حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان الفاظ کے ساتھ حدیث نہیں ملی۔ تاہم مضمون کے اعتبار سے یہ درست ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو نصف حسن دیاگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل حسن دیا گیا۔ مختلف روایتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل الحسن ہونا ذکر کیاگیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرنبی کو خوبصورت پیداکیا اور تمہارے نبی سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔(۲)
’’قال ابن القیم في بدائع الفوائد: قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن یوسف ’’أوتی شطر الحسن‘‘ قالت طائفۃ المراد منہ أن یوسف أوتی شطر الحسن الذي أوتیہ محمد فالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلغ الغایۃ في الحسن ویوسف بلغ شطر تلک الغایۃ قالوا: ویحقق ذلک ما رواہ الترمذي من حدیث قتادۃ عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: ’’ما بعث اللّٰہ نبیا إلا حسن الوجہ حسن الصوت وکان نبیکم أحسنہم وجہا وأحسنہم صوتا‘‘(۱) (قد أعطي شطر الحسن)، قال المظہر: أي: نصف الحسن۔ أقول: وہو محتمل أن یکون المعنی نصف جنس الحسن مطلقا، أو نصف حسن جمیع أہل زمانہ۔ وقیل بعضہ لأن الشطر کما یراد بہ نصف الشيء قد یراد بہ بعضہ مطلقا۔ أقول: لکنہ لا یلائمہ مقام المدح وإن اقتصر علیہ بعض الشراح، أللہم إلا أن یراد بہ بعض زائد علی حسن غیرہ، وہو إما مطلق فیحمل علی زیادۃ الحسن الصوري دون الملاحۃ المعنویۃ لئلا یشکل نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإما مقید بنسبۃ أہل زمانہ وہو الأظہر / وقد قال بعض الحفاظ من المتأخرین، وہو من مشایخنا المعتبرین: أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان أحسن من یوسف علیہ السلام إذ لم ینقل أن صورتہ کان یقع من ضوئہا علی جدران ما یصیر کالمرآۃ یحکی ما یقابلہ، وقد حکي عن صورۃ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ لکن اللّٰہ تعالی ستر عن أصحابہ کثیرا من ذلک الجمال الباہر، فإنہ لو برز لہم لم یطیقوا النظر إلیہ کما قالہ بعض المحققین: وأما جمال یوسف علیہ السلام فلم یستر منہ شيء اہـ‘‘(۲)

(۲)وفي حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ …… وقال في السماء الثالثۃ فإذا أنا بیوسف إذا ہو قد أعطي شطر الحسن فرحب بي ودعا لي بخیر الخ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب في المعراج‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۸، رقم: ۵۸۶۳)

(۱) ابن القیم، بدائع الفوائد: ج ۳، ص: ۲۰۶۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب في المعراج‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۴۹، رقم: ۵۸۶۳۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص105



 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرات صحابہؓ کی تعداد کے سلسلہ میں قرآن وحدیث میں کوئی واضح صراحت نہیں ملی۔ حافظ ابن صلاح نے مقدمہ ابن صلاح میں امام ابوزرعہ رازی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ کی مجموعی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار تھی۔ ’’قبض رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن مأۃ ألف وأربعۃ عشر ألفا من الصحابۃ ممن روي عنہ وسمع منہ وفي روایۃ ممن رآہ وسمع منہ‘‘(۱) البتہ حافظ عراقی نے لکھا ہے کہ حضرات صحابہؓ کو شمار کرنا اور ان کی تعداد متعین کرنا دشوار ہے، اس لیے کہ وہ حضرات ملکوں میں منتشر تھے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کعب بن مالک کے تبوک میں پیچھے رہ جانے کے قصہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ ’’أصحاب رسول اللّٰہ کثیر لایجمعھم کتاب حافظ‘‘(۲)

(۱) إبراہیم بن موسیٰ الشافعي، مقدمہ ابن الصلاح۔ (النوع التاسع والثلاثون: ج ۲، ص: ۵۰۱)
(۲) أحمد بن علي بن محمد، الإصابۃ في تمییز الصحابۃ: ج ۱، ص: ۸۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص107

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں مذکور ہے، امام ترمذی نے اس پر حدیث ’’غریب‘‘ کا حکم لگایا ہے؛ جبکہ ترمذی کے بعض نسخوں میں ’’حسن غریب‘‘ مذکور ہے۔ سنن دارمی کے محقق نے حدیث کو حسن قرار دیا ہے، بعض حضراتِ محدثین نے حدیث کے ایک راوی خالد بن طہمان کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، تاہم فضائل اعمال کے باب میں یہ روایت قابل عمل ہے۔(۱)

(۱) عن معقل بن یسار عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قال حین یصبح أعوذ باللّٰہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم وثلاث آیات من آخر سورۃ الحشر وکل اللّٰہ بہ سبعین ألف ملک یصلون علیہ حتی یمسي وإن قالہا مساء فمثل ذلک حتی یصبح، قال حسین: سلیم أسد: إسنادہ حسن۔ (أخرجہ عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن، في سنن دارمي: ج ۲، ص: ۵۵۰، رقم: ۳۴۲۵)
ہذا حدیث حسن غریب صحیح، أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما جاء في الدعاء إني أصبح وأمسیٰ‘: ج ۲، ص: ۱۷۶، رقم: ۳۳۸۸)
خالد بن طہمان، أبو العلاء الخفاف:
حدثني نافع بن أبي نافع عن معقل بن یسار عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قال حین یصبح ثلاث مرات: أعوذ باللّٰہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم وقرأ ثلاث آیات من آخر سورۃ الحشر، وکل اللّٰہ بہ سبعین ألف ملک یصلون علیہ حتی یمسي، وإن مات في ذلک الیوم مات شہیداً، ومن قالہا: حین یمسي کان بتلک المنزلۃ ہذا حدیث حسن غریب، لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ۔ (محمد ناصر الدین، صحیح وضعیف سنن الترمذي: ج ۱، ص: ۳۱۵، رقم: ۲۹۲۲)  عن أبي علاء خالد بن طہمان، عن نافع ولم ینسبہ عن معقل بن یسار رفعہ من قال حین یصبح أعوذ باللّٰہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم وثلاث آیات من سورۃ الحشر، وکل اللّٰہ تعالیٰ ألف ملک یصلون علیہ حتی یمسي الحدیث، وقال حسن غریب، لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ انتہی ولم یصفہ إلا بنافع بن أبي نافع وکذلک أخرجہ الدارمي في مسندہ، عن أبي ہریرۃ من طریق أبي أحمد الزبیري وأخرج الحلیمي في مسندہ عن أبي أحمد الزبیري ثلاثۃ أحادیث۔ (أحمد بن علي بن محمد، تہذیب التہذیب: ج ۱، ص: ۴۱۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص108

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ حدیث مستدرک علی صحیحین میں ہے اور حاکم نے اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے۔ (۱)

(۱) الحاکم، في مستدرکہ،  ج ۴، ص:  ۲۷۸، رقم: ۷۶۳۷۔
عن جابر بن عبد اللّٰہ، رضي اللّٰہ عنہما قال: خرج علینا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: خرج من عندي خلیلي جبریل آنفاً، فقال: یا محمد، والذي بعثک بالحق إن للّٰہ عبداً من عبیدہ عبد اللّٰہ تعالیٰ خمس مائۃ سنۃ علی رأس جبل في البحر عرضہ وطولہ ثلاثون ذراعاً في ثلاثین ذراعاً، والبحر المحیط بہ أربعۃ آلاف فرسخ من کل ناحیۃ وأخرج اللّٰہ تعالیٰ لہ عیناً عذبۃ بعرض الأصبع تبض بماء عذب فتستنقع في أسفل الجبل وشجرۃ رمان تخرج لہ کل لیلۃ رمانۃ فتعذیہ یومہ، فإذا أمسیٰ نزل فأصاب من الوضوء وأخذ تلک الرمانہ فأکلہا ثم قام لصلاتہ … قال جبریل علیہ السلام: إنما الأشیاء برحمۃ اللّٰہ تعالیٰ یا محمد، ہذا حدیث صحیح الإسناد۔  (أبو عبد اللّٰہ الحاکم محمد بن عبد اللّٰہ، في مستدرکہ: ج ۴، ص: ۲۷۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص109

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو کئی بار دیکھا ہے۔
طبرانی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’رآہ مرتین مرۃ بقلبہ ومرۃ ببصرہ عن عکرمۃ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال رأی محمد ربہ قلت ألیس اللّٰہ یقول لاتدرکہ الأبصار وہو یدرک الأبصار قال ویحک ذاک إذا تجلی بنورہ الذي ہو نورہ وقد رأی ربہ مرتین‘‘(۲)

(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب التفسیر، سورۃ النجم‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۴، رقم: ۳۲۷۹)
عن أبي ذر قال: سألت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہل رأیت قال: نور إني أراہ۔  (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب معنی قول اللّٰہ عزول ولقد رأہ نزلۃ أخری الخ‘‘: ج ۱، ص: ۹۹، رقم: ۲۹۱)
وذہب الجمہور من المفسرین إلی أن المراد أنہ رأی ربہ سبحانہ وتعالیٰ ثم اختلف ہولاء فذہب جماعۃ إلی أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی ربہ بفؤادہ دون عینیہ، وذہب جماعۃ إلی أنہ رأہ بعینیہ قال الإمام أبو الحسن الواحدي قال المفسرون في ہذا إخبار عن رؤیۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ربہ عز وجل لیلۃ المعراج۔ (النووي شرح المسلم ’’کتاب الإیمان: باب معنی قول اللّٰہ عزول ولقد رأہ نزلۃ أخری الخ‘‘: ج ۱، ص: ۹۷، رقم: ۲۸۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص202

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث کی معتبر کتابوں میں یہ حدیث ہمیں نہیں ملی؛ لیکن قرآن کریم کی آیت سے اس طرح کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ (۱)

(۱) {لّٰبِثِیْنَ فِیْھَآ أَحْقَابًا ہج ۲۳} (سورۃ النباء: ۲۳) وفي التفسیر:
أحقاباً جمع حقب والحقب الواحد: ثمانون سنۃ کل سنۃ إثنا عشر شہراً، کل شہر ثلاثون یوماً، کل یوم ألف سنۃ، روي ذلک عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ  عنہ۔ (البغوي، تفسیر البغوي، ’’سورۃ النباء‘‘۲۳، ج ۵،ص: ۲۰۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص110

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ کی ولادت عام الفیل کے تین سال بعد ۵۷۱ء؁ میں ہوئی تھی۔ (۱)

(۱) عن محمد بن اسحاق قال: ولد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الإثنین لإثنتي عشرۃ لیلۃ خلت من شہر ربیع الأول عام الفیل۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ’’الکامل في التاریخ، ذکر مولد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶ : ج ۱، ص: ۴۱۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص203

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف کی چابی اس پہلے ہی متولی ومنتظم کو دیدی تھی، جن کا نام عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ تھا اور ان کے لئے دعا بھی فرمائی تھی کہ ’’خالدۃ تالدۃ‘‘ یعنی آپ کے پاس یہ چابی ہمیشہ ہمیشہ رہے گی۔(۱)

(۱) دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم البیت وصلی فیہ رکعتین فلما خرج سألہ العباس أن یعطیہ المفتاح وأن یجمع لہ بین السقایۃ والسدانۃ فأنزل اللّٰہ ہذہ الأیۃ فأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیا أن یرد المفتاح إلی عثمان ویعتذر إلیہ۔ (’’تفسیر الخازن سورۃ النساء: ۵۸‘‘: ج ۱، ص: ۳۹؛ ومحمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’سورۃ النساء: ۵۸‘‘؛ ج ۲، ص: ۱۴۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص203

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱، ۵) رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جو منبر خطبہ کے لئے بنایا گیا تھا اس کی تین سیڑھیاں تھیں۔ ’’ومنبرُہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان ثلاث درجٍ غیر المسماۃ بالمستراح قال ابنُ حجر: في التحفۃ وبحث بعضہم أن مااعتید الآن من النزول في الخطبۃ الثانیۃ إلی درجہ سفلی ثم العود بدعۃ قبیحۃ شنیعۃ‘‘(۱) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اوپر کی سیڑھی پر خطبہ دیتے تھے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس سے زیریں سیڑھی پر اور عمر رضی اللہ عنہ تیسری سیڑھی پر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر اوپر ہی کی سیڑھی پر خطبہ دیا۔ تیسری پر نہیں کہ راحت کے لئے بیٹھنے کے وقت زمین پر پیر رکھنے پڑتے ہیں، شرح بخاری میں ہے ’’إن المنبر لم یزل علی حالہ ثلاث درجات‘‘(۲) اور طبرانی میں ہے ’’عن ابن عمر قال لم یجلس أبوبکر الصدیق في مجلس رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المنبر حتی لقي اللّٰہ عزوجل ولم یجلس عمر في مجلس أبوبکر حتی لقي اللّٰہ، ولم یجلس عثمان في مجلس عمر، حتی لقي اللّٰہ‘‘(۳) پس مسنون طریقہ یہی ہے کہ منبر کی تین ہی سیڑھیاں ہوں؛ لیکن حسب ضرورت اور احوال کا لحاظ رکھتے ہوئے، اگر کم اور زیادہ کر لی جائیں، تو بھی جائز ہے۔ بہر صورت ایک درجہ سے زائد ہونی چاہئیں تاکہ زمین پر پیر نہ رکھنے پڑیں۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۱۔
(۲) العیني عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب الخطبۃ علی المنبر‘‘: ج ۶،ص: ۲۱۵، رقم: ۹۷۱۔
(۳) الطبراني، المعجم الأوسط، ’’باب من اسمہ محمود‘‘: ج ۸، ص: ۴۹، رقم: ۷۹۲۳۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص205

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب معراج کی سواری کا نام براق تھا، جس کی جسامت کے بارے میں صرف اتنا منقول ہے کہ وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا (۱)، آج کل جو شکل اس کی کیلنڈر پر ملتی ہے، اس کی کوئی اصل وحقیقت نہیں ہے؛ اس لئے ان کا گھر میں رکھنا بھی درست نہیں ہے۔

(۱) وأتیت بدابۃ أبیض، دون البغل وفوق الحمار: البراق۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب ذکر الملائکۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۵، رقم: ۳۲۰۷)
ثم أتیت بدابۃ أبیض یقال لہ البراق فوق الحمار ودون البغل یقع خطوہ عند أقصی طرفہ فحملت علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الإسراء برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، رقم: ۱۶۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص206