Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر عضو کا چوتھائی حصہ کھل گیا تو نماز نہیں ہوگی، اگر اس سے کم ہے تو نماز ہوجائے گی۔ اسی طرح گیلے کپڑے میں ستر صاف نظر آئے، تو نماز نہیں ہوگی، بھر پور احتیاط ضروری ہے۔(۱)
(۱) الثوب الرقیق الذي یصف ما تحتہ لا تجوز الصلوٰۃ فیہ: کذا في التبیین۔ ولو کان علیہ قمیص لیس غیرہ وکان إذا سجد لا یری أحد عورتہ؛ لکن لو نظر إلیہ إنسان من تحتہ رأی عورتہ فہذا لیس بشيء، قلیل الإنکشاف عفو لأن فیہ بلویٰ ولا بلویٰ في الکبیر فلا یجعل عفواً، الربع وما فوقہ کثیر وما دون الربع قلیل: وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث: في شروط الصلوٰۃ، الفصل الأول: في الطہارۃ وستر العورۃ‘‘ج ۱، ص: ۱۱۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وتجمع بالأجزاء لو في عضو واحد وإلا فبالقدر فإن بلغ ربع أدناہا کأذن منع۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج ۲، ص: ۸۳، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فإن صلت وربع ساقہا مکشوف أو ثلثہا تعید الصلوٰۃ عند أبي حنیفۃؒ ومحمدؒ وإن کا أقل من الربع لا تعید۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ التي تتقدمہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۳، دار الکتاب، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص265
اسلامی عقائد
Ref. No. 39/1056
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غائب کی شہادت معتبر نہیں البتہ اگر آواز پہچانتا ہواور کسی قسم کا شبہ نہ ہو تو ٹیلیفون پر دی گئی خبر معتبر ہوگی۔ خبروشہادت میں فرق بھی ملحوظ رکھاجائے کسی عالم سے بالمشافہ سمجھ لیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آتش بازی اور پٹاخے چھوڑنا اور نام ونمود کے لیے اپنی کمائی برباد کرنا، حرام کاموں میں لگانا، مال برباد اور گناہ لازم کا مصداق ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی کمائی جائز کاموں میں خرچ کریں، البتہ نکاح کے اعلان کے لئے شرعی حدود میں گنجائش ہے۔(۱)
(۱) {وَالَّذِیْنَ إِذَآ أَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاہ۶۷} (سورۃ الفرقان: ۶۷)
{إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط} (سورۃ الإسراء: ۲۷)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص436
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، صحابۂ کرامؓ، حضرات ائمہ اور اسلاف عظام سے بھی ثابت نہیں ہے۔ مگر بعض مرتبہ حالات اور وطنی غیر مسلم پڑوسیوں کی وجہ سے اپنی اجتماعیت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے لئے بھی کچھ کرنا ضروری ہوجاتا ہے اس لحاظ کے ساتھ کہ حدود شرعی سے تجاوز نہ ہو اور اس کو عقیدہ نہ بنا لیا جائے۔پس اس بات کا خیال رکھتے ہوئے وقتِ ضرورت امور مذکور کے کرنے کی گنجائش ہے اور اختلاف اس پر مناسب نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
المولود الذي شاع في ہذا العصر …… ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
ونظیر ذلک فعل کثیر عند ذکر مولدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ووضع أمہ لہ من القیام۔ وہو أیضاً: بدعۃ لم یرد فیہ شيء بہ علی أن الناس إنما یفعلون ذلک تعظیماً لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فالعوام معذورون لذلک بخلاف الخواص۔ (أحمد بن محمد، الفتاویٰ الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۵۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص488
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مردوں کے لیے ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے اور عورتوں کے لیے چہرہ، ہتھیلی اور پاؤں کے علاوہ پورا جسم ستر ہے، اور پورے ستر کا پردہ لازم ہے۔(۲)
(۲) وعورۃ الرجل ما تحت السرۃ إلی الرکبۃ لقولہ علیہ السلام : عورۃ الرجل ما بین سرّتہ إلی رکبتیہ … وبدن الحرۃ کلہا عورۃ إلا وجہہا وکفیہا لقولہ علیہ السلام: المرأۃ عورۃ واستثناء العضوین للابتداء بإبدائہما۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ التي تقدمہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۲ - ۹۳، مکتبہ: دار الکتاب، دیوبند)
عورۃ الرجل للرجل من تحت السرۃ حتی تجاوز رکبتیہ … بدن الحرۃ عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا، کذا في المتون۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ‘‘: الفصل الأول في الطہارۃ وستر العورۃ، ج ۱، ص: ۱۱۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص265
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نکاح کے بعد یہ بندھن درست نہیں ہے۔(۲)
(۲) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط} (سورۃ المائدہ: ۸۷)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لم نر للمتحابین مثل النکاح۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب النکاح، باب ما جاء في فضل النکاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸، ۱۸۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص436
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:۲۷؍ رجب کے بارے میں جو روایات ہیں وہ موضوع اور ضعیف ہیں، صحیح اور قابل اعتماد نہیں؛ لہٰذا ۲۷؍ رجب کا روزہ مثل عاشورہ کے ثواب سمجھ کر کہ ہزار روزوں کا ثواب ملے گا یہ سمجھ کر روزہ رکھنا ممنوع ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے منع فرمایا کرتے تھے(۱) البتہ اگر کوئی شخص ہزار روزہ کے اجر کی نیت نہ کرے محض ثواب کے لیے رکھے تو کوئی ممانعت نہیں ہے۔(۲)
(۱) ۲۷؍ رجب کے روزے کی فضیلت صحاح احادیث میں ثابت نہیں مگر غنیہ میں سیدنا عبد القادر جیلانی قدس سرہ نے لکھا ہے، اس کو محدثین ضعیف کہتے ہیں حدیث ضعیف سے ثبوت نہیں ہو سکتا ہے، نفس روزہ جائز ہے۔ فقط: واللہ اعلم (رشید احمد، گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ: ص: ۴۵۵)
(۲) وقد وردت فیہ أحادیث لا تخلو من طعن وسقوط کما بسطہ ابن حجر في تبیین العجب مما ورد في فضل رجب، وما اشتہر في بلاد الہند وغیرہ أن الصوم صباح تلک اللیلۃ یعد ألف صوم فلا أصل لہ۔ (الآثار المرفوعۃ، ’’ذکر عاشر رجب‘‘: ج ۱، ص: ۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص489
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں ستر عورت فرض ہے۔ چہرہ ،ہتھیلی اور پائوں کے علاوہ پور ا جسم عورت کے ستر میں داخل ہے اس میں کسی بھی عضو کے ایک چوتھائی کھلنے سے نماز نہیں ہوتی ہے۔ عورت کا بازو (کلائی سے کہنی تک کا حصہ) بھی صحیح قول کے مطابق ستر میں داخل ہے اس کا چوتھائی حصہ ایک رکن کے بقدر کھلارہا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ گٹوں سے کہنی تک کی مقدار بارہ انگلی ہوتی ہے اس کا چوتھائی تین انگلی ہے؛ اس لیے مولانا صاحب نے تقریر میں جو تین انگلی بیان کیا ہے وہ درست ہے۔
’’ذراعاہا عورۃ کبطنہا في ظاہر الروایۃ، عن أصحابنا الثلاثۃ وروي في غیر ظاہر الروایۃ عن أبي یوسف أنہ روي عن أبي حنیفۃ أن ذراعیہا لیسا بعورۃ وفي الاختیار قال لو انکشف ذراعہا جازت صلاتہا لأنہا من الزینۃ الظاہرۃ والسوار وتحتاج إلی کشفہ للخدمۃ وسترہ أفضل وصحح بعضہم أنہ عورۃ في الصلاۃ لا خارجہا ولکن القول الأول وہو ظاہر الروایۃ ہو الصحیح إذ لا ضرورۃ في ابدائہ وکون السوار من الزینۃ الظاہرۃ محل النزاع بل ہو للید کالخلخال للرجل‘‘(۱)
’’(وکشف ربع ساقہا یمنع) یعنی جواز الصلاۃ؛ لأن ربع الشيء یحکی حکایۃ الکل کما في حلق الراس في الإحرام حتی یصیر بہ حلالا في أوانہ ویلزمہ الدم قبلہ، وعند أبي یوسف یعتبر انکشاف الأکثر؛ لأن الشيء إنما یوصف بالکثرۃ إذا کان ما یقابلہ أقل منہ وفي النصف عنہ روایتان في روایۃ یمنع لخروجہ عن حد القلۃ ولا یمنع في أخری لعدم دخولہ في حد الکثرۃ قال رحمہ اللّٰہ (وکذا الشعر والبطن والفخذ والعورۃ الغلیظۃ)‘‘(۲)
’’قال في القنیۃ وہذا نص علی أمرین الناس عنہما غافلون: أحدہما أنہ لا یعتبر الجمع بالأجزاء کالأسداس والأسباع والاتساع بل بالقدر۔ والثاني أن المکشوف من الکل لو کان قدر ربع أصغرہا من الأعضاء المکشوفۃ یمنع الجواز حتی لو انکشف من الأذن تسعہا ومن الساق تسعہا تمنع؛ لأن المکشوف قدر ربع الأذن‘‘(۳)
’’وأما المرأۃ یلزمہا أن تستر نفسہا من فرقہا إلی قدمہا ولا یلزمہا ستر الوجہ والکفین بلا خلاف، وفي القدمین اختلاف المشایخ واختلاف الروایات عن أصحابنا رحمہم اللّٰہ، وکان الفقیہ أبو جعفر تردد في ہذا فیقول مرۃ؛ إن قدمہا عورۃ، ویقول مرۃ: إن قدمہا لیست بعورۃ، فمن یجعلہا عورۃ یقول یلزمہا سترہا ومن لا یجعلہا عورۃ یقول: لا یلزمہا سترہا، والأصح أنہا لیست بعورۃ، وہي مسألۃ کتاب الاستحسان أیضاً۔ قال أبو حنیفۃ ومحمد: الربع وما فوقہ کثیر، وما دون الربع قلیل،وقال أبو یوسف: ما فوق النصف کثیر وما دونہ قلیل، وفي النصف عنہ روایتان، والصحیح قولہما؛ لأن ربع الشيء أقیم مقام الکل في کثیر من الأحکام کمسح ربع الرأس في الوضوء، وکحلق ربع الرأس في حق المحرم‘‘(۱)
(۱) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المتملی: ج ۱، ص: ۴۳۹۔
(۲) فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۶۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۳۔
(۱) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الصلاۃ، الفصل الرابع في فرائض الصلاۃ و سننہا‘‘: ج ۲، ص:۱۴، ادارۃ التراث الاسلامي لبنان۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص266
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس رونمائی سے معاشرے پر غلط اثر پڑتا ہے؛ اس لئے اس کی نمائش درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) وعن جندب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع الندبۃ ومن یرائی یرائي اللّٰہ بہ، متفق علیہ۔( مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الریاء والسمعۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۴)
قال نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یقبل اللّٰہ عزوجل عملا فیہ مثقال ذرۃ من ریاء (اتحاف السادۃ المتقین، ’’کتاب ذم الجاہ والریاء‘‘:ج ۱۱، ص: ۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص437
اسلامی عقائد
Ref. No. 2757/45-4289
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مشت زنی کرنے والوں کی انگلیاں قیامت کے دن گیابھن ہوں گی۔ میدانِ حشر میں تمام انسان اسے دیکھیں گے، سب کے سامنے اس کی رسوائی ہوگی۔ اس لئے اس سے شوہر کو بچنا چاہئے اور اپنے اوپر کنٹرول کرنا چاہئے، عورت کے بدن کے ساتھ رگڑنے وغیرہ کی اجازت ہے، نیز عام احوال میں بیوی سے مشت زنی کرانا بھی مکروہ ہے، لیکن اگر بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو اور شوہر پر شہوت کا غلبہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم مشت زنی سے آدمی کافر نہیں ہوتاہے۔
{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}
وله أن يقبلها ويضاجعها ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف. هكذا في السراج الوهاج. (الفتاوى الهندية، كتاب الطهارة، الباب السادس : الدماء المختصة بالنساء، الفصل الرابع في الحيض، ج:1، ص:93)
(و) يمنع (وقربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحل ما عداه مطلقا. (الدر المختار على صدر رد المحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:486)
أنه يجوز له أن يلمس بجميع بدنه حتى بذكره جميع بدنها إلا ما تحت الإزار فكذا هي لها أن تلمس بجميع بدنها إلا ما تحت الإزار جميع بدنه حتى ذكره۔ (رد المحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:487)
ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته، وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه۔ (رد المحتار،باب مايفسد الصوم وما لا يفسده، مطلب في حكم الاستمناء بالكف، ج:3، ص:371)
علامہ شہاب الدين محمود بن عبد الله حسينی آلوسی � (المتوفی: 1270ھ) روح المعانی میں مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں: ”فجمهور الأئمة على تحريمه وهو عندهم داخل فيما وراء ذلك، وكان أحمد بن حنبل يجيزه لأن المني فضلة في البدن فجاز إخراجها عند الحاجة كالفصد والحجامة … وعن سعيد بن جبير: عذب الله تعالى أمة كانوا يعبثون بمذاكيرهم، وعن عطاء: سمعت قوما يحشرون وأيديهم حبالى وأظن أنهم الذين يستمنون بأيديهم “(تفسیر ابن کثیر ،جلد نمبر 5،صفحہ نمبر 463، مطبوعہ: دار طيبة للنشر والتوزيع)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند