اسلامی عقائد

Ref. No. 2758/45-4288

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سور نجس العین ہے، اس کی ماہیت کسی طرح بھی تبدیل کرکے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو چیزیں نجس العین نہیں ہیں ان میں تبدیل ماہیت کے بعد خریدوفروخت اور استعمال کی اجازت ہے۔

وَالظَّاھِرُ أنَّ مَذْھَبَنَا ثُبُوْتُ اِنْقِلاَبِ الْحَقَائِقِ بِدَلیلٍ مَا ذَکَرُوْہُ فِي انْقِلاَبِ عَیْنِ النِّجَاسَةِ کَاِنْقِلاَبِ الْخَمْرِ خَلًّا وَالدَّمِ مِسْکاً وَنَحْوِ ذٰلِکَ وَاللہ اعلم․ (رد المحتار: ۱/۲۳۹، رشیدیہ، بحر، فتح القدیر)

"(و) يطهر (زيت) تنجس (بجعله صابونا) به يفتى للبلوى

(قوله: ويطهر زيت إلخ) قد ذكر هذه المسألة العلامة قاسم في فتاواه، وكذا ما سيأتي متنا وشرحها من مسائل التطهير بانقلاب العين، وذكر الأدلة على ذلك بما لا مزيد عليه، وحقق ودقق كما هو دأبه - رحمه الله تعالى -، فليراجع.

ثم هذه المسألة قد فرعوها على قول محمد بالطهارة بانقلاب العين الذي عليه الفتوى واختاره أكثر المشايخ خلافا لأبي يوسف كما في شرح المنية والفتح وغيرهما. وعبارة المجتبى: جعل الدهن النجس في صابون يفتى بطهارته؛ لأنه تغير والتغير يطهر عند محمد ويفتى به للبلوى. اهـ. وظاهره أن دهن الميتة كذلك لتعبيره بالنجس دون المتنجس إلا أن يقال هو خاص بالنجس؛ لأن العادة في الصابون وضع الزيت دون بقية الأدهان تأمل، ثم رأيت في شرح المنية ما يؤيد الأول حيث قال: وعليه يتفرع ما لو وقع إنسان أو كلب في قدر الصابون فصار صابونا يكون طاهرا لتبدل الحقيقة. اهـ". فقط والله أعلم (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 315)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/840

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا شخص آنکھ کے علاوہ چہرہ کے دیگر حصہ کو دھوئے گا یا تر ہاتھ اس طرح پھیرے گا کہ چہرہ پر پانی بہنے لگے، البتہ آنکھ پر اگر ممکن ہو تو مسح کرلے گا اور اگر مسح   باعث تکلیف ہو تو مسح بھی ترک کردے گا۔   واذا رمد وامر ان لایغسل عینہ ۔۔۔ جاز لہ المسح وان ضرہ المسح ترکہ۔ (نورالایضاح ص ۳۷)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر عقیدہ حرام کو حلال سمجھنے کا نہ تھا، اور ایسے ہی حرام کو حلال کہہ دیا تو ایمان ونکاح باقی ہے؛ لیکن ٹخنوں سے نیچے پائجامہ کرنا مکروہ تحریمی ہے، اس سے اجتناب کریں۔(۳)

(۳) {یاَیُّھَا النَّبِیُّ  لِمَ  تُحَرِّمُ  مَآ  أَحَلَّ اللّٰہُ  لَکَ تَبْتَغِيْ} (سورۃ تحریم: ۱)

وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ مؤمنٌ علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح والرجوع عن ذلک کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

عن عبد الرحمن عن أبیہ، قال: سألت أبا سعید الخدريّ عن الإزار فقال: علی الخبیر سقطت، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إزارۃ المسلم إلی نصف الساق ولا حرج -أو لا جناح- فیما بینہ وبین الکعبین، ما کان أسفل من الکعبین فہو في النار، من جرَّ إزارہ بطرا لم ینظر اللّٰہ إلیہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في قدر موضع الإزار‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۶، رقم: ۴۰۹۵)

دار الافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبروں کی زیارت و ایصال ثواب جائز ہے، فقہاء نے اس کو مستحب بھی کہا ہے، شامی میں ہے ’’وبزیارۃ القبور أي لابأس؛ بل ندب‘‘ بلکہ فقہاء لکھتے ہیں کہ ہر ہفتہ جانا مناسب ہے اور جمعہ کے دن، اور بعض روایات کے اعتبار سے جمعرات اور جمعہ کا دن افضل ہے، بعض نے پیر اور ہفتہ کا دن ’’أي یوم السبت والإثنین‘‘ بھی شامل کیا ہے۔ ابن ابی شیبہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے۔ غرض ایصال ثواب کے لئے قبور پر جانا اور کھڑے ہوکر زیارت کرنا اور دعا کرنا ثابت ہے۔ ’’کذا في الشامي: والسنۃ زیارتہا قائماً أوالدعا وعقدہا قائماً کما کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الخروج إلی البقیع‘‘۔(۲)
لیکن وہاں جاکر نذر و نیاز مروجہ جائز نہیں، نیز طواف کرنا قطعاً ناجائز و حرام ہے، اور ان سے حاجت چاہنا ہی قطعاً ناجائز، بلکہ یہ فعل کفر ہے اور عرس کے بارے میں حرمت کی تصریح ہے، جیسا کہ در مختار میں ہے:
’’من المنکرات الکثیرہ کإیقاد الشموع والقنادیل التي توجد في الأفراح، وکدق الطبول، والغناء وبالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرۃ علی الذکر وقراء ۃ القرآن وغیر ذلک۔ مما ہو مشاہد في ہذہ الأزمان وماکان کذلک فہو شک في حرمتہ‘‘ (۱)

(۲) ابن عابدین، الدر المختار، مطلب في زیارۃ القبور: ج ۲، ص: ۲۴۲۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار، مطلب في الثواب علی المصیبۃ: ج ۲، ص: ۲۴۱۔
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلي ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب فی النذر الذي یقع للأموات من أکثرا العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
قولہ: (باطل وحرام) لوجوہ منہا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق ومنہا: أن المنذور لہ میت والمیت لا یملک ومنہا: أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر۔ (’’أیضاً‘‘)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص348

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:احکام شرعیہ کے مکلف انسان اور جنات ہیں، عقیدہ شرعیہ جن کا دین میں ہونا معروف ہو اور وہ اصول دین میں سے ہو، اس میں سے کسی عقیدہ کا انکار موجب کفر ہے، مثلاً: نماز کی فرضیت کا کوئی انکار کردے، اسی طرح شریعت کے کسی حکم کا مذاق واستہزاء بھی کفر کا باعث ہے(۱) اور کسی فرض وواجب کے بارے میں اگر عقیدہ درست ہو؛ لیکن عمل نہ کرے تو ایسا شخص فاسق ہوجاتا ہے، ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔(۲)

…(۱) و إذا قال الرجل لغیرہ: حکم الشرع في ہذہ الحادثۃ، کذا فقال ذلک الغیر: ’’من برسم کار میکنم نہ بشرع‘‘ یکفر عند بعض المشایخ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ، وفي ’’مجموع النوازل‘‘ قال رجل لإمرأتہ: ما تقولین أیش حکم الشرع فتجشأت جشائً عالیا فقالت: ’’اینک شرع را‘‘ فقد کفرت وبانت من زوجہا، کذا في المحیط۔

رجل عرض علیہ خصمہ فتوی الأئمۃ فردہا، وقال ’’جہ بار نامہ فتوی آوردہ‘‘ قیل یکفر؛ لأنہ ردّ حکم الشرع وکذا لو لم یقل شیئاً لکن ألقی الفتوی علی الأرض، وقال ’’این چہ شرع است‘‘ کفر۔

رجل استفتی عالماً في طلاق إمرأتہ فأفتاہ بالوقوع فقال المستفتي ’’من طلاق ملاق جہ دانم مادر بجکان باید کہ بخانہ من بود‘‘ أفتی القاضي الإمام علي السغدي بکفرہ کذا في الفصول العمادیَّۃ۔ إذا جاء الخصمین إلی صاحبہ بفتوی الأئمۃ فقال صاحبہ: لیس کما أفتوہ أو قال لا نعمل بہٰذا کان علیہ التعزیر، کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۸۳- ۲۸۴)

ہي فرض عین علی کل مکلف ویکفر جاحدہا لثبوتہا بدلیل قطعيِّ وتارکہا عمداً مجانۃً أي تکاسلاً فاسقٌ۔ ( ابن عابدیں، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴)

(۲) لو قال لمریض صلِّ، فقال: واللّٰہ لا أصلی أبداً، ولم یصلي حتی مات یکفر، وقول الرجل: لا أصلي یحتمل أربعۃ أوجہ: أحدہا: لا أصلي لأني صلیت، والثاني: لا أصلِّی بأمرک، فقد أمرني بہا من ہو خیرٌ منک، والثالث: لا أصلي فسقا مجانۃ، فہٰذہ الثلاثۃ لیست بکفر۔ والرابع: لا أصلي إذ لیس یجب عليّ الصلاۃ، ولم أؤمر بہا یکفر، ولو أطلق وقال: لا أصلي لا یکفر لاحتمال ہذہ الوجوہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا ما یتعلق بالصلاۃ والصوم والزکاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۰)

إذا کان في المسالۃ وجوہ توجب الکفر، ووجہ واحدٌ یمنع، فعلی المفتي أن یمیل إلی ذلک الوجہ، کذا في ’’الخلاصۃ في البزّازیۃ‘‘ إلا إذا صرّح بإرادۃ توجب الکفر، فلا ینفعہ التأویل حینئذٍ کذا في البحر الرائق، ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم

وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر لا تنفعہ فتوی المفتي، ویؤمر بالتوبۃ والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین إمرأتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

دارالافتاء

ڈارالعلوم وقف دیوبند

 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو مسلمان ایسا عقیدہ رکھتے ہیں اور پھر اس کے لئے مذکورہ عمل کرتے ہیں وہ فاسق و فاجر ہیں کافر و مرتد ان کو نہ کہا جائے؛ کیونکہ فقہاء نے تکفیر کرنے میں احتیاط کرنے کو فرمایا ہے؛ لیکن تجدید نکاح کرلینا ان کے لئے بہتر ہے۔ جب تک وہ ان رسوم شرکیہ سے توبہ نہ کرے اس سے تعلقات ختم کردیئے جائیں۔(۱)

(۱) ما کان في کونہ کفرا اختلافٌ فإن قائلہ یؤمر بتجدید النکاح و بالتوبۃ والرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط، وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ مؤمنٌ علی حالہ، ولا یؤمر بتجدید النکاح والرجوع عن ذلک، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

إن ما یکون کفراً اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ و تجدید النکاح، وظاہرہ أنہ أمر احتیاطي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

وإذا وصف اللّٰہ تعالیٰ بہا فہي نفي العجز عنہ ومحال أن یوصف غیر اللّٰہ بالقدرۃ المطلقۃ۔ (أبو القاسم الحسین بن محمد، المفردات في غریب القرآن، ’’قدر‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۵)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سمدھی ملن کی رسم اور اس میں مطالبات سے معاشرہ پر انتہائی غلط اثر پڑتا ہے، شادیوں میں دشواری پیدا ہوتی ہے؛ نیز غیر لازم امور کو لازم سمجھا جاتا ہے؛ اس لیے اس طرح کی رسم کی شرعاً کوئی گنجائش نہیں، شادی بغیر کسی رسم کے سادہ طریقہ پر کی جائے۔(۱)

(۱) ولو أخذ أہل المرأۃ شیئاً عند التسلیم فللزوج أن یستردہ لأنہ رشوۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب النکاح: الباب السابع: في المہر، الفصل السادس عشر: في جہاز البیت‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۳)
قال تعالی: {وَلَا تَأْکُلُوْٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِل} (سورۃ البقرۃ: ۱۸۸)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص437

اسلامی عقائد

Ref. No. 1751/43-1469

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچہ کی ولادت کے فورا بعد جلد ازجلد اس کے کان میں اذان کہنی چاہئے، دیر کرنا مناسب نہیں، اور اگر فورا اذان نہیں کہی اور بچہ کا انتقال ہوگیا تو اب اذان کی ضرورت نہ رہی، اور بچہ کے انتقال کے بعد اس کے کان میں اذان دینے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لئے اذان نہ دی جائے۔( البتہ اگر ولادت کے وقت زندہ تھا تو اس کا نام رکھا جائے گا اور جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی۔)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2691)

"وعن أبي رافع -رضي الله عنه- قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن بن علي - رضي الله عنهما - حين ولدته فاطمة بالصلاة» . رواه الترمذي، وأبو داود. وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح".

 (بالصلاة) . أي بأذانها وهو متعلق بأذن، والمعنى أذن بمثل أذان الصلاة وهذا يدل على سنية الأذان في أذن المولود وفي شرح السنة: روي أن عمر بن عبد العزيز - رضي الله عنه - كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي. قلت: قد جاء في مسند أبي يعلى الموصلي، عن الحسين - رضي الله عنه - مرفوعاً: «من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان»". كذا في الجامع الصغير للسيوطي رحمه الله. قال النووي في الروضة: ويستحب أن يقول في أذنه: "{وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم} [آل عمران: 36]". قال الطيبي: ولعل مناسبة الآية بالأذان أن الأذان أيضاً يطرد الشيطان؛ لقوله صلى الله عليه وسلم:" «إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لايسمع التأذين»". وذكر الأذان والتسمية في باب العقيقة وارد على سبيل الاستطراد اهـ. والأظهر أن حكمة الأذان في الأذن أنه يطرق سمعه أول وهلة ذكر الله تعالى على وجه الدعاء إلى الإيمان والصلاة التي هي أم الأركان (رواه الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح)

ومن ولد فمات یغسل ویصلیٰ علیہ إن استہل۔والا یستہل غسل وسمي وأدرج في خرقۃ ودفن ولم یصل علیہ ۔ (درمختار:۳؍۱۳۱،مکتبہ زکریا)

"من استهل بعد الولادة سمي، وغسل وصلي علیه". (الهندية، الباب الحادي العشر في صلاة الجنازة، الفصل الثاني في الغسل)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اکراماً سجدہ تعظیمی بھی غیر اللہ کو حرام ہے۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ سجدہ تعظیمی کا مرتکب کافر ہوجاتا ہے یا نہیں؛ لہٰذا سجدہ تعظیمی فسق ہے؛ لیکن موجب کفر نہیں ہے اور بعض کے نزدیک موجب کفر بھی ہے۔(۱)

(۱) عن الحسن قال بلغني: أن رجلا قال: یا رسول اللّٰہ علیہ نسلم علیک کما یسلم بعضنا علی بعض، أفلا نسجد لک؟ قال: لا، ولکن أکرموا نبیکم وأعرفوا الحق لأہلہ فإنہ لا ینبغي أن یسجد لأحد من دون اللّٰہ۔ (جلال الدین سیوطي، الدر المنثور ’’ماکان لبشر أن یؤتیہ اللّٰہ الکتاب‘‘ ’’سورۃ آل عمران: ۷۹‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۲)

إن السجدۃ لا تحل لغیر اللّٰہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح ’’کتاب النکاح: باب عشرۃ النساء وما لکل واحدۃ من الحقوق، الفصل الثاني‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۹، رقم: ۳۲۵۵)

من سجد للسطان علی وجہ التحیۃ أو قبل الأرض بین یدیہ لا یکفر، ولکن یأثم لارتکابہ الکبیرۃ ہو المختار قال الفقیہ: وإن سجد للسطان بنیۃ العبادۃ أو لم تحضرہ النیۃ فقد کفر…(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثامن: والعشرون في ملاقاۃ الملوک‘‘: ج ۵، ص: ۴۲۵)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جمیع ما کان وما یکون یعنی ہر چیز کا علم یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس میں کوئی بھی مخلوق بشمول انبیاء علیہم الصلوٰۃ والتسلیم اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم دیا گیا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تھا ذاتی علم نہیں تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ہیں؛ کیونکہ عالم الغیب ہونا یہ خدا تعالیٰ کی خاص صفت ہے؛ لہٰذا ایسا عقیدہ رکھنے والا گمراہ اور کھلی ہوئی بدعت میں ہے اس طرح کے عقیدہ سے بچنے کی سخت ضرورت ہے {وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (۱) {قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُط} (۲) {إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ شَھِیْدًاہ۵۵}(۳) {عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ  یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ أَحَدًاہلا ۲۶ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ}(۴)
(۱) سورۃ الأنعام: ۵۹۔             (۲) سورۃ النمل: ۶۵۔
(۳) سورۃ الأحزاب: ۵۵۔            (۴) سورۃ الجن: ۲۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص225