Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر برابر سفید پانی کی شکایت ہو، تو وہ وضو کرے اور نماز پڑھے۔ اور اگر سفید پانی کی شکایت نہیں تھی اور اچانک کسی دن سوکر اٹھی اور سفید پانی دیکھا، تو اس کو منی سمجھے اور غسل کرکے نماز پڑھے، اگرچہ کوئی بدخوابی نہ ہو۔(۲)
(۲) خلاصہ بحث یہ ہے کہ جو رطوبت بہتی ہے وہ خواہ کوئی ہو ناقص وضو ہے اور ناپاک ہے۔ (امداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا‘‘ ج۱، ص:۳۵۰)؛ و في الدر المختار أي برطوبۃ الفرج فیکون مفرعاً علی قولھما بنجاستھا۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۱۵) السلخۃ إذا خرجت من أمھا إلی قولہ: و عندھما یتنجس وھو الاحتیاط۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل السابع في معرفۃ النجاسات و أحکامھا‘‘ ج۱،ص۴۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص307
طہارت / وضو و غسل
کسی شخص کو حدث اکبر لاحق ہو، تواس پر غسل فرض ہوگا(۱) ایک حدیث میں ہے۔، ’’من توضأ یوم الجمعۃ فبھا ونعمت، ومن اغتسل فالغسل أفضل(۲) ‘‘ یعنی جس نے جمعہ کے دن وضو کیا اس نے ٹھیک کیا اور جس نے غسل کیا تو اس نے افضل کام کیا۔ رہا سوال میں مذکور حدیث کا جواب، تو اس کے متعلق اسی جگہ حاشیہ میں اس کی تفصیل درج ہے، وہ یہ ہے۔ ’’قال النووی: المراد بالوجوب وجوب اختیار، کقول الرجل لصاحبہ: حقک واجب عليّ قالہ ملا علی القاري وقال محمد في موطأہ: أخبرنا محمد بن أبان بن صالح عن حماد عن ابراہیم النخعي قال أي حماد سالتہ عن الغسل یوم الجمعۃ، والغسل من الحجامۃ، والغسل في العیدین؟ قال إن اغتسلت فحسن، و إن ترکت فلیس علیک فقلت لہ ألم یقل رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم من راح إلی الجمعۃ فلیغتسل قال بلی ولکن؛ لیس من الأمور الواجبۃ و إنما ھو کقولہ تعالی: ’’و اشھدوا إذا تبایعتم‘‘ الآیۃ ویؤیدہ ما أخرج أبوداود عن عکرمۃ أن ناسا من أھل العراق جاووا فقالوا یا ابن عباس أتری الغسل یوم الجمعۃ واجبا؟ فقال لاولکنہ طھور وخیر لمن اغتسل ومن لم یغتسل فلیس علیہ بواجب الخ‘‘(۱)
(۱) و أربعۃ سنۃ، و ھما غسل یوم الجمعۃ و یوم العیدین الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثاني: في الغسل أما أنواع الغسل‘‘ ج۱، ص:۶۷) ؛ ( وسن) (للجمعۃ والعیدین) (الحصکفي، مجمع الأنہر، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۳۹)
(۲)أخرجہ الترمذي، في سننہ، ابواب الجمعۃ، باب في الوضو، یوم الجمعۃ‘‘ج۱، ص:۱۱۱،رقم:۴۹۷(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ، باب فضل الغسل یوم الجمعۃ الخ‘‘ج۱، ص:۱۲۱، ’’باب فضل الغسل یوم الجمعۃ و ھل علی الصبي شہود یوم الجمعۃ أو علی النساء‘‘ج۱، ص:۱۲۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص308
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پالش اتارکر صرف ہاتھ دھولینے سے غسل صحیح ہوجائے گا۔ دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی(۲) اور اگر پالش نہ اترے، تو وضو اور غسل صحیح نہیں ہوگا۔(۳)
(۲) إن صلبا منع وھو الأصح، صرح بہ في شرح المنیۃ و قال: لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ والحرج الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۹۔
(۳)منھا محل الفرض یجب غسلہ، و إلا فلا، کذا في فتح القدیر بل یندب غسلہ، …کذا في البحرالرائق في (فتاوی ما وراء النھر) إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرۃ، أو لزق بأصل ظفرہ طین یابس أو رطب لم یجز الخ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الثاني: غسل الیدین‘‘ج۱، ص:۴) ؛ و قال في شرحھا ولأن الماء ینفذہ لتخللہ و عدم لزوجتہ و صلابتہ، والمعتبر في جمیع ذلک: نفوذ الماء و وصولہ إلی البدن۔ الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج۱، ص:۵۴) ؛ وھو إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن إسالتہ علیہ من البدن من غیر حرج مرۃ واحدۃ، حتی لو بقیت لمعۃ لم یصبھا الماء لم یجز الغسل (ابن نجیم، البحر الرائق،’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:۴۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص309
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو کے دوران ناک میں پانی ڈالنے کے لیے استنشاق کا لفظ آتا ہے، استنشاق کے معنی آتے ہیں: سانس کے ذریعہ ناک میں پانی چڑھانا، ’’إدخال الماء في الأنف بنفس‘‘(۱)
(۱) بدرالدین العینی، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، باب غسل الوجہ بالیدین من غرفۃ، ج۲، ص:۳۷۳، الاستنشاق ھو إدخال الماء في أنفہ بأن جذبہ بریح أنفہ۔ کذا في الحاشیۃ۔ (أخرجہ النسائي، في سننہ، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء ثلثا ثلثا، إیجاد الاستنشاق، ج۱، ص:۱۲، رقم:۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص124
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال آپ پر غسل واجب نہیں، ایسی صورت میں وضو کرلینا کافی ہے۔ وسوسہ کو جگہ نہ دیں، آپ اطمینان والی صورت اپنائیں۔(۱)
(۱) و صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ أو استطلاق بطن أو انفلات ریح أو استحاضۃ إن استوعب عذرہ تمام وقت صلوۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتھا زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیا عن الحدث ولو حکما الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ج۱، ص:۵۰۴)؛ و صاحب عذر من بہ سلس بول… و حکمہ الوضوء لکل فرض ثم یصلي بہ فیہ فرضا و نفلا، فإذا خرج الوقت بطل أي ظھر حدثہ السابق الخ۔ (ایضاً، ص:۵۰۵)؛ و إن کان العذر من أحد السبیلین کالاستحاضۃ و سلس البول و خروج الریح یتوضأ لکل فرض و یصلي ما شاء من النوافل۔ (علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل بیان ما ینقض الوضوء‘‘ج۱، ص:۱۲۷مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص310
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو عضو خشک رہ گیا ہے، اس کو دھو لینا کافی ہے؛ لیکن عمداً ایسا نہ کیا جائے کہ ایک عضو کو دھونے کے بعد دوسرے عضو کو دھونے میں تاخیر ہو۔(۱)
(۱)والترتیب والولاء بکسر الواو۔ المراد جفاف العضو حقیقۃ أو مقدارہ و حینئذ فیتجہ ذکر المسح فلو مکث بین مسح الجبیرۃ أو الرأس و بین مابعدہ بمقدار ما یجف فیہ عضو مغسول کان تارکا للولاء۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب في تصریف قولھم معزیاً،ج۱،ص:۲۴۵، زکریا بک ڈپو دیوبند)، و إن غسل بعض أعضائہ و ترک البعض حتی جف ما قد غسل أجزأہ لأن الموالاۃ سنۃ عندنا۔ (ابوبکر محمد بن أحمد السرخسي، کتاب المبسوط، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء والغسل، ج۱، ص:۱۷۰، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص124
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال اس صورت میں اگر شرمگاہ سے پانی نکلا ہو، تو وضو واجب ہے اور اگر صرف محسوس ہوا اور کچھ بھی نکلا نہیں، تو وضو واجب نہیں، آپ کا وضو باقی ہے؛ البتہ وضو کرلینا بہتر ہے۔ منی نکلنے کی صورت میں ہی غسل واجب ہوتا ہے۔ اس لیے آپ پر غسل واجب نہیں ہے۔ وسوسہ کا شکار نہ ہوں۔(۱)
(۱) و أما رطوبۃ الفرج الخارج فطاھرۃ اتفاقاً، و في منھاج الإمام النووي: رطوبۃ الفرج لیست بنجسۃ في الأصح: و قال ابن حجر في شرحہ: وھي ماء البیض متردد بین المذي والعرق یخرج من باطن الفرج الذي لا یجب غسلہ الخ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس‘‘ج۱، ص:۵۱۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص311
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:کپڑے کا جو حصہ ناپاک ہوا ہے اسے پاک کرنا ضروری ہے اور جو پاک ہو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
یجوز رفع نجاسۃ حقیقیۃ عن محلّھا۔(۱)و إزالتھا إن کانت مرئیۃ بإزالۃ عینھا، و أثرھا إن کانت شیئا یزول أثرہ۔ (۲)
(۱)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس ، ج۱،ص:۵۰۹
(۲)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الأول، في تطہیر الأنجاس، منھا: الغسل، ج ۱، ص:۹۶
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2457
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی کسی ایک آیت کو بھی بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، تو کسی پارہ کو چھونا بھی جائز نہیں ہے؛ البتہ اگر کسی کتاب میں قرآن بھی لکھا ہو اور اس کے علاوہ دیگر باتیں بھی ہوں، وہ دیگر باتیں قرآن سے زائد ہوں، تو بغیر وضو چھونے کی گنجائش ہے اور اگر قرآن زیادہ ہو یا صرف قرآن ہی ہو، تو چھونا جائز نہیں۔ نورانی قاعدہ میں آیات قرآنی کم ہیں؛ اس لیے اس کو بلا وضو چھونے کی گنجائش ہے۔(۲)
(۲) و یعرف بہ أن القرآن إذا کتب في کتاب و رسالۃ مخلوطا بکلام آخر لا یشترط الطھارۃ لمسہ۔ (إعلاء السنن، لا یمسہ القرآن إلا طاہر، ج۱، ص:۲۶۹)؛ و لکن لا یحرم في غیر المصحف إلا بالمکتوب أي موضع الکتابۃ کذا في باب الحیض (ابن عابدین، ردالمحتار،سنن الغسل، ج۱، ص:۱۷۳،زکریا بک ڈپو دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص125
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بغل اور زیر ناف بال بطریق خشک یا بطریق پانی دور کرنے سے غسل لازم نہیں آتا؛ ہاں اگر بال اکھڑ جائیں، تو دھو لینا بہتر ہے۔(۱)
(۱)و ذکر الشیخ الإمام شمس الأئمۃ الحلوانيؒ: أن بنفس خروج الدبر ینتقض وضوء ہ کذا في الذخیرۃ المذي ینقض الوضوء و کذا الودي والمني إذا خرج من غیر شھوۃ بأن حمل شیئا فسبقہ المني أو سقط من مکان مرتفع یوجب الوضوء کذا في المحیط ۔۔۔ و إن خرجت من قبل المرأۃ والذکر ۔۔۔ لا ینقض کما في الصوم کذا في الظھیریۃ الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفصل الخامس، في نواقض الوضوء‘‘ج۱، ص:۶۱)؛ ولیس في المذي والودي غسل و فیھما الوضوء لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام: کل فحل یمذي و فیہ الوضوء الخ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات، فصل في الغسل‘‘ ج۱، ص:۳۳) زیر ناف بال صاف کرنا یہ موجباتِ غسل میں سے نہیں ہے، اسی لئے حضرات فقہاء نے زیر ناف بال صاف کرنے پر نہ تو غسل کو ضروری قرار دیا ہے اور نہ ہی مسنون اور مستحب قرار دیا ہے؛ بلکہ زیر ناف بال صاف کرنے کا تعلق نظافت سے ہے، طہارت سے اس کاکوئی تعلق نہیںہے۔ و سن لصلاۃ جمعۃ ولصلاۃ عید ولأجل إحرام و عرفۃ و ندب لمجنون أفاق و عند حجامۃ و في لیلۃ برأۃ الخ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ج ۱، ص:ـ۳۱۰) ؛ وعن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: وقت لنا رسول اللّٰہ ﷺ حلق العانۃ و تقلیم الأظفار و قص الشارب و نتف الإبط أربعین یوما مرۃ۔ (أخرجہ ابو داود، في سننہ، ’’باب في أخذ الشارب‘‘ج۱، ص:۳۱۸، رقم۴۲۰۰)؛والأفضل أن یقلم أظفارہ و یحفی شاربہ و یحلق عانتہ و ینظف بدنہ بالاغتسال في کل أسبوع مرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’الباب التاسع عشر: في الختان‘‘ج ۵، ص:۴۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص312