حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پانچ نبیوں کے نام ان کی پیدائش سے قبل رکھے گئے ہیں:
(۱) نبی آخرالزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کہ ارشاد باری {مبشرا برسول یأتي من بعدي، إسمہ أحمد}(۲)

(۲) حضرت یحییٰ علیہ السلام جن کا ذکر قرآن پاک میں {یٰزکر یا إنا نبشرک بغلام إسمہ یحیی}(۱)
(۳) حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کا ذکر قرآن پاک میں {بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسی ابن مریم}(۲)
(۴) حضرت اسحاق علیہ السلام۔ (۵) حضرت یعقوب علیہ السلام۔
جن کا ذکر قرآن پاک میں ہے {فبشرناہ بإسحاق ومن وراء إسحاق یعقوب}(۳)

(۲) {وَإِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ٰیبَنِیْٓ إِسْرَآئِیْلَ إِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰئۃِ وَ مُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّأْتِيْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُہٗٓ أَحْمَدُط فَلَمَّا جَآئَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْاھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ہ۶ } (سورۃ الصف: ۶)
(۱) {ٰیزَکَرِیَّآ إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِ نِ اسْمُہٗ یَحْیٰی لا لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ  قَبْلُ سَمِیًّاہ۷ } (سورۃ مریم: ۷)
(۲) {إِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ إِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ صلے ق اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِي الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَہلا  ۴۵} (سورۃ آل عمران: ۴۵)

(۳) {وَامْرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰھَا بِإِسْحٰقَ لا وَمِنْ وَّرَآئِ إِسْحٰقَ یَعْقُوْبَہ۷۱} (سورۃ ہود:۱ ۷)
الإتقان: ج ۲، ص: ۳۴۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص231
 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں ہی کی طرف بھیجا تھا؛ اس لیے کہ مسلمانوں میں بعض لوگ قبروں کو بہت اونچا کردیتے تھے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ قبروں کو ٹھیک کر دو یعنی ایک بالشت اونچا کرنا، جو عموماً قبر کی نکلی ہوئی مٹی سے ہی ہوجاتا ہے، اتنا تو شرعاً جائز بھی ہے اور مطلوب بھی ہے۔ احادیث سے اس کا مطلوب ہونا ثابت ہے؛ لیکن قبر کو اس سے زیادہ اونچا کرنا شرعاً درست نہیں؛ لہٰذا حدیث کے لفظ ’’سویتہ‘‘ سے مراد قبر کو شرعی حدود کے موافق اور ٹھیک کردینا ہے؛ نیز قبر پر قبے وغیرہ بنانا شرعاً جائز نہیںہے۔ احادیث وکتب فقہ میں اس کی ممانعت صراحت کے ساتھ ہے۔(۱)

(۱) عن أبي الہیاج الأسدي قال: قال لي علي ألا أبعثک علی ما بعثني علیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن لا تدع تمثالاً إلا طمستہ، ولا قبرا مشرفاً إلا سویتہ رواہ مسلم۔ قولہ أن لا تدع أي لا تترک (تمثالاً) أي صورۃ (إلا طمستہ) أي محوتہ وأبطلتہ والاستثناء من أعم الأحوال (ولا قبرا مشرفا) ہو الذي بني علیہ حتی ارتفع دون الذي أعلم علیہ بالرمل والحصباء، أو محسوسۃ بالحجارۃ لیعرف ولا یوطأ (إلا سویتہ) في الأزہار قال العلماء: یستحب أن یرفع القبر قدر شبر، ویکرہ فوق ذلک، ویستحب الہدم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، باب دفن المیت‘‘: ج ۴، ص: ۶۸، رقم: ۱۶۹۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص134

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ایوب علیہ السلام کے جسد مبارک میں کیڑے پڑنے کی روایات معتبر نہیں ہیں، جن روایات وآثار سے کیڑے پڑنے اور جسد اطہر میں پھوڑے، پھنسی وغیرہ کا ثبوت ہوتا ہے، ان کو محققین نے رد کیا ہے؛ کیوں کہ انبیاء علیہم السلام کو بشری بیماری لاحق ہونا، تو ثابت ہے؛ لیکن ایسی بیماری کا لاحق ہونا، جس سے انسانی طبیعت نفرت کرتی ہو نصوص شرعیہ کے خلاف ہے؛ بلکہ صحیح روایات اور آیت قرآنی سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوا تھا، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں لکھا ہے، قرآن میں اتنا تو بتلایا گیا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا؛ لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے؛ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصہ پر پھوڑے نکل گئے تھے، یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو کوڑی پر ڈال دیا تھا، لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بیماریاں تو آسکتی ہیں؛ لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلانہیں کیا جاتا، جن سے لوگ گھن کرنے لگیں،(۱) ’’أہل التحقیق أنہ لا یجوز أن یکون بصفۃ یستقذرہ الناس علیہا لأن في ذلک تنفیرا فأما الفقر والمرض وذہاب الأہل فیجوز أن یمتحنہ اللّٰہ تعالی بذلک‘‘۔
’’وفي ہدایۃ المرید للفاني أنہ یجوز علی الأنبیاء علیہم السلام کل عرض بشری لیس محرما ولا مکروہا ولا مباحا مزریا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس ولا مما یؤدي إلی النفرۃ ثم قال بعد ورقتین، واحترزنا بقولنا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس عما کان کذلک کالإقعاد والبرص والجذام والعمي والجنون، وأما الإغماء، فقال النووي: لا شک في جوازہ علیہم لأنہ مرض بخلاف الجنون فإنہ نقص، وقید أبو حامد الإغماء بغیر الطویل وجزم بہ البلقیني، قال السبکی: ولیس کإغماء غیرہم لأنہ إنما یستر حواسہم الظاہرۃ دون قلوبہم لأنہا معصومۃ من النوم الأخف، قال: ویمتنع علیہم الجنون وإن قل لأنہ نقص ویلحق بہ العمي ولم یعم نبي قط، وما ذکر عن شعیب من کونہ کان ضریرا لم یثبت، وأما یعقوب فحصلت لہ غشاوۃ وزالت اہـ‘‘۔
’’وفرق بعضہم في عروض ذلک بین أن یکون بعد التبلیغ وحصول الغرض من النبوۃ فیجوز وبین أن یکون قبل فلا یجوز، ولعلک تختار القول بحفظہم بما تعافہ النفوس ویؤدي إلی الاستقذار والنفرۃ مطلقا وحینئذ فلا بد من القول بأن ما ابتلي بہ أیوب علیہ السلام لم یصل إلی حد الاستقذار والنفرۃ کما یشعر بہ ما روي عن قتادۃ ونقلہ القصاص في کتبہم، وذکر بعضہم أن دائہ کان الجدري ولا أعتقد صحۃ ذلک(۱)۔ واللّٰہ تعالی أعلم‘‘۔

(۱) مفتي محمد شفیع العثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۵۲۲۔
(۱) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ صٓ: ۳۸‘‘: ج ۱۲، ص: ۱۹۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص135

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال حدیث مسلم شریف، بخاری شریف میں ہے(۱) علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہے اور اس کا صحیح مصداق وہی ہیں اور علامہ سیوطیؒ کے ایک شاگرد ہیں، جو فرماتے ہیں کہ ہمارے استاد علامہ سیوطی نے جو فرمایا وہی صحیح ہے؛ اس لیے فارس کے لوگوں میں سوائے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے کوئی بھی اتنے اونچے علم کو نہیں پہونچا۔ (۲)

(۱) لوکان الإیمان عند الثریا لنالہ رجال أو رجل من ہؤلاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر، سورۃ الجمعۃ: باب قولہ: أخرین منہم لما یلحقوا بہم‘‘: ج ۲، ص: ۷۲۷؛و أخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم: باب فضل فارس‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲، رقم: ۲۵۴۶)
(۲) في حاشیۃ الشبراملسي علی المواہب عن العلامۃ الشامي تلمیذ الحافظ السیوطي قال: ما جزم بہ شیخنا الرملي أن أبا حنیفۃ ہو المراد من ہذا الحدیث ظاہر لا شک فیہ لأنہ یبلغ من أبناء فارس في العلم مبلغہ أحد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص137

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب دیگر مسجدوں کے مقابلے میں ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ (۱) اور چالیس نمازیں مسلسل جو شخص مسجد نبوی میں ادا کرے اس کے لئے جہنم، عذاب اور نفاق سے برائت کا اعلان ہے۔ (۲) ’’اللہم وفقنا‘‘

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: یبلغ بہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ في مسجدي ہذا أفضل من ألف صلاۃ فیما سواہ إلا المسجد الحرام۔ (أخرجہ المسلم، ’’کتاب الصلاۃ: باب فضل الصلاۃ بمسجدي‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۶، رقم: ۱۳۹۴)
(۲) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: من صلی في مسجدي أربعین صلاۃ لا تفوتہ صلاۃ کتب لہ برائۃ من النار وبرائۃ من العذاب وبرئ من النفاق۔ قال المنذري في الترغیب وترہیب: روایۃ الصحیح: أخرجہ أحمد في مسندہ والطبراني في الأوسط وفي مجمع الزوائد رجالہ ثقات۔ (محمد أمین الشنقیطي، أضواء البیان في إیضاح القرآن، سورۃ الجن: ۱۸، ج ۸، ص: ۳۳۶؛ )


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص138

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی آیت ہے {وأزواجہ أمہاتہم}(۴) اس آیت میں صراحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات مؤمنوں کی مائیں ہیں اور حضرت خدیجہ ودیگر ازواج کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ہونا مشہور احادیث سے ثابت ہے
 اس لئے صورت مسئولہ میں قرآن کی صراحت کی بنا پر مذکورہ شخص ایمان کے دائرہ سے خارج ہوگیا ان پر تجدید ایمان وتجدید نکاح ضروری ہے۔(۱)

(۴) سورۃ الأحزاب: ۸۔
(۱)وقولہ: {وأزواجہ أمہاتہم} قال الطبري: وحرمۃ أزواجہ حرمۃ أمہاتہم علیہم في أنہن یحرم علیہن نکاحہن من بعد وفاتہ، کما یحرم علیہم نکاح أمہاتہم۔ (محمد طبري، جامع البیان في بیان تأویل القرآن، ’’سورۃ الأحزاب‘‘: ج ۲۰، ص: ۲۰۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص231

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت آدم علیہ السلام سے اب تک کتنا عرصہ گزرا ہے تاریخ اس کی صحیح نشادہی کرنے سے عاجز ہے، نیز یہ بات ایمانیات اور معتقدات کے قبیل سے نہیں اس لئے زیادہ چھان بین کی بھی ضرورت نہیں، اور صحیح نشان دہی مشکل اور دشوار ہے۔ (۱)

(۱) قال ابن عابدین: ولیست من المسائل التي یضر جہلہا أو سأل عنہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب في الکلام علي أبوی النبي وأہل الفترۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۵)
(أشرف علي التھانويؒ، أشرف الجواب: ص: ۱۱۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص232

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفت کو بیان کیا ہے {اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًام بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَہ۳۹}(۱) اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو بشارت دیتا ہے یحییٰ علیہ السلام کی جن کے احوال یہ ہوں گے کہ وہ کلمۃ اللہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرنے والے ہوں گے اور مقتدائے دین ہوںگے اپنے نفس کو لذات سے روکنے والے (عورت کے پاس نہیں جائیں گے) نبی اور صالحین میں سے ہوں گے، علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لفظ ’’حصور‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وحصورا‘‘ عطف علی ما قبلہ ومعناہ الذي لا یأتي النساء مع القدرۃ علی ذلک والإشارۃ إلی عدم انتفاعہ علیہ السلام بما عندہ لعدم میلہ للنکاح لما أنہ في شغل شاغل عن تلک‘‘(۲)
مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو نکاح کرنے کی قدرت تھی؛ لیکن آخرت کا خیال ان پر اس قدر غالب تھا کہ نہ ان کو بیوی کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے کی فرصت ملی؛ اس لیے حضرت یحییٰ علیہ السلام نے نکاح نہیں کیا، صاحب مرقاۃ ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ سلم: ینزل عیسیٰ بن مریم إلی الأرض فتزوج ویولد لہ‘‘(۱)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب قرب قیامت میں نازل ہوں گے تو نکاح کریں گے۔
الحاصل: قرآن وحدیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ان دو پیغمبروں نے نکاح نہیں کیا ہے، مولانا صاحب نے دورانِ تقریر جو بات کہی ہے وہ صحیح ہے۔
(۱) سورۃ آل عمران: ۳۹۔
(۲) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’آل عمران: ۳۹-۴۰‘‘: ج ۳،ص: ۱۴۸۔

(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب نزول عیسیٰ علیہ السلام، الفصل الأول‘‘: ج ۸، ص: ۴۱۸۔

فتاوی دارالعلوم، وقف دیوبند ج2ص233

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مندرجہ ذیل حدیث میں ادنی درجہ کے جنتی کو دس گنا بڑی جنت ملنے کی صراحت موجود ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’إني لأعلم آخر أہل النار خروجاً منہا، وآخر أہل الجنۃ دخولاً الجنۃ، رجل یخرج من النار حبواً، فیقال لہ: إذہب فأدخل الجنۃ فیأتیہا فیخیل إلیہ أنہا ملأی، فیرجع فیقول: یا رب، وجدتہا ملأی، فیقول اللّٰہ عز وجل: إذہب فأدخل الجنۃ، فإن لک مثل الدنیا، وعشرۃ أمثالہا أو إن لک مثل عشرۃ أمثال الدنیا، فیقول: أتسخر بي أو أتضحک بي وأنت الملک؟ قال: فلقد رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضحک حتی بدت نواجذہ، فکان یقال: ذلک أدنی أہل الجنۃ منزلۃ‘‘(۱)۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ یہ ایک ایسا شخص ہو گا، جو اوندھے منہ دوزخ سے نکلے گا، پھر اللہ اس سے فرمائے گا کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا؛ پس وہ جنت کے پاس آئے گا، تو اس کا یہ خیال ہو گا کہ یہ تو بھری ہوئی ہے؛ چنانچہ وہ واپس لوٹ جائے گا اور عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا، اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جا کر جنت میں داخل ہو جا، پھر وہ اس کی طرف آئے گا، تو اسے یہی خیال گزرے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے؛ پس وہ جا کر پھر عرض کرے گا، کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا، اس پر اللہ تعالیٰ (تیسری بار) فرمائے گا، کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا، تیرے لیے تو وہاں دنیا کے برابر جگہ ہے اور اس سے دس گنا زیادہ ہے۔ (اسے یقین نہ آئے گا اور سمجھے گا کہ شاید اس سے مذاق کیا جا رہا ہے)؛ چنانچہ وہ عرض کرے گا کہ اے خدا تو بادشاہ ہو کر مجھ سے مذاق کر رہا ہے (اس حدیث کے راوی بتاتے ہیں کہ) پھر میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے، (راوی یہ بھی بتاتے ہیں کہ) کہا جاتا تھا کہ یہ شخص اہل جنت میں سب سے کم رتبے والا ہو گا۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الرقاق: باب صفۃ الجنۃ والنار‘‘: ج ۲، ص: ۹۶۹، رقم: ۶۵۷۱؛ وأخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب آخر أہل النار خروجا‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۳، رقم: ۱۸۶ - ۳۰۸۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص139

حدیث و سنت

Ref. No. 2235/44-2374

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ذکر اللہ کی مجلس ہے تو یہ عین مقصود ہے، اور اگر کوئی دوسری مجلس ہے  تو  بھی قلب ذکر اللہ کی طرف  متوجہ رہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،مجلس میں متکلم کی جانب توجہ کے ساتھ قلب ذکراللہ کے ساتھ مربوط رہے تو یہ اچھی بات ہے پھر اگر غیراختیاری طور پر مجلس سے ہٹ کر مکمل ذکراللہ کی طرف متوجہ ہوگیا تو اس میں کوئی گناہ نہیں،  جو چیز غیراختیاری ہو اس میں کوئی مؤاخذہ  نہیں،اور اس کو بے ادبی شمار نہیں کیاجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند