Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال حدیث مسلم شریف، بخاری شریف میں ہے(۱) علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہے اور اس کا صحیح مصداق وہی ہیں اور علامہ سیوطیؒ کے ایک شاگرد ہیں، جو فرماتے ہیں کہ ہمارے استاد علامہ سیوطی نے جو فرمایا وہی صحیح ہے؛ اس لیے فارس کے لوگوں میں سوائے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے کوئی بھی اتنے اونچے علم کو نہیں پہونچا۔ (۲)
(۱) لوکان الإیمان عند الثریا لنالہ رجال أو رجل من ہؤلاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر، سورۃ الجمعۃ: باب قولہ: أخرین منہم لما یلحقوا بہم‘‘: ج ۲، ص: ۷۲۷؛و أخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم: باب فضل فارس‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲، رقم: ۲۵۴۶)
(۲) في حاشیۃ الشبراملسي علی المواہب عن العلامۃ الشامي تلمیذ الحافظ السیوطي قال: ما جزم بہ شیخنا الرملي أن أبا حنیفۃ ہو المراد من ہذا الحدیث ظاہر لا شک فیہ لأنہ یبلغ من أبناء فارس في العلم مبلغہ أحد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص137
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب دیگر مسجدوں کے مقابلے میں ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ (۱) اور چالیس نمازیں مسلسل جو شخص مسجد نبوی میں ادا کرے اس کے لئے جہنم، عذاب اور نفاق سے برائت کا اعلان ہے۔ (۲) ’’اللہم وفقنا‘‘
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: یبلغ بہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ في مسجدي ہذا أفضل من ألف صلاۃ فیما سواہ إلا المسجد الحرام۔ (أخرجہ المسلم، ’’کتاب الصلاۃ: باب فضل الصلاۃ بمسجدي‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۶، رقم: ۱۳۹۴)
(۲) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: من صلی في مسجدي أربعین صلاۃ لا تفوتہ صلاۃ کتب لہ برائۃ من النار وبرائۃ من العذاب وبرئ من النفاق۔ قال المنذري في الترغیب وترہیب: روایۃ الصحیح: أخرجہ أحمد في مسندہ والطبراني في الأوسط وفي مجمع الزوائد رجالہ ثقات۔ (محمد أمین الشنقیطي، أضواء البیان في إیضاح القرآن، سورۃ الجن: ۱۸، ج ۸، ص: ۳۳۶؛ )
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص138
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی آیت ہے {وأزواجہ أمہاتہم}(۴) اس آیت میں صراحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات مؤمنوں کی مائیں ہیں اور حضرت خدیجہ ودیگر ازواج کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ہونا مشہور احادیث سے ثابت ہے
اس لئے صورت مسئولہ میں قرآن کی صراحت کی بنا پر مذکورہ شخص ایمان کے دائرہ سے خارج ہوگیا ان پر تجدید ایمان وتجدید نکاح ضروری ہے۔(۱)
(۴) سورۃ الأحزاب: ۸۔
(۱)وقولہ: {وأزواجہ أمہاتہم} قال الطبري: وحرمۃ أزواجہ حرمۃ أمہاتہم علیہم في أنہن یحرم علیہن نکاحہن من بعد وفاتہ، کما یحرم علیہم نکاح أمہاتہم۔ (محمد طبري، جامع البیان في بیان تأویل القرآن، ’’سورۃ الأحزاب‘‘: ج ۲۰، ص: ۲۰۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص231
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت آدم علیہ السلام سے اب تک کتنا عرصہ گزرا ہے تاریخ اس کی صحیح نشادہی کرنے سے عاجز ہے، نیز یہ بات ایمانیات اور معتقدات کے قبیل سے نہیں اس لئے زیادہ چھان بین کی بھی ضرورت نہیں، اور صحیح نشان دہی مشکل اور دشوار ہے۔ (۱)
(۱) قال ابن عابدین: ولیست من المسائل التي یضر جہلہا أو سأل عنہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب في الکلام علي أبوی النبي وأہل الفترۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۵)
(أشرف علي التھانويؒ، أشرف الجواب: ص: ۱۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص232
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفت کو بیان کیا ہے {اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًام بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَہ۳۹}(۱) اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو بشارت دیتا ہے یحییٰ علیہ السلام کی جن کے احوال یہ ہوں گے کہ وہ کلمۃ اللہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرنے والے ہوں گے اور مقتدائے دین ہوںگے اپنے نفس کو لذات سے روکنے والے (عورت کے پاس نہیں جائیں گے) نبی اور صالحین میں سے ہوں گے، علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لفظ ’’حصور‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وحصورا‘‘ عطف علی ما قبلہ ومعناہ الذي لا یأتي النساء مع القدرۃ علی ذلک والإشارۃ إلی عدم انتفاعہ علیہ السلام بما عندہ لعدم میلہ للنکاح لما أنہ في شغل شاغل عن تلک‘‘(۲)
مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو نکاح کرنے کی قدرت تھی؛ لیکن آخرت کا خیال ان پر اس قدر غالب تھا کہ نہ ان کو بیوی کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے کی فرصت ملی؛ اس لیے حضرت یحییٰ علیہ السلام نے نکاح نہیں کیا، صاحب مرقاۃ ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ سلم: ینزل عیسیٰ بن مریم إلی الأرض فتزوج ویولد لہ‘‘(۱)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب قرب قیامت میں نازل ہوں گے تو نکاح کریں گے۔
الحاصل: قرآن وحدیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ان دو پیغمبروں نے نکاح نہیں کیا ہے، مولانا صاحب نے دورانِ تقریر جو بات کہی ہے وہ صحیح ہے۔
(۱) سورۃ آل عمران: ۳۹۔
(۲) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’آل عمران: ۳۹-۴۰‘‘: ج ۳،ص: ۱۴۸۔
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب نزول عیسیٰ علیہ السلام، الفصل الأول‘‘: ج ۸، ص: ۴۱۸۔
فتاوی دارالعلوم، وقف دیوبند ج2ص233
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مندرجہ ذیل حدیث میں ادنی درجہ کے جنتی کو دس گنا بڑی جنت ملنے کی صراحت موجود ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’إني لأعلم آخر أہل النار خروجاً منہا، وآخر أہل الجنۃ دخولاً الجنۃ، رجل یخرج من النار حبواً، فیقال لہ: إذہب فأدخل الجنۃ فیأتیہا فیخیل إلیہ أنہا ملأی، فیرجع فیقول: یا رب، وجدتہا ملأی، فیقول اللّٰہ عز وجل: إذہب فأدخل الجنۃ، فإن لک مثل الدنیا، وعشرۃ أمثالہا أو إن لک مثل عشرۃ أمثال الدنیا، فیقول: أتسخر بي أو أتضحک بي وأنت الملک؟ قال: فلقد رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضحک حتی بدت نواجذہ، فکان یقال: ذلک أدنی أہل الجنۃ منزلۃ‘‘(۱)۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ یہ ایک ایسا شخص ہو گا، جو اوندھے منہ دوزخ سے نکلے گا، پھر اللہ اس سے فرمائے گا کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا؛ پس وہ جنت کے پاس آئے گا، تو اس کا یہ خیال ہو گا کہ یہ تو بھری ہوئی ہے؛ چنانچہ وہ واپس لوٹ جائے گا اور عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا، اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جا کر جنت میں داخل ہو جا، پھر وہ اس کی طرف آئے گا، تو اسے یہی خیال گزرے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے؛ پس وہ جا کر پھر عرض کرے گا، کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا، اس پر اللہ تعالیٰ (تیسری بار) فرمائے گا، کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا، تیرے لیے تو وہاں دنیا کے برابر جگہ ہے اور اس سے دس گنا زیادہ ہے۔ (اسے یقین نہ آئے گا اور سمجھے گا کہ شاید اس سے مذاق کیا جا رہا ہے)؛ چنانچہ وہ عرض کرے گا کہ اے خدا تو بادشاہ ہو کر مجھ سے مذاق کر رہا ہے (اس حدیث کے راوی بتاتے ہیں کہ) پھر میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے، (راوی یہ بھی بتاتے ہیں کہ) کہا جاتا تھا کہ یہ شخص اہل جنت میں سب سے کم رتبے والا ہو گا۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الرقاق: باب صفۃ الجنۃ والنار‘‘: ج ۲، ص: ۹۶۹، رقم: ۶۵۷۱؛ وأخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب آخر أہل النار خروجا‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۳، رقم: ۱۸۶ - ۳۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص139
حدیث و سنت
Ref. No. 2235/44-2374
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ذکر اللہ کی مجلس ہے تو یہ عین مقصود ہے، اور اگر کوئی دوسری مجلس ہے تو بھی قلب ذکر اللہ کی طرف متوجہ رہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،مجلس میں متکلم کی جانب توجہ کے ساتھ قلب ذکراللہ کے ساتھ مربوط رہے تو یہ اچھی بات ہے پھر اگر غیراختیاری طور پر مجلس سے ہٹ کر مکمل ذکراللہ کی طرف متوجہ ہوگیا تو اس میں کوئی گناہ نہیں، جو چیز غیراختیاری ہو اس میں کوئی مؤاخذہ نہیں،اور اس کو بے ادبی شمار نہیں کیاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث کی کتابوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رفع حاجت کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو دعا پڑھتے جیسا کہ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ- قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا دخل الخلاء قال: عن حماد قال: ’’اللہم إني أعوذ بک‘‘ وقال: عن عبد الوارث قال: ’’أعوذ باللّٰہ من الخبث والخبائث‘‘(۱)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں داخل ہو تو کہے: ’’أعوذ باللّٰہ من الخبث والخبائث‘‘ اے اللہ میں گندگی اور شیاطین سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
مذکورہ دعاء اور ’’اللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث‘‘ کو بھی حدیث کی کتابوں میں حضرات محدثین نے ذکر کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بول وبراز سے پہلے اس کو پڑھا کرتے تھے۔
’’إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، کان إذا دخل الکنیف، قال: اللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث، وعن عبد العزیز بہذا الإسناد وقال: أعوذ باللّٰہ من الخبث والخبائث‘‘(۱)
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء‘‘: ج ۱، ص: ۲، رقم: ۴۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض: باب ما یقول إذا أراد الخلاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۳، رقم: ۳۷۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص140
حدیث و سنت
Ref. No. 2113/44-2178
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث بالا کی سند میں ایک راوی ہے ' نافع بن ھرمز' جس کے متعلق 'مجمع الزوائدو منبع الفوائد' میں لکھا ہے 'ضعیف' و ' متروک '۔
وعن ابن عباس قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " «ألا أخبركم بأفضل الملائكة؟ جبريل عليه السلام، وأفضل النبيين آدم، وأفضل الأيام يوم الجمعة، وأفضل الشهور شهر رمضان، وأفضل الليالي ليلة القدر، وأفضل النساء مريم بنت عمران» ". رواه الطبراني في الكبير وفيه نافع بن هرمز وهو ضعيف. (مجمع الزوائدو منبع الفوائد 2/165) رواه الطبراني، وفيه نافع بن هرمز وهو متروك. (مجمع الزوائدو منبع الفوائد 8/198 باب ذکر نبینا آدم)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 1449/42-909
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو شخص قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہو یا کسی اور کام میں مشغول ہو کہ جواب نہ دے سکتاہو تو ایسے شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ اگر کسی نے ایسے شخص کو سلام کیا تو اس پر جواب دینا ضروری نہیں ہے۔ تاہم بہتر ہے کہ تلاوت روک کر سلام کا جواب دیدے۔
" یکره السلام علی العاجز عن الجواب حقیقةً کالمشغول بالأکل أو الاستفراغ، أو شرعاً کالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن، ولو سلم لایستحق الجواب". (شامی، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا1/617)
کما یکرہ علی عاجزٍ عن الرد حقیقةً کأکل أو شرعاً کمصلٍّ وقارئٍ ولو سلّم لا یستحق الجواب (در مختار) وفي الشامي: ولو سلم لا یستحق الجواب أقول: في البزازیة وإن سلم في حال التلاوة فالمختار أنہ یجب الرد بخلاف حال الخطبة والأذان وتکرار الفقہ․․․ وإن سلّم فہو آثم․․․ وفیہا والصحیح أنہ لا یرد في ہذہ المواضع (شامي: 9/595)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند