بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کون سی جماعت دین کا کتنا اور کس اہمیت کا کام انجام دے رہی ہے اس سلسلہ میں رجحانات مختلف ہیں، مدارس میں قرآن کریم کی تفسیر، قرآن، حدیث، اصول، فقہ، فتاویٰ اور ان کے مبادیات، ان کے لئے موقوف علیہ نحو و صرف میں تبحر کی تعلیم دی جاتی ہے جس پر دین کی بنیاد قائم ہے اور پھر اس کی تبلیغ و اشاعت کا کام ہوتا ہے ہر زمانے میں اس کام کے کرنے والے موجود رہے ہیں، پس عوام کو مدارس کی تنقیص اور عیوب نکالنا نیز اس طرح کے مسائل میں پڑکر وقت ضائع کرنا درست نہیں ہے اس سے تخریبی ذہن تیار ہوتا ہے جو مذموم اور باعث فساد ہے۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین۔ (أخرجہ الترمذي، فی صحیحہ، ’’أبواب العلم، باب إذا أراد اللّٰہ شر بعبد خیراً فقہہ في الدین‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۵)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من خرج في طلب العلم فہو في سبیل اللّٰہ حتی یرجع۔ ہذا حدیثٌ حسنٌ غریبٌ۔ (’’أیضاً‘‘: باب فضل طلب العلم‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۱۰)
وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: الإیمان بضع وسبعون شعبۃ فأفضلہا قول لا إلہ إلا اللّٰہ وأدناہا إماطۃ الأذی عن الطریق والحیاء شعبۃ من الإیمان: متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص314

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہرکام میں اعتدال مطلوب ہے، کسی نیک کام اور عبادت میں جو اعتدال سے تجاوز ہو وہ درست نہیں۔ درس و تدریس وغیرہ امور بھی دین کی اہم اور بنیادی  ضروریات ہیں؛ بلکہ عام مروجہ تبلیغ کا سرچشمہ ہیں(۱) اور مروجہ تبلیغ کی افادیت بھی مسلم ہے۔(۲) اور ضرورت ہر طبقہ و ہر درجہ کی ہے۔ اس لئے کہ دین اسلام پوری زندگی پر محیط ہے۔ اور اس کے متعدد شعبہ جات ہیں۔ ہر شعبہ میں کام کی ضرورت ہے اور جو شخص ایک شعبہ میں کام کر رہا ہے اور دوسرے شعبہ کا شخص اس کی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا تو اس کو اپنے شعبہ کے فرائض کی انجام دہی کو مقدم رکھنا چاہئے ’’لکل مقام مقال ولکل عمل رجال‘‘۔
تبلیغ جماعت میں چند افراد ایسے ہیں جن میں ضرورت سے زیادہ شدت ہے اور وہ مدارس کی ضرورت تک کا بھی انکار کردیتے ہیں، ایسے افراد کی باتوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنے فریضہ کو انجام دیا جائے کہ ہر جماعت کا ہر فرد اعتدال پسند اور معتدل مزاج نہیں ہوتا، حسب موقع درس وتدریس تقریر وتحریر اور مروجہ تبلیغ وغیرہ کے ذریعہ دین کی خدمات کو انجام دیتے رہنا چاہئے، عام حالات میں صرف مستحبات پر عمل کرنے کیلئے والدین کی رضا کے خلاف چلنا بھی اچھا نہیں ہے، مدرسین علماء واہل علم ان امور کی ضرورت کو اچھی طرح سمجھتے رہیں۔

(۱) الأمر بالمعروف یحتاج إلی خمسۃ أشیاء: ألأول العلم لأن الجاہل لا یحسن الأمر بالمعروف۔ (جماعۃ من العلماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ج ۵، ص: ۳۵۳)
(۲) من دل علی خیر فلہ مثل أجر فاعلہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإمارۃ: باب فضل إعانۃ الغازي في سبیل اللّٰہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص314

بدعات و منکرات

Ref. No. 1609/43-1315

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

الجواب وباللہ التوفیق:۔ بزرگان دین،و اولیائے کرام اور دیگر نیک وپرہیزگار بندوں کے وسیلہ سے اللہ تعالی سے دعا کرنے کی گنجائش ہے ۔  مثلاً یوں کہے: اے اللہ! اپنے اولیا کے طفیل یا فلاں بزرگ کے طفیل میری دعا قبول فرما،  اس طرح وسیلہ سے دعا کی جاسکتی ہے، البتہ  کسی خاص نام کے ساتھ دعا میں وسیلہ اسی کو بنایاجائے جس کے بارے میں عنداللہ مقبولیت کا یقین ہو۔  عنداللہ مقبولیت کسی  کے سلسلہ میں معلوم نہیں ، اس لئے مطلقا دعا کی جائے کہ یا اللہ اپنے بزرگ اور پرہیزگار بندوں کے طفیل میری فلاں ضرورت پوری فرما وغیرہ۔ بہرحال  صورت مسئولہ میں  اس طرح نام کے ساتھ وسیلہ اختیار کرنا درست  نہیں؛اس سے احتراز کیا جائے۔ کسی کی عقیدت میں غلو کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ جاری رکھاگیا تو اندیشہ ہے کہ آئندہ چل کر وسیلہ  درمیان سے ساقط ہوجائے اور براہ راست اسی بزرگ سے دعا کی جانے لگے اور اسی کو مشکل کشا سمجھاجانے لگے جیسا کہ بیشتر مزارات کی تاریخ بہت افسوس ناک ہے۔

وبعد هذا كله أنا لا أرى بأسا في التوسل إلى الله تعالى بجاه النبي صلّى الله عليه وسلّم عند الله تعالى حيا وميتا - - - - إلهي أتوسل بجاه نبيك صلّى الله عليه وسلّم أن تقضي لي حاجتي، إلهي اجعل محبتك له وسيلة في قضاء حاجتي، ولا فرق بين هذا وقولك: إلهي أتوسل برحمتك أن تفعل كذا إذ معناه أيضا إلهي اجعل رحمتك وسيلة في فعل كذا، ۔ ۔ ۔ أن التوسل بجاه غير النبي صلّى الله عليه وسلّم لا بأس به أيضا إن كان المتوسل بجاهه مما علم أن له جاها عند الله تعالى كالمقطوع بصلاحه وولايته، وأما من لا قطع في حقه بذلك فلا يتوسل بجاهه لما فيه من الحكم الضمني على الله تعالى بما لم يعلم تحققه منه عز شأنه،(تفسیر الآلوسی – روح المعانی سورۃ المائدۃ 27 3/297)

وأما التوسل بالصالحین فمنہ ما ثبت فی الصحیح أن الصحابة استسقوا بالعباس رضي اللہ عنہ․ وقال عمر رضی اللہ عنہ: اللہم إنا نتوسل إلیْک بعم نبینا (فتاوی رشیدیہ 142)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دعوت و تبلیغ کے متعدد و مختلف طریقے ہیں جو زمانہ اور احوال سے مختلف ہوتے رہتے ہیں دعوت و تبلیغ کے ہر گوشہ میں کام ہونا مطلوب ہے۔ وہ مختلف طریقے یہ ہیں کہ کوئی درس و تدریس میں مصروف ہے کوئی وعظ و تقریر میں کوئی نصیحت میں اور کوئی دین کی معمولی باتوں کی سمجھ رکھتا ہے اسی اعتبار سے اپنے کسی بھائی کو سمجھاتا اور نماز روزہ سکھاتا ہے یا اس کی ترغیب دیتا ہے ۔ اس اعتبار سے تمام علماء دعوت و تبلیغ کے کام میں مشغول ہیں اور مدارس سے یہ کام اعلیٰ پیمانہ پر ہو رہا ہے تبلیغ ہر شخص پر لازم ہے اس کو تبلیغی جماعت کے مروجہ طریقے میں محدود کردینا صحیح نہیں ہے۔ اور نہ ہی علماء اور مدارس پر اعتراض درست ہے۔ (۱)

(۱) فالفرض ہو العلم بالعقائد الصحیحۃ ومن الفروع ما یحتاج۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري: ج ۴، ص: ۳۴۳)
بلغوا عني ولو آیۃ۔ (أخرجہ البخاری، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء: باب ما ذکر عن بني إسرائل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۰، رقم: ۱۹۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص316

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دینی تعلیم و تربیت کے لئے اور اسلامی فکر پیدا کرنے کے لئے کوئی کتاب متعین نہیں ہے۔ علماء دین و متقدمین حضرات جس کتاب کو مفید سمجھیں اس کو پڑھنا چاہئے کسی ایک ہی کتاب پر اصرار بھی درست نہیں ہے۔ نیز وقت کی تعیین بھی اکثر نمازیوں کا خیال رکھتے ہوئے کی جائے صورت مسئولہ میں ایک عالم تفسیر بیان کرتے ہیں جس کے مہتمم بالشان ہونے سے کسی کو انکار نہیں ہے اور عالم دین خود اس کی افادیت کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے جس وقت میں پہلے سے تفسیر ہوتی ہے اس میں رخنہ اندازی اور اختلافات بالکل درست نہیں کسی دوسرے وقت تبلیغی نصاب اور کبھی کوئی دیگر کتاب پڑھنی چاہئے۔(۱)

(۱) عن محمد بن کعب القرطبي قال: سمعت ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قرأ حرفاً من کتاب اللّٰہ فلہ بہ حسنۃ، والحسنۃ بعشرۃ أمثالہا أما اني لا أقول: {الم} (البقرۃ: ۱) حرفٌ، ولکن ألفٌ حرفٌ، ولام حرفٌ، ومیمٌ حرفٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن، باب فمن قرأ حرفا من القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۱۱۹، رقم: ۲۹۱۰)
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قرأ القرآن وعمل بما فیہ، ومات في الجماعۃ بعثہ اللّٰہ یوم القیامۃ مع السفرۃ والبررۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان: ج ۳، ص: ۳۷۶، رقم: ۱۸۳۷)
عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۷۵۲، رقم: ۵۰۲۷)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أفضلکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (’’أیضاً‘‘:، رقم: ۵۰۲۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص317

بدعات و منکرات

Ref. No. 1524/43-1014

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ذکر اللہ میں اصل یہ ہے کہ سری ہو اور انفرادی ہو، مذکورہ بالا ذکر بھی انفرادی طور پر ہونا چاہئے، اجتماعی ذکر سے بچنا چاہئے۔  البتہ پیرطریقت اپنے مریدین کی اصلاح کے لئے اس طرح کی مجلس ذکر کے لئے منعقد کرسکتاہے۔اس طرح کا ذکرکارِ ثواب سمجھ کر کرنے کے بجائے  اصلاحِ نفس کی غرض سے روح کے علاج کے لئے ہی ہوناچاہئے۔ دوکان و مکان کی خیروبرکت کے لئے یہ عمل درست  نہیں اور نام نمود اور ریاکا شائبہ ہے اور دیگر لوگوں کو اس طریقہ کار سے پریشانی لاحق ہونے اورمتنفر ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ اس لئے اس رواج کو ختم کرنا چاہئے۔دوکان و مکان میں خیروبرکت کے حصول کے لئے  قرآن کریم کی تلاوت کافی ہے۔ اہل خانہ تلاوت کا اہتمام کریں تو زیادہ مفید ثابت ہو اورزیادہ  برکتیں نازل ہوں۔ مزید تسلی کے لئے اس موضوع سے متعلق کتاب ’’حکم الذکر بالجہر‘‘ مؤلفہ مولانا سرفراز احمد خان صفدر مدظلہ"  وغیرہ کا مطالعہ شایدمفید ثابت ہوگا۔

  اجمع العلماء سلفا وخلفا علی استحباب ذکر الجماعۃ فی المساجد وغیرھا الا ان یشوش جھرھم علی نائم او مصل او قاری"  الخ (شامی 1/66) ان رفع الصوت بالذکر حين ينصرف الناس من المکتوبة کان علی عهد نبی صلی الله عليه وآله وسلم وقال ابن عباس کنت أعلم إذا بذلک إذا سمعته. (مسلم شریف 1/410 الرقم: 583)

ان الجهر أفضل لأنه اکثر عملاً ولتعدی فائدته، الی السامعين ويوقط قلب الذاکر فيجمع همه الی الفکر و يصرف سمعه و بطرد النوم ويزيد انشاط. (شامی 1/660)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1062/41-231

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  قرآنی آیات و احادیث میں مذکور ادعیہ ماثورہ کے ذریعہ علاج بلاشبہ درست  وجائز ہے۔ البتہ کالی مرغی کو کاٹ کر قبرستان میں دفن کرنا یا اس طرح کا کوئی اور عمل جائز نہیں ہے۔اس طرح  علاج کرنے  اور کرانے والے پر توبہ واستغفار لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1273/42-624

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   (1) جنازہ کی نماز خود دعا ہے اور اس میں میت کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ہی اصل ہے، جنازہ کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا قرآن وسنت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، اس لیے اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ممنوع اور بدعت ہے، ہاں انفرادی طور پر ہاتھ اٹھائے بغیر دل ہی دل میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(2) میت کو دفن کرنے کے بعد دعا کرنا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لہذا  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  پیروی کرتے ہوئے  قبر کے پاس کھڑے ہوکردعا کرنا جائز ہے۔

''ولا يدعو للميت بعد صلاة الجنازة؛ لأنه يشبه الزيادة في صلاة الجنازة'' (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 149) "لايقوم بالدعاء في قراءة القرآن لأجل الميت بعد صلاة الجنازة". (خلاصة الفتاوي،كتاب الصلاة، الفصل الخامس و العشرون في الجنائز، 1/225، ط: رشيدية) ’’عن ابن مسعود قال: والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك، وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول الله وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه يقول: اللّٰهم إني أمسيت عنه راضياً فارض عنه، وكان ذلك ليلاً، فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه‘‘ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 5/452)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1791/43-1531

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن پاک کی تلاوت پر قاری کو ثواب ملتاہے اور ہر حرف پر دس نیکیاں اور اس سے زیادہ ملنے کی احادیث میں صراحت آئی ہے،  البتہ شرط یہ ہے کہ قراءت قرآن کا مقصد اللہ کی خوشنودی ہو، ورنہ آدمی ثواب سے محروم رہے گا۔ جب کوئی بندہ اخلاص کے ساتھ تلاوت کرے تو اس کو جو ثواب حاصل ہوا اس کو دوسروں کوبھی پہونچاسکتاہے۔ لیکن اگر ریاکاری وغیرہ کسی  وجہ سے اس کو خود ثواب حاصل نہیں ہوا تو دوسروں کو ایصال ثواب کیسے کرسکتاہے، اس لئے آج کل کی مروجہ قرآن خوانی میں اس کا اہتمام  ہو کہ لوگوں سے انفرادی طور پر قرآن خوانی کی درخواست کردی جائے ، اجتماعی قرآن خوانی کا نظم نہ بنایا جائے۔جن لوگوں کو میت سے خصوصی تعلق تھا وہ خلوص کے ساتھ تلاوت کریں گے اور اس کا ثواب میت کو پہونچے گا،   اور اس سے میت کو فائدہ پہونچے گا۔

عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم لقي ركبا بالروحاء، فقال: «من القوم؟» قالوا: المسلمون، فقالوا: من أنت؟ قال: «رسول الله»، فرفعت إليه امرأة صبيا، فقالت: ألهذا حج؟ قال: «نعم، ولك أجر»(صحیح مسلم کتاب الحج ،باب صحۃ حج الصبی واجر من حج بہ 2/974)

ان المراد ان ذلك بسبب حملها له وتجنيبها اياه ما يجتنبہ المحرم واستدل به بعضهم على ان الصبي يثاب على طاعته ويكتب له حسناته وهو قول اكثر اهل العلم (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج7،ص553،مطبوعہ ملتان)

وتصح عباداته وان لم تجب عليه واختلفوا في ثوابها والمعتمد انه له وللمعلم ثواب التعليم وكذا جميع حسناته‘‘(الاشباہ والنظائر،ص264،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت) الاصل فی ھذا الباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره) يعني سواء كان جعل ثواب عمله لغيره(صلاةاو صوما او صدقة او غيرها)كالحج وقراءة القران والاذكار وزيارة قبور الانبياءوالشهداء والاولياءوالصالحين وتكفين الموتى وجميع انواع البر (البنایہ شرح ھدایہ،کتاب الحج ،باب الحج عن الغیر،ج4،ص422،مطبوعہ کوئٹہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے متعدد طریقے ہیں جن میں سے ایک طریقہ مروجہ تبلیغ ہے لیکن مروجہ تبلیغ ہی کو مخصوص کر لینا غلط ہے۔(۲)

(۲) {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ہ۱۰۴} (سورۃ آل عمران: ۱۰۴)…{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ إِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ إِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَہ۳۳} (سورۃ فصلت: ۳۳)
{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ إِلَی اللّٰہِ} أي إلی توحیدہ تعالیٰ وطاعتہ والظاہر العموم في کل داع إلیہ تعالیٰ وإلی ذلک ذہب الحسن ومقاتل وجماعۃ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ فصلت: ۳۳‘‘: ج ۱۳، ص: ۱۸۸)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص324