فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسئلہ عام ہے سائل کے سوال کے جواب کو بھی مسئلہ کہاجاتاہے، اسی طرح عوام الناس کے سامنے حکم شرعی کی وضاحت کو بھی مسئلہ کہاجاتاہے، جبکہ فتوی حکم شرعی کے طلب پر شریعت کا جو موقف واضح کیاجائے اس کا نام فتوی ہے، گویا فتوی خاص ہے اور مسئلہ عام ہے۔(۱)

(۱) فالحکم الشرعي ہو خطاب اللّٰہ تعالیٰ المتعلق بأفعال المکلفین طلبا أو اقتضاء أو تخییرا أما الفتویٰ فہي انزال الحکم الشرعي علی واقع المستفتی۔ (محمد أبوزہرہ، أصول الفقہ: ص: ۲۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص147

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’اختلاف أمتي رحمۃ‘‘ کا مطلب ائمہ مجتہدین کے ما بین فروع میں اختلاف ہے اور ان حضرات کا اختلاف اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کا اثر ہے کیونکہ  ان کا اختلاف لوگوں کے لئے دین کی راہ میں وسعت پیدا کرتا ہے اور یہ واضح کر دیتا ہے کہ دین میں حرج اور تنگی نہیں ہے؛بلکہ دینِ اسلام نہایت ہی آسان ہے، بخاری شریف میں ہے: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إن الدین یسر‘‘(۱) دین اسلام نہایت ہی آسان ہے۔
ائمہ کرام کے درمیان فروعات میں اختلاف اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اثر ہے، ’’فإن اختلاف أئمۃ الہدیٰ توسعۃ للناس کما في التتارخانیۃ‘‘(۲) ائمہ اور علماء کا اختلاف لوگوں کے لیے دین کی راہ میں وسعت پیدا کرتا ہے۔
’’وعلم بأن الاختلاف من آثار الرحمۃ فمہما کان الاختلاف أکثر کانت الرحمۃ أو فر‘‘(۳)
علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین احکام کے استنباط میں اختلاف رائے نہ رکھتے تو امت کے لیے رخصت کا پہلو نہ نکلتا، ’’ونقل السیوطي عن عمر بن عبد العزیز أنہ کان یقول: ما سرني لو أن أصحاب محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- لم یختلفوا لأنہم لو لم یختلفوا لم تکن رخصۃ‘‘(۴)
خلیفہ ہارون رشید نے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ: آپ کی تالیفات لکھا دیتے ہیں اور ان کو اسلام کے تمام اطراف وجوانب میں تقسیم کرا دیتے ہیں تاکہ امت کو انہیں کے موافق عمل کرنے پر ابھاریں تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: امیر المؤمنین اختلافِ علماء اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے اس امت پر رحمت ہے، ہر عالم اس کی اتباع کرتا ہے جو اس کے نزدیک صحیح ہے اور تمام علماء ہدایت پر ہیں اور تمام علماء اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین اور اس کی مرضی ہی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’’وأخرج الخطیب إن ہارون الرشید قال: لمالک بن أنس یا أبا عبد اللّٰہ  نکتب ہذہ الکتب یعني مؤلفات الإمام مالک ونفرقہا في أفاق الإسلام لتحمل علیہا الأمۃ، قال: یا أمیر المؤمنین! إن اختلاف العلماء رحمۃ من اللّٰہ تعالیٰ علی ہذہ الأمۃ کل یتبع ما صح عندہ وکلہم علی ہدی وکل یرید اللّٰہ تعالیٰ‘‘(۱)
لہٰذا: ائمہ کے اجتہادات واستنباط کے ما بین مختلف فیہ مسائل ہیں جو اختلاف رائے ہے وہ اختلاف حق وباطل نہیں ہے؛ بلکہ ایک رائے کو صواب محتمل خطاء اور دوسری رائے کو خطاء محتمل صواب کہیں گے اور اس اختلاف کو اختلافِ رخصت کہتے ہیں، جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت میں حضرت عمر بن عبد العزیز اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ کا قول تفصیل سے ذکر ہوا۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الدین یسر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶، رقم: ۳۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۔
(۳) ’’أیضاً‘‘۔
(۴) ’’أیضاً‘‘۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص147

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں پیش آنے والے مسئلے کے حکم شرعی پر اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا متفق ہونا اجماع کہلاتا ہے، تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی اجماع ہو سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہو سکتی ہے گویا امت اپنی اجتماعی حیثیت میں معصوم ہے۔
’’الإجماع في اللغۃ العزم وفي الاصطلاح اتفاق المجتہدین من أمۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم في عصر علی أمر دینی وأیضاً: العزم التام علی أمر من جماعۃ أہل الحل والعقد‘‘(۱)
اجماع کے سلسلے میں ضروری ہے کہ اس عہد کے تمام مجتہدین کسی مسئلے پر متفق ہوں یا اکثر متفق ہوں پھر چند لوگوں کا اختلاف مضر نہیں ہوگا؛ لیکن اگر دونوں طرف مجتہدین کی جماعت ہو تو اس کو اجماع سے تعبیر نہیں کیا جائے گا، مثلاً: موجودہ دور میں جو سیمینار ہوتے ہیں ان میں اگر کسی مسئلے پر تمام حضرات کی ایک رائے ہوتی ہے اور دو تین لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں تو اس کو اجماعی مسئلہ ہی کہا جاتا ہے؛ لیکن اگر دونوں طرف اہل علم کی رائے ہو تو پھر اس کو متفقہ فیصلہ نہیں کہا جاتا؛ بلکہ یہ لکھا جاتا ہے کہ اس مسئلہ میں اہل علم کی دو رائے ہیں۔

(۱) قواعد الفقہ: ص: ۱۶؛ المدخل إلی الفتاوی علی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۳۴، فقہ إسلامي تدوین وتعارف: ص: ۴۸)
وفي أصول السرخسي إجماع الأمۃ موجب للعلم قطعاً کرامۃ لہم علی الدین لإنقطاع توہم إجتماعہم علی الضلال، وہذا مذہب الفقہاء وأکثر المتکلمین وہذا الإجماع حجۃ موجبۃ شرعاً۔ (المدخل إلی الفتاویٰ علی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۳۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص149

فقہ

Ref. No. 1003 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مذی کےنکلنے سے وضو واجب ہوتا ہے، غسل نہیں۔البتہ  منی نکلنے کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1261 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں ایک جگہ رہتی ہیں ، مشورہ وغیرہ سب مردوں سے متعلق ہوتا ہے ، کیا ہی اچھا ہو کہ یہ مرد حضرات جو باتیں سیکھتے ہیں اپنے اپنے گھروں میں عورتوں کو بتادیا  اور گھروں میں تبلیغ کردیا کریں۔اور پھر یہ عورتیں اپنے پڑوس کی عورتوں کو بتادیاکریں۔ غور کریں کہ مسجد میں  جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب کتنا زیادہ ہے،   لیکن تمام شرائط کی رعایت کے باوجود بھی عورتوں کو  مسجدوں میں جماعت سے نماز کی اجازت  فقہ حنفی میں نہیں دی  گئی ہے۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم: عورتوں کا تبلیغی جماعت میں نکل کر دور دراز کا سفر کرنا پسندیدہ نہیں ، عورتیں اپنے گھروں میں رہیں اسی میں عافیت ہے، اپنی اصلاح کے لئے دینی کتابوں کا مطالعہ وتعلیم زیادہ مفید ہے۔ گھر کا ماحول دینی بنائیں، گھر میں تعلیم کا اور نمازوں کے اہتمام کا نظام بنائیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2675/45-4134

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موقوفہ زمین کو بیچنا یا اس کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہوتاہے، اس لئے اس کو حتی الامکان بچانے کی کوشش ہونی چاہئے، قانونی کارروائی کے ساتھ اس کا تحفظ ہوسکے تو ایسا کرلیا جائے اور اس میں تالا لگاکر اس کو بند کردیاجائے۔  اور اگر وقف کی زمین کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے اور اس کا تحفظ کسی طرح ممکن نہیں ہے  تو ایسی صورت میں اس کو بیچ کر کسی دوسری جگہ منتقل کیاجاسکتاہے۔

" إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته " ۔ (الفقه الاسلامی وادلته ۱۰/۷۶۱۷ ، الباب الخامس الوقف ، الفصل الثالث حکم الوقف)

"سئل شمس الأئمة الحلواني عن مسجد أو حوض خرب لايحتاج إليه لتفرق الناس هل للقاضي أن يصرف أوقافه إلى مسجد آخر أو حوض آخر؟ قال: نعم (الھندیۃ،الباب الثالث، 2/478 ط: بيروت)

"ولا سيما في زماننا فإن المسجد أو غيره من رباط أو حوض إذا لم ينقل يأخذ أنقاضه اللصوص والمتغلبون كما هو مشاهد وكذلك أوقافه يأكلها النظار أو غيرهم، ويلزم من عدم النقل خراب المسجد الآخر المحتاج إلى النقل إليه (رد المحتار، 4/360، ط: سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن وسنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں جنہیں معمولی پڑھا لکھا شخص سمجھ سکتا ہے اس کے برعکس قرآن وسنت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں کوئی ابہام یا اجمال یا قرآن کریم کی ایک آیت کا دوسری آیت اور حدیث سے بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے ان جیسے مسائل میں اجتہاد کیا جاتا ہے اور اجتہاد اتنی اہم اور نازک ذمہ داری ہے کہ ہر کس وناکس کو یہ ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی ہے اس کے لئے اخلاص وللہیت، تقویٰ، خدا ترسی شرط ہے اس کے ساتھ ساتھ عمیق علم، ذکاوت وفراست وسیع نظر اور زمانہ سے بھر پور آگہی کی بھی ضرورت ہے اسی مفہوم کو علامہ جلال الدین محلی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مجمع الجوامع میں لکھا ہے: وہ عامی جو کتاب وسنت کو نہیں جانتا اور نہ اس میں نصوص کے تتبع تلاش، سمجھنے اور ان سے حکم شرعی مستنبط کرنے کی صلاحیت ہے تو وہ کسی ایسے مجتہد کے اجتہاد پرعمل کرے جس کے استنباط مع دلائل مدون ہیں ان پر عمل کرنے والا شریعت پر عمل کرنے والا قرار دیا جائے گا۔
’’ویجب علی العامي وغیرہ فمن لم یبلغ مرتبۃ الاجتہاد والتزام مذہب معین من مذاہب المجتہدین‘‘(۱)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے عقد الجید میں امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے:
’’ویجب علی من لم یجمع ہذہ الشرائط تقلیدہ فیما یعن لہ من الحوادث‘‘(۲)
یعنی اس شخص پر جو ان شرائط کا جامع نہ ہو اس پر کسی مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے ان مسائل میں جو ان کو پیش آئیں۔
’’وبالجملۃ فالتمذہب للمجتہدین سر الہمہ اللّٰہ تعالیٰ العلماء وتبعہم علیہ من حیث یشعرون أولا یشعرون‘‘(۱)
مجتہدین کے مذاہب میں کسی مذہب کی پابندی ایک راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علماء کے دلوں میں الہام کیا اور اس پر ان کو متفق کیا ہے وہ اس کی مصلحت اور راز کو جانیں یا نہ جانیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اصولیین کے نزدیک تقلید نام ہے کہ جس امام اور مجتہد کی ہم تقلید کر رہے ہیں ان سے دلیل کا مطالبہ کئے بغیر ان کی بات کو مان لینا اور ان پر پورا اعتماد کرنا ہے(۲) اس میں مجتہد کی حیثیت شارع کی نہیں؛ بلکہ محض شارح کی ہوتی ہے اور ہر شخص کے اندر چونکہ اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ قرآن وحدیث سے مسائل کو خود اخذ کر سکے؛ اس لیے ائمہ مجتہدین پر آپ کو اعتماد کرنا چاہئے اور وہ جو سمجھے ہیں اور امت کو سمجھاتے ہیں اس کو منشاء الٰہی اور مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر واجب الاتباع سمجھنا چاہئے۔(۳)

(۱) نور الہدایہ ترجمہ شرح الوقایۃ: ص: ۱۰۔
(۲) الشاہ ولی اللّٰہ محدث الدہلوي، عقد الجید في أحکام الاجتہاد والتقلید، ’’المقدمۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۔
(۱) الشاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوي، الاتصاف في بیان أسباب الاختلاف، ’’باب حکایۃ حال الناس‘‘: ج ۱، ص: ۷۳۔
(۲) مفتي محمد تقي عثماني، درس ترمذي: ج ۱، ص: ۱۳۔
(۳) الشاہ ولي اللّٰہ محدث الدہلوي، عقد الجید، ورسائل إمام ولي اللّٰہ الدہلوي: ج ۲، ص: ۱۳۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص151

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہمارے اصحاب کا اگر کوئی قول کسی آیت کے خلاف ہے، تو ظاہر ہے اس کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا ہے کہ ان ماہرین کی نظر یہاں تک نہیں پہونچی ہوگی، بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کو اس آیت کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوگیا تھا؛ اس لئے انھوں نے آیت پر عمل نہیں کیا اور ان کا قول آیت کے بظاہر خلاف ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے وہ آیت کے خلاف نہیں ہے۔ یا بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ دو آیتوں میں تعارض ہوگیا اوران کی تاریخ نزول کا ہمیں علم نہیں تو اب ان میں سے کس پر عمل کیا جائے، اس میں ہمارے اصحاب کا قول یقینا الگ ہوگا اور بظاہر آیت کے خلاف معلوم ہوگا،(۱) حالانکہ جب ان آیتوں پر عمل کرنا تاریخ نزول کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں رہا تو کسی اور قول کا قائل ہونا امر لابدی ہے تاکہ اس سلسلہ میں دیگر نصوص کو ترجیح حاصل ہو  جب اس طرح سے دوسری نصوص کو ترجیح دی جائے گی، تو اس کے نتیجے میں احناف کے قول اور آیت میں تعارض ختم ہوگا اور موافقت کی راہ خود بخود نکل آئے گی۔

(۱) أي بظاہر نفس تلک الآیۃ وإلا فلا یمکن مخالفۃ آیۃ، أو خبر لمسائل أئمتنا الحنفیۃ فإنہم قد استنبطوا مسائلہم من کتاب اللّٰہ عز وجل وسنۃ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وإجماع مجتہدي أمۃ سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، والقیاس الصحیح المأخوذ من الکتاب والسنۃ والإجماع، وما خالف مسائلہم فہو مؤول فتنبہ لذلک ولا تکن من المغترین۔ (قواعد الفقہ حاشیہ ؍ ۱: ج ۱، ص: ۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص153

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کرام بہت سی احادیث کو بالمعنی روایت کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر تنقیح واستخراج مسائل ہیں، ان کا یہ وظیفہ یعنی بیان مسئلہ اول درجہ میں اور بیان احادیث دوسرے درجہ میں ہے، جب کہ محدثین کا مطمع نظر اول درجہ میں بیان حدیث من وعن اور بیان مسئلہ ثانوی درجہ میں ہوتا ہے؟ اسی تناظر میں بعض احادیث کو محدثین ’’لم أجدہ‘‘ وغیرہ فرماتے ہیں حالانکہ وہ معنوی اعتبار سے ثابت ہوتی ہیں، دیگر توجیہات بھی شراح ہدایہ نے لکھی ہیں رجوع کرلیا جائے۔(۱)

(۱) أئمتنا الحنفیۃ رضي اللّٰہ عنہم لما رأوا أحادیث النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مختلفۃ وآثار الصحابۃ رضوان اللّٰہ عنہم متعارضۃ تتبعوا مأخذ الشریعۃ من الکتاب والسنۃ، فوجدوا الشریعۃ علی صنفین: صنف ہي القواعد الکلیۃ المطردۃ والمنعکسۃ کقولہ تعالیٰ: {لا تزر وازرۃ وزر أخری} وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الخراج بالضمان: وصنف وردت في حوادث جزئیۃ وأسباب مختصۃ کأنہا بمنزلۃ الاستثناء من الکلیات۔ (عمیم الإحسان، قواعد الفقہ: ص: ۵)…فصل: تنبیہ: وہذا المبحث ینجر إلی روایۃ الحدیث ونقلہ بالمعنی، وفیہ اختلاف فالأکثرون علی أنہ جائز بمن ہو عالم بالعربیۃ و ما ہو في أسالیب الکلام وعارف بخواض التراکیب ومفہومات الخطاب لئلا یخطی بزیادۃ ونقصان وقیل جائز في مفردات الألفاظ دون المرکبات، وقیل: جائز لمن استحضر الفاظہ حتی یتمکن من التصرف فیہ، وقیل: جائز لمن یحفظ معاني الحدیث ونسي الفاظہا للضرورۃ في تحصیل الأحکام۔ (الشیخ عبد الحق الدہلوي، مقدمۃ علی مشکوٰۃ المصابیح: ص: ۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص154