمان کی حالت میں آپؐ سے ملاقات اوراسلام ہی کی حالت میں وفات ۔ ملاقات میں دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن ام مکتوم ایک صحابی ہیں جو نابینا تھے۔
قال في شرح التحرير: والصحابي عند المحدثين وبعض الأصوليين من لقي النبي - صلى الله عليه وسلم - مسلما ومات على الإسلام، أو قبل النبوة ومات قبلها على الحنيفية كزيد بن عمرو بن نفيل، أو ارتد وعاد في حياته. (شامی، مقدمہ 1/13)
ثم الإسناد إما أن ينتهي إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- تصريحاً أو حكماً من قوله أو فعله أو تقريره، أو إلى الصحابي كذلك، وهو من لقي النبي -صلى الله عليه وسلم- مؤمناً به ومات على الإسلام ولو تخللت ردة في الأصح، أو إلى التابعي وهو من لقي الصحابي كذلك، فالأول المرفوع والثاني الموقوف والثالث المقطوع ومن دون التابعي فيه مثله .. " (شرح نخبۃ الفکر، وقد یکون مقلا فلایکثرالاخذ عنہ ج9ص1) ثم عرف الصحابي بأنه: من لقي النبي -صلى الله عليه وسلم- مؤمناً به ومات على الإسلام، ولو تخللت ردة، هذا ما رجحه ابن حجر -رحمه الله-، والمراد باللقاء ما هو أعم من المجالسة والمماشاة ووصول أحدهما إلى الآخر، وإن لم يكالمه، قال الحافظ: "والتعبير باللقي أولى من قول بعضهم: الصحابي من رأى النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ لأنه يخرج ابن أم مكتوم ونحوه من العميان، وهم صحابة بلا تردد"(شرح نخبۃ الفکر، المرفوع ج9ص26)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزار پر جو کچھ چڑھایا گیا خواہ وہ از قبیلِ رقوم ہو یا مٹھائی وغیرہ ہوں وہ سب غیر اللہ کے نام پر ہے، جو قرآن کریم کی آیت {وما أہل لغیر اللّٰہ بہ} میں داخل ہے(۲)؛ اس لئے وہ مال حرام ہے اور جب مال حرام ہوا تو اس کو اپنی یا مدرسہ کی ضروریات میں صرف کرنا نیز مدرسہ کے بچوں پر صرف کرنا بھی ناجائز وحرام ہی ہے۔ (۳)
(۲) {وَ مَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللّٰہِ} (سورۃ البقرۃ: ۱۷۳) (۳) {وَلَا تَاْکُلُوْٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ البقرۃ: ۱۸۸)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام ما لم یقصدوا صرفہا لفقراء الأنام۔ (ابن عابدین، الد المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص344
اسلامی عقائد
Ref. No. 1850/43-1660
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہرکے طلاق مغلظہ دینے کے بعد وہ عورت اس کے لئے حرام ہوگئی۔ اور حلالہ کا جو مذکورہ طریقہ اختیار کیاگیا ہے وہ قطعا درست نہیں ہے۔ عورت اب بھی اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہے۔ چھوٹے بھائی سے نکاح میں مہر کی مقدار بہت کم ہے۔ اس سلسلہ میں کسی مقامی و ماہر مفتی صاحب سے ملاقات کرکے مسئلہ کو سمجھ لیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔
وکرہ التزوج للثاني تحریما لحدیث لعن المحلل والمحلل لہ بشرط التحلیل کتزوجتک علی أن أحللک وان حلت للأول لصحة النکاح وبطلان الشرط۔۔۔۔۔۔۔ أما اذا أضمرا ذلک لا یکرہ، وکان الرجل ماجوراً لقصد الاصلاح۔۔۔۔ قال ابن عابدین: قولہ: (أما اذا أضمرا ذلک) محترز قولہ: بشرط التحلیل۔۔۔۔۔ وأورد السروجی أن الثابت عادة کا لثابت نصاً، أي: فیصیر شرط التحلیل کأنہ منصوص علیہ في العقد، فیکرہ، وأجاب في الفتح بأنہ لا یلزم من قصد الزوج ذلک أن یکون معروفاً بین الناس، انما ذلک فیمن نصب نفسہ لذلک وصار مشتہراً بہ۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۵/۴۷، ۴۸، کتاب الطلاق، باب الرجعة، ط: زکریا، احسن الفتاوی: ۵/۱۵۴، دار الاشاعت)
وكره) النكاح كراهة تحريم (بشرط التحليل) بأن يقول: تزوجتك على أن أحللك أو تقول هي، وعلى هذا حمل ما صححه الترمذي: (لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل والمحلل له) قيد باشتراط؛ لأنهما لو نوياه فقط لم يكره، بل يكون الرجل مأجورًا لقصده الإصلاح، وإن وصلية حلت (للأول)". النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 423)
"ومنها: الدخول من الزوج الثاني، فلاتحل لزوجها الأول بالنكاح الثاني حتى يدخل بها، وهذا قول عامة العلماء. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 188)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2184/44-2296
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پوری جائداد بھائی بہن اس طرح تقسیم کریں کہ بھائیوں کو دو دو اور بہنوں کو ایک یک حصہ ملے۔ لہذا کل جائداد کو سات حصوں میں تقسیم کریں گے ہر بھائی کو دو حصے اور ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:گیارہویں منانا کہیں سے ثابت نہیں، یہ محض ایک رسم ہے، نیز بہت سے اعتقادی، عملی واخلاقی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے واجب الترک ہے۔ (۱)
۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو باطلٌ وحرامٌ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص485
اسلامی عقائد
Ref. No. 1875
Ref. No. 1850/43-1660
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تین طلاق کے بعد بیوی حرام ہوگئی تو اب حکم یہ ہے کہ بعد عدت مطلقہ عورت آزاد ہوگئی وہ جہاں چاہے اپنا عقد ثانی کرسکتی ہے، تین طلاق دینے والے شوہر کو اب اس عورت پر کچھ اختیار نہیں، عورت کو کوئی نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا ہے کہ تین طلاق دینے والے سے دوبارہ نکاح کرے؛ عورت ہرطرح سے آزاد ہے کہ تین طلاق دینے والے شخص کے علاوہ کہیں بھی نکاح کرلے یا نہ کرے۔ البتہ طلاق مغلظہ کے بعد بغیر شرعی حلالہ کے سابق شوہر سے نکاح جائز نہیں ہے۔ شرعی طور پر شوہر ثانی کا اپنی بیوی سے صحبت کرنا ضروری ہے۔ پھر عدت تین ماہواری گزرنے کے بعد شوہر اول سے اس عورت کا نکاح کیاجاسکتاہے۔
مذکورہ صورت میں جبکہ محمد افتخار سے نکاح کے بعد صحبت نہیں ہوئی ، صرف پانی کا گلاس پیش کرنا صحبت کے قائم مقام نہیں ہوسکتاہے۔ اس لئے یہ عورت اپنے سابقہ شوہر سے ابھی نکاح نہیں کرسکتی ہے۔ عورت کسی دوسرے مرد سے یا پھر محمد افتخار سے اگراس نے ایک یا دو طلاقیں دیں یا تین متفرق طلاقیں دیں ، نکاح کرے، اور اس کے ساتھ زندگی گزارے۔ صرف حلالہ کی نیت سے نکاح کرنا گناہ کی بات ہے۔ شوہر ثانی اگر صحبت کرنے کے بعد طلاق دیدیتاہے یا اس کا انتقال ہوجاتاہے تو اب عورت شوہر اول سے نکاح کرسکتی ہے۔ الغرض شوہر اول سے نکاح کے حلال ہونے کے لئے تین باتیں ضروری ہیں 1- دوسرے مرد سے نکاح کا صحیح ہونا، 2- شوہرثانی کا اس عورت سے صحبت کرنا، 3- عورت کی مکمل تین ماہواری کا گزرنا۔ اگر ان میں سے کہیں کمی رہ گئی تو عورت شوہر اول کے لئے حلال نہ ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1948/44-1860
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شوہر نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دی ہے تو عدت کے اندر رجوع کرسکتاہے، اور اگر عدت گزرگئی تو دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔ لیکن اگر شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں تواب شرعی اعتبار سے عورت مکمل طور پر نکاح سے نکل گئی ، اور عورت و مرد میں میاں بیو ی کا رشتہ باقی نہیں رہا، دونوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوگئے، پردہ لازم ہوگیا۔ اب ان کا آپس میں ملنا یا ایک ساتھ رہنا شرعا حرام ہے۔ اب وہ عورت عدت گزارکر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 187)
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً".
فتاوی ہندیہ: "المطلقة الرجعية تتشوف وتتزين ويستحب لزوجها أن لايدخل عليها حتى يؤذنها أو يسمعها خفق نعليه إذا لم يكن من قصده المراجعة وليس له أن يسافر بها حتى يشهد على رجعتها كذا في الهداية". (10/193)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس میں رسوم کی پابندی(۲) مزید براں غیر محرموں سے بے پردگی ہوتی ہے پس ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔(۳)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)
(۳) وفي کتاب الخنثیٰ من الأصل إن نظر المرأۃ من الرجل الأجنبي بمنزلۃ نظر الرجل إلی محارمہ لأنہ النظر إلی خلاف الجنس أغلظ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في النظر والمس‘‘: ج ۹، ص: ۵۳۳)
النظر إلی وجہ الأجنبیۃ إذا لم یکن عن شہوۃ لیس بحرام لکنہ مکروہ، کذا في السراجیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني: فیما یحل للرجل النظر إلیہ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص434
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنے پر جب کہ پابندی کی جارہی ہے اوریہ طریقہ قرونِ ثلاثہ میں سے کسی قرن میں اپنایا نہیں گیا نہ اسلاف ہی سے ثابت ہے اور نہ اکابر امت سے اس لیے اس کو بدعت ہی کہا جائے گا۔ بدعت کی تعریف یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جو عبادت کے طریقہ پر ثواب کی نیت سے کی جائے اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا زمانہ صحابہؓ وتابعین میں علت پائے جانے کے باوجود نہ کی گئی ہو، اب اگرچہ آپ اس کو رسم نہیں مان رہے، لیکن مابعد میں ایسا نہ کرنے والوں پر طعن و تشنیع کی جائے گی اور اس بدعت کے موجد آپ حضرات قرار دئیے جائیں گے اور حوادث بدعت بلاشبہ گناہ ہے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)…ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إیاکم ومُحدَثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’أول کتاب السنۃ، باب في لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص486