حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں مذکور ہے، امام ترمذی نے اس پر حدیث ’’غریب‘‘ کا حکم لگایا ہے؛ جبکہ ترمذی کے بعض نسخوں میں ’’حسن غریب‘‘ مذکور ہے۔ سنن دارمی کے محقق نے حدیث کو حسن قرار دیا ہے، بعض حضراتِ محدثین نے حدیث کے ایک راوی خالد بن طہمان کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، تاہم فضائل اعمال کے باب میں یہ روایت قابل عمل ہے۔(۱)

(۱) عن معقل بن یسار عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قال حین یصبح أعوذ باللّٰہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم وثلاث آیات من آخر سورۃ الحشر وکل اللّٰہ بہ سبعین ألف ملک یصلون علیہ حتی یمسي وإن قالہا مساء فمثل ذلک حتی یصبح، قال حسین: سلیم أسد: إسنادہ حسن۔ (أخرجہ عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن، في سنن دارمي: ج ۲، ص: ۵۵۰، رقم: ۳۴۲۵)
ہذا حدیث حسن غریب صحیح، أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما جاء في الدعاء إني أصبح وأمسیٰ‘: ج ۲، ص: ۱۷۶، رقم: ۳۳۸۸)
خالد بن طہمان، أبو العلاء الخفاف:
حدثني نافع بن أبي نافع عن معقل بن یسار عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قال حین یصبح ثلاث مرات: أعوذ باللّٰہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم وقرأ ثلاث آیات من آخر سورۃ الحشر، وکل اللّٰہ بہ سبعین ألف ملک یصلون علیہ حتی یمسي، وإن مات في ذلک الیوم مات شہیداً، ومن قالہا: حین یمسي کان بتلک المنزلۃ ہذا حدیث حسن غریب، لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ۔ (محمد ناصر الدین، صحیح وضعیف سنن الترمذي: ج ۱، ص: ۳۱۵، رقم: ۲۹۲۲)  عن أبي علاء خالد بن طہمان، عن نافع ولم ینسبہ عن معقل بن یسار رفعہ من قال حین یصبح أعوذ باللّٰہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم وثلاث آیات من سورۃ الحشر، وکل اللّٰہ تعالیٰ ألف ملک یصلون علیہ حتی یمسي الحدیث، وقال حسن غریب، لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ انتہی ولم یصفہ إلا بنافع بن أبي نافع وکذلک أخرجہ الدارمي في مسندہ، عن أبي ہریرۃ من طریق أبي أحمد الزبیري وأخرج الحلیمي في مسندہ عن أبي أحمد الزبیري ثلاثۃ أحادیث۔ (أحمد بن علي بن محمد، تہذیب التہذیب: ج ۱، ص: ۴۱۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص108

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ حدیث مستدرک علی صحیحین میں ہے اور حاکم نے اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے۔ (۱)

(۱) الحاکم، في مستدرکہ،  ج ۴، ص:  ۲۷۸، رقم: ۷۶۳۷۔
عن جابر بن عبد اللّٰہ، رضي اللّٰہ عنہما قال: خرج علینا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: خرج من عندي خلیلي جبریل آنفاً، فقال: یا محمد، والذي بعثک بالحق إن للّٰہ عبداً من عبیدہ عبد اللّٰہ تعالیٰ خمس مائۃ سنۃ علی رأس جبل في البحر عرضہ وطولہ ثلاثون ذراعاً في ثلاثین ذراعاً، والبحر المحیط بہ أربعۃ آلاف فرسخ من کل ناحیۃ وأخرج اللّٰہ تعالیٰ لہ عیناً عذبۃ بعرض الأصبع تبض بماء عذب فتستنقع في أسفل الجبل وشجرۃ رمان تخرج لہ کل لیلۃ رمانۃ فتعذیہ یومہ، فإذا أمسیٰ نزل فأصاب من الوضوء وأخذ تلک الرمانہ فأکلہا ثم قام لصلاتہ … قال جبریل علیہ السلام: إنما الأشیاء برحمۃ اللّٰہ تعالیٰ یا محمد، ہذا حدیث صحیح الإسناد۔  (أبو عبد اللّٰہ الحاکم محمد بن عبد اللّٰہ، في مستدرکہ: ج ۴، ص: ۲۷۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص109

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو کئی بار دیکھا ہے۔
طبرانی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’رآہ مرتین مرۃ بقلبہ ومرۃ ببصرہ عن عکرمۃ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال رأی محمد ربہ قلت ألیس اللّٰہ یقول لاتدرکہ الأبصار وہو یدرک الأبصار قال ویحک ذاک إذا تجلی بنورہ الذي ہو نورہ وقد رأی ربہ مرتین‘‘(۲)

(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب التفسیر، سورۃ النجم‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۴، رقم: ۳۲۷۹)
عن أبي ذر قال: سألت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہل رأیت قال: نور إني أراہ۔  (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب معنی قول اللّٰہ عزول ولقد رأہ نزلۃ أخری الخ‘‘: ج ۱، ص: ۹۹، رقم: ۲۹۱)
وذہب الجمہور من المفسرین إلی أن المراد أنہ رأی ربہ سبحانہ وتعالیٰ ثم اختلف ہولاء فذہب جماعۃ إلی أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی ربہ بفؤادہ دون عینیہ، وذہب جماعۃ إلی أنہ رأہ بعینیہ قال الإمام أبو الحسن الواحدي قال المفسرون في ہذا إخبار عن رؤیۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ربہ عز وجل لیلۃ المعراج۔ (النووي شرح المسلم ’’کتاب الإیمان: باب معنی قول اللّٰہ عزول ولقد رأہ نزلۃ أخری الخ‘‘: ج ۱، ص: ۹۷، رقم: ۲۸۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص202

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث کی معتبر کتابوں میں یہ حدیث ہمیں نہیں ملی؛ لیکن قرآن کریم کی آیت سے اس طرح کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ (۱)

(۱) {لّٰبِثِیْنَ فِیْھَآ أَحْقَابًا ہج ۲۳} (سورۃ النباء: ۲۳) وفي التفسیر:
أحقاباً جمع حقب والحقب الواحد: ثمانون سنۃ کل سنۃ إثنا عشر شہراً، کل شہر ثلاثون یوماً، کل یوم ألف سنۃ، روي ذلک عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ  عنہ۔ (البغوي، تفسیر البغوي، ’’سورۃ النباء‘‘۲۳، ج ۵،ص: ۲۰۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص110

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ کی ولادت عام الفیل کے تین سال بعد ۵۷۱ء؁ میں ہوئی تھی۔ (۱)

(۱) عن محمد بن اسحاق قال: ولد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الإثنین لإثنتي عشرۃ لیلۃ خلت من شہر ربیع الأول عام الفیل۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ’’الکامل في التاریخ، ذکر مولد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶ : ج ۱، ص: ۴۱۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص203

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف کی چابی اس پہلے ہی متولی ومنتظم کو دیدی تھی، جن کا نام عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ تھا اور ان کے لئے دعا بھی فرمائی تھی کہ ’’خالدۃ تالدۃ‘‘ یعنی آپ کے پاس یہ چابی ہمیشہ ہمیشہ رہے گی۔(۱)

(۱) دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم البیت وصلی فیہ رکعتین فلما خرج سألہ العباس أن یعطیہ المفتاح وأن یجمع لہ بین السقایۃ والسدانۃ فأنزل اللّٰہ ہذہ الأیۃ فأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیا أن یرد المفتاح إلی عثمان ویعتذر إلیہ۔ (’’تفسیر الخازن سورۃ النساء: ۵۸‘‘: ج ۱، ص: ۳۹؛ ومحمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’سورۃ النساء: ۵۸‘‘؛ ج ۲، ص: ۱۴۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص203

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱، ۵) رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جو منبر خطبہ کے لئے بنایا گیا تھا اس کی تین سیڑھیاں تھیں۔ ’’ومنبرُہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان ثلاث درجٍ غیر المسماۃ بالمستراح قال ابنُ حجر: في التحفۃ وبحث بعضہم أن مااعتید الآن من النزول في الخطبۃ الثانیۃ إلی درجہ سفلی ثم العود بدعۃ قبیحۃ شنیعۃ‘‘(۱) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اوپر کی سیڑھی پر خطبہ دیتے تھے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس سے زیریں سیڑھی پر اور عمر رضی اللہ عنہ تیسری سیڑھی پر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر اوپر ہی کی سیڑھی پر خطبہ دیا۔ تیسری پر نہیں کہ راحت کے لئے بیٹھنے کے وقت زمین پر پیر رکھنے پڑتے ہیں، شرح بخاری میں ہے ’’إن المنبر لم یزل علی حالہ ثلاث درجات‘‘(۲) اور طبرانی میں ہے ’’عن ابن عمر قال لم یجلس أبوبکر الصدیق في مجلس رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المنبر حتی لقي اللّٰہ عزوجل ولم یجلس عمر في مجلس أبوبکر حتی لقي اللّٰہ، ولم یجلس عثمان في مجلس عمر، حتی لقي اللّٰہ‘‘(۳) پس مسنون طریقہ یہی ہے کہ منبر کی تین ہی سیڑھیاں ہوں؛ لیکن حسب ضرورت اور احوال کا لحاظ رکھتے ہوئے، اگر کم اور زیادہ کر لی جائیں، تو بھی جائز ہے۔ بہر صورت ایک درجہ سے زائد ہونی چاہئیں تاکہ زمین پر پیر نہ رکھنے پڑیں۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۱۔
(۲) العیني عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب الخطبۃ علی المنبر‘‘: ج ۶،ص: ۲۱۵، رقم: ۹۷۱۔
(۳) الطبراني، المعجم الأوسط، ’’باب من اسمہ محمود‘‘: ج ۸، ص: ۴۹، رقم: ۷۹۲۳۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص205

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب معراج کی سواری کا نام براق تھا، جس کی جسامت کے بارے میں صرف اتنا منقول ہے کہ وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا (۱)، آج کل جو شکل اس کی کیلنڈر پر ملتی ہے، اس کی کوئی اصل وحقیقت نہیں ہے؛ اس لئے ان کا گھر میں رکھنا بھی درست نہیں ہے۔

(۱) وأتیت بدابۃ أبیض، دون البغل وفوق الحمار: البراق۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب ذکر الملائکۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۵، رقم: ۳۲۰۷)
ثم أتیت بدابۃ أبیض یقال لہ البراق فوق الحمار ودون البغل یقع خطوہ عند أقصی طرفہ فحملت علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الإسراء برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، رقم: ۱۶۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص206

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ خصوصیات امت محمدیہ کہلاتی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔

(۱) غنائم کا حلال ہونا۔ یعنی جہاد میں ہاتھ لگا ہوا مال غنیمت حلال ہونا۔(۱)
(۲) تمام روئے زمین پر نماز کا جائز ہونا۔(۲)
(۳) نماز میں صفوف کا بطرز ملائکہ ہونا۔(۳)
(۴) جمعہ کے دن کا ایک خاص عبادت کے لئے مقرر ہونا۔
(۵) جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی کا آنا کہ جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔(۴)
(۶) روزہ کے لئے سحری کی اجازت کا ہونا۔(۵)
(۷) رمضان المبارک میں شب قدر کا عطا ہونا جو ایک ہزار مہینہ کی راتوں سے افضل ہے۔(۶)
(۸) وسوسہ اور خطاء و نسیان کا گناہ نہ ہونا۔
(۹) احکام شاقہ کا مرتفع ہونا یعنی جو احکام مشکل تھے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے ان کو اٹھا لیا ہے۔
(۱۰) تصویر کا ناجائز ہونا۔
(۱۱) اجماع امت کا حجت ہونا اور اس میں ضلالت و گمراہی کا احتمال نہ ہونا ہے۔(۷)
(۱۲) فروعی اختلاف کا رحمت ہونا۔
(۱۳) پہلی امتوں کی طرح عذابوں کا نہ آنا۔(۸)
(۱۴) علماء سے وہ کام لینا جو انبیاء کرتے تھے۔ (۱)
(۱۵) قیامت تک جماعت اہل حق کا مؤید من اللہ ہوکر پایا جانا۔(۲)
(۱۶) امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیگر امتوں پر گواہ بننا جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {لتکونوا شہداء علي الناس} (القرآن الکریم) یعنی تم گواہ بنوگے لوگوں پر قیامت کے دن۔(۳)

(۱) أعطیت خمسا لم یعطہن أحد من الأنبیاء قبلی: نصرت بالرعب مسیرۃ شہر وجعلت لي الأرض کلہا مسجد أ و طہوراً واحلت لي الغنائم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التیمم: باب إذا لم یجد ماء ولا تراباً‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۳۳۵)
(۲-۳) فضلنا علی الناس بثلاث: جعلت لنا الأرض کلہا مسجداً وجعلت تربتہا طہوراً إذا لم نجد الماء وجعلت صفوفنا کصفوف الملائکۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب المساجد‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۵۲۲)
(۴) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب الساعۃ التی في یوم الجمعۃ: ج ۱، ص: ۱۲۸، رقم: ۹۳۵)
(۵) أخرجہ مسلم، في صححیہ، ’’کتاب الصیام: باب فضل السحور‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۰، رقم: ۱۰۹۶۔
(۶) شرح الزرقاني علی المواہب: ج ۷، ص: ۴۵۰۔
(۷) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الفتن، باب ماجاء في لزوم الجماعۃ: ج ۲، ص: ۳۹، رقم: ۲۱۶۷۔
(۸) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب ہلاک ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۲، رقم: ۲۸۸۹۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب العلم قبل القول والعمل‘‘: ج۱، ص: ۲۴۔
(۲) أشرف علي التھانوي، نشر الطیب، ’’في ذکر النبي الطبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ص: ۱۸۵۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب قول اللّٰہ {إنا أرسلنا نوحاً إلی قومہ}‘‘: ج ۲، ص: ۶۷۱، رقم: ۳۳۳۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص207

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امی اس کو کہتے ہیں جس نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو اور جاہل وہ ہے، جس کو کوئی علم حاصل نہ ہو، دونوں میں فرق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی استاذ نہیں تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امی کہا جاتا ہے اور یہ کہنا درست ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے علوم عطا فرمائے تھے کہ دنیا میں کسی کو بھی اتنے علوم لکھنا پڑھنا سیکھنے کے باوجود حاصل نہیں ہوسکے؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے عالم ومعلم ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہل کہنا خلاف واقعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے پڑھے ہوئے نہ تھے؛ اس لئے انپڑھ کہنا درست نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم کو انپڑھ کہتا ہے اور اس کی سمجھ میں یہ امی کا ترجمہ ہے (جس نے پڑھنا  لکھنا نہ سیکھا ہو)، تو وہ گنہگار نہیں ہے، تاہم انپڑھ کا لفظ استعمال کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفعت کے خلاف ہے۔ اور جاہل کہنا تو قطعاً درست نہیں ہے، اگر اپنی دانست میں اس نے یہ امی ہی کا ترجمہ کیا ہے؛ اگرچہ غلط کیا ہے، تو وہ اس کلمہ سے دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوا اور اگر عیاذا باللہ اہانت کے لئے اس جملہ کو استعمال کیا تو وہ بلا شبہ مرتد ہوجائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لفظ امی بولنے کی ضرورت پیش آئے تو امی لفظ بولا جائے، انپڑھ وغیرہ الفاظ سے اجتناب کیا جائے۔(۱)

(۱) محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسر المظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۱۵۷‘‘: ج ۳، ص: ۴۴۲۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص208