طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:باتھ روم ایک گندی اور برہنگی کی جگہ ہے، دورانِ غسل بات چیت کرنا، دعا اور ذکر کرنا مکروہ ہے، اس لیے کسی کتاب کا مطالعہ کرنا بھی مکروہ ہوگا۔
و یستحب أن لا یتکلم بکلام قط من کلام الناس أو غیرہ۔(۳) و یستحب أن لا یتکلم بکلام مطلقا، أما کلام الناس فلکراھتہ حال الکشف۔(۴)

(۳)محمد بن محمد ، غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلي،ص: ۴۵
(۴) ابن عابدین،رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: سنن الغسل‘‘ ج ۱، ص:۲۹۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص316

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:  صورت مسئول عنہا میں اگر آلائش والی مرغی کو گرم پانی میں ڈالا اور گرم ہونے پرفوراً ہی نکال لیا، تاکہ بال وپر وغیرہ آسانی سے الگ ہو جائیں، تو اس صورت میں اس آلائش کی وجہ سے گوشت اگرچہ ناپاک تو ہوگا مگر دھونے سے پاک ہو جائے گا، اگر کھولتے ہوئے گرم پانی میں ڈالا اور اس کو کھولایا، تو اس آلائش (نجاست) کا اثر گوشت کے ہر ہر جز میں سرایت کر جائے گا اور پھر گوشت دھونے سے بھی پاک نہیں ہوگا(۱)۔ طحطاوی کی عبارت کا مقصد یہی ہے۔ دونوں صورتوں میں فرق واضح ہے۔

(۱)و کذلک دجاجۃ، الخ۔ ولا یترک فیہ إلا مقدار ما تصل الحرارۃ إلی ظاھر الجلد لتنحل مسام الصوف بل لو ترک یمنع إنقلاع الشعر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس، مطلب في تطھیر الدھن والعسل، ج۱، ص:۵۴۴)؛  ولو ألقیت دجاجۃ حالۃ الغلیان في الماء قبل أن یشق بطنھا لتنتف أو کرش قبل الغسل لا یطھر أبداً۔۔۔ لکن العلۃ المذکورۃ لا تثبت حتی یصل الماء إلی حد الغلیان و یمکث فیہ اللحم بعد ذلک زمانا یقع في مثلہ للتشرب والدخول في باطن اللحم۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس و تطھیرہا، ج۱، ص:۲۱۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص412

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق : حوض کا طول وعرض یکساں ہونا ضروری نہیں ہے، کمی بیشی کی گنجائش ہے، جب کہ حساب دہ در دہ کا عمومی طور پر پورا ہو جائے، مثلث اور مربع ہونے کے اعتبار سے مجموعی مقدار دہ در دہ کے برابر ہو جانی چاہیے اور گہرائی اتنی مقدار میں ہونی چاہیے کہ چلو بھرنے سے زمین نظر نہ آئے(۱) ’’أما إذا کان عشراً في عشر بحوضٍ مربع أو ستۃ وثلاثین في مدور وعمقہ أن یکون بحال لا تنکشف أرضہ بالغرف منہ علی الصحیح(۲)ہذا القدر إذا ربع یکون عشراً في عشر وفي المثلث کل جانب منہ یکون ذرعہ خمسۃ عشر ذراعاً وربعاً وخمسًا‘‘۔ (۳)

(۱)و حقق في البحر أنہ المذہب، و بہ یعمل و أن التقدیر بعشر في عشر لا یرجع إلی أصل یعتمد علیہ و رد ما أجاب بہ صدر الشریعۃ، لکن في النھر: و أنت خبیر بأن المتبادر العشر أضبط ولا سیما في حق من لا رأی لہ من العوام فلذا أفتی بہ المتأخرون الأعلام: أي في الربع بأربعین، و في المدور بستۃ و ثلاثین وفي المثلث من کل جانب خمسۃ عشر و ربعا و خمسا بذراع الکرباس ولو لہ طول لا عرض لکنہ یبلغ عشرا في عشر جاز تیسیرہ ولو أعلاہ عشرا۔ (ابن عابدین رد الحتار علی الدر المختار،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب:لو أدخل الماء من أعلی الحوض، ج۱، ص:۴۰؍۳۴۳)
(۲) احمد بن محمد بن اسماعیل الطحاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، شرح نورالإیضاح، کتاب الطہارۃ، قبیل فصل في بیان أحکام السؤر، ص:۲۷
(۳) ایضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص460

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو نام ہے تین اعضاء (منہ، ہاتھ اور پاؤں) کے دھونے کا اور سر کے مسح کرنے کا۔ جب غسل ہو گیا ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ اعضاء بھی دھل گئے اور غسل کے ساتھ وضو بھی ہو گیا؛ البتہ غسل سے پہلے وضو بنا لینا سنت ہے، اگر کسی نے پہلے وضو بنایا اورغسل کر لیا تب بھی وضو ہو گیا؛ اس لیے دوبارہ وضو کرنے کا التزام درست نہیں؛ بلکہ تحصیل حاصل ہوگا اور  لازم سمجھتے ہوئے ایسا کرنا بدعت ہے۔(۱)

(۱)و عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ ﷺ لا یتوضأ بعد الغسل، رواہ مسلم۔ (بدرالدین العینی، البنایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الغسل‘‘ ،ج۱،ص:۳۱۹، زکریا بک ڈپو دیوبند)؛ و سنتہ أن یبدأ المغتسل فیغسل یدیہ و فرجہ و یزیل النجاسۃ إن کانت علی بدنہ ثم یتوضأ وضوء ہ للصلوۃ إلا رجلیہ۔(المرغینانی، الہدایہ،  فصل في الغسل، ج۱،ص:۳۰)؛ وفي جامع الجوامع۔ ومن یوجب الوضوء مع الغسل غلط ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، نوع آخر في بیان فرائضہ و سننہ،‘‘ ج۱،ص:۲۷۶، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص128

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس شخص کو بواسیر کی بیماری ہے اور مقعد باہر نکل آتی ہے اگر اس نے بذات خود اپنے ہاتھ یا کسی دوسرے کے ذریعے سے مقعد کو اندر کر دیا، تو وضو ٹوٹ جائے گا، دوبارہ اس کو وضو کرنا ہوگا اور اگر مقعد خود اندر چلی گئی، تووضو نہیں ٹوٹے گا۔ نیز اس صورت میں اگر نجاست ظاہر ہوگئی، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔باسوري خرج دبرہ إن أدخلہ بیدہ انتقض وضوء ہ، و إن دخل بنفسہ لا۔(۱)
باسوري (باسو) خرج من دبرہ فإن عالجہ بیدہ أو بخرقہ حتی أدخلہ تنتقض، (تنقض) طہارتہ، لأنہ یلتزق بیدہ شيء من النجاسۃ إلا إن عطس فدخل بنفسہ۔(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطب في ندب مراعات الخلاف،‘‘ ج۱، ص:۲۸۲
(۲) زین الدین ابن نجیم الحنفي، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج۱، ص:۳۲)؛ و إذا خرج دبرہ إن عالجہ بیدہ أو بخرقۃ حتی أدخلہ، تنتقض طہارتہ۔ (جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الخامس في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص229

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر دانت یا خول اس طرح پیوست ہے کہ اس کا نکالنا ممکن نہیں، تو اس کا حکم اصل دانت کے مانند ہے، اس کے ظاہری حصہ کو دھونا کافی ہوگا اور اس کو اتارے بغیر غسل مکمل ہوجائے گا، لیکن اگر اس کو نکالنا ممکن ہو اور خول کو یا دانت کو الگ کرکے دھویا جاسکتا ہو، تو پھر صرف اس کے ظاہری حصہ کو دھونا کافی نہیں ہوگا؛ بلکہ ہر جانب پانی پہنچانا لازم ہوگا اور اگر آسانی سے پانی وہاں تک نہ پہنچ پاتا ہو، تو اس کو نکال کر دھونا ضروری ہوگا۔
ولو کان سنہ مجوفا فبقي فیہ أو في أسنانہ طعام أو درن رطب في أنفہ ثم غسلہ علی الأصح کذا في الزاہدي۔(۱)

(۱)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الثاني: في الغسل، الفصل الأول في فرائضہ‘‘ج۱، ص:۶۴
ولو کان سنہ مجوفا أو بین أسنانہ طعام أو دون رطب یجزئہ لأن الماء لطیف یصل إلی کل موضع غالبا (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’فصل في الغسل‘‘ ج ۱، ص:۶۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص317

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:پرانی ساڑھیاں اور دیگر پرانے کپڑے جو بازار میں بکتے ہیں، وہ دھلے ہوئے ہوتے ہیں؛ اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ناپاک ہیں (۱)؛ لہٰذا ایسی صورت میں اگر نئے کپڑے میں لگا کر سلا ہے، تو اس نئے کپڑے کو دھونے کی ضرورت نہیں ہے اس میں نماز جائز اور درست ہوگی۔ فقہ کا اصول ہے ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا ہے(۲)،البتہ اگر آپ کو یقین ہے کہ وہ ناپاک ہے اور دھویا نہیں گیا ہے، تو ایسے کپڑے کو دھو کر لگایا جائے اگر بغیر دھلے لگا دیا، تو لگانے کے بعد سارے کپڑے کو دھولیا جائے؛ اگر نہ دھویا گیا، تو اس کپڑے میں نمازنہیں ہوگی اور جو نماز پڑھی ہے، اس کا اعادہ ضروری ہوگا۔(۳)

(۱)في التاتارخانیۃ: من شک في إنائہ أو ثوبہ أو بدنہ أصابتہ نجاسۃ أولا، فھو طاھر مالم یستیقن،… و کذا ما یتخذہ أھل الشرک أو الجھلۃ من المسلمین کالسمن والخبز والأطعمۃ والثیاب، (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ،قبیل مطلب في أبحاث الغسل، ج۱، ص:۲۸۳، ۲۸۴)
مفتیٔ اعظم مفتی کفایت اللہ فرماتے ہیں: ’’ہندو جن کے ہاتھ میں ہندوستان کی اکثری تجارت کی باگ ہے، بہت سی ناپاک چیزوں کو پاک اور پَوِتْر سمجھتے ہیں، گائے کا گوبر اور پیشاب ان کے نزدیک نہ صرف پاک؛ بلکہ متبرک بھی ہے، باوجود اس کے، ان کے ہاتھ کی بنی مٹھائیاں اور بہت سی خوردنی چیزیں عام طور پر مسلمان استعمال کرتے ہیں اور استعمال کرنا شرعاً جائز بھی ہے؛ یہ کیوں؟ صرف اس لیے کہ چوںکہ ہندو دوکاندار جانتے ہیں کہ ہمارے خریدار، ہندوو مسلمان اور دیگر اقوام کے لوگ ہیں اور ہندوئوں کے علاوہ دوسرے لوگ گائے کے گوبر اور پیشاب کو ناپاک سمجھتے ہیں، اس لیے وہ تجارتی اشیاء کو ایسی چیزوں سے علیحدہ اور صاف رکھتے ہیں، تاکہ خریداروں کو ان سے خریدنے میں تامل نہ ہو اور خریداروں کے مذہبی جذبات ان کی تجارتی اغراض کی مزاحمت نہ کریں۔‘‘ (کفایت المفتی،ج ۳، ص:۴۳۰)
(۲) ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘ (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، القاعدۃ الثالثۃ:ص: ۱۸۳)
(۳)ھي (شروط الصلاۃ) طھارۃ بدنہ من حدث و خبث و ثوبہ و مکانہ من الثاني أي الخبث، لقولہ تعالیٰ: و ثیابک فطھر، (ابن عابدین، الدر المختار مع ردّ المحتار،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص:۷۳-۷۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص413

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:کنواں پاک ہے، تو اس سے وضو بھی درست ہے(۱) اور ناپاک ہے تو اس پانی کو کھانے میں استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔(۲)

(۱)عن راشد بن سعد عن أبي أمامۃ قال: قال رسول اللّہ ﷺ:إن الماء لا ینجسہ شيء إلا ما غلب علی ریحہ و طعمہ و لونہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، تحقیق: محمد فواد عبدالباقی: باب الحیض،ج۱، ص:۱۷۴، رقم الحدیث ۵۲۱)
(۲)و بتغیر أحد أوصافہ من لون أو طعم أو ریح ینجس الکثیر ولو جاریاً إجماعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب: حکم سائر المائعات، ج۱، ص:۳۳۱)؛ و أما إذا بقی علی رقتہ و سیلانہ فإنہ لا یضر أي لا یمنع جواز الوضوء بہ، تغیر أوصافہ کلھا بجامد خالطہ بدون طبخ کزعفران و فاکھۃ و ورق شجر الخ (احمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،  باب المیاہ علی خمسۃ أقسام من حیث طہارتہا، ج۱، ص:۲۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص461

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس مسئلہ میں تقریبا حضرات اہل علم کا اتفاق ہے کہ موبائل میں قرآن کریم کی تلاوت جائز ہے؛ البتہ یہاں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ جس وقت موبائل میں قرآن کی تلاوت کی جائے اور قرآن کریم کے نقوش موبائل کی اسکرین پر نمایاں ہوں، جسے دیکھ کر قاری پڑھ رہا ہے، تو اس وقت موبائل کو بلا وضو ہاتھ لگانا درست ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں حضرات اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ جس وقت موبائل کی اسکرین پر قرآن کے نقوش ظاہر ہوں، تو وہ مصحف کے حکم میں ہے اور پورے قرآن کو بلا وضو چھونا درست نہیں ہے {لاَ یَمَسُّہُ اِلاَّ الْمُطَہَّرُوْنَ} دوسری رائے یہ ہے کہ صرف اسکرین کو چھونا درست نہیں ہے، باقی موبائل کے دوسرے حصے کو چھونا درست ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ جس وقت موبائل کی اسکرین پر قرآن  کے نقوش ہوں، تو وہ قرآن کے حکم میں نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو موبائل کے دوسرے پارٹس غلاف منفصل کے حکم میں ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ اس اسکرین کو بھی بلا وضو ہاتھ لگانا جائز ہے اور دیگر حصے کو بھی۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک کاغذ پر قرآن لکھ کر اس کو فریم کردیا ہو، وہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین پر جوآیات نظر آتی ہیں، وہ سافٹ ویر ہیں، یعنی ایسے نقوش ہیں، جن کو چھوا نہیں جا سکتاہے، نیز ماہرین کے مطابق یہ نقوش بھی کمپیوٹر یا موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے؛ بلکہ فریم پر بنتے ہیں اور شیشے پر نظر آتے ہیں؛ لہٰذا اسے مصحف قرآنی کے غلاف منفصل پرقیاس کیا جاسکتاہے، یعنی: ایسا غلاف جو قرآن کریم کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو؛ بلکہ اس سے جدا ہو۔ فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق اس کو چھونا درست ہے۔
تینوں نقطہائے نظر دلائل پر مبنی ہیں اور اپنی جگہ درست معلوم ہوتے ہیں؛ لیکن یہاں ضروری ہے کہ قرآن کریم کے آداب کو ملحوظ رکھاجائے۔ سماج اور معاشرے میں جو لوگ موبائل میں قرآن پڑھتے ہیں؛ وہ قرآن سمجھ کر ہی پڑھتے ہیں؛ اگر چہ اس پر قرآن کی حقیقت صادق نہ آئے؛ اس لیے یہ تیسری رائے اگر چہ دلائل کے اعتبار سے قوی ہے؛ لیکن فتوی اور عمل کے لیے مناسب نہیں ہے؛ اسی لیے زیادہ تر حضرات اہل علم نے پہلی اوردوسری رائے اختیار کی ہے۔
فقہاء کے یہاں اصول یہ ہے کہ غیر مصحف میں صرف نقوش کو بلا وضو چھونا درست نہیں ہے باقی حصے کو چھونا درست ہے۔ اس اصول کی روشنی میں موبائل پر نمایاں نقوش کو بلا وضو چھونا درست نہ ہوگا؛ باقی دیگر حصے کو چھونا درست ہوگا ۔ علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں:
’’یحرم بہ أي بالأکبر و بالأصغر مس مصحف أي ما فیہ آیۃ -إلا بغلاف متجاف غیر مشرز -وقال إبن عابدین :لکن لا یحرم في غیر المصحف إلا بالمکتوب أي موضع الکتابۃ‘‘(۱)
البتہ احتیاط اس میں ہے کہ اسکرین پر آیات کے نمایاں ہونے کی صورت میں پورے موبائل کو مصحف کے حکم میں رکھ کربلا وضو چھونے کی اجازت نہ دی جائے ،اس میں قرآن کریم کا ادب بھی ملحوظ رہے گا۔ علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں :
’’ومسہ أي القرآن و لو في لوح أو درہم أو حائط لکن لا یمنع إلامن مس المکتوب بخلاف المصحف فلا یجوز مس الجلد و موضع البیاض منہ‘‘۔(۱)
علامہ ابن نجیم مصری تحریر فرماتے ہیں :
’’وتعبیر المصنف بمس القرآن أولی من تعبیر غیرہ بمس المصحف لشمول کلامہ ما إذا مس لوحا مکتوبا علیہ آیۃ و کذا الدرہم والحائط ۔۔۔۔۔لکن لا یجوز مس المصحف کلہ المکتوب و غیرہ بخلاف غیرہ فإنہ لا یمنع إلا مس المکتوب‘‘(۲)
 

(۱) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء،‘‘ ج۱، ص: ۳۱۵ (زکریا بک ڈپو دیوبند)۔
(۱)ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب : لو أفتی مفت بشيء من۔۔۔‘‘ ج ۱، ص: ۴۸۸
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘، ج۱، ص:۳۹۴(دارالکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص129

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دونوں کی شرمگاہیں شہوت کی حالت میں آپس میں مل جانے کی وجہ سے وضو ٹوٹ گیا، اب دونوں از سرنو وضو کرکے نماز ادا کریں، جیسا کہ درمختار میں مذکور ہے: و مباشرۃ فاحشۃ بتماس الفرجین و لو بین المرأتین والرجلین مع الانتشار للجانین المباشر و المباشر، و لو بلا بلل علی المعتمد(۱) ۔
ومباشرۃ فاحشۃ ۔۔۔ وہي أن یباشر امرأتہ مجردین وانتشر آلتہ وأصاب فرجہ فرجہا ولم یربللا۔ إشارۃ إلی انتقاض الوضوء من أي جانب کان سواء بین الرجل والمرأۃ أو بین الرجلین الخ۔(۲) ومباشرۃ فاحشۃ یعني أن من النواقض الحکمیۃ المباشرۃ الفاحشۃ وہي أن یباشر امرأتہ متجردین ولا في فرجہا مع انتشار الآلۃ ولم یربللا الخ۔  (۳)

(۱)ابن عابد ین، رد المحتار علی الدر المختار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘ج۱؍ ص:۲۷۷
(۲)عبد الرحمن بن محمد المعروف بشیخ زادہ، مجمع  الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۳۴   (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۳)زین الدین ابن نجیم الحنفي، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص: ۸۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص230