اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دولہا کا نکاح کے بعد سلامی کے لیے عورتوں میں جانا ایک رسم اور بدعت ہے، نیز غیر محرم عورتوں سے اختلاط ہوتا ہے، جو جائز نہیں؛ تاہم مذکورہ رسم ورواج کے تحت اگر پیسہ لیا گیا تو کوئی حرمت نہیں آئے گی۔ اس لیے اس کا استعمال جائز اور درست ہوگا، اگر ایسے موقع پر ہدیہ یا تحفہ کی نیت سے کچھ دیں تو گناہ نہ ہوگا۔(۱)

(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص441

اسلامی عقائد

Ref. No. 1129/42-416

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ﷺ کی ساری سنتیں اہم ہیں۔ بڑی اور سب سے بڑی کی کوئی اصطلاح کتابوں میں نہیں ملتی ہے۔ ہاں سنت مؤکدہ اور غیرمؤکدہ کی تعبیر استعمال ہوتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1578/43-1110

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن وحدیث اجماع وقیاس سے  ثابت  شدہ مسائل کی تعداد لاکھوں میں ہے جن پر پورے دین کا اطلاق ہوگا۔ البتہ دعوت و تبلیغ کے جو چھ نمبرات ہیں وہ دین کے اہم ترین اعمال و احکام ہیں،  ان پر چلنے سے اور ان صفات کو اختیار کرنے سے  پورے دین پر چلنا آسان ہوجاتاہے، یہی بات مرکزکے اکابر سے منقول ہے۔ توحید و رسالت کا اقرار و یقین، نماز کا اہتمام، دین کا علم، اللہ تعالیٰ کا ذکر و استحضار، اخلاق نبویہ،اخلاص نیت اور دعوت دین وغیرہ اموردین کے اہم ترین اعمال و احکام کہلاتے ہیں ۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال چوںکہ مذکورہ شخص نے کفریہ و شرکیہ افعال سے توبہ کرلی ہے؛ اس لئے مذکورہ شخص مسلمان ہے۔ قرآن کریم میں ہے {إِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَأَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَأَخْلَصُوْا دِیْنَھُمْ لِلّٰہِ فَأُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُوْمِنِیْنَط} (۳

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہٗ‘‘(۱) لہٰذا سچی توبہ، آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح سب کچھ ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو اس کے ساتھ ایک مسلم جیسا برتائو لازم ہے اور چوںکہ یہ کفریہ اعمال برسر عام ہوئے تھے، تو اب ان کو لازم ہے کہ توبہ کا اعلان بھی برسر عام کرے۔(۲

-----

(۳) سورۃ النساء: ۱۴۶۔

 

(۱) عن أبي عبیدۃ بن عبد اللّٰہ عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ (أخرجہ، ابن ماجہ في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ذکر التوبۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)

(۲) {وَہُوَ الَّذِيْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُوْ عَنِ السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَہ۲۵} (سورۃالشوریٰ: ۲۵)

)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قیامت کا علم اللہ کے لیے مخصوص ہے، یہ علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں دیا گیا۔(۱)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَج وَیَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِط وَمَا تَدْرِيْ  نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًاط وَمَا  تَدْرِيْ نَفْسٌ م بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوْتُط إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌہع۳۴} (سورۃ اللقمان: ۳۴)

فتاوی دارالعلوموقف دیوبند ج1ص226

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں نہ کوئی نذر ہوئی اور نہ ہی وہاں جانا ضروری ہے۔ بلکہ ایسا کرنا گناہ ہے۔ (۱)

(۱) إن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو بالإجماع باطل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فہذا النذر باطل بالاجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
منہا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز؛ لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق … یا اللّٰہ إني نذرت لک إن شفیت مریضي أورددت غائبي أو قضیت حاجتي أن أطعم الفقراء الذین بباب السیدۃ نفیسۃ الخ۔ (أیضاً:)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص350

اسلامی عقائد

Ref. No. 39/1067

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے، اس کا چھپانا لازم ہے،ستر پورے طور پر چھپاہوا ہے تو پھر بچوں کے ساتھ نہانے میں حرج نہیں ہے، البتہ احتیاط بہتر ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
السلامُ علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ہمارا ( اہل سنت والجماعت سنی حنفی ( دیوبندی)) عقیدہ ہے کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہے بے گناہ ہے سوال بسم الله الرحمن الرَّحِيمِ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ یے سورہ فتح کی آیت ہے اس اس آیت میں حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اردو ترجمہ یو کیا ہے تاکہ اللہ تعالٰی آپ کی سب اگلے پچھلے خطائیں معاف فرما دے تو اس میں کونسے کہتا کی نسبت کی ہے ایک دو خطائیں بتا کے میرا عقیدہ اور مجبوت کر نے کی رہنمائی کرو گے؟

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر اللہ کو سجدہ کرنا تعظیما حرام ہے شرک نہیں ہے تاہم ایسا عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے۔(۳) حضرت آدم علیہ السلام یا حضرت یوسف علیہ السلام کو سجدہ کرانے کا حکم اس شریعت میں منسوخ ہوچکا ہے۔ نیز حضرت آدم علیہ السلام کو ملائکہ نے جو سجدہ کیا وہ اللہ جل شانہٗ کے حکم سے کیا، یہ ایسا ہے جیسے اس امت کو بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اگر حضرت آدم علیہ السلام کی تعظیم ہی مقصود ہو اس سجدے سے تویہ حکم بھی منسوخ ہوگیا؛ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا: ’’لو کنت آمراً أحداً أن یسجد لغیر اللّٰہ لأمرت المرأۃ أن تسجد لزوجھا‘‘(۱) اس لئے ایسا عقیدہ رکھنے والے کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔

(۳) إذا سجد لإنسان سجدۃ تحیۃ لا یکفر، کذا في السراجیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۰)

إذا سجد لإنسان سجدۃتحیہ لا یکفر۔ (أبو محمد، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب السیر‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)

(۱أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ج ۴، ص: ۳۵۳، رقم: ۱۸۵۳۔

 

 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت کی شرعاً کوئی اصل و اہمیت نہیں ہے؛ اس لئے اس پر عمل کرنا ناجائز ہے۔(۱)

(۱) {وَلَا  تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰیط} (سورۃ بني إسرائیل: ۱۵)
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا-، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحۃ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص351