Frequently Asked Questions
فقہ
Ref. No. 904/41-10B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی میں نماز میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا درست نہیں ہے۔ اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ دراصل قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا خارج نماز شخص سے لقمہ لینے کے مترادف ہے جو کہ مفسد صلوۃ ہے۔ حدیث ذکوان کو روایت کرنے والی تنہا حضرت عائشہ ہیں، اور اس روایت کی مختلف توجیہات علماء نے ذکر کی ہیں، مثلا یہ کہ حضرت ذکوان سلام پھیرنے کے بعد قرآن کریم دیکھتے تھے اور پھر نماز شروع کرتے تھے وغیرہ۔
ذكروا لأبي حنيفة في علة الفساد وجهين. أحدهما: أن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير. والثاني أنه تلقن من المصحف فصار كما إذا تلقن من غيره. وعلى الثاني لا فرق بين الموضوع والمحمول عنده، وعلى الأول يفترقان وصحح الثاني في الكافي تبعا لتصحيح السرخسي؛ (الدرالمختار 1/624)
أثر ذكوان إن صح فهو محمول على أنه كان يقرأ من المصحف قبل شروعه في الصلاة أي ينظر فيه ويتلقن منه ثم يقوم فيصلي، وقيل: تؤول بأنه كان يفعل بين كل شفعين فيحفظ مقدار ما يقرأ في الركعتين، فظن الراوي أنه كان يقرأ من المصحف فنقل ما ظن، ويؤيد ما ذكرناه أن القراءة في المصحف مكروهة، ولا نظن بعائشة - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - أنها كانت ترضى بالمكروه، وتصلي خلف من يصلي بصلاة مكروهة. (البنایۃ شرح الھدایۃ 2/420)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یقینا موجودہ حالات کا علم رکھنا ایک مفتی کے لیے انتہائی ضروری ہے، ان حالات کو جانے بغیر صحیح رائے نہیں دی جاسکتی، علاوہ ازیں بہت ساری چیزیں عام حالات میں ناجائز ہوتی ہیں، مگر خاص حالات میں ان کی اجازت مع شرائط دی جاتی ہے۔ (۱)
(۱) من جہل بأہل زمانہ فہو جاہل۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین: ج ۲، ص: ۱۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص145
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اجماع حجت شرعیہ فرعیہ ہے، اسے ماننا یقینا ضروری ہے لیکن منکر خارج از ایمان نہیں ہے(۲) اور اہل حدیث کو بھی خارج از ایمان کہنا غلط ہے، لیکن قادیانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے منکر ہیں؛ اس لیے کافر ہیں۔(۳)
(۲) إجماع الأمۃ موجب للعلم قطعاً کرامۃ علی الدین لانقطاع توہم إجتماعہم علی الضلالۃ الخ۔ (المدخل إلی الفتاوی علی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۳۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص146
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسئلہ عام ہے سائل کے سوال کے جواب کو بھی مسئلہ کہاجاتاہے، اسی طرح عوام الناس کے سامنے حکم شرعی کی وضاحت کو بھی مسئلہ کہاجاتاہے، جبکہ فتوی حکم شرعی کے طلب پر شریعت کا جو موقف واضح کیاجائے اس کا نام فتوی ہے، گویا فتوی خاص ہے اور مسئلہ عام ہے۔(۱)
(۱) فالحکم الشرعي ہو خطاب اللّٰہ تعالیٰ المتعلق بأفعال المکلفین طلبا أو اقتضاء أو تخییرا أما الفتویٰ فہي انزال الحکم الشرعي علی واقع المستفتی۔ (محمد أبوزہرہ، أصول الفقہ: ص: ۲۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص147
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’اختلاف أمتي رحمۃ‘‘ کا مطلب ائمہ مجتہدین کے ما بین فروع میں اختلاف ہے اور ان حضرات کا اختلاف اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کا اثر ہے کیونکہ ان کا اختلاف لوگوں کے لئے دین کی راہ میں وسعت پیدا کرتا ہے اور یہ واضح کر دیتا ہے کہ دین میں حرج اور تنگی نہیں ہے؛بلکہ دینِ اسلام نہایت ہی آسان ہے، بخاری شریف میں ہے: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إن الدین یسر‘‘(۱) دین اسلام نہایت ہی آسان ہے۔
ائمہ کرام کے درمیان فروعات میں اختلاف اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اثر ہے، ’’فإن اختلاف أئمۃ الہدیٰ توسعۃ للناس کما في التتارخانیۃ‘‘(۲) ائمہ اور علماء کا اختلاف لوگوں کے لیے دین کی راہ میں وسعت پیدا کرتا ہے۔
’’وعلم بأن الاختلاف من آثار الرحمۃ فمہما کان الاختلاف أکثر کانت الرحمۃ أو فر‘‘(۳)
علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین احکام کے استنباط میں اختلاف رائے نہ رکھتے تو امت کے لیے رخصت کا پہلو نہ نکلتا، ’’ونقل السیوطي عن عمر بن عبد العزیز أنہ کان یقول: ما سرني لو أن أصحاب محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- لم یختلفوا لأنہم لو لم یختلفوا لم تکن رخصۃ‘‘(۴)
خلیفہ ہارون رشید نے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ: آپ کی تالیفات لکھا دیتے ہیں اور ان کو اسلام کے تمام اطراف وجوانب میں تقسیم کرا دیتے ہیں تاکہ امت کو انہیں کے موافق عمل کرنے پر ابھاریں تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: امیر المؤمنین اختلافِ علماء اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے اس امت پر رحمت ہے، ہر عالم اس کی اتباع کرتا ہے جو اس کے نزدیک صحیح ہے اور تمام علماء ہدایت پر ہیں اور تمام علماء اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین اور اس کی مرضی ہی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’’وأخرج الخطیب إن ہارون الرشید قال: لمالک بن أنس یا أبا عبد اللّٰہ نکتب ہذہ الکتب یعني مؤلفات الإمام مالک ونفرقہا في أفاق الإسلام لتحمل علیہا الأمۃ، قال: یا أمیر المؤمنین! إن اختلاف العلماء رحمۃ من اللّٰہ تعالیٰ علی ہذہ الأمۃ کل یتبع ما صح عندہ وکلہم علی ہدی وکل یرید اللّٰہ تعالیٰ‘‘(۱)
لہٰذا: ائمہ کے اجتہادات واستنباط کے ما بین مختلف فیہ مسائل ہیں جو اختلاف رائے ہے وہ اختلاف حق وباطل نہیں ہے؛ بلکہ ایک رائے کو صواب محتمل خطاء اور دوسری رائے کو خطاء محتمل صواب کہیں گے اور اس اختلاف کو اختلافِ رخصت کہتے ہیں، جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت میں حضرت عمر بن عبد العزیز اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ کا قول تفصیل سے ذکر ہوا۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الدین یسر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶، رقم: ۳۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۔
(۳) ’’أیضاً‘‘۔
(۴) ’’أیضاً‘‘۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص147
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں پیش آنے والے مسئلے کے حکم شرعی پر اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا متفق ہونا اجماع کہلاتا ہے، تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی اجماع ہو سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہو سکتی ہے گویا امت اپنی اجتماعی حیثیت میں معصوم ہے۔
’’الإجماع في اللغۃ العزم وفي الاصطلاح اتفاق المجتہدین من أمۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم في عصر علی أمر دینی وأیضاً: العزم التام علی أمر من جماعۃ أہل الحل والعقد‘‘(۱)
اجماع کے سلسلے میں ضروری ہے کہ اس عہد کے تمام مجتہدین کسی مسئلے پر متفق ہوں یا اکثر متفق ہوں پھر چند لوگوں کا اختلاف مضر نہیں ہوگا؛ لیکن اگر دونوں طرف مجتہدین کی جماعت ہو تو اس کو اجماع سے تعبیر نہیں کیا جائے گا، مثلاً: موجودہ دور میں جو سیمینار ہوتے ہیں ان میں اگر کسی مسئلے پر تمام حضرات کی ایک رائے ہوتی ہے اور دو تین لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں تو اس کو اجماعی مسئلہ ہی کہا جاتا ہے؛ لیکن اگر دونوں طرف اہل علم کی رائے ہو تو پھر اس کو متفقہ فیصلہ نہیں کہا جاتا؛ بلکہ یہ لکھا جاتا ہے کہ اس مسئلہ میں اہل علم کی دو رائے ہیں۔
(۱) قواعد الفقہ: ص: ۱۶؛ المدخل إلی الفتاوی علی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۳۴، فقہ إسلامي تدوین وتعارف: ص: ۴۸)
وفي أصول السرخسي إجماع الأمۃ موجب للعلم قطعاً کرامۃ لہم علی الدین لإنقطاع توہم إجتماعہم علی الضلال، وہذا مذہب الفقہاء وأکثر المتکلمین وہذا الإجماع حجۃ موجبۃ شرعاً۔ (المدخل إلی الفتاویٰ علی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۳۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص149
فقہ
Ref. No. 1003 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مذی کےنکلنے سے وضو واجب ہوتا ہے، غسل نہیں۔البتہ منی نکلنے کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1261 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں ایک جگہ رہتی ہیں ، مشورہ وغیرہ سب مردوں سے متعلق ہوتا ہے ، کیا ہی اچھا ہو کہ یہ مرد حضرات جو باتیں سیکھتے ہیں اپنے اپنے گھروں میں عورتوں کو بتادیا اور گھروں میں تبلیغ کردیا کریں۔اور پھر یہ عورتیں اپنے پڑوس کی عورتوں کو بتادیاکریں۔ غور کریں کہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب کتنا زیادہ ہے، لیکن تمام شرائط کی رعایت کے باوجود بھی عورتوں کو مسجدوں میں جماعت سے نماز کی اجازت فقہ حنفی میں نہیں دی گئی ہے۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 39 / 0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: عورتوں کا تبلیغی جماعت میں نکل کر دور دراز کا سفر کرنا پسندیدہ نہیں ، عورتیں اپنے گھروں میں رہیں اسی میں عافیت ہے، اپنی اصلاح کے لئے دینی کتابوں کا مطالعہ وتعلیم زیادہ مفید ہے۔ گھر کا ماحول دینی بنائیں، گھر میں تعلیم کا اور نمازوں کے اہتمام کا نظام بنائیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 2675/45-4134
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موقوفہ زمین کو بیچنا یا اس کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہوتاہے، اس لئے اس کو حتی الامکان بچانے کی کوشش ہونی چاہئے، قانونی کارروائی کے ساتھ اس کا تحفظ ہوسکے تو ایسا کرلیا جائے اور اس میں تالا لگاکر اس کو بند کردیاجائے۔ اور اگر وقف کی زمین کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے اور اس کا تحفظ کسی طرح ممکن نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کو بیچ کر کسی دوسری جگہ منتقل کیاجاسکتاہے۔
" إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته " ۔ (الفقه الاسلامی وادلته ۱۰/۷۶۱۷ ، الباب الخامس الوقف ، الفصل الثالث حکم الوقف)
"سئل شمس الأئمة الحلواني عن مسجد أو حوض خرب لايحتاج إليه لتفرق الناس هل للقاضي أن يصرف أوقافه إلى مسجد آخر أو حوض آخر؟ قال: نعم (الھندیۃ،الباب الثالث، 2/478 ط: بيروت)
"ولا سيما في زماننا فإن المسجد أو غيره من رباط أو حوض إذا لم ينقل يأخذ أنقاضه اللصوص والمتغلبون كما هو مشاهد وكذلك أوقافه يأكلها النظار أو غيرهم، ويلزم من عدم النقل خراب المسجد الآخر المحتاج إلى النقل إليه (رد المحتار، 4/360، ط: سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند