اسلامی عقائد

Ref. 41/838

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوسرے ملک کی کرنسی کا روپئے سے تبادلہ اس طور پر کہ دونوں طرف ادھار ہو یہ ناجائز ہے۔ لیکن اگر مجلس میں ایک کرنسی پر قبضہ ہوجائے اور اس کرنسی کی قیمت اسی مجلس میں طے کرکے ادھار رکھاجائے تو اس کی گنجائش ہے، تاکہ بعد میں قیمت  وصول کرتے وقت اختلاف و نزاع نہ ہو۔ ولوباع الفلوس بالفلوس او بالدراھم او بالدنانیر  فنقد احدھما دون الآخر جاز، وان افترقا لاعن قبض احدھما جاز (البحر۶/۲۱۹)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب اس شخص نے یہ کلمہ کہا کہ ہم کافر ہیں معاذ اللہ تو وہ شخص کافر ہوگیا پس اگر وہ توبہ اور تجدید ایمان نہ کرے تو مسلمان اس کے مرنے جینے میں شریک نہ ہوں۔(۲)

(۲) قال في البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لا عبا کفر عند الکل، ولا اعتبار باعتقادہ، کما صرح بہ في الخانیۃ، ومن تکلم بہا مخطئاً أو مکرہاً لا یکفر عند الکل، ومن تکلم بہاعامداً عالماً کفر عند الکل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶،ص: ۳۵۶)

مسلم قال: أنا ملحد یکفر، ولو قال: ما علمت أنہ کفر لا یعذر بہذا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر: ج ۲، ص: ۲۸۹)

تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتی تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)

دار الافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقریبات کے لیے دن وتاریخ متعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اگر کسی دن یا تاریخ کو دیگر تاریخ کے مقابلہ میں باعث ثواب سمجھا جائے اور اس کا التزام کیا جائے جب کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، تو یہ بدعت ہوگا۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
عن ابن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلث یا علي ألا تؤخر ہن: الصلوٰۃ إذا آنت، الجنازۃ إذا حضرت، والأیم إذا وجدت کفوء اً۔ (أخرجہ الحاکم، في مستدرکہ: ج ۲، ص: ۱۷۶، رقم: ۲۶۸۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص439
 

اسلامی عقائد

Ref. No. 39/1048

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔۱/ نمازہوجائے گی۔۲/ امام صاحب کا انتظامیہ کی اجازت سے مسجد کے کولر وغیرہ کا استعمال کرنا درست ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال ہر وہ شخص جس کے یہ نظریات وعقائد اور اعمال ہیں دائرۂ ایمان سے خارج اور مرتد ہے۔(۱)

(۱)  {إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْإِسْلَامُ قف} (سورۃ آل عمران: ۱۹) وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُج وَھُوَ فِي الْأٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَہ۸۵} (سورۃ آل عمران: ۸۵)

قال أبو حفص -رحمہ اللّٰہ- من نسب اللّٰہ تعالیٰ إلی الجور فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، منہا: ما یتعلق بذات اللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۹)

 فما یکون کفرا بالاتفاق یوجب احباط العمل کما في المرتد۔ (عبدالرحمن، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، الصبي العاقل إذا ارتد‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)

 الحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلاً أو لاعباً کفر عندالکل۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کھانے میں شرکت میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب لازم نہ آئے۔(۱)
(۱) وقال أنس رضي اللّٰہ عنہ: إذا دخلت علی مسلم لا یتہم، فکل من طعامہ واشرب من شرابہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب من انتظر حتی تدفن‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۴۶۰)
عن أبي الزبیر، عن جابر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا دعي أحدکم إلی طعام، فلیجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترک۔ (أخرجہ مسلم: في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۴۳۰)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: الضیافۃ ثلاثۃ أیام فما سوی ذلک فہو صدقۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الأطعمۃ: باب ما جاء في الضیافۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۶، رقم: ۳۷۴۹)
لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰
۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص440

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دولہا کا نکاح کے بعد سلامی کے لیے عورتوں میں جانا ایک رسم اور بدعت ہے، نیز غیر محرم عورتوں سے اختلاط ہوتا ہے، جو جائز نہیں؛ تاہم مذکورہ رسم ورواج کے تحت اگر پیسہ لیا گیا تو کوئی حرمت نہیں آئے گی۔ اس لیے اس کا استعمال جائز اور درست ہوگا، اگر ایسے موقع پر ہدیہ یا تحفہ کی نیت سے کچھ دیں تو گناہ نہ ہوگا۔(۱)

(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص441

اسلامی عقائد

Ref. No. 1129/42-416

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ﷺ کی ساری سنتیں اہم ہیں۔ بڑی اور سب سے بڑی کی کوئی اصطلاح کتابوں میں نہیں ملتی ہے۔ ہاں سنت مؤکدہ اور غیرمؤکدہ کی تعبیر استعمال ہوتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1578/43-1110

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن وحدیث اجماع وقیاس سے  ثابت  شدہ مسائل کی تعداد لاکھوں میں ہے جن پر پورے دین کا اطلاق ہوگا۔ البتہ دعوت و تبلیغ کے جو چھ نمبرات ہیں وہ دین کے اہم ترین اعمال و احکام ہیں،  ان پر چلنے سے اور ان صفات کو اختیار کرنے سے  پورے دین پر چلنا آسان ہوجاتاہے، یہی بات مرکزکے اکابر سے منقول ہے۔ توحید و رسالت کا اقرار و یقین، نماز کا اہتمام، دین کا علم، اللہ تعالیٰ کا ذکر و استحضار، اخلاق نبویہ،اخلاص نیت اور دعوت دین وغیرہ اموردین کے اہم ترین اعمال و احکام کہلاتے ہیں ۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال چوںکہ مذکورہ شخص نے کفریہ و شرکیہ افعال سے توبہ کرلی ہے؛ اس لئے مذکورہ شخص مسلمان ہے۔ قرآن کریم میں ہے {إِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَأَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَأَخْلَصُوْا دِیْنَھُمْ لِلّٰہِ فَأُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُوْمِنِیْنَط} (۳

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہٗ‘‘(۱) لہٰذا سچی توبہ، آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح سب کچھ ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو اس کے ساتھ ایک مسلم جیسا برتائو لازم ہے اور چوںکہ یہ کفریہ اعمال برسر عام ہوئے تھے، تو اب ان کو لازم ہے کہ توبہ کا اعلان بھی برسر عام کرے۔(۲

-----

(۳) سورۃ النساء: ۱۴۶۔

 

(۱) عن أبي عبیدۃ بن عبد اللّٰہ عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ (أخرجہ، ابن ماجہ في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ذکر التوبۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)

(۲) {وَہُوَ الَّذِيْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُوْ عَنِ السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَہ۲۵} (سورۃالشوریٰ: ۲۵)

)