Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کپڑا اتنا باریک ہے کہ وہ جماع کی لذت سے مانع نہیں ہے، تو غسل واجب ہے اور اگر کپڑا موٹا ہو جو جماع کی لذت سے مانع ہو اور منی نہ نکلے، تو غسل واجب نہیں ہے؛ لیکن احتیاطاً غسل کرنا بہتر ہے اور اگر منی نکل جائے تو بہرصورت غسل واجب ہوگا۔(۲)
(۲) أولج حشفتہ أو قدرھا ملفوفۃ بخرقۃ، إن وجد لذۃ الجماع وجب الغسل، و إلا لا علی الأصح، والأحوط الوجوب (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱، ص:۳۰۳) ؛ وقولہ: إلا لا أي مالم ینزل۔ (ایضاً) ولو لفّ علی ذکرہ خرقۃ، …و أولج ولم ینزل، قال بعضھم یجب الغسل، و قال بعضھم: لا یجب، والأصح: إن کانت الخرقۃ رقیقۃ بحیث یجد حرارۃ الفرج واللذۃ، وجب الغسل، و إلا فلا، والأحوط وجوب الغسل في الوجھین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثاني: في الغسل، الفصل الثالث: فی المعانی الموجبۃ للغسل، السبب الثاني: الإیلاج‘‘ج۱، ص:۶۷) ؛ و عشرۃ أشیاء لا یغتسل منھا … و إیلاج بخرقۃ مانعۃ من وجود اللذۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’فصل عشرۃ أشیاء لا یغتسل منھا‘‘ج۱،ص:۳۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص302
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل کے شروع میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت ہے ’’بسم اللہ‘‘ پڑھنی چاہیے۔(۱) کپڑا اتارنے اور غسل خانہ میں داخل ہونے سے پہلے نجاست دور کرنے کے بعد، ورنہ صرف دل میں پڑھے اور زبان کو حرکت نہ دے، اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت کی خاطر۔(۲)
(۱) و سننہ کسنن الوضوء سوی الترتیب، و آدابہ کآدابہ قولہ: کسنن الوضوء أي من البدائۃ بالنیۃ والتسمیۃ والسواک الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: سنن الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۹۱) ؛ و في رد المحتار و قیل الأفضل بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم بعد التعوذ۔(ابن عابدین، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب ’’سائر‘‘ بمعنی ’’باقي‘‘ لا بمعنی ’’جمیع‘‘‘‘ ج۱، ص:۲۲۷،؛ وابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، سنن الوضوء‘‘ ج۱،ص:۱۸مکتبۃ زکریا دیوبند)
(۲ ) إلاحال انکشاف الخ۔ الظاھر أن المراد أنہ یسمی قبل رفع ثیابہ، إن کان في غیر المکان المعد لقضاء الحاجۃ۔ و إلا فقبل دخولہ۔ فلو نسي فیھا سمی بغلبہ، ولا یحرک لسانہ تعظیما لاسم اللّٰہ تعالیٰ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار’’کتاب الطہارۃ، مطلب ’’سائر‘‘ بمعنی ’’باقي‘‘ لا بمعنی ’’جمیع‘‘‘‘ ج۱، ص:۲۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص303
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق : مذکورہ افعال اس حالت میں مکروہ تنزیہی ہیں (۱) فتاویٰ عالمگیری میں ہے ’’حلق الشعر حالۃ الجنابۃ مکروہ وکذا قص الأظافیر‘‘
(۱)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر: في الختان والخضاء، و قلم الأظفار، و قص الشارب الخ‘‘ ج۵،ص:۴۱۴
حضرت مفتی عزیز الرحمن دیوبندیؒ تحریر فرماتے ہیں: بال کترے اور مونڈنے اور ناخن کترنے کو بحالت جنابت بعض فقہاء نے مکروہ لکھا ہے۔ بظاہر مراد مکروہ سے مکروہ تنزیہی ہے۔ جن کا مآل خلاف اولیٰ ہے۔ ما أعلم علی کراھیۃ إزالۃ شعر الجنب و ظفرہ دلیلا شرعیاً (اشرف علی تھانوی، حاشیہ امداد الفتاویٰ، ج۱،ص:۲۵۵)؛ و یکرہ بالأسنان لأنہ یورث البرص والجنون و في حالۃ الجنابۃ و کذا إزالۃ الشعر۔(طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ‘‘ ج۱،ص:۵۲۵، دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص304
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جائز اور درست ہے، ذکراللہ، تسبیح اور درود شریف کے لیے وضو کی ضرورت نہیں؛ البتہ حالت جنابت میں احتیاط یہ ہے کہ جلد غسل کرلے اور پاکی کی حالت میں ذکر کرے۔(۲)
(۲)ولابأس لحائض و جنب بقراء ۃ أدعیۃ و مسھا و حملھا، و ذکر اللّٰہ تعالی و تسبیح۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال‘‘ ج۱، ص:۴۸۲) ولا یکرہ لہ قراء ۃ دعاء القنوت في ظاھر مذہب أصحابنا رحمھم اللہ تعالیٰ: لأنہ لیس بقرآن، … و في الکبری وعلیہ الفتویٰ ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثالث في الغسل بما یتصل بھذا الفصل بیان أحکام الجنابۃ‘‘ج۱،ص:۲۹۱) ؛ وإلا أن لا یقصد بما دون الآیۃ القراء ۃ، مثل أن یقول: الحمد للّٰہ یرید الشکر، أو بسم اللّٰہ عند الأکل وغیرہ فإنہ لا بأس بہ۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس فی الدعاء، المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع: في أحکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، و منھا حرمۃ قراء ۃ القرآن‘‘ج۱،ص:۹۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص304
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بہشتی زیورمیں لکھاہوا مسئلہ درست ہے، اور اس صورت مذکورہ میں آپ پر غسل واجب نہیں ہے۔(۱)
(۱)السخلۃ إذا أخرجت من أمھا فتلک الرطوبات طاھرۃ لا ینجس بھا الثوب والماء۔ کذا البیضۃ۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل السابع في النجاسۃ و أحکامھا، النوع الثاني من ھنا الفصل في مقدار النجاسۃ‘‘ ج۱،ص:۴۴۳) ؛ و فلو خرج بقیۃ المني بعد البول أو النوم أو المشي لا یجب الغسل إجماعاً۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۱۰۳، دارالکتاب دیوبند) ؛ و کذا لو خرج منہ بقیۃ المي بعد الغسل قبل النوم أو البول أو المشي الکثیر۔ نہر: أي لا بعدہء۔ لأن النوم والبول والشي یقطع مادۃ الزائل عن مکانہ بشھوۃ فیکون الثاني زائلاً عن مکانہ بلا شھوۃ فلا یجب الغسل اتفاقاً۔ (ابن عابدین، رد المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱، ص:۲۹۷، کذا في إمداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:۴۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص305
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1993/44-1940
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بچی کو بتادیاجائے کہ جب تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو اس وقت تک وضو نہ کرے، اگر اس طرح شک و شبہہ میں وضو کرتی رہے گی تو اس کا وہم بڑھتاجائے اور بعد میں اور مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ نیز ' لاحول ولا قوۃ الا باللہ' کثرت سے پڑھتی رہے اور 'یا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دینک' بھی پڑھتے رہنا مفید ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں وضو کرلینا کافی ہے۔ جب تک احتلام کا یقین نہ ہوجائے آپ پر غسل واجب نہیں۔ صرف وضو کریں اور نماز پڑھیں، وسوسوں کو جگہ نہ دیں۔ بہتر ہوگا کہ اس بیماری کے علاج کے لیے آپ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔(۱)
(۱) في الدر المختار أي برطوبۃ الفرج فیکون مفرعاً علی قولھما بنجاستھا(ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس‘‘ ج۱،ص:۵۱۵) ؛ خلاصۂ بحث : یہ کہ جو رطوبت بہتی ہے وہ خواہ کوئی ہو ناقض وضو ہے اور ناپاک ہے۔ (اشرف علی تھانوی، إمداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا‘‘ج۱،ص:۳۵۰) ؛ ومن أیقن بالطہارۃ و شک في الحدث فھو علی طہارۃ۔ ومن أیقن الحدث و شک في الطھارۃ فھو علی الحدث۔ (سراج الدین أبو محمد، الفتاوی السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب ینقض الوضوء‘‘ج۱، ص:۳۶، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص306
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2281/44-3436
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مرغی کے ذبح کے وقت نکلنے والا خون گوشت پر نہیں لگاہوا تھا اور کوئی نجاست بھی نہیں لگی تھی تو اس کا گوشت پاک ہے، اس کو بغیر دھوئے پکانا بھی جائز ہے۔ اور اگر خون لگاہوا تھا اور اسی حالت میں پکادیا تو سب ناپاک ہوگیا، اب وہ سالن یا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا۔
”وقولہ تعالی( أو دما مسفوحا )یدل علی أن المحرم من الدم ما کان مسفوحا (احکام القرآن،مطلب فی لحوم الابل الجلالة،ج3،ص 33،مطبوعہ کراچی) ومالزق من الدم السائل باللحم فھونجس (فتاوی عالمگیری،الفصل الثانی ،ج01،ص46،مطبوعہ کوئٹہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں غسل واجب نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: إذا وجد أحدکم في بطنہ شیئا فأشکل علیہ أخرج منہ شيء أم لا؟ فلا یخرجن من المسجد حتی یسمع صوتا أو یجد ریحا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الدلیل علی أن من تیقن الطہارۃ ثم شک في الحدث علۃ أن یصلی بطھارتھا‘‘ج۱،ص:۱۵۸، مکتبہ نعیمیہ دیوبند) ؛ ولا یمنع الطہارۃ و نیم و حناء و درن ووسخ۔ (ابن عابدین، رد المختار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۸)؛ و شرط السیلان لانتقاض الوضوء في الخارج من السبیلین۔ و ھذا مذھب علمائنا الثلاثۃ رحمھم اللّٰہ تعالی و إنہ استحسان۔ ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل ما یوجب الوضوء‘‘ ج۱،ص:۲۴۲، مکتبۃ زکریا دیوبند)…
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص307
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2658/45-4045
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رگوں میں لگائے جانے والے انجکشن کے ذریعہ خون نکالنے سےوضو ٹوٹ جاتاہے، اور گوشت میں لگنے والے انجکشن سے اگر خون باہر آجائے تو وضو ٹوٹتاہے ورنہ نہیں۔ اور جس جگہ انجکشن لگایا گیا اس جگہ کا دھونا ضروری نہیں ہے، اس لئے کہ نجاست پھیلی نہیں تھی۔
لو مص العلق أو القراد الكبير وامتلأ دما فإنه ناقض كما سيأتي متنا فالأحسن ما في النهر عن بعض المتأخرين من أن المراد السيلان ولو بالقوة: أي فإن دم الفصد ونحوه سائل إلى ما يلحقه حكم التطهير حكما، تأمل. )رد المحتار: (134/1، ط: دار الفکر(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند