بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا سیکھنا فرض عین ہے خواہ مدرسہ کے ذریعہ ہو یا خانقاہ کے ذریعہ یا جماعت کے ذریعہ، البتہ تبلیغ میں نکلنا بھی دینی عمل ہے جس سے اصلاح نفس وابستہ ہے۔
’’قال العلامۃ الآلوسي رحمہ اللّٰہ: في ہذ الآیۃ {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط} إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایات۔(۲) وإعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج لدینہ وفرض کفایۃ وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ(۱) قال العلامي في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلم ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ۔ وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن لہ نصاب، والحج لمن وجب علیہ۔(۲)
 

(۲) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ آل عمران: ۱۰۴‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’المقدمۃ، مطلب في فرض الکفایۃ وفرض العنایۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔
(۲) ’’أیضاً‘‘:۔


--------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص334

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اپنے عقیدہ کی درستگی، اعمال صالحہ کی تحصیل اور دین کے دیگر بنیادی مسائل کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(۳) یہ تمام امور دینی مدرسہ، خانقاہ، وغیرہ سے جس طرح حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح تبلیغی جماعت میں نکلنے سے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں اپنی اصلاح اور لوگوں میں دینی بیداری پیدا کرنے کا یہ موثر طریقہ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم عام ہے؛ ہر دور میں ہر شخص پر وقت اور حالت کے تقاضہ کے مطابق ضروری ہے۔ اپنے گھر پر رہ کر بھی لوگوں کو نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا حتی الوسع ضروری ہے۔(۱) اگرآپ اس راہ میں نکلیں گے، تو آپ کو بھی فائدہ ہوگا اور آپ کی ذات سے دوسروں کو بھی فائدہ ہوگا، جو ذخیرہ آخرت ہوگا۔ ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کوسمجھنے اور اس کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ خود بھی شامل ہوں اور اپنے متعلقین کو بھی شامل کریں۔ کچھ دن اس راستہ میں لگانے کے بعد ہی اس کا فائدہ آپ کی سمجھ میں آئے گا۔ علاوہ ازیں اپنی اصلاح اور دینی مسائل کو سمجھنے کے لئے علماء سے بھی رابطہ رکھیں۔(۲)

(۳) واعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج لدینہ وفرض کفایۃ وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’المقدمۃ، مطلب في فرض الکفایۃ وفرض العنایۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶)
قال العلامي في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلم ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ۔ وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن لہ نصاب، والحج لمن وجب علیہ۔ (’’أیضاً‘‘)
(۱) إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایات۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني للآلوسي:، ’’سورۃ آل عمران: ۱۰۴‘‘: ج ۳، ص: ۳۴)


--------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص335

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجدوں میں محراب کے سامنے کرسی رکھ کر تقریر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، البتہ مصلی حضرات سنت ونوافل سے فارغ ہوجائیں تاکہ تقریر کی وجہ سے ان کی نماز سنت ونوافل میں خلل نہ ہو۔(۱)

(۱) إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہي أن یحلق یوم الجمعۃ قبل الصلوٰۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، فرض الجمعۃ، باب الحلق یوم الجمعۃ،قبل الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۳۱۴)
إن المسجد بني للصلوٰۃ وغیرہا تبع لہا بدلیل أنہ إذا ضاق فللمصلي إزعاج القاعد للذکر أو القرائۃ أو التدریس۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الدیات: باب ما یحدثہ الرجل في الطریق وغیرہ‘‘: ج ۱۰، ص: ۲۶۱)

----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص336

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو بدعت کہنا تو صحیح نہیں۔(۲) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر ۴۰؍ دن کا چلہ کیا تھا۔(۳) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں تزکیہ وعبادت میں مشغول رہتے تھے۔ چالیس دن کو ماحول کی تبدیلی میں خاص اثر ہے؛ اس لیے بزرگوں کے یہاں بھی چالیس دن اور چار مہینے اصلاح نفس اور اصلاح احوال کے لئے متعین کئے جاتے رہے ہیں؛(۱)  لہٰذا لازم وضروری نہ سمجھتے ہوئے چلہ و چار مہینے کے لئے وقت کو فارغ کرنا صحیح ہے اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں ہے۔

(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بلغوا عني ولو آیۃ۔ (تحفۃ الأحوذي، ’’باب ماجاء في الحدیث عن بني إسرائیل‘‘،ج۱، ص: ۳۶۰)
{ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗط وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ  النَّاسِط إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَہ۶۷} (سورۃ المائدہ: ۶۷)
(۳) {وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّأَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃًج} واستخلف علیہم ہٰرون ومکث علی الطور أربعین لیلۃ۔ (امام رازیؒ، تفسیر رازي: ج ۳، ص: ۷۹، سورۃ الأعراف: ۱۴۲)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن سہل قال: من أکل الحلال أربعین یوما أجیبت دعوتہ۔ (جامع العلوم والحکم، الحدیث العاشر: ج ۱، ص: ۲۹۳)

-------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص337

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دونوں کی دعوت ضروری ہے، دونوں میں بڑا اجر و ثواب ہے آج کے دور میں اس سے غفلت برتنا اچھا نہیں۔(۲)

(۲) وعن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رجل یستحملہ فلم یجد عندہ ما یحلمہ فدلہ علی آخر فحملہ فأتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأخبرہ، فقال: أن الدال علی الخیر کفاعلہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب ما جاء أن الدال علی الخیر کفاعلہ‘‘: ج ۲، ص: ۹۵، رقم: ۲۶۷۰)
{لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} (سورۃ آل عمران: ۱۶۴)
{ٰٓیأَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ ہلا ۱   قُمْ فَأَنْذِرْ  ہلاص۲    وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ  ہلاص۳    وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ  ہلاص۴   } (سورۃ المدثر: ۱ تا ۴)
{وَأَمَّا مَنْ أٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآئَنِ الْحُسْنٰیج وَسَنَقُوْلُ لَہٗ مِنْ أَمْرِنَا یُسْرًاہط ۸۸} (سورۃ الکہف: ۸۸)


-------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص338

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بالکل درست ہے، مگر یہ بھی واضح رہے کہ تبلیغی جماعت والے بھی سب عالم نہیں ہیں؛ اس لئے ان میں سے جو عالم ہوں اور مسائل سے واقف ہوں ان کی بات ماننی چاہئے۔(۱)

(۱) وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: نضر اللّٰہ إمرأً سمع منا شیئاً فبلغہ کما سمعہ فرب مبلغ أوعی لہ من سامع۔ رواہ الترمذي وابن ماجہ ورواہ الدارمي عن أبي الدرداء۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۵، رقم: ۲۳۰)
عن عروۃ بن الزبیر رضي اللّٰہ عنہ قال: قالت لي عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: یا ابن أختي بلغني أن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ مار بنا إلی الحج فألْقَہُ فسألہ فإنہ قد حمل النبيصلی اللّٰہ علیہ وسلم علما کثیراً، قال: فلقیتہ فسألتہُ عن أشیاء یذکرہا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ وسلم قال عروۃ: فکان فیما ذکر أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن اللّٰہ لا ینتزع العلم من الناس انتزاعاً، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء فیرفع معہم ویبقی في الناس رؤساً جہالاً یفتونہم بغیر علم فیضَلون ویضِلون الخ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب العلم: باب رفع العلم وقبضہ وظہور الجہل والفتن في آخر الزمان‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰، رقم: ۲۶۷۳)


--------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص339

بدعات و منکرات

Ref. No. 1459/42-884

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جلد کی تازگی اور نکھار  کے لئے ہلدی لگانا اور چیز ہے اور اس کو رسم بنالینا اور چیز ہے۔ چنانچہ ہلدی لگانا ممنوع  نہیں ہے البتہ  ہلدی کے موقع پر جو ناجائز امور ہوتے ہیں ان کی مذمت بیان کی جاتی ہے۔ ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ خوشی کے موقع پر احکام شرع کو بھول کرغیرشرعی  رسم و رواج میں مشغول ہوجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال کتاب میں احادیث بھی ہیں، ان کے مطالب بھی اور حکایات وواقعات بھی؛ اس لئے حدیث پڑھی جائے گی، کہنے میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن کتاب کا نام لینا بہتر ہے، تاکہ اشتباہ نہ ہو؛ نیز ایسی باتوں کو باعث اختلاف بنانا ہوشمندی نہیں ہے، اگر کوئی اچھی بات بتلائے، تو اس کو مان لینا چاہئے۔(۱)

(۱) إعلم أن الحدیث في اصطلاح جمہور المحدثین یطلق علی قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وفعلہ وتقریرہ الخ۔
وکذلک یطلق علی قول الصحابي وفعلہ وتقریرہ وعلی قول التابعي وفعلہ وتقریرہ۔ (الشیخ عبد الحق الدہلوي، ’’مقدمۃ مشکوٰۃ المصابیح‘‘: ص: ۳)


----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص340

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی بھی جماعت کے چند افراد نئے اور غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں؛ لیکن وہ افراد جماعت کا مدار نہیں ہوتے، مدار جماعت کا اس کے اصول وضوابط اور اس کے ذمہ دار و قائدین ہوتے ہیں جماعت کو جب پرکھا جائے، تو اس کے اصول سے پرکھا جائے یا اس کے بانیان وذمہ داران سے بالکل اس طرح سے کہ چند مسلمان کوئی برا کام کر رہے ہوں، تو یہ فیصلہ ہرگز درست نہیں کہ اسلام برا مذہب ہے، (عیاذا باللہ) اسلام کا مدار، تو اس کے اصول ہیں۔ اسی طرح تبلیغی جماعت ہے کہ اس کے اصول، ذمہ دار اور اس کے قائدین مدار ہیں، اگر چند غیر تربیت یافتہ لوگ کچھ غلطی کر جائیں، تو اس کی وجہ سے جماعت پر کوئی حکم درست نہیں؛ حتی الامکان تربیت واصلاح کی کوشش کی جائے، تبلیغی نصاب فضائل پر مشتمل ہے، لوگ اس کو پڑھ لیتے ہیں صحیح ہے، مگر اس میں شدت درست نہیں؛ لیکن اگر ایک وقت مسجد میں یہ کتاب پڑھتے ہوں، تو دوسرے وقت دوسرے لوگ یا وہی لوگ دوسری کتاب پڑھ لیں، اس سے کون منع کرتا ہے؛ بہر کیف تنقید کے لئے بہت سی چیزیں مل سکتی ہیں؛ لیکن اپنے ذہن کو تعمیری بناکر رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح وسیدھی راہ دکھائے۔(۱)

(۱) {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
{أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (سورۃ النحل: ۱۲۵)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: (بلغوا عني ولو آیۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب ما ذکر عن بني إسرائیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۰، رقم: ۳۴۶۱)
{ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط} (سورۃ المائدۃ: ۶۷)


--------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص340

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اپنی اپنی ہمت کے مطابق اسلام کی تبلیغ کرنا امر ضروری ہے ’’بلّغوا عني ولوآیۃ‘‘ (الحدیث) رہا تبلیغی جماعت کا معاملہ تو انہوں نے تبلیغ کے کام کو انجام دینے کے لئے کچھ اصول مقرر کئے ہیں اور اسی طرح ہر جماعت اپنا اپنا طریقہ کا ر مقرر کرتی ہے۔ اس طریقہ کار کو فرض وواجب نہیں کہا جاتا ہے؛ بس اگر اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ ہو، تو وہ طریقہ کار مباح اور جائز ہوتا ہے۔ رہی اس طریقہ کار کی افادیت تو اس پر ہم سے زیادہ روشنی آپ کو مرکز تبلیغ دہلی بنگلہ والی مسجد سے مل سکتی ہے، جماعت والوں کا حسب ضرورت مسجد میں سونا درست ہے۔(۱)

۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: (بلغوا عني ولو آیۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب ما ذکر عن بني إسرائیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۰، رقم: ۳۴۶۱)
وإذا أراد أن یفعل ذلک ینبغي أن ینوي الاعتکاف فیدخل فیہ ویذکر اللّٰہ تعالیٰ بقدر ما نوی أو یصلي ثم یفعل ما شاء، کذا في السراجیہ۔ ولا بأس للغریب ولصاحب الدار أن ینام في المسجد في الصحیح من المذہب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس: في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)وإذا أراد ذلک ینبغي أن ینوي الاعتکاف، فیدخل ویذکر اللّٰہ تعالی بقدر ما نوی، أو یصلي ثم یفعل ما شاء۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد وما یکرہ فیہا، مطلب: في أفضل المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۱)

----------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص342