فقہ

Ref. No. 40/1110

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پہلے اصل مسئلہ سمجھیں  کہ غیرسبیلین سے اگر کوئی چیز نکلے اور نکل کر اپنی جگہ سے بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جاتاہے اور اگر اتنی معمولی مقدار میں ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہ بہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے ۔ لیس فی القطرۃ والقطرتین من الدم وضوء الا ان یکون سائلا ۔ اس مسئلہ کی روشنی میں اگر غورفرمائیں تو پہلی عبارت درست ہے کہ زخم سے نجاست نکلی اور اتنی مقدار میں ہے کہ نچوڑنے کی صورت میں سیلان پایاجاے گا تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ اس کی کیفیت یہ ہے کہ اگر نہ نچوڑا جاتا تو نہ بہتا۔ جہاں تک ہدایہ کی عبارت کا تعلق ہے اما اذا عصرھا فخرج بعصرہ لاینقض لانہ مخرج ولیس بخارج، یہ درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ کیونکہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار خارج پر ہے اور مخرج سے بھی خارج کا وجود ہوجاتا ہے۔  چنانچہ علامہ لکھنوی صاحب نے ہدایہ کی اس عبارت پر نقد کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ : وذکر فی الکافی الاصح ان المکڑج ناقض انتہی کیف لا؟ وجمیع الادلۃ من الکتاب والسنۃ والاجماع والقیاس تدل علی تعلیق النقض بالخارج النجس وھو الثابت فی المخرج۔ (حاشیہ ہدایہ 1/116)۔

  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1545/43-1126

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر حدیث کی سند میں تابعی کے بعد راوی ساقط ہوں مثلا تابعی کہیں : قال رسول اللہ او فعل رسول اللہ ﷺ کذا ۔۔۔ تو اس روایت کو مرسل کہتے ہیں۔ اور اس کو منقطع بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس لئے کہ درمیان سند سے کسی بھی راوی کے ساقط ہونے سے سند میں انقطاع پیداہوجاتاہے اور اس انقطاع کی وجہ سے ضعف بھی پیداہوتاہے ، تاہم مرسل روایت حضرت امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک مطلقا قابل قبول ہے، اور امام شافعی کے نزدیک چند شرطوں کے ساتھ قابل قبول ہے، جمور محدثین کے نزدیک مرسل کا حکم توقف کا ہے۔

وان کان السقوط من آخرالسند فان کان بعد التابعی فالحدیث مرسل وھذا الفعل ارسال کقول التابعی قال رسول اللہ ﷺ ۔ وحکم المرسل التوقف عندجمہور العلماء۔ وعند ابی حنیفۃ ومالک المرسل مقبول مطلقا (مقدمہ شیخ عبدالحق )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2298/44-3448

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چونکہ وہ کنواں اب استعمال میں نہیں ہے، اس لئے اگر وہ آپ کی ملکیت میں ہے تو اس میں بیت الخلاء کی ٹنکی بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن  اگر سرکاری ہے تو اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔

"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ،فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل:6/264،ط:دار الكتب العلمية)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ
بہو کا اپنے سسر کا عضو تناسل دیکھنے سے حرمت مصاحرت پر کیا حکم ہے

فقہ

Ref. No. 2455/45-3722

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حدیث شریف میں قبلہ کی جانب تھوکنے، قضائے حاجت کرنے وغیرہ امور سے منع کیا گیاہے،  اور ان امور کو قبلہ کے احترام و ادب کےخلاف گرداناگیاہے، ظاہر ہے جب ہمارے یہاں کسی قابل احترام آدمی کی جانب پیر کرنا ادب کے خلاف سمجھاجاتاہے تو کعبہ کی جانب اس کو احترام کے خلاف کیوں نہ سمجھاجائے۔ اسی وجہ سے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر کوئی جان بوجھ کر قبلہ کی جانب پیر کرتاہے او اس کو معمولی چیز سمجھتاہے تو مکروہ تحریمی کا مرتکب ہوگا اور گنہگار ہوگا، البتہ اگر کسی کا پیر نادانی میں قبلہ کی جانب ہوگیا تو کوئی گناہ نہیں۔

 ویکره  تحریماً استقبال القبلة بالفرج ۔۔۔کماکره مد رجلیه فی نوم او غیرها الیها ای عمدا لانه اساء ة ادب ۔ قال تحته: سیاتی انه بمد الرجل الیها ترد شهادته (فتاوی شامی ج ۱، ص: ۶۵۵)

قال الحصکفي: وکذا یکرہ ۔۔۔۔مد رجلہ الیہا ۔۔۔۔۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۳/۵۵، فصل : الاستنجاء(

يُكْرَهُ أنْ يَمُدَّ رِجْلَيْهِ فِي النَّوْمِ وغَيْرِهِ إلى القِبْلَةِ أوْ المُصْحَفِ أوْ كُتُبِ الفِقْهِ إلّا أنْ تَكُون عَلى مَكان مُرْتَفِعٍ عَنْ المُحاذاةِ۔ (فتح القدیر : ١/٤٢٠)

عَنْ حُذَیْفَةَ رضي الله عنه أظُنُّهُ عَنْ رَسُولِ الله صلي الله عليه وسلم قَالَ مَنْ تَفَلَ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ جَاء یَوْمَ الْقِیَامَةِ تَفْلُهُ بَیْنَ عَیْنَیْهِ۔ (أبوداؤد، رقم ١٦٨)

(كَمَا كُرِهَ) تَحْرِيمًا (اسْتِقْبَالُ قِبْلَةٍ وَاسْتِدْبَارُهَا لِ) أَجْلِ (بَوْلٍ أَوْ غَائِطٍ) .... (وَلَوْ فِي بُنْيَانٍ) لِإِطْلَاقِ النَّهْيِ۔ (شامی : ١/٣٤١)

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا جلس أحدکم علی حاجتہ فلا یستقبل القبلۃ ولا یستدبرہا۔ (صحیح بن خزیمۃ، رقم : ۱۳۱۳)

ویکرہ استقبال … مہب الریح لعودہ بہ فینجسہ۔ (مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي : ۵۳)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2230/44-2364

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   ہر مسلمان پربنیادی  دینی تعلیم کا حاصل کرنا فرض ہے،  اب اگر لوگ اس میں کوتاہی کررہے ہیں تو دوسرے مسلمان ان کی جس طرح ممکن ہو اس میں تعاون کریں، اور ان کو دینی تعلیم سے اور قرآن و سنت سے قریب کرنے کی کوشش کریں۔ ہر آدمی اپنے اعتبار سے اس میں محنت کرے، چنانچہ مدارس کا قیام، تبلیغی جماعت کا نظام، مساجد میں  درسِ تفسیر ، نمازوں کے بعد فضائل اعمال اور احادیث کی تعلیم اسی سلسلہ کی  کوششیں ہیں۔ بہت سے علماء   نے آن لائن  مدارس قائم کئے ہیں اور درس نظامی  کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہر میدان میں لوگ کام کررہے ہیں ، لوگوں کے اندر طلب کی کمی ہے، اور لوگوں کے اندر طلب پیداکرنے کے لئے بھی لوگ مختلف انداز سے اپنی حیثیت کے مطابق کام کررہے ہیں۔ ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق لوگوں کے تعاون میں لگارہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2746/45-4282

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مدتِ رضاعت ڈھائی سال ہے جبکہ صاحبین، اور امام شافعی  رحمہم اللہ کے نزدیک رضاعت کی مدت دو سال ہے ۔ یہ دونوں اقوال درست اور قابلِ اعتماد ہیں، اور ہر ایک کی اپنی دلیل موجود ہے،  البتہ صاحبین اور دیگر ائمہ کا دوسال کا قول مختار اور مفتی ٰبہ ہے، یعنی دو سال تک بچے کو دودھ چھڑا دینا چاہیے۔ تاہم اگر کسی نے لاعلمی میں یا کسی وجہ سے دو سال کے بعد ڈھائی سال کے اندر اندر بچے کو دودھ پلادیا تو احناف کے  نزدیک اس سے بھی حرمتِ رضاعت ثابت ہوجائے گی۔

"ثم اختلف العلماء في المدة التي تثبت فيها حرمة الرضاع ، فقدر أبو حنيفة رحمه الله تعالى بثلاثين شهراً وأبو يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - قدرا ذلك بحولين وزفر قدر ذلك بثلاث سنين، فإذا وجد الإرضاع في هذه المدة تثبت الحرمة وإلا فلا، واستدلا بظاهر قوله تعالى: { والوالدات يرضعن أولادهن حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة }، ولا زيادة بعد التمام والكمال، وقال الله تعالى: { وفصاله في عامين }، ولا رضاع بعد الفصال، ولأن الظاهر أن الصبي في مدة الحولين يكتفي باللبن وبعد الحولين لايكتفي به فكان هو بعد الحولين بمنزلة الكبير في حكم الرضاع وأبو حنيفة رحمه الله تعالى استدل بقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} وظاهر هذه الإضافة يقتضي أن يكون جميع المذكور مدةً لكل واحدة منهما إلا أن الدليل قد قام على أن مدة الحبل لاتكون أكثر من سنتين فبقي مدة الفصال على ظاهره، وقال الله تعالى: {فإن أرادا فصالاً عن تراض منهما وتشاور} الآية فاعتبر التراضي والتشاور في الفصلين بعد الحولين فذلك دليل على جواز الإرضاع بعد الحولين، وقال الله تعالى: {وإن أردتم أن تسترضعوا أولادكم فلا جناح عليكم} قيل: بعد الحولين إذا أبت الأمهات، ولأن اللبن كما يغذي الصبي قبل الحولين يغذيه بعده والفطام لايحصل في ساعة واحدة، لكن يفطم درجةً فدرجةً حتى ينسى اللبن ويتعود الطعام، فلا بد من زيادة على الحولين بمدة، وإذا وجبت الزيادة قدرنا تلك الزيادة بأدنى مدة الحبل، وذلك ستة أشهر اعتبارًا للانتهاء بالابتداء، وبهذا يحتج زفر رحمه الله تعالى أيضاً إلا أنه يقول: لما وجب اعتبار بعض الحول وجب اعتبار كله، وتقدر مدة الفطام بحول؛ لأنه حسن للاختبار والتحول به من حال إلى حال. (قال:) فإن فطم الصبي قبل الحولين ثم أرضع في مدة ثلاثين شهراً عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى أو في مدة الحولين عندهما، فالظاهر من مذهبهما وهو قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى: أنه تثبت به الحرمة لوجود الإرضاع في المدة، فصار الفطام كأن لم يكن، وروى الحسن عن أبي حنيفة رحمهما الله تعالى قال: هذا إذا لم يتعود الصبي الطعام حتى لايكتفي به بعد هذا الفطام". (المبسوط للسرخسی 6/75.76)

"قَالَ الشّاَفعيُّ : فَجِمَاعُ فَرْقِ ما بين الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ أَنْ يَكُونَ الرَّضَاعُ في الْحَوْلَيْنِ فإذا أُرْضِعَ الْمَوْلُودُ في الْحَوْلَيْنِ خَمْسَ رَضَعَاتٍ كما وَصَفْت فَقَدْ كَمُلَ رَضَاعُهُ الذي يُحَرِّمُ.

قَالَ الشّاَفعيُّ : وَسَوَاءٌ أُرْضِعَ الْمَوْلُودُ أَقَلَّ من حَوْلَيْنِ ثُمَّ قُطِعَ رَضَاعُهُ ثُمَّ أُرْضِعَ قبل الْحَوْلَيْنِ أو كان رَضَاعُهُ مُتَتَابِعًا حتى أَرْضَعَتْهُ امْرَأَةٌ أُخْرَى في الْحَوْلَيْنِ خَمْسَ رَضَعَاتٍ وَلَوْ تُوبِعَ رَضَاعُهُ فلم يُفْصَلْ ثَلاَثَةَ أَحْوَالٍ أو حَوْلَيْنِ أو سِتَّةَ أَشْهُرٍ أو أَقَلَّ أو أَكْثَرَ فَأُرْضِعَ بَعْدَ الْحَوْلَيْنِ لم يُحَرِّمْ الرَّضَاعُ شيئا وكان بِمَنْزِلَةِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَلَوْ أُرْضِعَ في الْحَوْلَيْنِ أَرْبَعَ رَضَعَاتٍ وَبَعْدَ الْحَوْلَيْنِ الْخَامِسَةَ وَأَكْثَرَ لم يُحَرِّمْ وَلاَ يَحْرُمُ من الرَّضَاعِ إلاَّ ما تَمَّ خَمْسَ رَضَعَاتٍ في الْحَوْلَيْنِ". (الأم ـ للشافعي - (5 / 29)

"ويشترط في الارضاع شرطان :(أحدهما) خمس رضعات لحديث عائشة الذي سيأتي.وفي حديث سهلة " أرضعيه خمس رضعات يحرم بهن.

الشرط الثاني أن يكون في الحولين، فإن كان خارجها عنهما لم يحرم كما سيأتي". (المجموع شرح المہذب 18 / 210)

"انتزع الفقهاء من قوله تعالى: (والوالدات يرضعن أولادهن حولين كاملين) أن الرضاعة المحرمة - بكسر الراء المشددة - الجارية مجرى النسب إنما هن ماكان في الحولين، لانه بانقضاء الحولين تمت الرضاعة، ولا رضاعة بعد الحولين معتبرة". (المجموع شرح المہذب 18/212)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 39 / 981

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جائز ہے تاہم احتیاط کرنا اولی ہے؛ شرم و حیا کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2505/45-3824

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   شادی کا ثواب شادی کرنے سے ہی حاصل ہوگا۔ اگراستطاعت  ہوتو شادی کرنا  ہی سنت ہوگا، اور اگر استطاعت نہ ہو یا اپنی پوری کوشش کے باوجود نکاح نہ ہو تو اپنی سعی کی بناء پر نکاح کا ثواب ملنے کی امید ہوگی۔البتہ بہرصورت اپنی عصمت کی حفاظت لازمی ہے۔

عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ t: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ؛ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ. (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ الرقم 974).

وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ t: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: لَكِنِّي أَنَا أُصَلِّي وَأَنَامُ، وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي. (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ الرقم 975).

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 829 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: پانی کے جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے اور مچھلی کی تمام قسمیں اس میں شامل ہیں۔ کیکڑا  مچھلی نہیں  ہے، لہذا اس کو کھانا بھی درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند