طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو کے دوران ناک میں پانی ڈالنے کے لیے استنشاق کا لفظ آتا ہے، استنشاق کے معنی آتے ہیں: سانس کے ذریعہ ناک میں پانی چڑھانا، ’’إدخال الماء في الأنف بنفس‘‘(۱)

(۱) بدرالدین العینی، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، باب غسل الوجہ بالیدین من غرفۃ، ج۲، ص:۳۷۳، الاستنشاق ھو إدخال الماء في أنفہ بأن جذبہ بریح أنفہ۔ کذا في الحاشیۃ۔ (أخرجہ  النسائي، في سننہ، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء ثلثا ثلثا، إیجاد الاستنشاق، ج۱، ص:۱۲، رقم:۱۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص124

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال آپ پر غسل واجب نہیں، ایسی صورت میں وضو کرلینا کافی ہے۔ وسوسہ کو جگہ نہ دیں، آپ اطمینان والی صورت اپنائیں۔(۱)

(۱) و صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ أو استطلاق بطن أو انفلات ریح أو استحاضۃ إن استوعب عذرہ تمام وقت صلوۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتھا زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیا عن الحدث ولو حکما الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ج۱، ص:۵۰۴)؛  و صاحب عذر من بہ سلس بول… و حکمہ الوضوء لکل فرض ثم یصلي بہ فیہ فرضا و نفلا، فإذا خرج الوقت بطل أي ظھر حدثہ السابق الخ۔ (ایضاً، ص:۵۰۵)؛ و إن کان العذر من أحد السبیلین کالاستحاضۃ و سلس البول و خروج الریح یتوضأ لکل فرض و یصلي ما شاء من النوافل۔ (علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل بیان ما ینقض الوضوء‘‘ج۱، ص:۱۲۷مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص310

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو عضو خشک رہ گیا ہے، اس کو دھو لینا کافی ہے؛ لیکن عمداً ایسا نہ کیا جائے کہ ایک عضو کو دھونے کے بعد دوسرے عضو کو دھونے میں تاخیر ہو۔(۱)

(۱)والترتیب والولاء بکسر الواو۔ المراد جفاف العضو حقیقۃ أو مقدارہ و حینئذ فیتجہ ذکر المسح فلو مکث بین مسح الجبیرۃ أو الرأس و بین مابعدہ بمقدار ما یجف فیہ عضو مغسول کان تارکا للولاء۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب في تصریف قولھم معزیاً،ج۱،ص:۲۴۵، زکریا بک ڈپو دیوبند)، و إن غسل بعض أعضائہ و ترک البعض حتی جف ما قد غسل أجزأہ لأن الموالاۃ سنۃ عندنا۔ (ابوبکر محمد بن أحمد السرخسي، کتاب المبسوط، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء والغسل، ج۱، ص:۱۷۰، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص124

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال اس صورت میں اگر شرمگاہ سے پانی نکلا ہو، تو وضو واجب ہے اور اگر صرف محسوس ہوا اور کچھ بھی نکلا نہیں، تو وضو واجب نہیں، آپ کا وضو باقی ہے؛ البتہ وضو کرلینا بہتر ہے۔ منی نکلنے کی صورت میں ہی غسل واجب ہوتا ہے۔ اس لیے آپ پر غسل واجب نہیں ہے۔ وسوسہ کا شکار نہ ہوں۔(۱)

(۱) و أما رطوبۃ الفرج الخارج فطاھرۃ اتفاقاً، و في منھاج الإمام النووي: رطوبۃ الفرج لیست بنجسۃ في الأصح: و قال ابن حجر في شرحہ: وھي ماء البیض متردد بین المذي والعرق یخرج من باطن الفرج الذي لا یجب غسلہ الخ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس‘‘ج۱، ص:۵۱۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص311

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:کپڑے کا جو حصہ ناپاک ہوا ہے اسے پاک کرنا ضروری ہے اور جو پاک ہو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
یجوز رفع نجاسۃ حقیقیۃ عن محلّھا۔(۱)و إزالتھا إن کانت مرئیۃ بإزالۃ عینھا، و أثرھا إن کانت شیئا یزول أثرہ۔ (۲)

(۱)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس ، ج۱،ص:۵۰۹
(۲)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الأول، في تطہیر الأنجاس، منھا: الغسل، ج ۱، ص:۹۶

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2457

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی کسی ایک آیت کو بھی بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، تو کسی پارہ کو چھونا بھی جائز نہیں ہے؛ البتہ اگر کسی کتاب میں قرآن بھی لکھا ہو اور اس کے علاوہ دیگر باتیں بھی ہوں، وہ دیگر باتیں قرآن سے زائد ہوں، تو بغیر وضو چھونے کی گنجائش ہے اور اگر قرآن زیادہ ہو یا صرف قرآن ہی ہو، تو چھونا جائز نہیں۔ نورانی قاعدہ میں آیات قرآنی کم ہیں؛ اس لیے اس کو بلا وضو چھونے کی گنجائش ہے۔(۲)

(۲) و یعرف بہ أن القرآن إذا کتب في کتاب و رسالۃ مخلوطا بکلام آخر لا یشترط الطھارۃ لمسہ۔ (إعلاء السنن،  لا یمسہ القرآن إلا طاہر، ج۱، ص:۲۶۹)؛ و لکن لا یحرم في غیر المصحف إلا بالمکتوب أي موضع الکتابۃ کذا في باب الحیض (ابن عابدین، ردالمحتار،سنن الغسل، ج۱، ص:۱۷۳،زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص125

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بغل اور زیر ناف بال بطریق خشک یا بطریق پانی دور کرنے سے غسل لازم نہیں آتا؛ ہاں اگر بال اکھڑ جائیں، تو دھو لینا بہتر ہے۔(۱)

(۱)و ذکر الشیخ الإمام شمس الأئمۃ الحلوانيؒ: أن بنفس خروج الدبر ینتقض وضوء ہ کذا في الذخیرۃ المذي ینقض الوضوء و کذا الودي والمني إذا خرج من غیر شھوۃ بأن حمل شیئا فسبقہ المني أو سقط من مکان مرتفع یوجب الوضوء کذا في المحیط ۔۔۔ و إن خرجت من قبل المرأۃ والذکر ۔۔۔ لا ینقض کما في الصوم کذا في الظھیریۃ الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفصل الخامس، في نواقض الوضوء‘‘ج۱، ص:۶۱)؛ ولیس في المذي والودي غسل و فیھما الوضوء لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام: کل فحل یمذي و فیہ الوضوء الخ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات، فصل في الغسل‘‘ ج۱، ص:۳۳) زیر ناف بال صاف کرنا یہ موجباتِ غسل میں سے نہیں ہے، اسی لئے حضرات فقہاء نے زیر ناف بال صاف کرنے پر نہ تو غسل کو ضروری قرار دیا ہے اور نہ ہی مسنون اور مستحب قرار دیا ہے؛ بلکہ زیر ناف بال صاف کرنے کا تعلق نظافت سے ہے، طہارت سے اس کاکوئی تعلق نہیںہے۔  و سن لصلاۃ جمعۃ ولصلاۃ عید ولأجل إحرام و عرفۃ و ندب لمجنون أفاق و عند حجامۃ و في لیلۃ برأۃ الخ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ج ۱، ص:ـ۳۱۰) ؛ وعن أنس بن مالک  رضي اللّٰہ عنہ قال: وقت لنا رسول اللّٰہ ﷺ حلق العانۃ و تقلیم الأظفار و قص الشارب و نتف الإبط أربعین یوما مرۃ۔ (أخرجہ ابو داود، في سننہ، ’’باب في أخذ الشارب‘‘ج۱، ص:۳۱۸، رقم۴۲۰۰)؛والأفضل أن یقلم أظفارہ و یحفی شاربہ و یحلق عانتہ و ینظف بدنہ بالاغتسال في کل أسبوع مرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’الباب التاسع عشر: في الختان‘‘ج ۵، ص:۴۱۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص312

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2744/45-4279

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انزال کا مطلب ہے کہ منی کا نکلنا ۔اگر منی کا نکلنا سونے کی حالت میں ہو تو اس کو احتلام کہاجاتاہے جس کو لوگ بدخوابی بھی کہتے ہیں۔ مرد و عورت کی شرمگاہ سے منی کا نکلنا غسل کو واجب کردیتاہے۔ لہذا انزال چاہے جاگنے میں ہوا ہو یا سونے میں ، بہرصورت ا س سے آدمی ناپاک ہوجاتاہے اور اس پر غسل فرض ہوجاتاہے۔  مردو عورت کی شرمگاہ سے منی  نکلنے سےغسل فرض ہوجاتاہے، اسی طرح اگر مرد کا عضو تناسل عورت کی شرمگاہ میں داخل ہوجائے تو اس سے بھی غسل فرض ہوجاتاہے، چاہے انزال ہو یا نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ شہوت کے ساتھ منی کے نکلنے، جماع کرنے، حیض ونفاس سے پاک ہوجانے، احتلام ہوجانے سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ غسل مستحب ہے۔

’’فرض الغسل عند خروج المني موصوف بالدفق و الشهوة عند الإنفصال عن محله‘‘. (البحر الرائق، كتاب الطهارة، [ المعاني الموجبة للغسل] ١/ ٥٥، ط: سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو ہو گیا، مگریہ عمل خلافِ سنت ہے، جو مناسب نہیں ہے۔(۱)

(۱)و غسل الفم أي استیعابہ … بمیاہ ثلاثۃ والأنف ببلوغ الماء المارن بمیاہ وھما سنتان مؤکدتان۔ قال الشامي: قولہ (وھما سنتان مؤکدتان) فلو ترکھما، أتم علی الصحیح۔ ( ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، مطلب : في منافع السواک، ج۱، ص:۲۳۶)؛ و یُسن في الوضوء ثمانیۃ عشر شیئاً … والمضمضۃ ثلاثاً ولو بغرفۃ، والاستنشاق بثلاث غرفات۔ (الشرنبلالی، نورالإیضاح، کتاب الطہارۃ، فصل: یسن في الوضوء، ص۳۲)(اتحاد بک ڈپو دیوبند)، و یتعلّق بترکھا (السنۃ المؤکدۃ) کراھۃ و إساء ۃ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، کتاب الطہارۃ، فصل في سنن الوضوء، ص:۶۴)(دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص126

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مشت زنی حصول شہوت کے لیے حرام ہے اور موجب عقوبت ہے۔ مراقی الفلاح میں ’’قولہ أي لا لجلبہا أي فیحرم، لما روي عنہ صلی اللہ علیہ وسلم ناکح الید ملعون، وقال ابن جریج سألت عنہ عن عطاء فقال مکروہ وسمعت قوماً یحشرون و أیدیہم حبالی فأظنہم ہؤلاء وقال سعید بن جبیر عذّب اللّٰہ أمۃً کانوا یعبثون بمذاکیرہم و ورد سبعۃ لا ینظر اللّٰہ إلیہم منہم الناکح یدہ‘‘(۱)
اس عمل پر شہوت کے ساتھ منی کا خروج ہوتا ہے؛ اس لیے غسل واجب ہے ’’یفترض الغسل بواحد من سبعۃ أشیاء أولہا خروج المني إلي ظاہر الجسد إذا انفصل عن مقرہ بشہوۃ من غیر جماع کاحتلام ولو بأول مرۃ لبلوغ في الأصح‘‘(۲)

(۱)الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، فصل فیما یوجب الاغتسال، ج ۱، ص:۹۶
(۲)عمار بن حسن، مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’فصل فیما یجب فیہ الاغتسال‘‘ج ۱، ص:۳۹-۴۰ (مکتبہ اسعدی سہارنپور
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص312