Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1055 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اقتصادیات اور اس میں بھی بالخصوص غلہ کی شریعت اسلامیہ میں بڑی اہمیت ہے، اور اقتصادیات کی ترقی کے لیے یونین بنانا اور ایک نظام کے مطابق چلنا بہت بہتر ہے۔ لیکن تمام کا مقصد یہی ہونا چاہئےکہ اقتصادی حالت بہتر سے بہتر ہو۔ فخرومباہات اور اپنی ہرجائز و ناجائز بات کو دوسروں پر نافذکرنا اس کے لیے بہرحال مضر ہے۔ یونین کو چاہئے کہ صرف تعمیری جائز امور کو نافذ کرنے کی کوشش کرے، ناجائز و جابرانہ رویہ اختیار نہ کیاجائے ۔ اور ناجائز امور میں یونین کی باتوں کو ماننا درست نہیں ہے۔ ترک روابط صرف انھیں صورتوں میں درست ہے جب کوئی تخریبی وناجائز کام میں لگا ہواہو بصورت دیگرایساکرنادرست نہیں ہے۔ ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار، الآیة۔ وتعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان ، الآیة۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں ایمان و نکاح باقی ہے۔ (۱) البتہ یہ عمل فوراً ترک کر کے توبہ کرنی چاہئے، (۲) حرام کو بار بار کرنے سے ایمان میں خطرہ ضرور پیدا ہو جاتا ہے۔
(۱) ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا، ولا نزیل عنہ إسم الإیمان، ویجوز أن یکون مؤمناً فاسقاً غیر کافر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)
(۲) والفسق لیس في معنی الکفر فلا یلحق بہ في الإحباط۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’مسألۃ في التوبۃ وشرائطہا وفیہا أبحاث جلیلۃ‘‘: ص: ۲۶۱)
والکبیرۃ لا تخرج العبد المؤمن من الإیمان ولا تدخل لہ في الکفر۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث الکبیرۃ‘‘: ص: ۱۰۶)
دار الافتاء
دار العلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں ایمان و نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا(۱)، ایمان و نکاح باقی ہے(۲)۔ تاہم یہ روش ترک کر دینی چاہئے، ورنہ یہ صورت ایمان کے لئے ضرور خطرہ بن سکتی ہے، گناہ تو ہے ہی۔
(۱) ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا، ولا نزیل عنہ إسم الإیمان، ویجوز أن یکون مؤمناً فاسقاً غیر کافر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)
والکبیرۃ لا تخرج العبد المؤمن من الإیمان ولا تدخلہ في الکفر…(علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث الکبیرۃ‘‘: ص: ۱۰۶)
دار الافتاء
دار العلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2642/45-4043
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علامہ تفتازانی ایک صحیح العقیدہ شخص ہیں اہل سنت والجماعت میں سے ہیں شافعی المسلک ہیں امام ابو الحسن اشعری بھی اہل سنت والجماعت میں سے ہیں۔ بلا کسی تحقیق کے ان کو گمراہ قرار دینا درست نہیں ہے، ان کی جن باتوں سے اختلاف ہو اس کا دلیل کی روشنی میں تعاقب کیا جا سکتا ہے تاہم ان کو گمراہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
’’لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولا یرمیہ بالکفر الارتدت علیہ ان لم یکن صاحبہ کذلک‘‘ (کتاب الادب، ’’باب ما ینہی من الباب واللعن‘‘: ج ٨،ص: ١٥،رقم: ٥٠٠٤٥)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1854
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ جنت و جہنم کی تخلیق ہوچکی ہے۔ قرآن کریم اور احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایصال ثواب اور صدقہ کرنے کے لئے، وقت، تاریخ اور طریقہ اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت ہے اس لئے یہ طریقہ بھی بدعت وناجائز ہے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
وہو أیضاً: بدعۃ لم یرد فیہ شیء بہ علی أن الناس إنما یفعلون ذلک تعظیماً لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فالعوام معذورون لذلک بخلاف الخواص۔ (أحمد بن محمد، الفتاوی الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۵۸)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص345
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ایسے کام کی منت مانی جائے جو بذات خود معصیت ہو تو وہ منت منعقد ولازم نہیں ہوتی اور مذکورہ فی السوال منت (چادر چڑھانا وغیرہ) بذات خود معصیت ہے؛ اس لئے یہ منت منعقد ولازم نہیںہوگی، بلکہ ایسا کرنا بدعت وباعث گناہ ہوگا اور یہ سمجھنا کہ اس منت کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے کوئی پریشانی آ رہی ہے غلط ہے۔ گناہوں کے کام چھوڑ کر نیک کام کرنے کی پابندی کی جائے تو ان شاء اللہ پریشانیاں دور ہوں گی کوئی خاص پریشانی ہو تو کسی قریبی بزرگ سے مل کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔(۱)
(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الد المختارمع الرد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
لا یلزم النذر إلا إذا کان طاعۃ ولیس بواجب وکان من جنسہ واجب علی التعیین فلا یصح النذر بالمعاصي ولا بالواجبات إلخ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر: ج ۱، ص: ۱۴۴)
واعلم أنہم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثۃ کون المنذور لیس بمعصیۃ کونہ من جنسہ واجب۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل في النذر‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۴)… منہا أن یکون قربۃ فلا یصح النذر بما لیس بقربۃ رأسا کالنذر بالمعاصي بأن یقول للّٰہ عز شأنہ علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلانا أو أضربہ أو أشتمہ ونحو ذلک لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا نذر في معصیۃ اللّٰہ تعالٰی وقولہ: من نذر أن یعصي اللّٰہ تعالیٰ فلا یعصہ ولأن حکم النذر وجوب المنذور بہ ووجوب فعل المعصیۃ محال وکذا النذر بالمباحات من الأکل والشرب والجماع ونحو ذلک لعدم وصف القربۃ لاستوائہما فعلاً وترکاً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل وأما شرائط الرکن فأنواع‘‘: ج ۵، ص: ۸۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص346
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ طریقہ غیر اسلامی ہے، شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ’’من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر وخفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود‘‘ (۱) اور یہ فعل اہل سنت والجماعت کے عقیدے وطریقہ کے خلاف بھی ہے اور ہر وہ فعل جو خلاف شرع ہو وہ ناجائز ہے ’’قال الکشمیري -رحمہ اللّٰہ- : ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء‘‘ (۲) ’’واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثرا العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالاجماع باطل وحرام‘‘ (۳) الغرض نذر ونیاز کرنا، قبروں پر چادر چڑھانا مٹھائیاں اور شیرنی وغیرہ تقسیم کرنا بدعت ہے، یہ فعل غیر اللہ سے مدد اور نصرت مانگنا ہوا؛ جو بالاجماع باطل ہے، اور کاروبار میں ترقی کے لئے مذکورہ رقم آپ غرباء پر تقسیم کردیں کاروبار میں ترقی اور ثواب بھی حاصل ہوگا ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ {إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} (۱)
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰۔
(۲) علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب فی النذر الذي یقع للأموات من أکثرا العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷۔
(۱) سورۃ التوبۃ: ۶۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص347
اسلامی عقائد
Ref. No. 2758/45-4288
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سور نجس العین ہے، اس کی ماہیت کسی طرح بھی تبدیل کرکے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو چیزیں نجس العین نہیں ہیں ان میں تبدیل ماہیت کے بعد خریدوفروخت اور استعمال کی اجازت ہے۔
”وَالظَّاھِرُ أنَّ مَذْھَبَنَا ثُبُوْتُ اِنْقِلاَبِ الْحَقَائِقِ بِدَلیلٍ مَا ذَکَرُوْہُ فِي انْقِلاَبِ عَیْنِ النِّجَاسَةِ کَاِنْقِلاَبِ الْخَمْرِ خَلًّا وَالدَّمِ مِسْکاً وَنَحْوِ ذٰلِکَ وَاللہ اعلم․ (رد المحتار: ۱/۲۳۹، رشیدیہ، بحر، فتح القدیر)
"(و) يطهر (زيت) تنجس (بجعله صابونا) به يفتى للبلوى.
(قوله: ويطهر زيت إلخ) قد ذكر هذه المسألة العلامة قاسم في فتاواه، وكذا ما سيأتي متنا وشرحها من مسائل التطهير بانقلاب العين، وذكر الأدلة على ذلك بما لا مزيد عليه، وحقق ودقق كما هو دأبه - رحمه الله تعالى -، فليراجع.
ثم هذه المسألة قد فرعوها على قول محمد بالطهارة بانقلاب العين الذي عليه الفتوى واختاره أكثر المشايخ خلافا لأبي يوسف كما في شرح المنية والفتح وغيرهما. وعبارة المجتبى: جعل الدهن النجس في صابون يفتى بطهارته؛ لأنه تغير والتغير يطهر عند محمد ويفتى به للبلوى. اهـ. وظاهره أن دهن الميتة كذلك لتعبيره بالنجس دون المتنجس إلا أن يقال هو خاص بالنجس؛ لأن العادة في الصابون وضع الزيت دون بقية الأدهان تأمل، ثم رأيت في شرح المنية ما يؤيد الأول حيث قال: وعليه يتفرع ما لو وقع إنسان أو كلب في قدر الصابون فصار صابونا يكون طاهرا لتبدل الحقيقة. اهـ". فقط والله أعلم (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 315)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/840
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا شخص آنکھ کے علاوہ چہرہ کے دیگر حصہ کو دھوئے گا یا تر ہاتھ اس طرح پھیرے گا کہ چہرہ پر پانی بہنے لگے، البتہ آنکھ پر اگر ممکن ہو تو مسح کرلے گا اور اگر مسح باعث تکلیف ہو تو مسح بھی ترک کردے گا۔ واذا رمد وامر ان لایغسل عینہ ۔۔۔ جاز لہ المسح وان ضرہ المسح ترکہ۔ (نورالایضاح ص ۳۷)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند