فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حنفی کے لئے ضروری یہ ہے کہ اپنے مسلک ہی کے مطابق فتویٰ دے، ایسے ہی شافعی اور مالکی حنبلی مفتیوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اپنے مسلک ہی کے مطابق فتویٰ دیں، ہر مسلک والے کو اپنے مسلک والے مفتی کے فتوے پر عمل کرنا چاہئے، دوسرے کے نہیں۔(۱)

(۱) أن الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل وخرق للإجماع وأن الحکم الملفق باطل بالإجماع۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۷۴)
وکذا في الموسوعۃ الفقیۃ الکویتیہ: ج ۱۳، ص:
۲۹۴۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص155

فقہ

Ref. No. 1248

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  نہیں، بشرطیکہ ان کو جائز کاموں میں استعمال کیا جائے، میوزک  وتصاویر وغیرہ سے اجتناب کرتے ہولکھنے پڑھنے کا کام کرنا درست ہے، لایعنی امور سے اجتناب کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوے میں مسئلہ شرعی کی وضاحت ہوتی ہے، اگر اس انکار کرنے والے کی منشاء اور غرض یہ ہے کہ فتویٰ کچھ بھی ہو یعنی شرعی مسئلہ کچھ ہو وہ اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں، تو فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ایسی صورت میں منکر پر کفر عائد ہو جاتا ہے۔(۱) اور اگر منشاء یہ ہوکہ سوال واقعہ کے خلاف لکھ کر فتوی حاصل کیا گیا ہے یا مسئلہ غلط لکھا گیا ہے تو خلاف بولنے والے پر ضروری ہوتا ہے کہ واقعہ کی صحت کو واضح کرے یا فتوے کی غلطی کو کتاب وسنت سے ثابت کرے، بغیر ثبوت کے اگر کوئی انکار کرتا ہے، تو اس کی بات قابل توجہ نہیں، بلکہ وہ خاطی اور گنہگار ہے۔

(۱) إذا جاء أحد الخصمین إلی صاحبہ بفتوی الأئمۃ فقال صاحبہ لیس کما أفتوا أو قال لا نعمل بہذا کان علیہ التعزیر ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)
إن قائلہ یؤمر بتجدید النکاح وبالتوبۃ والرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط۔ (أیضاً: ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر: ج ۲، ص: ۲۹۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص156

فقہ

 

Ref. No. 1008 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جب صورت و  غذا کے اعتبار سے وہ گائے ہے تو اس کے دودھ اور گوشت کا حکم دیسی گائے کے مثل ہے۔

 لان المعتبر فی الحل والحرمۃ الام فیما تولد من ماکول وغیرماکول۔ (کذا فی الشامی)۔خنزیر کے نسل سے ہونا کہاں لکھا ہے، اس کی وضاحت کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2249/44-2398

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر نے اجازت دیدی اور بیوی اجازت کے بعد ہی اپنے میکہ گئی ہے ، اس لئے شرط کے مطابق بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، بیوی کو اس اجازت کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 758):

"(لاتخرجي) بغير إذني أو (إلا بإذني) أو بأمري أو بعلمي أو برضاي (شرط) للبر (لكل خروج إذن) إلا لغرق أو حرق أو فرقة ولو نوى الإذن مرةً دين، وتنحل يمينه بخروجها مرةً بلا إذن، ولو قال: كلما خرجت فقد أذنت لك سقط إذنه، ولو نهاها بعد ذلك صح عند محمد، وعليه الفتوى.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2583/45-3945

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   موجودہ زمانہ میں ایپ کے ذریعہ لین دین کے بعد جو کیش بیک ملتاہے اس کا لینا جائز ہے، اسی طرح ایپ کو شئر کرنے سے جو کیش بیک ملتاہے اس کا لینا بھی جائز ہے، یہ ایک طرح سے مذکورہ کمپنی کی تشہیری مہم کا حصہ بنناہے اور اس عمل کی اجرت ہے، اس لئے یہ جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے جاہل کو جس کو صحیح مسائل یاد نہ ہوں، مسئلہ نہ بتلانا چاہئے، بلکہ علماء اور مفتیان سے رجوع کرنا چاہئے ورنہ تو وہ شخص گنہگار ہوگا، جس سے پرہیز لازم ہے۔(۱)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن بقبض العلم یقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالماً اتخذ الناس رؤساً جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا، متفق علیہ۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۲۰۶)
وحدثني أبو الطاہر أحمد بن عمرو بن عبد اللّٰہ بن عمرو بن سرح قال: أنا ابن وہب قال: قال لي مالک رحمہ اللّٰہ: إعلم أنہ لیس یَسلَم رجل حدّث بکل ما سمع ولا یکون إماماً أبداً وہو یحدث بکل ما سمع۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’المقدمۃ، باب النہي عن الحدیث بکل ما سمع‘‘: ج ۱، ص: ۹، رقم: ۵
)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص157

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوی کے ذریعہ قرآن وحدیث کا حکم بتلایا جاتا ہے، فتوی دینے والا در اصل اللہ تعالیٰ کا حکم بتلاتا ہے، دارالافتاء فتوی دیتا ہے ماننے پر مجبور نہیں کرتا، اس کا ماننا اور اس پر عمل کرنا ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہوتا ہے، اس سے انکار کرنابے جا جرأت اوربے دینی کا عمل ہے، ہاں اگر فتوی میں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یاقابل اشکال ہو، تو اس کو دوبارہ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ (۱)

(۱) رجل عرض علیہ خصمہ فتوی الأئمۃ فردہا وقال: ’’چہ بار نامہ فتوی آوردہ‘‘ قیل یکفر لأنہ رد حکم الشرع وکذا لو لم یقل شیئاً لکن ألقی الفتویٰ علی الأرض وقال: ’’ایں چہ شرع است‘‘ کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفرأنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)
الہازل أو المستہزئ إذا تکلم استخفافاً واستہزاء ومزاحاً یکون کفراً عند الکل، وإن کا اعتقادہ خلاف ذلک۔ (أیضا: ’’ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص:
۲۸۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص158

فقہ

Ref. No. 1472/42-918

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جريمة اللواط من أعظم الجرائم ، وأقبح الذنوب ، وأسوأ الأفعال۔ اللواط من اشد المعاصی التی تخوفتھا الشریعۃ علی الامۃ لفسادہ للفطرۃ البشریۃ ، قال رسول اللہ ﷺ  ان اخوف مااخاف علی امتی من عمل قوم لوط۔ (ابن ماجہ 2563)۔   وذهب الشافعي في ظاهر مذهبه والإمام أحمد في الرواية الثانية عنه إلى أن عقوبته وعقوبة الزاني سواء .  وذهب الإمام أبو حنيفة إلى أن عقوبته دون عقوبة الزاني وهى التعزير ".  

و لکن ھناك أمر مھم یجب ان یتضح ان الحدود والعقوبات ھی مسؤولية قاضي الحكومة الإسلامية فی المملکۃ الاسلامیۃ خاصۃ۔ ھو یقدرھا وینفذھا لا غیر۔ ویحرم علی المرء ان ینفذ الحدود والعقوبات بنفسہ۔ بل علیہ ان یتوب توبۃ نصوحا و يتخلى عن السيئات جملة ويصمم على عدم الاقتراب منها مرة أخرى،و یصلی ركعتين للتوبۃ معربا عن الندم والعار علی ما اقترفہ من عمل شنیع۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحتِ سوال صورت مسئولہ میں اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو قیاس کے طریقے سے کتاب وسنت کی طرف لوٹانا۔
’’الاجتہاد بذل الوسع في طلب الأمر، والمراد بہ رد القضیۃ من طریق القیاس إلی الکتاب والسنۃ‘‘(۱) کسی فقیہ کا کسی حکم شرعی کو حاصل (استنباط) کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت خرچ کرنے کو بھی اجتہاد کہا جاتا ہے۔
اجتہاد کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْج فَأِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاًہع ۵۹}(۲)
اس آیت کریمہ میں ادلۃ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے۔ {أَطِیْعُوا اللّٰہَ} سے مراد قرآن کریم ہے {أَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} سے مراد سنت ہے {أُولِی الْأَمْرِ} سے مراد علماء اور فقہا ہیں۔ ان میں اگر اختلاف وتنازع نہ ہو؛ بلکہ اتفاق ہو جائے تو اسے اجماعِ فقہاء کہتے ہیں اور اگر {أُولِی الْأَمْرِ} میں علماء وفقہاء کا اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہے اس نئے اور غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن وسنت کی طرف لوٹانا اور استنباط کرنا اجتہادِ شرعی یا قیاسِ مجتہد کہلاتا ہے۔
’’قال أبو بکر الجصاص: إن أولی الأمر ہم الفقہاء لأنہ أمر سائر الناس بطاعتہم ثم قال فإن تنازعتم في شيء فردوہ إلی اللّٰہ والرسول فأمر أولی الأمر برد المتنازع فیہ إلی کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کانت العامۃ ومن لیس من أہل العلم لیست ہذہ منزلتہم لأنہم لا یعرفون کیفیۃ الرد إلی کتاب اللّٰہ والسنۃ ووجوہ دلائلہما علی أحکام الحوادث فثبت أنہ خطاب للعلماء‘‘(۱)
لہٰذا عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے کہ اختلافی مسائل کو کتاب وسنت کی طرف لوٹائے؛ اس لیے کہ لوٹانے کا کیا طریقہ ہے یہ اسے معلوم نہیں ہے اور نہ ہی انہیں نت نئے مسائل مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے؛ اس لئے یہ مقام اور یہ خطاب علماء اور فقہاء ہی کا ہے۔
اجتہاد کا دروازہ ہرایک کے لیے کھلا ہوا ہو اس کی شریعت اسلامیہ میں گنجائش نہیں ہے، البتہ عام تحقیق وتلاش کتاب وسنت میں تدبر وتفکر، ان کے لطائف اور حقائق کا استخراج ہر زمانے کے تکوینی حوادث سے تشریعی مسائل کو تطبیق دے کر مناسب فتاوی دینا ایسے ہی معاندین اسلام کے نئے نئے شکوک وشبہات اور اعتراضات کی تردید کے لیے نصوص شرعیہ سے استنباط کرنا اصول اسلام کے اثبات اور تحقیق کے لئے کتاب وسنت سے تائید پیدا کرنے کا کام ہر دور میں اہل علم کے لیے باقی ہے اور ہر دور میں اہل عمل کے لئے (مذکورہ) میدان باقی ہے اجتہاد کی یہی نوع کل بھی تھی اور آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔(۲)

(۱) محمد بن محمد الحسیني، تاج العروس من جواہر القاموس: ج ۷، ص: ۵۳۹۔
(۲) سورۃ النساء: ۵۹۔

(۱) أحمد بن علی أبوبکر الجصاص، أحکام القرآن، (سورۃ النساء: ۵۹) ’’باب في طاعۃ أولی الأمر‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۷۔
(۲) حکیم الإسلام قاري محمد طیب صاحب، تحقیق: محمد حسنین أرشد قاسمي، اجتہاد اور تقلید: ص: ۷۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص159