اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مردوں کے لیے ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے اور عورتوں کے لیے چہرہ، ہتھیلی اور پاؤں کے علاوہ پورا جسم ستر ہے، اور پورے ستر کا پردہ لازم ہے۔(۲)
(۲) وعورۃ الرجل ما تحت السرۃ إلی الرکبۃ لقولہ علیہ السلام : عورۃ الرجل ما بین سرّتہ إلی رکبتیہ … وبدن الحرۃ کلہا عورۃ إلا وجہہا وکفیہا لقولہ علیہ السلام: المرأۃ عورۃ واستثناء العضوین للابتداء بإبدائہما۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلاۃ التي تقدمہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۲ - ۹۳، مکتبہ: دار الکتاب، دیوبند)
عورۃ الرجل للرجل من تحت السرۃ حتی تجاوز رکبتیہ … بدن الحرۃ عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا، کذا في المتون۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:  الباب الثالث،  في شروط الصلاۃ‘‘:  الفصل الأول في الطہارۃ وستر العورۃ، ج ۱، ص: ۱۱۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص265

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نکاح کے بعد یہ بندھن درست نہیں ہے۔(۲)

(۲) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط} (سورۃ المائدہ: ۸۷)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لم نر للمتحابین مثل النکاح۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب النکاح، باب ما جاء في فضل النکاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸، ۱
۸۴۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص436

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:۲۷؍ رجب کے بارے میں جو روایات ہیں وہ موضوع اور ضعیف ہیں، صحیح اور قابل اعتماد نہیں؛ لہٰذا ۲۷؍ رجب کا روزہ مثل عاشورہ کے ثواب سمجھ کر کہ ہزار روزوں کا ثواب ملے گا یہ سمجھ کر روزہ رکھنا ممنوع ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے منع فرمایا کرتے تھے(۱) البتہ اگر کوئی شخص ہزار روزہ کے اجر کی نیت نہ کرے محض ثواب کے لیے رکھے تو کوئی ممانعت نہیں ہے۔(۲)

(۱) ۲۷؍ رجب کے روزے کی فضیلت صحاح احادیث میں ثابت نہیں مگر غنیہ میں سیدنا عبد القادر جیلانی قدس سرہ نے لکھا ہے، اس کو محدثین ضعیف کہتے ہیں حدیث ضعیف سے ثبوت نہیں ہو سکتا ہے، نفس روزہ جائز ہے۔  فقط: واللہ اعلم (رشید احمد، گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ: ص: ۴۵۵)
(۲) وقد وردت فیہ أحادیث لا تخلو من طعن وسقوط کما بسطہ ابن حجر في تبیین العجب مما ورد في فضل رجب، وما اشتہر في بلاد الہند وغیرہ أن الصوم صباح تلک اللیلۃ یعد ألف صوم فلا أصل لہ۔ (الآثار المرفوعۃ، ’’ذکر عاشر رجب‘‘: ج ۱، ص: ۷۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص489

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  نماز میں ستر عورت فرض ہے۔ چہرہ ،ہتھیلی اور پائوں کے علاوہ پور ا جسم عورت کے ستر میں داخل ہے اس میں کسی بھی عضو کے ایک چوتھائی کھلنے سے نماز نہیں ہوتی ہے۔ عورت کا بازو (کلائی سے کہنی تک کا حصہ) بھی صحیح قول کے مطابق ستر میں داخل ہے اس کا چوتھائی حصہ ایک رکن کے بقدر کھلارہا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ گٹوں سے کہنی تک کی مقدار بارہ انگلی ہوتی ہے اس کا چوتھائی تین انگلی ہے؛ اس لیے مولانا صاحب نے تقریر میں جو تین انگلی بیان کیا ہے وہ درست ہے۔
’’ذراعاہا عورۃ کبطنہا في ظاہر الروایۃ، عن أصحابنا الثلاثۃ وروي في غیر ظاہر الروایۃ عن أبي یوسف أنہ روي عن أبي حنیفۃ أن ذراعیہا لیسا بعورۃ وفي الاختیار قال لو انکشف ذراعہا جازت صلاتہا لأنہا من الزینۃ الظاہرۃ والسوار وتحتاج إلی کشفہ للخدمۃ وسترہ أفضل وصحح بعضہم أنہ عورۃ في الصلاۃ لا خارجہا ولکن القول الأول وہو ظاہر الروایۃ ہو الصحیح إذ لا ضرورۃ في ابدائہ وکون السوار من الزینۃ الظاہرۃ محل النزاع بل ہو للید کالخلخال للرجل‘‘(۱)
’’(وکشف ربع ساقہا یمنع) یعنی جواز الصلاۃ؛ لأن ربع الشيء یحکی حکایۃ الکل کما في حلق الراس في الإحرام حتی یصیر بہ حلالا في أوانہ ویلزمہ الدم قبلہ، وعند أبي یوسف یعتبر انکشاف الأکثر؛ لأن الشيء إنما یوصف بالکثرۃ إذا کان ما یقابلہ أقل منہ وفي النصف عنہ روایتان في روایۃ یمنع لخروجہ عن حد القلۃ ولا یمنع في أخری لعدم دخولہ في حد الکثرۃ قال رحمہ اللّٰہ (وکذا الشعر والبطن والفخذ والعورۃ الغلیظۃ)‘‘(۲)
’’قال في القنیۃ وہذا نص علی أمرین الناس عنہما غافلون: أحدہما أنہ لا یعتبر الجمع بالأجزاء کالأسداس والأسباع والاتساع بل بالقدر۔ والثاني أن المکشوف من الکل لو کان قدر ربع أصغرہا من الأعضاء المکشوفۃ یمنع الجواز حتی لو انکشف من الأذن تسعہا ومن الساق تسعہا تمنع؛ لأن المکشوف قدر ربع الأذن‘‘(۳)
’’وأما المرأۃ یلزمہا أن تستر نفسہا من فرقہا إلی قدمہا ولا یلزمہا ستر الوجہ والکفین بلا خلاف، وفي القدمین اختلاف المشایخ واختلاف الروایات عن أصحابنا رحمہم اللّٰہ، وکان الفقیہ أبو جعفر تردد في ہذا فیقول مرۃ؛ إن قدمہا عورۃ، ویقول مرۃ: إن قدمہا لیست بعورۃ، فمن یجعلہا عورۃ یقول یلزمہا سترہا ومن لا یجعلہا عورۃ یقول: لا یلزمہا سترہا، والأصح أنہا لیست بعورۃ، وہي مسألۃ کتاب الاستحسان أیضاً۔ قال أبو حنیفۃ ومحمد: الربع وما فوقہ کثیر، وما دون الربع قلیل،وقال أبو یوسف: ما فوق النصف کثیر وما دونہ قلیل، وفي النصف عنہ روایتان، والصحیح قولہما؛ لأن ربع الشيء أقیم مقام الکل في کثیر من الأحکام کمسح ربع الرأس في الوضوء، وکحلق ربع الرأس في حق المحرم‘‘(۱)
(۱) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المتملی: ج ۱، ص: ۴۳۹۔
(۲) فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۶۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۳۔
(۱) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الصلاۃ، الفصل الرابع في فرائض الصلاۃ و سننہا‘‘: ج ۲، ص:۱۴، ادارۃ التراث الاسلامي لبنان۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص266


 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس رونمائی سے معاشرے پر غلط اثر پڑتا ہے؛ اس لئے اس کی نمائش درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) وعن جندب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع الندبۃ ومن یرائی یرائي اللّٰہ بہ، متفق علیہ۔( مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الریاء والسمعۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۴)
قال نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یقبل اللّٰہ عزوجل عملا فیہ مثقال ذرۃ من ریاء (اتحاف السادۃ المتقین، ’’کتاب ذم الجاہ والریاء‘‘:ج ۱۱، ص: ۷۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص437

اسلامی عقائد

Ref. No. 2757/45-4289

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مشت زنی کرنے والوں کی انگلیاں قیامت کے دن گیابھن ہوں گی۔ میدانِ حشر میں تمام انسان اسے دیکھیں گے، سب کے سامنے اس کی رسوائی ہوگی۔   اس لئے اس  سے شوہر کو بچنا چاہئے اور  اپنے اوپر کنٹرول کرنا چاہئے، عورت کے بدن کے ساتھ رگڑنے وغیرہ کی اجازت ہے، نیز عام احوال میں بیوی سے  مشت زنی کرانا بھی  مکروہ ہے، لیکن اگر بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو اور شوہر پر شہوت کا غلبہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔  تاہم مشت زنی سے آدمی کافر نہیں ہوتاہے۔

{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ

وله أن يقبلها ويضاجعها ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف. هكذا في السراج الوهاج. (الفتاوى الهندية، كتاب  الطهارة، الباب السادس : الدماء المختصة  بالنساء، الفصل الرابع في الحيض، ج:1، ص:93)

(و) يمنع (وقربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحل ما عداه مطلقا. (الدر المختار على صدر رد المحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:486)

أنه يجوز له أن يلمس بجميع بدنه حتى بذكره جميع بدنها إلا ما تحت الإزار فكذا هي لها أن تلمس بجميع بدنها إلا ما تحت الإزار جميع بدنه حتى ذكره۔ (رد المحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:487)

ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته، وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه۔ (رد المحتار،باب مايفسد الصوم وما لا يفسده، مطلب في حكم الاستمناء بالكف، ج:3، ص:371)

علامہ شہاب الدين محمود بن عبد الله حسينی آلوسی � (المتوفی: 1270ھ) روح المعانی میں مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں: ”فجمهور الأئمة على تحريمه وهو عندهم داخل فيما وراء ذلك، وكان أحمد بن حنبل يجيزه لأن المني فضلة في البدن فجاز إخراجها عند الحاجة كالفصد والحجامة … وعن سعيد بن جبير: عذب الله تعالى أمة كانوا يعبثون بمذاكيرهم، وعن عطاء: سمعت قوما يحشرون وأيديهم حبالى وأظن أنهم الذين يستمنون بأيديهم “(تفسیر ابن کثیر ،جلد نمبر 5،صفحہ نمبر 463، مطبوعہ: دار طيبة للنشر والتوزيع)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/846

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  لغت میں 'نویر' لفظ کا کوئی مناسب معنی نہیں ملا۔ اس لئے کوئی دوسرا  مناسب نام رکھ لیں۔ نوراللہ، نورالہدی، نعمان، وغیرہ نام میں سے کوئی نام رکھ لیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص اپنے مذکورہ قول و فعل کی وجہ سے اسلام سے خارج ہوگیا ہے، اس سے اسلامی تعلق باقی رکھنا درست نہیں اور ضروری ہے کہ ہر طرح سے رابطہ منقطع کرلیا جائے۔ تاہم اگر وہ توبہ کرلے او راگر شادی شدہ ہے، تو اپنے نکاح کی تجدید کرے تو اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کیا جائے گا۔ (۱)

’’إذا أنکر آیۃ القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أوعاب شیئاً من القرآن … أو سخر بآیۃ منہ کفر‘‘(۲)

 

(۱) إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘: أو عاب کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

(۲) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)

 

دارالافتاء

دار العلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1055 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اقتصادیات اور اس میں بھی بالخصوص غلہ کی شریعت اسلامیہ میں بڑی اہمیت ہے، اور اقتصادیات کی ترقی کے لیے یونین بنانا اور ایک نظام کے مطابق چلنا بہت بہتر ہے۔ لیکن تمام کا مقصد یہی ہونا چاہئےکہ اقتصادی حالت بہتر سے بہتر ہو۔ فخرومباہات اور اپنی ہرجائز و ناجائز بات کو دوسروں پر نافذکرنا اس کے لیے بہرحال مضر ہے۔ یونین کو چاہئے کہ صرف تعمیری جائز امور کو نافذ کرنے کی کوشش کرے، ناجائز و جابرانہ رویہ اختیار نہ کیاجائے ۔ اور ناجائز امور میں یونین کی باتوں کو ماننا درست نہیں ہے۔ ترک روابط صرف انھیں صورتوں میں درست ہے جب کوئی تخریبی وناجائز کام میں لگا ہواہو بصورت دیگرایساکرنادرست نہیں ہے۔ ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار، الآیة۔ وتعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان ، الآیة۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں ایمان و نکاح باقی ہے۔ (۱) البتہ یہ عمل فوراً ترک کر کے توبہ کرنی چاہئے، (۲) حرام کو بار بار کرنے سے ایمان میں خطرہ ضرور پیدا ہو جاتا ہے۔

 

(۱) ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا، ولا نزیل عنہ إسم الإیمان، ویجوز أن یکون مؤمناً فاسقاً غیر کافر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

(۲) والفسق لیس في معنی الکفر فلا یلحق بہ في الإحباط۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’مسألۃ في التوبۃ وشرائطہا وفیہا أبحاث جلیلۃ‘‘: ص: ۲۶۱)

والکبیرۃ لا تخرج العبد المؤمن من الإیمان ولا تدخل لہ في الکفر۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث الکبیرۃ‘‘: ص: ۱۰۶)

 

دار الافتاء

دار العلوم وقف دیوبند