فقہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسلہ ذیل کے بارے میں۔۔ زید ایک مدرسہ چلاتا ہے جس میں 250 یتیم طلبہ 250 غیر یتیم طلبہ زیر تعلیم ہیں اور غیر یتیم طلبہ سے ماہانہ 1500 روپے فیس وصول کیا جاتا ہے اور یتیم طلبہ کا خرچ عوامی چندہ پر منحصر ہے اب سوال یہ ہے کہ غیر یتیم کا ماہانہ فیس سے اگر اسکا ماہانہ خرچ نا مکمل ہو تو یتیم کے نام پر آیا ہوا چندہ غیر یتیم طلبہ پر خرچ کرنا جائز ہے یا ناجائز مدلل جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں والسلام محمد صابر شاہ لیلونگ منی پور

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’أنظر إلی ما قال ولا تنظر إلی من قال‘‘۔ یہ مقولہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے اور بہت سی کتابوں میں ہے۔(۱)
عموماً قائل کی بات دوسروں کے لئے مفید ہوتی ہے جب کہ بعض اوقات بات کہنے والا اچھا آدمی نہیں ہوتا؛ اس لئے قائل کے قول کی طرف دھیان دینا چاہئے، اگر کوئی مفید بات ہو، تو خواہ کوئی بھی کہے اختیار کرلینی چاہئے؛ اس لئے ضروری ہے کہ اختیار کرنے والا یہ جان سکتا ہو کہ کون سی بات مفید ہے اور کون سی بات غیر مفید ہے؛ لہٰذا جن امور میں کوئی فرق کر سکتا ہو ان امور میں سب کی بات سنے اور مفید کو اختیار کرے اور جن امور میں فرق ہی نہ کرسکتا ہو ان امور میں انہیں لوگوں کی بات پر عمل کرے جن کو قابل اعتماد اور ان امور میں ماہر سمجھتا ہو۔ اسی طرح امور شرعیہ میں قابل اعتماد ماہر علماء ہی کی بات پر عمل کیا جائے۔(۲)

(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۰، رقم: ۲۱۶۔
(۲) إن الواجب علی من أراد أن یعمل لنفسہ أو یفتی غیرہ أن یتبع القول الذي رجحہ علماء مذہبہ۔ (محمد أمین بن عمر بن عبدالعزیز، رسم المفتی: ص: ۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص142

فقہ

Ref. No. 2520/45-3855

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انسان اپنے تمام اعضاء سمیت محترم ہے،ا س کے کسی عضو کی بھی بے حرمتی  غیرمناسب ہے۔ عورت کے بال کا  پردہ بھی ضروری ہے اس کو ادھر ادھرڈالنا  جس پر غیروں کی نظریں پڑیں ،  درست نہیں ہے۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ بال کاٹنے والوں سے بال لے لیں، اور خود دفن کریں۔  

قال اللہ تعالی: ولقد کرمنا بني آدم الآیة (الإسراء، رقم الآیة: ۷۰) ، فإذا قلم أظفارہ أو جز شعرہ ینبغي أن یدفنہ، فإن رمی بہ فلا بأس، وإن ألقاہ فی الکنیف أو فی المغتسل کرہ؛ لأنہ یورث داء۔ خانیة۔ ویدفن أربعة: الظفر والشعر وخرقة الحیض والدم۔ عتابیة۔ ط (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ ۹: ۵۸۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وکل عضو لا یجوز النظر إلیہ قبل الانفصال لا یجوز بعدہ ولو بعد الموت کشعر عانة وشعر رأسھا وعظم ذراع حرة میتة وساقھا وقلامة ظفر رجلھا دون یدھا مجتبی (الدر المختار مع الرد ، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس ۹: ۵۳۴۵۸۰، ۵۳۵) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آقا اگر باندی سے وطی کرے اور اس سے بچہ پیدا ہو اور آقا اس بچہ کے نسب کا دعوی کرے، تو وہ باندی ام ولد ہوجاتی ہے اور اس بچہ کا نسب آقا سے ثابت ہوجاتا ہے، بچہ آزاد شمار ہوتا ہے۔ اور آقا کے لیے اس سے وطی کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس سے اس کا نسب ثابت ہے، البتہ جس باندی سے آقا کو بچہ پیدا ہوا اور وہ ام لد بن گئی ہے، آقا کے لیے اس ام ولد سے وطی کرنا جائز ہے۔ (۱)

(۱) إذا ولدت الأمۃ من مولاہا فقد صارت أم ولد لہ لا یجوز بیعہا ولا تملیکہا ’’لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ أعتقہا ولدہا أخبر عن إعتاقہا فیثبت بعض مواجبہ وحرمۃ البیع ولأن الجزئیۃ قد حصلت بین الواطئ والموطوئۃ بواسطۃ الولد فإن المائین قد اختلطا بحیث لا یمکن التمیز بینہما علی ما عرف في حرمۃ المصاہرۃ- ولہ وطؤہا واستخدامہا وإجارتہا وتزویجہا ’’لأن الملک فیہا قائم فأشبہت المدبرۃ۔ (المرغیناني، ہدایہ، ’’کتاب العتق: باب الاستیلاد‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۳، ۴۷۴)
عن جابر قال إن رجلا أتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال إن لي جاریۃ ہی خادمتنا وأنا أطوف علیہا وأکرہ أن تحمل فقال: أعزل عنہا إن شئت فإنہ سیأتیہا ما قدر لہا فلبث الرجل ثم أتاہ فقال: إن الجاریۃ قد حبلت فقال: قد أخبرتک إنہ سیأتیہا ما قدر لہا۔ رواہ مسلم۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب النکاح: باب المباشرۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۵، رقم: ۳۱۸۵
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص143

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلے اصل مسئلہ سمجھیں کہ غیر سبیلین سے اگر کوئی چیز نکلے اور نکل کر اپنی جگہ سے بہ جائے، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتاہے اور اگر اتنی معمولی مقدار میں ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہ بہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے ’’لیس في القطرۃ والقطرتین من الدم وضوء إلا أن یکون سائلا‘‘ اس مسئلہ کی روشنی میں اگر غور فرمائیں، تو پہلی عبارت درست ہے، اگر زخم سے نجاست نکلے اور وہ اتنی مقدار میں ہے کہ نچوڑنے کی صورت میں اس میں سیلان پایا جائے گا، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اگرچہ اس کی کیفیت یہ ہے کہ اگر اس کو نہ نچوڑا جاتا، تو وہ نہ بہتا، جہاں تک ہدایہ کی عبارت کا تعلق ہے ’’أما إذا عصرہا فخرج بعصرہ لا ینقض لأنہ مخرج و لیس بخارج‘‘ یہ درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جائے گا، کیوں کہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار خارج پر ہے اور مخرج سے بھی خارج کا وجود ہو جاتا ہے، چنا نچہ علامہ لکھنوی نے صاحب ہدایہ کی اس عبارت پر نقد کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔ ’’وذکر في الکافي الأصح أن المخرج ناقض انتہی کیف لا؟ وجمیع الأدلۃ من الکتاب والسنۃ والإجماع والقیاس تدل علی تعلیق النقض بالخارج النجس وہو الثابت في المخرج‘‘(۱)

(۱) المرغیناني، ہدایۃ،  ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۹، حاشیۃ: ۱۔
وفي غیر السبیلین بتجاوز النجاسۃ إلی محل الخ۔ والمراد أن تتجاوز ولو بالعصر وما شأنہ أن یتجاوز لو لا المائع کما لو مصت علقہ فأمتلأت بحیث لو شقت لسال منہا الدم کذا في الحبلی۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ‘: فصل‘: ص: ۸۷
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص144

فقہ

Ref. No. 990/41-146

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے لئے لفظ طلاق یا اس کے ہم معنی الفاظ کو زبان سے ادا کرنا ضروری ہے۔ محض وسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ لفظ "جا" سے اگر طلاق کی نیت نہ ہو تو طلاق  واقع نہیں ہوتی، جبکہ یہاں پر "جا" کے بولنے کا بھی یقین نہیں ہے۔ اس لئے مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

ورکنہ لفظ مخصوص ھو ماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح او کنایۃ  فخرج الفسوخ الخ (ردالمحتار رکن الطلاق 3/230- نظام الفتاوی 2/144)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2464/45-3780

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  موبائل کا ریچارج محض غلط کام کے لئے نہیں ہوتاہے، بلکہ اس کا استعمال جائزو ناجائز تمام امور کے لئے ہوتاہے، اس لئے وہ اگر ناجائز کاموں میں انٹرنیٹ صرف کرتاہے تو اس کا گناہ آپ پر نہیں ہوگا ۔

واذا اجتمع المباشر والمتسبب اضیف الحکم الی المباشر (الاشباہ 502)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 1098/42-292

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سیف اللہ کی پہلی بیوی اگر اپنے میکہ رہتی ہے یا شوہر کے گھر کو چھوڑ کر کہیں بھی رہتی ہے تو از روئے شرع سیف اللہ پر اس کا نان و نفقہ لازم نہیں ہوگا۔ شوہر کے پاس رہے گی تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اس کے مکمل خرچہ کا بار اٹھائے۔   تاہم اگر تبرعا وہ خرچ برداشت کرے تو بہتر ہے اور باعث اجروثواب ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 904/41-10B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی میں نماز میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا درست  نہیں ہے۔ اس سے نماز فاسد ہوجاتی  ہے۔ دراصل قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا خارج نماز شخص سے لقمہ لینے کے مترادف ہے جو کہ مفسد صلوۃ ہے۔ حدیث ذکوان  کو روایت کرنے والی تنہا حضرت عائشہ ہیں،  اور اس روایت کی مختلف توجیہات علماء نے ذکر کی ہیں، مثلا یہ کہ حضرت ذکوان سلام پھیرنے کے بعد قرآن کریم دیکھتے تھے اور پھر نماز شروع کرتے تھے وغیرہ۔ 

 ذكروا لأبي حنيفة في علة الفساد وجهين. أحدهما: أن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير. والثاني أنه تلقن من المصحف فصار كما إذا تلقن من غيره. وعلى الثاني لا فرق بين الموضوع والمحمول عنده، وعلى الأول يفترقان وصحح الثاني في الكافي تبعا لتصحيح السرخسي؛ (الدرالمختار 1/624)

أثر ذكوان إن صح فهو محمول على أنه كان يقرأ من المصحف قبل شروعه في الصلاة أي ينظر فيه ويتلقن منه ثم يقوم فيصلي، وقيل: تؤول بأنه كان يفعل بين كل شفعين فيحفظ مقدار ما يقرأ في الركعتين، فظن الراوي أنه كان يقرأ من المصحف فنقل ما ظن، ويؤيد ما ذكرناه أن القراءة في المصحف مكروهة، ولا نظن بعائشة - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - أنها كانت ترضى بالمكروه، وتصلي خلف من يصلي بصلاة مكروهة. (البنایۃ شرح الھدایۃ 2/420)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یقینا موجودہ حالات کا علم رکھنا ایک مفتی کے لیے انتہائی ضروری ہے، ان حالات کو جانے بغیر صحیح رائے نہیں دی جاسکتی، علاوہ ازیں بہت ساری چیزیں عام حالات میں ناجائز ہوتی ہیں، مگر خاص حالات میں ان کی اجازت مع شرائط دی جاتی ہے۔ (۱)

(۱) من جہل بأہل زمانہ فہو جاہل۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین: ج ۲، ص: ۱۳۱)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص145