بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد اصلیہ میں داخل تھا کہ اسلام و احکام اسلام کی تبلیغ فرماکر دنیاسے گمراہی و ضلالت کو دور فرمائیں۔ متعدد نصوص قطعیہ اس پر شاہد ہیں {ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط}(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب ضرورت و موقع دعوت کے طریقے اختیار کئے جس بے نظیر اولو العزم، جانفشانی، مسلسل جدوجہد اور صبر و استقلال سے فرض رسالت و تبلیغ کو ادا کیا وہ اس کی واضح دلیل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں ہر چیز سے بڑھ کر اپنے فرض منصبی رسالت و ابلاغ کا احساس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعوت اسلام کا کامیاب طریقہ بھی خود ہی مصرح فرمایا {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِوَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ کو ہر قدم پر پیش نظر رکھا اور کامیابی و کامرانی کا اعلیٰ مقام حاصل کیا اس طریقہ دعوت اسلام ہی کو دوسرے مقام پر اس طرح واضح فرمایا {وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍط} (۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تازیست پیغام رسالت کو پہونچانے کی پیہم سعی فرمائی، پھر حجۃ الوداع کے موقعہ پر اس ذمہ داری کی تکمیل اس حد تک فرمادی کہ عام خطاب فرمایا کہ جو یہاں موجود ہیں ان پر لازم ہے کہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہونچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، اس طرح یہ سلسلہ قیامت تک کے لئے جاری ہوگیا، یہ سب اسی پیغام کی تکمیل ہے؛ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَہ۱۰۴}(۱) یعنی ایمان، اعتصام بحبل اللہ، اتفاق ، اتحاد اس وقت باقی رہ سکتا ہے، جب مسلمانوں میں ایک خاص جماعت دعوت وارشاد کے لیے باقی رہے اور اس کا طریقہ کار وہ ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ بیان کیا ’’من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ الخ‘‘ (۲) یعنی حسب موقع قول و عمل، تقریر وتحریر وعظ و نصیحت اور ذرائع اشاعت وغیرہ کے ذریعہ ہر برائی کو دنیا سے مٹانے کی سعی کی جائے لیکن یہ سعی حسب موقع و حسب استطاعت ہو یعنی اس طریقہ کو اختیار کئے جانے میں کسی فتنہ میں مبتلاء ہونے کا احتمال نہ ہو ظاہر ہے کہ یہ کام وہی حضرات کر سکتے ہیں جو معروف و منکر کا علم رکھنے اور قرآن و سنت سے باخبر ہونے کے ساتھ ذی ہوش و موقع شناس بھی ہوں ورنہ بہت ممکن ہے کہ ایک جاہل آدمی معروف کو منکر ومنکر کو معروف خیال کرکے بجائے اصلاح کے سارا نظام مختل کر دے، یا ایک منکر کی اصلاح کا ایسا طریقہ اختیار کرلے جو اس سے بھی زیادہ منکرات کا موجب ہو جائے یا نرمی کی جگہ سختی اور سختی کی جگہ نرمی برتنے لگے یا احوال و کوائف کو مدنظر نہ رکھ کر عظیم فتنہ میں پڑ جائے شاید اسی لئے مسلمانوں میں سے ایک مخصوص جماعت کو اس منصب پر مامور کیا گیا جو ہر طرح دعوت الی الخیر، امر بالمعروف نہی عن المنکر کی اہل ہو اس مختصر وضاحت کی روشنی میں معلوم ہوا کہ:
(۱) غیر مسلموں میں اسلام اور مسلمانوں میں احکام کی دعوت دینا فرض کفایہ ہے۔
(۲) اسلام واحکام اسلام کی دعوت میں تقدم وتاخر زمانہ واحوال کے اعتبار سے ہے۔
(۳) دعوت اسلام ہو یا دعوت احکام اسلام اس کی ذمہ داری صرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں؛ بلکہ حسب وضاحت مذکور امت مسلمۃ پر بھی عائد ہوتی ہے۔
(۴) اگر کسی بڑے فتنہ میں مبتلاء ہونے کا احتمال ہو اور اس لئے کسی علاقہ کے لوگوں کو دعوت نہ پہونچ سکی تو ان شاء اللہ امت مسلمۃ ماخوذ نہ ہوگی۔
(۵) جو جماعت دعوت اسلام یا احکام اسلام کا کام انجام دے اس جماعت کا تعاون کرنا بلاشبہ موجب اجر و ثواب ہے۔ {وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰیص} (۱)

(۱) سورۃ المائدۃ: ۶۷۔    (۲) سورۃ النحل: ۱۲۵۔         (۳) سورۃ الإنعام: ۱۰۸۔
(۱) سورۃ النساء: ۱۰۴۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹)

--------------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص332

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی فکر کرنا اور قرض کو ادا کرنے کی کوشش کرنا اللہ تعالیٰ سے تعلق کی دلیل ہے اور یہ توکل کے منافی بھی نہیں ہے۔ دنیا دار الاسباب ہے، یہاں اسباب اختیار کرنے کے بعد توکل کرنا ہوگا، آپ نماز وتلاوت وغیرہ کے ساتھ ہی تبلیغی جماعت سے جڑے رہیں اور قرض کو جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کریں، قرض کی ادائیگی سے پہلے مزید قرض لینا یا اس کا مشورہ دینا حماقت ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی ہرگز نہ کریں۔(۱)
 

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمٰنٰتِ إِلٰٓی أَھْلِھَالا} (سورۃ النساء: ۵۸)…بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ پر……إن دمائکم وأموالکم وأعراضکم بینکم حرام، الحدیث۔ (تحفۃ الأحوذي، باب ما جاء دمائکم وأموالکم علیکم حرام: ص: ۳۱۳)

----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص330

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا سیکھنا فرض عین ہے خواہ مدرسہ کے ذریعہ ہو یا خانقاہ کے ذریعہ یا جماعت کے ذریعہ، البتہ تبلیغ میں نکلنا بھی دینی عمل ہے جس سے اصلاح نفس وابستہ ہے۔
’’قال العلامۃ الآلوسي رحمہ اللّٰہ: في ہذ الآیۃ {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط} إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایات۔(۲) وإعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج لدینہ وفرض کفایۃ وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ(۱) قال العلامي في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلم ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ۔ وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن لہ نصاب، والحج لمن وجب علیہ۔(۲)
 

(۲) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ آل عمران: ۱۰۴‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’المقدمۃ، مطلب في فرض الکفایۃ وفرض العنایۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔
(۲) ’’أیضاً‘‘:۔


--------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص334

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اپنے عقیدہ کی درستگی، اعمال صالحہ کی تحصیل اور دین کے دیگر بنیادی مسائل کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(۳) یہ تمام امور دینی مدرسہ، خانقاہ، وغیرہ سے جس طرح حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح تبلیغی جماعت میں نکلنے سے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں اپنی اصلاح اور لوگوں میں دینی بیداری پیدا کرنے کا یہ موثر طریقہ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم عام ہے؛ ہر دور میں ہر شخص پر وقت اور حالت کے تقاضہ کے مطابق ضروری ہے۔ اپنے گھر پر رہ کر بھی لوگوں کو نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا حتی الوسع ضروری ہے۔(۱) اگرآپ اس راہ میں نکلیں گے، تو آپ کو بھی فائدہ ہوگا اور آپ کی ذات سے دوسروں کو بھی فائدہ ہوگا، جو ذخیرہ آخرت ہوگا۔ ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کوسمجھنے اور اس کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ خود بھی شامل ہوں اور اپنے متعلقین کو بھی شامل کریں۔ کچھ دن اس راستہ میں لگانے کے بعد ہی اس کا فائدہ آپ کی سمجھ میں آئے گا۔ علاوہ ازیں اپنی اصلاح اور دینی مسائل کو سمجھنے کے لئے علماء سے بھی رابطہ رکھیں۔(۲)

(۳) واعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج لدینہ وفرض کفایۃ وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’المقدمۃ، مطلب في فرض الکفایۃ وفرض العنایۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶)
قال العلامي في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلم ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ۔ وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن لہ نصاب، والحج لمن وجب علیہ۔ (’’أیضاً‘‘)
(۱) إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایات۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني للآلوسي:، ’’سورۃ آل عمران: ۱۰۴‘‘: ج ۳، ص: ۳۴)


--------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص335

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجدوں میں محراب کے سامنے کرسی رکھ کر تقریر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، البتہ مصلی حضرات سنت ونوافل سے فارغ ہوجائیں تاکہ تقریر کی وجہ سے ان کی نماز سنت ونوافل میں خلل نہ ہو۔(۱)

(۱) إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہي أن یحلق یوم الجمعۃ قبل الصلوٰۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، فرض الجمعۃ، باب الحلق یوم الجمعۃ،قبل الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۳۱۴)
إن المسجد بني للصلوٰۃ وغیرہا تبع لہا بدلیل أنہ إذا ضاق فللمصلي إزعاج القاعد للذکر أو القرائۃ أو التدریس۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الدیات: باب ما یحدثہ الرجل في الطریق وغیرہ‘‘: ج ۱۰، ص: ۲۶۱)

----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص336

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو بدعت کہنا تو صحیح نہیں۔(۲) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر ۴۰؍ دن کا چلہ کیا تھا۔(۳) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں تزکیہ وعبادت میں مشغول رہتے تھے۔ چالیس دن کو ماحول کی تبدیلی میں خاص اثر ہے؛ اس لیے بزرگوں کے یہاں بھی چالیس دن اور چار مہینے اصلاح نفس اور اصلاح احوال کے لئے متعین کئے جاتے رہے ہیں؛(۱)  لہٰذا لازم وضروری نہ سمجھتے ہوئے چلہ و چار مہینے کے لئے وقت کو فارغ کرنا صحیح ہے اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں ہے۔

(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بلغوا عني ولو آیۃ۔ (تحفۃ الأحوذي، ’’باب ماجاء في الحدیث عن بني إسرائیل‘‘،ج۱، ص: ۳۶۰)
{ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗط وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ  النَّاسِط إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَہ۶۷} (سورۃ المائدہ: ۶۷)
(۳) {وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّأَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃًج} واستخلف علیہم ہٰرون ومکث علی الطور أربعین لیلۃ۔ (امام رازیؒ، تفسیر رازي: ج ۳، ص: ۷۹، سورۃ الأعراف: ۱۴۲)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن سہل قال: من أکل الحلال أربعین یوما أجیبت دعوتہ۔ (جامع العلوم والحکم، الحدیث العاشر: ج ۱، ص: ۲۹۳)

-------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص337

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دونوں کی دعوت ضروری ہے، دونوں میں بڑا اجر و ثواب ہے آج کے دور میں اس سے غفلت برتنا اچھا نہیں۔(۲)

(۲) وعن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رجل یستحملہ فلم یجد عندہ ما یحلمہ فدلہ علی آخر فحملہ فأتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأخبرہ، فقال: أن الدال علی الخیر کفاعلہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب ما جاء أن الدال علی الخیر کفاعلہ‘‘: ج ۲، ص: ۹۵، رقم: ۲۶۷۰)
{لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} (سورۃ آل عمران: ۱۶۴)
{ٰٓیأَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ ہلا ۱   قُمْ فَأَنْذِرْ  ہلاص۲    وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ  ہلاص۳    وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ  ہلاص۴   } (سورۃ المدثر: ۱ تا ۴)
{وَأَمَّا مَنْ أٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآئَنِ الْحُسْنٰیج وَسَنَقُوْلُ لَہٗ مِنْ أَمْرِنَا یُسْرًاہط ۸۸} (سورۃ الکہف: ۸۸)


-------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص338

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بالکل درست ہے، مگر یہ بھی واضح رہے کہ تبلیغی جماعت والے بھی سب عالم نہیں ہیں؛ اس لئے ان میں سے جو عالم ہوں اور مسائل سے واقف ہوں ان کی بات ماننی چاہئے۔(۱)

(۱) وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: نضر اللّٰہ إمرأً سمع منا شیئاً فبلغہ کما سمعہ فرب مبلغ أوعی لہ من سامع۔ رواہ الترمذي وابن ماجہ ورواہ الدارمي عن أبي الدرداء۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۵، رقم: ۲۳۰)
عن عروۃ بن الزبیر رضي اللّٰہ عنہ قال: قالت لي عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: یا ابن أختي بلغني أن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ مار بنا إلی الحج فألْقَہُ فسألہ فإنہ قد حمل النبيصلی اللّٰہ علیہ وسلم علما کثیراً، قال: فلقیتہ فسألتہُ عن أشیاء یذکرہا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ وسلم قال عروۃ: فکان فیما ذکر أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن اللّٰہ لا ینتزع العلم من الناس انتزاعاً، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء فیرفع معہم ویبقی في الناس رؤساً جہالاً یفتونہم بغیر علم فیضَلون ویضِلون الخ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب العلم: باب رفع العلم وقبضہ وظہور الجہل والفتن في آخر الزمان‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰، رقم: ۲۶۷۳)


--------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص339

بدعات و منکرات

Ref. No. 1459/42-884

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جلد کی تازگی اور نکھار  کے لئے ہلدی لگانا اور چیز ہے اور اس کو رسم بنالینا اور چیز ہے۔ چنانچہ ہلدی لگانا ممنوع  نہیں ہے البتہ  ہلدی کے موقع پر جو ناجائز امور ہوتے ہیں ان کی مذمت بیان کی جاتی ہے۔ ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ خوشی کے موقع پر احکام شرع کو بھول کرغیرشرعی  رسم و رواج میں مشغول ہوجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال کتاب میں احادیث بھی ہیں، ان کے مطالب بھی اور حکایات وواقعات بھی؛ اس لئے حدیث پڑھی جائے گی، کہنے میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن کتاب کا نام لینا بہتر ہے، تاکہ اشتباہ نہ ہو؛ نیز ایسی باتوں کو باعث اختلاف بنانا ہوشمندی نہیں ہے، اگر کوئی اچھی بات بتلائے، تو اس کو مان لینا چاہئے۔(۱)

(۱) إعلم أن الحدیث في اصطلاح جمہور المحدثین یطلق علی قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وفعلہ وتقریرہ الخ۔
وکذلک یطلق علی قول الصحابي وفعلہ وتقریرہ وعلی قول التابعي وفعلہ وتقریرہ۔ (الشیخ عبد الحق الدہلوي، ’’مقدمۃ مشکوٰۃ المصابیح‘‘: ص: ۳)


----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص340