فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن وسنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں جنہیں معمولی پڑھا لکھا شخص سمجھ سکتا ہے اس کے برعکس قرآن وسنت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں کوئی ابہام یا اجمال یا قرآن کریم کی ایک آیت کا دوسری آیت اور حدیث سے بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے ان جیسے مسائل میں اجتہاد کیا جاتا ہے اور اجتہاد اتنی اہم اور نازک ذمہ داری ہے کہ ہر کس وناکس کو یہ ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی ہے اس کے لئے اخلاص وللہیت، تقویٰ، خدا ترسی شرط ہے اس کے ساتھ ساتھ عمیق علم، ذکاوت وفراست وسیع نظر اور زمانہ سے بھر پور آگہی کی بھی ضرورت ہے اسی مفہوم کو علامہ جلال الدین محلی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مجمع الجوامع میں لکھا ہے: وہ عامی جو کتاب وسنت کو نہیں جانتا اور نہ اس میں نصوص کے تتبع تلاش، سمجھنے اور ان سے حکم شرعی مستنبط کرنے کی صلاحیت ہے تو وہ کسی ایسے مجتہد کے اجتہاد پرعمل کرے جس کے استنباط مع دلائل مدون ہیں ان پر عمل کرنے والا شریعت پر عمل کرنے والا قرار دیا جائے گا۔
’’ویجب علی العامي وغیرہ فمن لم یبلغ مرتبۃ الاجتہاد والتزام مذہب معین من مذاہب المجتہدین‘‘(۱)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے عقد الجید میں امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے:
’’ویجب علی من لم یجمع ہذہ الشرائط تقلیدہ فیما یعن لہ من الحوادث‘‘(۲)
یعنی اس شخص پر جو ان شرائط کا جامع نہ ہو اس پر کسی مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے ان مسائل میں جو ان کو پیش آئیں۔
’’وبالجملۃ فالتمذہب للمجتہدین سر الہمہ اللّٰہ تعالیٰ العلماء وتبعہم علیہ من حیث یشعرون أولا یشعرون‘‘(۱)
مجتہدین کے مذاہب میں کسی مذہب کی پابندی ایک راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علماء کے دلوں میں الہام کیا اور اس پر ان کو متفق کیا ہے وہ اس کی مصلحت اور راز کو جانیں یا نہ جانیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اصولیین کے نزدیک تقلید نام ہے کہ جس امام اور مجتہد کی ہم تقلید کر رہے ہیں ان سے دلیل کا مطالبہ کئے بغیر ان کی بات کو مان لینا اور ان پر پورا اعتماد کرنا ہے(۲) اس میں مجتہد کی حیثیت شارع کی نہیں؛ بلکہ محض شارح کی ہوتی ہے اور ہر شخص کے اندر چونکہ اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ قرآن وحدیث سے مسائل کو خود اخذ کر سکے؛ اس لیے ائمہ مجتہدین پر آپ کو اعتماد کرنا چاہئے اور وہ جو سمجھے ہیں اور امت کو سمجھاتے ہیں اس کو منشاء الٰہی اور مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر واجب الاتباع سمجھنا چاہئے۔(۳)

(۱) نور الہدایہ ترجمہ شرح الوقایۃ: ص: ۱۰۔
(۲) الشاہ ولی اللّٰہ محدث الدہلوي، عقد الجید في أحکام الاجتہاد والتقلید، ’’المقدمۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۔
(۱) الشاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوي، الاتصاف في بیان أسباب الاختلاف، ’’باب حکایۃ حال الناس‘‘: ج ۱، ص: ۷۳۔
(۲) مفتي محمد تقي عثماني، درس ترمذي: ج ۱، ص: ۱۳۔
(۳) الشاہ ولي اللّٰہ محدث الدہلوي، عقد الجید، ورسائل إمام ولي اللّٰہ الدہلوي: ج ۲، ص: ۱۳۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص151

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہمارے اصحاب کا اگر کوئی قول کسی آیت کے خلاف ہے، تو ظاہر ہے اس کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا ہے کہ ان ماہرین کی نظر یہاں تک نہیں پہونچی ہوگی، بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کو اس آیت کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوگیا تھا؛ اس لئے انھوں نے آیت پر عمل نہیں کیا اور ان کا قول آیت کے بظاہر خلاف ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے وہ آیت کے خلاف نہیں ہے۔ یا بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ دو آیتوں میں تعارض ہوگیا اوران کی تاریخ نزول کا ہمیں علم نہیں تو اب ان میں سے کس پر عمل کیا جائے، اس میں ہمارے اصحاب کا قول یقینا الگ ہوگا اور بظاہر آیت کے خلاف معلوم ہوگا،(۱) حالانکہ جب ان آیتوں پر عمل کرنا تاریخ نزول کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں رہا تو کسی اور قول کا قائل ہونا امر لابدی ہے تاکہ اس سلسلہ میں دیگر نصوص کو ترجیح حاصل ہو  جب اس طرح سے دوسری نصوص کو ترجیح دی جائے گی، تو اس کے نتیجے میں احناف کے قول اور آیت میں تعارض ختم ہوگا اور موافقت کی راہ خود بخود نکل آئے گی۔

(۱) أي بظاہر نفس تلک الآیۃ وإلا فلا یمکن مخالفۃ آیۃ، أو خبر لمسائل أئمتنا الحنفیۃ فإنہم قد استنبطوا مسائلہم من کتاب اللّٰہ عز وجل وسنۃ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وإجماع مجتہدي أمۃ سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، والقیاس الصحیح المأخوذ من الکتاب والسنۃ والإجماع، وما خالف مسائلہم فہو مؤول فتنبہ لذلک ولا تکن من المغترین۔ (قواعد الفقہ حاشیہ ؍ ۱: ج ۱، ص: ۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص153

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کرام بہت سی احادیث کو بالمعنی روایت کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر تنقیح واستخراج مسائل ہیں، ان کا یہ وظیفہ یعنی بیان مسئلہ اول درجہ میں اور بیان احادیث دوسرے درجہ میں ہے، جب کہ محدثین کا مطمع نظر اول درجہ میں بیان حدیث من وعن اور بیان مسئلہ ثانوی درجہ میں ہوتا ہے؟ اسی تناظر میں بعض احادیث کو محدثین ’’لم أجدہ‘‘ وغیرہ فرماتے ہیں حالانکہ وہ معنوی اعتبار سے ثابت ہوتی ہیں، دیگر توجیہات بھی شراح ہدایہ نے لکھی ہیں رجوع کرلیا جائے۔(۱)

(۱) أئمتنا الحنفیۃ رضي اللّٰہ عنہم لما رأوا أحادیث النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مختلفۃ وآثار الصحابۃ رضوان اللّٰہ عنہم متعارضۃ تتبعوا مأخذ الشریعۃ من الکتاب والسنۃ، فوجدوا الشریعۃ علی صنفین: صنف ہي القواعد الکلیۃ المطردۃ والمنعکسۃ کقولہ تعالیٰ: {لا تزر وازرۃ وزر أخری} وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الخراج بالضمان: وصنف وردت في حوادث جزئیۃ وأسباب مختصۃ کأنہا بمنزلۃ الاستثناء من الکلیات۔ (عمیم الإحسان، قواعد الفقہ: ص: ۵)…فصل: تنبیہ: وہذا المبحث ینجر إلی روایۃ الحدیث ونقلہ بالمعنی، وفیہ اختلاف فالأکثرون علی أنہ جائز بمن ہو عالم بالعربیۃ و ما ہو في أسالیب الکلام وعارف بخواض التراکیب ومفہومات الخطاب لئلا یخطی بزیادۃ ونقصان وقیل جائز في مفردات الألفاظ دون المرکبات، وقیل: جائز لمن استحضر الفاظہ حتی یتمکن من التصرف فیہ، وقیل: جائز لمن یحفظ معاني الحدیث ونسي الفاظہا للضرورۃ في تحصیل الأحکام۔ (الشیخ عبد الحق الدہلوي، مقدمۃ علی مشکوٰۃ المصابیح: ص: ۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص154

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حنفی کے لئے ضروری یہ ہے کہ اپنے مسلک ہی کے مطابق فتویٰ دے، ایسے ہی شافعی اور مالکی حنبلی مفتیوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اپنے مسلک ہی کے مطابق فتویٰ دیں، ہر مسلک والے کو اپنے مسلک والے مفتی کے فتوے پر عمل کرنا چاہئے، دوسرے کے نہیں۔(۱)

(۱) أن الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل وخرق للإجماع وأن الحکم الملفق باطل بالإجماع۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۷۴)
وکذا في الموسوعۃ الفقیۃ الکویتیہ: ج ۱۳، ص:
۲۹۴۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص155

فقہ

Ref. No. 1248

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  نہیں، بشرطیکہ ان کو جائز کاموں میں استعمال کیا جائے، میوزک  وتصاویر وغیرہ سے اجتناب کرتے ہولکھنے پڑھنے کا کام کرنا درست ہے، لایعنی امور سے اجتناب کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوے میں مسئلہ شرعی کی وضاحت ہوتی ہے، اگر اس انکار کرنے والے کی منشاء اور غرض یہ ہے کہ فتویٰ کچھ بھی ہو یعنی شرعی مسئلہ کچھ ہو وہ اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں، تو فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ایسی صورت میں منکر پر کفر عائد ہو جاتا ہے۔(۱) اور اگر منشاء یہ ہوکہ سوال واقعہ کے خلاف لکھ کر فتوی حاصل کیا گیا ہے یا مسئلہ غلط لکھا گیا ہے تو خلاف بولنے والے پر ضروری ہوتا ہے کہ واقعہ کی صحت کو واضح کرے یا فتوے کی غلطی کو کتاب وسنت سے ثابت کرے، بغیر ثبوت کے اگر کوئی انکار کرتا ہے، تو اس کی بات قابل توجہ نہیں، بلکہ وہ خاطی اور گنہگار ہے۔

(۱) إذا جاء أحد الخصمین إلی صاحبہ بفتوی الأئمۃ فقال صاحبہ لیس کما أفتوا أو قال لا نعمل بہذا کان علیہ التعزیر ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)
إن قائلہ یؤمر بتجدید النکاح وبالتوبۃ والرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط۔ (أیضاً: ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر: ج ۲، ص: ۲۹۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص156

فقہ

 

Ref. No. 1008 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جب صورت و  غذا کے اعتبار سے وہ گائے ہے تو اس کے دودھ اور گوشت کا حکم دیسی گائے کے مثل ہے۔

 لان المعتبر فی الحل والحرمۃ الام فیما تولد من ماکول وغیرماکول۔ (کذا فی الشامی)۔خنزیر کے نسل سے ہونا کہاں لکھا ہے، اس کی وضاحت کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2249/44-2398

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر نے اجازت دیدی اور بیوی اجازت کے بعد ہی اپنے میکہ گئی ہے ، اس لئے شرط کے مطابق بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، بیوی کو اس اجازت کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 758):

"(لاتخرجي) بغير إذني أو (إلا بإذني) أو بأمري أو بعلمي أو برضاي (شرط) للبر (لكل خروج إذن) إلا لغرق أو حرق أو فرقة ولو نوى الإذن مرةً دين، وتنحل يمينه بخروجها مرةً بلا إذن، ولو قال: كلما خرجت فقد أذنت لك سقط إذنه، ولو نهاها بعد ذلك صح عند محمد، وعليه الفتوى.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2583/45-3945

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   موجودہ زمانہ میں ایپ کے ذریعہ لین دین کے بعد جو کیش بیک ملتاہے اس کا لینا جائز ہے، اسی طرح ایپ کو شئر کرنے سے جو کیش بیک ملتاہے اس کا لینا بھی جائز ہے، یہ ایک طرح سے مذکورہ کمپنی کی تشہیری مہم کا حصہ بنناہے اور اس عمل کی اجرت ہے، اس لئے یہ جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے جاہل کو جس کو صحیح مسائل یاد نہ ہوں، مسئلہ نہ بتلانا چاہئے، بلکہ علماء اور مفتیان سے رجوع کرنا چاہئے ورنہ تو وہ شخص گنہگار ہوگا، جس سے پرہیز لازم ہے۔(۱)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن بقبض العلم یقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالماً اتخذ الناس رؤساً جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا، متفق علیہ۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۲۰۶)
وحدثني أبو الطاہر أحمد بن عمرو بن عبد اللّٰہ بن عمرو بن سرح قال: أنا ابن وہب قال: قال لي مالک رحمہ اللّٰہ: إعلم أنہ لیس یَسلَم رجل حدّث بکل ما سمع ولا یکون إماماً أبداً وہو یحدث بکل ما سمع۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’المقدمۃ، باب النہي عن الحدیث بکل ما سمع‘‘: ج ۱، ص: ۹، رقم: ۵
)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص157