بدعات و منکرات

Ref. No. 1273/42-624

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   (1) جنازہ کی نماز خود دعا ہے اور اس میں میت کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ہی اصل ہے، جنازہ کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا قرآن وسنت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، اس لیے اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ممنوع اور بدعت ہے، ہاں انفرادی طور پر ہاتھ اٹھائے بغیر دل ہی دل میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(2) میت کو دفن کرنے کے بعد دعا کرنا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لہذا  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  پیروی کرتے ہوئے  قبر کے پاس کھڑے ہوکردعا کرنا جائز ہے۔

''ولا يدعو للميت بعد صلاة الجنازة؛ لأنه يشبه الزيادة في صلاة الجنازة'' (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 149) "لايقوم بالدعاء في قراءة القرآن لأجل الميت بعد صلاة الجنازة". (خلاصة الفتاوي،كتاب الصلاة، الفصل الخامس و العشرون في الجنائز، 1/225، ط: رشيدية) ’’عن ابن مسعود قال: والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك، وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول الله وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه يقول: اللّٰهم إني أمسيت عنه راضياً فارض عنه، وكان ذلك ليلاً، فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه‘‘ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 5/452)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1791/43-1531

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن پاک کی تلاوت پر قاری کو ثواب ملتاہے اور ہر حرف پر دس نیکیاں اور اس سے زیادہ ملنے کی احادیث میں صراحت آئی ہے،  البتہ شرط یہ ہے کہ قراءت قرآن کا مقصد اللہ کی خوشنودی ہو، ورنہ آدمی ثواب سے محروم رہے گا۔ جب کوئی بندہ اخلاص کے ساتھ تلاوت کرے تو اس کو جو ثواب حاصل ہوا اس کو دوسروں کوبھی پہونچاسکتاہے۔ لیکن اگر ریاکاری وغیرہ کسی  وجہ سے اس کو خود ثواب حاصل نہیں ہوا تو دوسروں کو ایصال ثواب کیسے کرسکتاہے، اس لئے آج کل کی مروجہ قرآن خوانی میں اس کا اہتمام  ہو کہ لوگوں سے انفرادی طور پر قرآن خوانی کی درخواست کردی جائے ، اجتماعی قرآن خوانی کا نظم نہ بنایا جائے۔جن لوگوں کو میت سے خصوصی تعلق تھا وہ خلوص کے ساتھ تلاوت کریں گے اور اس کا ثواب میت کو پہونچے گا،   اور اس سے میت کو فائدہ پہونچے گا۔

عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم لقي ركبا بالروحاء، فقال: «من القوم؟» قالوا: المسلمون، فقالوا: من أنت؟ قال: «رسول الله»، فرفعت إليه امرأة صبيا، فقالت: ألهذا حج؟ قال: «نعم، ولك أجر»(صحیح مسلم کتاب الحج ،باب صحۃ حج الصبی واجر من حج بہ 2/974)

ان المراد ان ذلك بسبب حملها له وتجنيبها اياه ما يجتنبہ المحرم واستدل به بعضهم على ان الصبي يثاب على طاعته ويكتب له حسناته وهو قول اكثر اهل العلم (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج7،ص553،مطبوعہ ملتان)

وتصح عباداته وان لم تجب عليه واختلفوا في ثوابها والمعتمد انه له وللمعلم ثواب التعليم وكذا جميع حسناته‘‘(الاشباہ والنظائر،ص264،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت) الاصل فی ھذا الباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره) يعني سواء كان جعل ثواب عمله لغيره(صلاةاو صوما او صدقة او غيرها)كالحج وقراءة القران والاذكار وزيارة قبور الانبياءوالشهداء والاولياءوالصالحين وتكفين الموتى وجميع انواع البر (البنایہ شرح ھدایہ،کتاب الحج ،باب الحج عن الغیر،ج4،ص422،مطبوعہ کوئٹہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے متعدد طریقے ہیں جن میں سے ایک طریقہ مروجہ تبلیغ ہے لیکن مروجہ تبلیغ ہی کو مخصوص کر لینا غلط ہے۔(۲)

(۲) {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ہ۱۰۴} (سورۃ آل عمران: ۱۰۴)…{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ إِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ إِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَہ۳۳} (سورۃ فصلت: ۳۳)
{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ إِلَی اللّٰہِ} أي إلی توحیدہ تعالیٰ وطاعتہ والظاہر العموم في کل داع إلیہ تعالیٰ وإلی ذلک ذہب الحسن ومقاتل وجماعۃ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ فصلت: ۳۳‘‘: ج ۱۳، ص: ۱۸۸)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص324

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی صورت اختیار کی جائے کہ تعلیم وغیرہ کا نقصان نہ ہو، اگر امامت وتعلیم کا متبادل نظم ہو سکے، تو جماعت میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن مذکورہ شخص اگر ملازم ہے، تو شرائط ملازمت کی پابندی ضروری ہے۔ (۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال تدارس العلم ساعۃ من اللیل خیر من إحیائہا، رواہ الدارمي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۶، رقم: ۲۵۶)
وعن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بمجلسین في مسجدہ فقال کلاہما علی خیر وأحدہما أفضل من صاحبہ أما ہٰؤلاء فیدعون اللّٰہ ویرغبون إلیہ فإن شاء أعطاہم وإن شاء منعہم وأما ہٰؤلاء فیتعلمون الفقہ أو العلم ویعلّمون الجاہل فہم أفضل وإنما بعثت معلماً ثم جلس فیہم۔ رواہ الدارمي۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۲۵۷)
(فہم أفضل) لکونہم جامعین بین العبادتین وہما الکمال والتکمیل فیستحقون الفضل علی جہۃ التبجیل۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۰، رقم: ۲۵۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص325

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ سے دعا مسجد میں اور مسجد سے باہر درست ہے، کھڑے ہوکر بھی دعا کرنا صحیح ہے۔ مذکورہ طریقہ پر دعا کرنے میں کوئی وجہ ممانعت نہیں، البتہ اسے شرعی لازمی حکم سمجھنا درست نہیں۔(۱)

(۱) {فَإِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْج} (سورۃ النساء: ۱۰۳)
{وَذَا النُّوْنِ إِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادٰی فِي الظُّلُمٰتِ أَنْ لَّا ٓ إِلٰہَ إِلَّا ٓ أَنْتَ سُبْحٰنَکَصلیق إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ  ہجصلے ۸۷  فَاسْتَجَبْنَا لَہٗلا وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ط وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَہ۸۸} (سورۃ الأنبیاء: ۸۷ -۸۸)
وعبد اللّٰہ الخطمي رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا أراد أن یستودع الجیش قال: استودع اللّٰہ دینکم وأمانتکم وخواتیم أعمالکم: رواہ أبو داود۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب أسماء اللّٰہ تعالیٰ: باب الدعوات في الأوقات، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص326

بدعات و منکرات

Ref. No. 2568/45-3928

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   عمرہ  پر جانے سے پہلے آدمی کے ذمہ جو حقوق واجبہ ہیں ان کی ادائیگی کی کوشش کرے، اور قرض وغیرہ جو کچھ بھی ذمہ میں ہو، اس کو اداکرے، پھر اگر گنجائش ہو تورشتہ دار، دوست و احباب کی دعوت کرنا تاکہ سب سے ملاقات ہوجائے فی نفسہ جائز ہے، اور دعوت میں سلیقہ مندی کا مظاہرہ ہو ، کوئی ایسا کام نہ ہو کہ بعض  دوسرے رشتہ داروں کی ایذا کا سبب بنے، لیکن چونکہ آج کل ان دعوتوں میں بہت سی خرابیاں در آئی  ہیں ، اور آئندہ مزید مفاسد پیداہونے کا اندیشہ ہے، اس لئے اس کا ترک مناسب معلوم ہوتاہے۔ عمرہ ایک اہم عبادت ہے، ریا  اور نام و نمود اس کے ثواب کو خاکستر کرسکتاہے۔تاہم  اگر کسی نے دعوت  کے اصول وآداب کی رعایت کے ساتھ دعوت کردی تو تحفہ کے لین دین سے اجتناب کرنا چاہئے کہ کہیں یہ آئندہ چل کر رسم نہ بن جائے ۔ جب کوئی چیز رسم بن جاتی ہے تو اس کا ترک کرنا انتہائی دشوار ہوجاتاہے۔

وفی الدر المختار(۴۷۱/۲): ویستأذن ابویہ ودائنہ وکفیلہ ویودع المسجد برکعتین ومعارفہ ویستحلھم ویلتمس دعائھم۔

وفی احیاء العلوم (۱۷/۲): امّا الدعوۃ: فینبغی للداعی ان یعمد لدعوتہ الاتقیاء دون الفساق قال ﷺ اکل طعامک الابرار فی دعائہ لبعض من دعالہ… وینبغی ان لایھمل اقاربہ فی ضیافتہ فإن اھمالھم ایحاش وقطع رحم وکذلک یراعی الترتیب فی اصدقائہ ومعارفہ فإن فی تخصیص البعض ایحاشا لقلوب الباقین وینبغی ان لا یقصد بدعوتہ المباھاۃ والتفاخر بل استمالۃ قلوب الاخوان والتسنن بسنۃ رسول اﷲ ﷺ فی اطعام الطعام وادخال السرور علی قلوب المؤمنین۔ (نجم الفتاوی جلد 3)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:احکامِ الٰہی پر عمل پیرا ہونا انسان پر لازم وفرض ہے اور ان  سے اعراض شرعاً وعقلاً ناجائز ہے وہ طریقے اپنانا جن سے احکام الٰہی پر عمل میں مدد ملے یا دوسروں کو اس سے فائدہ پہونچے یہ بھی انسان پر لازم ہے کہ خود بھی رضائے الٰہی کے حصول کے مختلف طریقے ہیں جس نے جس کو بہتر سمجھا اس پر زور ڈالا اور لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کیا بس۔ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ کے معروف طریقے کو اصلاح النفس کے لئے بہتر سمجھا، تو اسی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور اس کے اصول مرتب کئے جو اس طریقہ کو بہتر سمجھے اس پر عمل کرے، اگر اس سے اصلاح کا ارادہ ونیت ہو، تو یہ باعث اجرو ثواب ہے اور اگر اس طریقہ کے علاوہ کوئی دیگر طریقہ اختیار کرے، تو اس میں مضائقہ نہیں بنیت صالحہ چلہ لگادے، تو ثواب ہوگا اور ترک پر کوئی گناہ نہیں؛ اس لئے اس کو مستحب کا درجہ دیا جاسکتا ہے، چالیس دنوں کو تفسیر احوال میں خصوصی دخل ہے۔(۱)

(۱) {وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّأَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃًج} (سورۃ الأعراف: ۱۴۲)

عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: حدثنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہو الصادق المصدوق إن أحدکم یجمع خلقہ في بطن أمہ في أربعین یوما، ثم یکون علقۃ مثل ذلک، ثم یکون مضغۃ مثل ذلک، ثم یرسل اللّٰہ إلیہ الملک فینفخ فیہ الروح ویؤمر بأربع: یکتب رزقہ وأجلہ وعملہ وشقي أو سعید، فوالذي لا إلہ غیرہ، وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل الجنۃ حتی ما یکون بینہ وبینہا إلا ذراع ثم یسبق علیہ الکتاب، فیختم لہ بعمل أہل النار فیدخلہا، وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل النار حتی ما یکون بینہ وبینہما إلا ذراع، ثم یسبق علیہ الکتاب، فیختم لہ بعمل أہل الجنۃ، فیدخلہا، قال أبو عیسی: ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب القدر، باب ما جاء أن الأعمال بالخواتیم‘‘: ج ۲، ص: ۳۵، رقم: ۲۱۳۷)

عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی للّٰہ أربعین یوما في جماعۃ یدرک التکبیرۃ الأولی کتب لہ برائتان: برائۃ من النار وبرائۃ من النفاق۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب في فضل التکبیرۃ الأولی‘‘: ج ۱، ص: ۵۶، رقم: ۲۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص327

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آداب مسجد کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں سونا درست ہے، بلکہ اعتکاف کی نیت بھی کرلینی چاہئے۔ مسجد میں سونے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور اسکول میں نظم کریں تو زیادہ بہتر ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ النوم والأکل فیہ لغیر المعتکف، وإذا أراد أن یفعل ذلک ینبغي أن ینوي الاعتکاف فیدخل فیہ ویذکر اللّٰہ تعالیٰ بقدر ما نوی أو یصلي ثم یفعل ما شاء، کذا في السراجیۃ۔ ولا بأس للغریب ولصاحب الدار أن ینام في المسجد في الصحیح من المذہب، والأحسن أن یتورع فلا ینام، کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من العلماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس، في أداب المسجد، والقبلۃ، والمصحف‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)
عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، أنہ کان ینام وہو شاب أعزب لا أہل لہ في مسجد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب نوم الرجال في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۴۴۰)
وقد سئل سعید بن المسیب وسلیمان بن یسار عن النوم فیہ فقالا: کیف تسألون عنہا وقد کان أہل الصفۃ ینامون فیہ وہم قوم کان مسکنہم المسجد۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب نوم الرجال في المسجد‘‘: ج ۴، ص: ۱۹۸، رقم: ۱۰۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص328
 

بدعات و منکرات

Ref. No. 1530/43-1034

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح ڈاکٹر مریض کے احوال دیکھ کر مرض کی تشخیص کرتاہے، اور اندازہ لگالیتاہے کہ اس کو کون سا مرض لاحق ہے، اسی طرح عاملین کچھ آثار سے اور علامات سے جادو یا آسیبی اثرات کی تشخیص کرتے ہیں۔  قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ہے البتہ عاملین کے اپنے قدیم تجربات ہیں جو لوگوں کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں ، لیکن اس میں غلطی کا امکان بہرحال رہتاہے، تاہم اس کو علم غیب سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک اندازہ ہوتاہے اور اس کے مطابق تعویذ و رقیہ کے ذریعہ اس کا علاج کیاجاتاہے۔ اور تعویذ ورقیہ کی شریعت میں اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ اس میں شرکیہ کوئی بات نہ ہواور عقیدہ کے فساد کا سبب نہ بنے۔ اس لئے ایسے عامل سے علاج  کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے جو  متبع سنت ہو اور شرکیہ کلمات سے بچتے ہوئے قرآن و حدیث سے علاج کرتاہو۔

’’ عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»‘‘. صحیح مسلم، (4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک، ط: دار احیاء التراث العربی)

’’ذكر مالك في " موطئه ": عن زيد بن أسلم: ( «أن رجلاً في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم أصابه جرح، فاحتقن الجرح الدم، وأن الرجل دعا رجلين من بني أنمار، فنظرا إليه، فزعما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهما: " أيكما أطب"؟ فقال: أو في الطب خير يا رسول الله؟ فقال: " أنزل الدواء الذي أنزل الداء (ففي هذا الحديث أنه ينبغي الاستعانة في كل علم وصناعة بأحذق من فيها فالأحذق، فإنه إلى الإصابة أقرب‘‘.(زاد المعاد  فی ھدی خیرالعباد، ص:781، فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في الإرشاد إلى معالجة أحذق الطبيبين، دار الفکر بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 40/

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبادی مذہب کی تفصیلات جانے بغیر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی  ہے۔ اگر آپ کو ان کی تفصیلات کا علم ہو تو تحریر کریں ، پھر جواب لکھاجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند