Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1751/43-1469
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچہ کی ولادت کے فورا بعد جلد ازجلد اس کے کان میں اذان کہنی چاہئے، دیر کرنا مناسب نہیں، اور اگر فورا اذان نہیں کہی اور بچہ کا انتقال ہوگیا تو اب اذان کی ضرورت نہ رہی، اور بچہ کے انتقال کے بعد اس کے کان میں اذان دینے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لئے اذان نہ دی جائے۔( البتہ اگر ولادت کے وقت زندہ تھا تو اس کا نام رکھا جائے گا اور جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی۔)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2691)
"وعن أبي رافع -رضي الله عنه- قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن بن علي - رضي الله عنهما - حين ولدته فاطمة بالصلاة» . رواه الترمذي، وأبو داود. وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح".
(بالصلاة) . أي بأذانها وهو متعلق بأذن، والمعنى أذن بمثل أذان الصلاة وهذا يدل على سنية الأذان في أذن المولود وفي شرح السنة: روي أن عمر بن عبد العزيز - رضي الله عنه - كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي. قلت: قد جاء في مسند أبي يعلى الموصلي، عن الحسين - رضي الله عنه - مرفوعاً: «من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان»". كذا في الجامع الصغير للسيوطي رحمه الله. قال النووي في الروضة: ويستحب أن يقول في أذنه: "{وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم} [آل عمران: 36]". قال الطيبي: ولعل مناسبة الآية بالأذان أن الأذان أيضاً يطرد الشيطان؛ لقوله صلى الله عليه وسلم:" «إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لايسمع التأذين»". وذكر الأذان والتسمية في باب العقيقة وارد على سبيل الاستطراد اهـ. والأظهر أن حكمة الأذان في الأذن أنه يطرق سمعه أول وهلة ذكر الله تعالى على وجه الدعاء إلى الإيمان والصلاة التي هي أم الأركان (رواه الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح)
ومن ولد فمات یغسل ویصلیٰ علیہ إن استہل۔والا یستہل غسل وسمي وأدرج في خرقۃ ودفن ولم یصل علیہ ۔ (درمختار:۳؍۱۳۱،مکتبہ زکریا)
"من استهل بعد الولادة سمي، وغسل وصلي علیه". (الهندية، الباب الحادي العشر في صلاة الجنازة، الفصل الثاني في الغسل)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اکراماً سجدہ تعظیمی بھی غیر اللہ کو حرام ہے۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ سجدہ تعظیمی کا مرتکب کافر ہوجاتا ہے یا نہیں؛ لہٰذا سجدہ تعظیمی فسق ہے؛ لیکن موجب کفر نہیں ہے اور بعض کے نزدیک موجب کفر بھی ہے۔(۱)
(۱) عن الحسن قال بلغني: أن رجلا قال: یا رسول اللّٰہ علیہ نسلم علیک کما یسلم بعضنا علی بعض، أفلا نسجد لک؟ قال: لا، ولکن أکرموا نبیکم وأعرفوا الحق لأہلہ فإنہ لا ینبغي أن یسجد لأحد من دون اللّٰہ۔ (جلال الدین سیوطي، الدر المنثور ’’ماکان لبشر أن یؤتیہ اللّٰہ الکتاب‘‘ ’’سورۃ آل عمران: ۷۹‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۲)
إن السجدۃ لا تحل لغیر اللّٰہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح ’’کتاب النکاح: باب عشرۃ النساء وما لکل واحدۃ من الحقوق، الفصل الثاني‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۹، رقم: ۳۲۵۵)
من سجد للسطان علی وجہ التحیۃ أو قبل الأرض بین یدیہ لا یکفر، ولکن یأثم لارتکابہ الکبیرۃ ہو المختار قال الفقیہ: وإن سجد للسطان بنیۃ العبادۃ أو لم تحضرہ النیۃ فقد کفر…(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثامن: والعشرون في ملاقاۃ الملوک‘‘: ج ۵، ص: ۴۲۵)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جمیع ما کان وما یکون یعنی ہر چیز کا علم یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس میں کوئی بھی مخلوق بشمول انبیاء علیہم الصلوٰۃ والتسلیم اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم دیا گیا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تھا ذاتی علم نہیں تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ہیں؛ کیونکہ عالم الغیب ہونا یہ خدا تعالیٰ کی خاص صفت ہے؛ لہٰذا ایسا عقیدہ رکھنے والا گمراہ اور کھلی ہوئی بدعت میں ہے اس طرح کے عقیدہ سے بچنے کی سخت ضرورت ہے {وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (۱) {قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُط} (۲) {إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ شَھِیْدًاہ۵۵}(۳) {عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ أَحَدًاہلا ۲۶ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ}(۴)
(۱) سورۃ الأنعام: ۵۹۔ (۲) سورۃ النمل: ۶۵۔
(۳) سورۃ الأحزاب: ۵۵۔ (۴) سورۃ الجن: ۲۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص225
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں تلک کا لفظ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی مشرکانہ ذہنیت کار فرما ہے۔ اگر ایسا ہے، تو اس کی قطعاً اجازت اور گنجائش نہیں ہے، ویسے دلہا کو بغیر کسی دکھلاوے کے کچھ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، شرط یہ ہے، اس کو رسم کی شکل نہ دی جائے۔(۲)
(۲) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
أخذ أہل المرأۃ شیئا عند التسلیم فللزوج أن یستردہ لأنہ رشوۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۳، ص: ۲۰۰)
ومن السحت: ما یأخذہ الصہر من الختن بسبب بنتہ بطیب نفسہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فرع یکرہ إعطاء مسائل المسجد إلا إذا لم‘‘: ج ۶، ص: ۴۲۴)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص438
اسلامی عقائد
Ref. No. 2820/45-4423
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعا اولاد کی کثرت پسندیدہ ہے۔ احادیث میں زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی طرف رغبت دلائی گئی ہے۔
عن معقل بن يسار قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تزوجوا الودود الولود فانی مکاثر بکم الامم - و قید بھذین لأن الولود إذا لم تكن ودودا لم يرغب الزوج فيها ، و الودود إذا لم تكن ولودا لم يحصل المطلوب وھو تكثير الأمة بكثرة التوالد ای مفاخر بکم سائر الأمم لكثرة أتباعى (مرقاة المفاتيح شرح مشكوة المصابیح ، کتاب النکاح 5/2047 دارالفکر)
رزق اور دیگر وسائل کے پیدا کرنے کی ذمہ داری الللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے: وما من دابۃ فی الارض الاعلى الله رزقها ويعلم مستقرها ومستودعها كل في كتاب مبين' (سور ہود 6) اسلئے معاشی خوف سے مانع حمل ذرائع کا استعمال شرعا جائز نہیں ہے۔
ولا تقتلوا اولادكم خشية املاق نحن نرزقهم واياكم إن قتلهم كان خطئا كبيرا (سورة الاسراء ٣١ )
اگر بچہ کے اعضاء بن چکے ہوں جس کی مدت ایکسوبیس دن ہیں تو ایسی صورت میں حمل کو ساقط کرنا یا کروانا قتل نفس کی وجہ سے ناجائز ہے اور ایک سو بین دن سے پہلے حمل ساقط کرانا مکرده و نا پسندیدہ ہے ۔
وفى الذخیر لو أرادت إلقاء الماء بعد وصوله إلى الرحم قالوا ان مضت مدۃ ینفخ فیہ الروح لایباح لھا وقبلہ اختلف المشائخ فیہ والنفخ مقدر بمائة وعشر ين يوما با لحدیث کمافی الشامی۔ العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقہ کا لشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق یجوز (الفتاوی الھندیۃ 5/456)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. 41/838
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوسرے ملک کی کرنسی کا روپئے سے تبادلہ اس طور پر کہ دونوں طرف ادھار ہو یہ ناجائز ہے۔ لیکن اگر مجلس میں ایک کرنسی پر قبضہ ہوجائے اور اس کرنسی کی قیمت اسی مجلس میں طے کرکے ادھار رکھاجائے تو اس کی گنجائش ہے، تاکہ بعد میں قیمت وصول کرتے وقت اختلاف و نزاع نہ ہو۔ ولوباع الفلوس بالفلوس او بالدراھم او بالدنانیر فنقد احدھما دون الآخر جاز، وان افترقا لاعن قبض احدھما جاز (البحر۶/۲۱۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب اس شخص نے یہ کلمہ کہا کہ ہم کافر ہیں معاذ اللہ تو وہ شخص کافر ہوگیا پس اگر وہ توبہ اور تجدید ایمان نہ کرے تو مسلمان اس کے مرنے جینے میں شریک نہ ہوں۔(۲)
(۲) قال في البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لا عبا کفر عند الکل، ولا اعتبار باعتقادہ، کما صرح بہ في الخانیۃ، ومن تکلم بہا مخطئاً أو مکرہاً لا یکفر عند الکل، ومن تکلم بہاعامداً عالماً کفر عند الکل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶،ص: ۳۵۶)
مسلم قال: أنا ملحد یکفر، ولو قال: ما علمت أنہ کفر لا یعذر بہذا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر: ج ۲، ص: ۲۸۹)
تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتی تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)
دار الافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقریبات کے لیے دن وتاریخ متعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اگر کسی دن یا تاریخ کو دیگر تاریخ کے مقابلہ میں باعث ثواب سمجھا جائے اور اس کا التزام کیا جائے جب کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، تو یہ بدعت ہوگا۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
عن ابن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلث یا علي ألا تؤخر ہن: الصلوٰۃ إذا آنت، الجنازۃ إذا حضرت، والأیم إذا وجدت کفوء اً۔ (أخرجہ الحاکم، في مستدرکہ: ج ۲، ص: ۱۷۶، رقم: ۲۶۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص439
اسلامی عقائد
Ref. No. 39/1048
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔۱/ نمازہوجائے گی۔۲/ امام صاحب کا انتظامیہ کی اجازت سے مسجد کے کولر وغیرہ کا استعمال کرنا درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال ہر وہ شخص جس کے یہ نظریات وعقائد اور اعمال ہیں دائرۂ ایمان سے خارج اور مرتد ہے۔(۱)
(۱) {إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْإِسْلَامُ قف} (سورۃ آل عمران: ۱۹) وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُج وَھُوَ فِي الْأٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَہ۸۵} (سورۃ آل عمران: ۸۵)
قال أبو حفص -رحمہ اللّٰہ- من نسب اللّٰہ تعالیٰ إلی الجور فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، منہا: ما یتعلق بذات اللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۹)
فما یکون کفرا بالاتفاق یوجب احباط العمل کما في المرتد۔ (عبدالرحمن، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، الصبي العاقل إذا ارتد‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)
الحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلاً أو لاعباً کفر عندالکل۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند