طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اس سے وضو کرنا درست ہے(۱) ’’و تجوز الطہارۃ بماء خالطہ شيء طاھر، إلی قولہ: والماء الذي یختلط بہ الأشنان أوالصابون أو الزعفران بشرط أن تکون الغلبۃ للماء من حیث الأجزاء بأن تکون أجزاء الماء أکثر من أجزاء المخالط۔ ہذا إذا لم یزل منہ اسم الماء الخ، کبیري‘‘۔(۲)

(۱) و تجوز الطھارۃ بالماء المطلق کماء السماء والعین والبئر والأودیۃ والبحار، و إن غیر طاھر بعض أوصافہ کالتراب والزعفران والصابون(عبدالرحمٰن بن محمد، مجمع الأنہر،کتاب الطہارۃ، ج ۱، ص:۴۴)
(۲) ابراہیم حلبي، کبیري، فصل في بیان أحکام المیاہ، ص:۷۸


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص458

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر داڑھی گھنی نہ ہو اور بالوں کے اندر سے چہرہ بالکل صاف نظر آتا ہو، تو پوری ڈاڑھی کا دھونا فرض ہے؛ صرف مسح کرنا کافی نہیں ہوگا، اگر گھنی داڑھی ہو، تو نیچے جلد پر پانی پہونچانا ضروری نہیں ہے۔(۱)

(۱)ثم لا خلاف أن المسترسل لا یجب غسلہ ولا مسحہ: بل یسن، و أن الخفیفۃ التي تری بشرتھا، یجب غسل ما تحتھا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب، في معنی الاستنشاق و تقسیمہ، ج۱، ص:۲۱۵)؛ والشعر المسترسل من الذقن، لا یجب غسلہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، ج ۱، ص:۵۴)(مکتبۃ فیصل دیوبند)؛ و(یجب) یعني یفترض (غسل ظاھر اللحیۃ الکثۃ) وھي التي لا تری بشرتھا) في أصح ما یفتی بہ) (ویجب) یعني یفترض (إیصال الماء إلی بشرۃ اللحیۃ الخفیفۃ)۔(احمد بن اسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في تمام أحکام الوضوء، ص:۶۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص126

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو اور غسل کی دعا یکساں ہے جو دعا وضو کی ہے وہی غسل کی ہے، غسل کے لیے علیحدہ کوئی دعا احادیث میںمنقول نہیں ہے۔ علامہ نوویؒ نے لکھا ہے کہ غسل کے اذکار مثل وضو کے ہیں، اس لیے غسل سے فارغ ہوکر وہ دعا پڑھنی چاہیے جو وضو کے بعد پڑھتے ہیں اور اگر غسل خانہ میں برہنہ حالت میں ہو، تو اس حالت میں ذکر نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ غسل سے فارغ ہوکر جب باہر آجائے تو اس وقت پڑھے(۳)’’یستحبّ للمغتسل أن یقول جمیع ما ذکرناہ في المتوضئ من التسمیۃ وغیرہا، ولا فرق في ذلک بین الجُنب والحائض وغیرہما، وقال بعض أصحابنا: إن کان جُنُباً أو حائضاً لم یأتِ بالتسمیۃ، والمشہور أنہا مستحبّۃ لہما کغیرہما، لکنہما لا یجوز لہما أن یقصدا بہا القرآن‘‘ (۱)

(۳)إلاّ حال انکشاف و في محل نجاسۃ فیسمی بقلبہ۔ الظاھر أن المراد أن یسمی قبل رفع ثیابہ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:ـ۲۲۷)
(۱)النووي، الأذکار’’ باب ما یقول علی اغتسال‘‘ ج۱، ص:۵۱(بیروت: دارابن حزم، لبنان)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص313

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 949 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: جب تک پیشاب نکلنے کا یقین نہ ہو صرف شک او روہم ہوتے رہنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، اسکی پرواہ نہ کریں؛ پیشاب کرنے کے بعد کھانس کر یا اٹھ بیٹھ کر پیشاب کے قطروں سے تسلی حاصل کرلیں، شاید اس سے اس وسوسہ سے نجات مل جائے۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر پانی کا رنگ، بو، اور مزہ پورے طور پر تبدیل نہ ہوا ہو، تو اس سے وضو وغسل دونوں جائز ہیں۔(۱)

(۱)ولا بماء قلیل وقع فیہ نجس مالم یکن غدیراً أو لم یکن عشراً في عشر۔ (عبدالرحمٰن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، فصل الطہارۃ بالماء المطلق، ج۱،ص:۴۶-۴۷)؛ و قال في شرحہ ’’مجمع الانہر‘‘ والمعنی لا تجوز الطھارۃ بماء قلیل وقع فیہ نجس مالم یکن غدیراً، أو لم یکن عشراً في عشر۔ (ابراہیم بن محمد الحلبی، مجمع الأنہر، ج ۱، ص:۴۷)؛ والغدیر العظیم الذي لا یتحرک أحد طرفیہ بتحریک الطرف الآخر إذا وقعت نجاسۃ في أحد جانبیہ، جاز الوضوء من الجانب الآخر… و بعضھم قدروا بالمساحۃ عشرا في عشر بذراع الکرباس توسعۃ للأمر علی الناس، و علیہ الفتویٰ۔ (المرغینانی، الہدایہ کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز بہ، ج ۱،ص:۳۶-۳۷)؛ و الماء الراکد إذا کان کثیراً، فھو بمنزلۃ الجاري، لا یتنجس جمیعہ بوقوع النجاسۃ في طرف منہ، إلا أن یتغیر لونہ أو طمعہ أو ریحہ… قال ابوسلیمان الجوزجاني: إن کان عشراً في عشر، فھو مما لا یخلص۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث: في المیاہ، النوع الثانیي: الماء الراکد، ج ۱، ص:۷۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص458

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:افیون، بھنگ، چرس، تمباکو وغیرہ ناپاک نہیں ہیں؛(۲) اس لیے اس پانی سے وضو و غسل وغیرہ درست ہے۔(۳)

(۲)و کذا یجوز بماء خالطہ طاھر جامد مطلقاً کأشنان و زعفران و فاکھۃ و ورق شجر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في أن التوضي من الحوض أفضل، ج۱،ص:۳۳۴)، و تجوز الطھارۃ بماء خالطہ شیء طاھر، فغیر أحد أو صافہ کماء المد، والماء الذی یختلط بہ الأشنان أو الصابون أو الزعفران بشرط أن تکون الغلبۃ للماء من حیث الأجزاء۔ (ابراہیم الحبلي، غنیۃ المستملي في شرح منیۃ المصلي، ’’فصل في بیان أحکام المیاہ‘‘، ص:۷۸)(دارالکتاب دیوبند)
(۳)و تجوز الطھارۃ بالماء المطلق کماء السماء … و إن غیر طاھر بعض أو صافہ کالتراب والزعفران والأشنان والصابون (إبراہیم بن محمد،ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، فصل تجوز الطہارۃ‘‘ج۱، ص:۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص127

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سلسلے میں پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ عمل ناجائز اور حرام ہے، شریعت نے جنسی تسکین کے لیے دو راستے مقرر کئے ہیں ایک نکاح کا اور دوسرا باندی سے جماع کا۔ اس وقت جنسی تسکین کی ایک ہی صورت جائز ہے کہ نکاح کے ذریعہ جنسی ضرورت پوری کی جائے اور اگر نکاح ممکن نہ ہوتو روزہ کے ذریعہ اپنی جنسی ضرورت کو کم کیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے {إلا علی أزواجہم أو ماملکت أیمانہم فإنہم غیر ملومین فمن ابتغی وراء ذلک فأولئک ہم العادون‘‘ (۱)
اگر کوئی اس طرح مصنوعی کھلونے سے جنسی ضرورت پوری کرتا ہے اور اس کو انزال ہوجائے تو غسل واجب ہوگا۔ (۲)
نیز  مصنوعی کھلونے سے جنسی عمل کیا اس طورپر کہ مرد نے اپنا حشفہ مصنوعی فرج میں داخل کیا اور انزال نہیں ہوا، تو اس پر غسل واجب نہیں ہوگا اوراگر عورت نے مصنوعی کھلو نے کے حشفہ کو قضاء شہوت کے لیے اپنی شرم گاہ میں داخل کیا اور اس سے اس کو تسکین ملی تو اگر چہ انزال نہیں ہوا، اس پر غسل واجب ہوجائے گا۔ (و) لا عند (إدخال إصبع ونحوہ) کذکر غیر آدمي وذکر خنثی ومیت وصبي لایشتہی وما یصنع من نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار ... (بلا إنزال) لقصورالشہوۃ أما بہ فیحال علیہ ۔۔۔۔ في ردالمحتار: قال
في التجنیس: رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وہو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء. والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ، ذکرہ في الصوم، وقید بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشہوۃ فیہن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمہا۔ نوح أفندی‘‘’’وکذا الاستمناء بالکف
وإن کرہ تحریما لحدیث ناکح الید ملعون، ولو خاف الزنی یرجی أن لا وبال علیہ ... بقي ہنا شيء وہو أن علۃ الإثم ہل ہي کون ذلک استمتاعا بالجزء کما یفیدہ الحدیث، وتقییدہم کونہ بالکف ویلحق بہ ما لو أدخل ذکرہ بین فخذیہ مثلا حتی أمنی، أم ہي سفح الماء وتہییج الشہوۃ في غیر محلہا بغیر عذر کما یفیدہ قولہ و أما إذا فعلہ لاستجلاب الشہوۃ إلخ؟ لم أرمن صرح بشيء من ذلک والظاہر الأخیر؛ لأن فعلہ بید زوجتہ ونحوہا فیہ سفح الماء لکن بالاستمتاع بجزء مباح کما لو أنزل بتفخیذ أو تبطین بخلاف ما إذا کان بکفہ ونحوہ، وعلی ہذا فلو أدخل ذکرہ في حائط أو نحوہ حتی أمنی أو استمنی بکفہ بحائل یمنع الحرارۃ یأثم أیضا، ویدل أیضا علی ما قلنا ما في الزیلعي حیث استدل علی عدم حلہ بالکف بقولہ تعالی ’’والذین ہم لفروجہم حافظون‘‘ (۱) الآیۃ وقال فلم یبح الاستمتاع إلا بہما أي بالزوجۃ والأمۃ اہ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشہوۃ بغیرہما ہذا ما ظہر لي واللہ سبحانہ أعلم‘‘ (۲)
 

(۱)المؤمنون، آیت: ۶
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار ’’مطلب رطوبۃ الفرج‘‘ ج۱۰،ص:۳۰۴-۳۰۶
(۱)المؤمنون: ۵(۲) ابن عابدین، رد المحتار’’باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في حکم الاستمناء بالکف‘‘ج۳، ص: ۳۷۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص314

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ مرض میں پانی اس کے لیے مضر نہیں ہوتا جیسا کہ سوال سے ظاہر ہوتا ہے۔ صرف طہارت میں شبہ ہو تا ہے تو اس شخص کے لیے وضو کرنا ہی ضروری ہے ۔طہارت کے بعد آپریشن ہوا تھا، تو پہلی طہارت زائل ہو گئی ہے؛ ہاں اگر طہارت یعنی وضو آپریشن کے بعد کیا تھا یا اس کے بعد وضو کرتے رہے، تو وہ معذور کے حکم میں ہے ایک وقت کی جتنی نمازیں چاہیں پڑھ لیں، شبہ نہ کریں۔ جب تک عذر باقی رہے ہر وقت کے داخل ہونے پر وضوء کرلیں؛ ہاں اس کے علاوہ کوئی ناقض وضوء پیش آئے، تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؛ لیکن پیشاب کے قطرے آتے رہنے سے پورے وقت وضو ہی کا حکم رہے گا۔(۱)

(۱)صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ، الخ، إن استوعب عذرہ تمام وقت صلوۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتھا زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیا عن الحدث ولو حکما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام الآئسۃ،ج۱، ص:۵۰۴)، من بہ سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذي لا یرقاء یتوضؤون لوقت کل صلوٰۃ فیصلون بذلک الوضوء في الوقت ما شاؤا من الفرائض والنوافل۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، فصل: في الاستحاضۃ، ج۱،ص:۱۸۱)؛ و یصلون بہ فرضا و نفلا، و یبطل بخروجہ فقط، و ھذا إذا لم یمض علیھم وقت فرض إلا وذلک الحدث یوجد فیہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، ج۱، ص:۳۷۵)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص411

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر تالاب دہ در دہ ہے اور اس میں کوئی ظاہری نجاست بھی نہیں ہے، تو اس سے وضو کرنا اور نماز پڑھنا درست ہے۔(۲)

(۲)والغدیر العظیم الذي لا یتحرک أحد طرفیہ بتحریک الطرف الآخر، إذا وقعت نجاسۃ في أحد جانبیہ، جاز الوضوء من الجانب الآخر… و بعضھم قدروا بالمساحۃ عشرا في عشر بذراع الکرباس توسعۃ للأمر علی الناس، و علیہ الفتویٰ۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ ، ج۱، باب الماء الذي یجوز بہ التوضؤ مالا یجوز بہ، ص:۳۶،۳۷)، الماء الراکد إذا کان کثیراً، فھو بمنزلۃ الجاري…قال أبوسلیمان الجوزجاني: إن کان عشراً في عشر، فھو مما لا یخلص۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث: في المیاہ، النوع الثانی : الماء الراکد، ج۱، ص:۷۰)؛ والمعنی لا تجوز الطھارۃ بماء قلیل وقع فیہ نجس مالم یکن غدیراً، أو لم یکن عشراً في عشر۔ (عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ج۱، ص:۴۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص459

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسواک پاکی کے لیے ہوتی ہے۔ ناپاکی سے پاکی حاصل ہی نہیں ہوسکتی؛ لہٰذا اس پانی میں کوئی کراہت نہیں آئے گی، پھر بھی احتیاط اسی میں ہے کہ مسواک لوٹے میں نہ ڈالی جائے؛ بلکہ الگ سے پانی ڈال کر مسواک کو تر کر لیا جائے۔(۱)

(۱)وھو من قضبان أشجار لھا رائحۃ طیبۃ۔ ( عالم بن العلاء، تاتارخانیہ ’’کتاب الطہارۃ، فصل الوضوء‘‘  ج۱،ص۲۲۲)؛ و ینبغی أن یکون السواک من أشجار مِرّۃ لا یطیب نکھۃ الفم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني في سنن الوضوء، منہا السواک،‘‘ ج۱،  ص۵۷)؛ و روي ابن ماجہ من حدیث عائشۃؓ أیضا۔ کنت أصنع لہ ثلاثۃ آنیۃ مخمرۃ إناء لطھورہ و إناء لسواکہ۔ و إناء لشرابہ۔ (بدرالدین العینی، البنایۃ شرح الھدایۃ،’’ کتاب الطہارۃ، سنن الوضوء‘‘ج۱، ص:۲۰۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص128