طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جائز اور درست ہے، ذکراللہ، تسبیح اور درود شریف کے لیے وضو کی ضرورت نہیں؛ البتہ حالت جنابت میں احتیاط یہ ہے کہ جلد غسل کرلے اور پاکی کی حالت میں ذکر کرے۔(۲)

(۲)ولابأس لحائض و جنب بقراء ۃ أدعیۃ و مسھا و حملھا، و ذکر اللّٰہ تعالی و تسبیح۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال‘‘ ج۱، ص:۴۸۲) ولا یکرہ لہ قراء ۃ دعاء القنوت في ظاھر مذہب أصحابنا رحمھم اللہ تعالیٰ: لأنہ لیس بقرآن، … و في الکبری وعلیہ الفتویٰ ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثالث في الغسل بما یتصل بھذا الفصل بیان أحکام الجنابۃ‘‘ج۱،ص:۲۹۱) ؛ وإلا أن لا یقصد بما دون الآیۃ القراء ۃ، مثل أن یقول: الحمد للّٰہ یرید الشکر، أو بسم اللّٰہ عند الأکل وغیرہ فإنہ لا بأس بہ۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس فی الدعاء، المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع: في أحکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، و منھا حرمۃ قراء ۃ القرآن‘‘ج۱،ص:۹۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص304

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بہشتی زیورمیں لکھاہوا مسئلہ درست ہے، اور اس صورت مذکورہ میں آپ پر غسل واجب نہیں ہے۔(۱)

(۱)السخلۃ إذا أخرجت من أمھا فتلک الرطوبات طاھرۃ لا ینجس بھا الثوب والماء۔ کذا البیضۃ۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل السابع في النجاسۃ و أحکامھا، النوع الثاني من ھنا الفصل في مقدار النجاسۃ‘‘ ج۱،ص:۴۴۳) ؛ و فلو خرج بقیۃ المني بعد البول أو النوم أو المشي لا یجب الغسل إجماعاً۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۱۰۳، دارالکتاب دیوبند) ؛ و کذا لو خرج منہ بقیۃ المي بعد الغسل قبل النوم أو البول أو المشي الکثیر۔ نہر: أي لا بعدہء۔ لأن النوم والبول والشي یقطع مادۃ الزائل عن مکانہ بشھوۃ فیکون الثاني زائلاً عن مکانہ بلا شھوۃ فلا یجب الغسل اتفاقاً۔ (ابن عابدین، رد المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱، ص:۲۹۷، کذا في إمداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:۴۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص305

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1993/44-1940

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بچی کو بتادیاجائے کہ جب تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو اس وقت تک وضو نہ کرے، اگر اس طرح شک و شبہہ میں وضو کرتی رہے گی تو اس کا وہم بڑھتاجائے اور بعد میں اور مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔  نیز ' لاحول ولا قوۃ الا باللہ' کثرت سے پڑھتی رہے اور  'یا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دینک' بھی پڑھتے رہنا مفید ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں وضو کرلینا کافی ہے۔ جب تک احتلام کا یقین نہ ہوجائے آپ پر غسل واجب نہیں۔ صرف وضو کریں اور نماز پڑھیں، وسوسوں کو جگہ نہ دیں۔ بہتر ہوگا کہ اس بیماری  کے علاج کے لیے آپ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔(۱)

(۱) في الدر المختار أي برطوبۃ الفرج فیکون مفرعاً علی قولھما بنجاستھا(ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس‘‘ ج۱،ص:۵۱۵) ؛ خلاصۂ بحث : یہ کہ جو رطوبت بہتی ہے وہ خواہ کوئی ہو ناقض وضو ہے اور ناپاک ہے۔ (اشرف علی تھانوی، إمداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا‘‘ج۱،ص:۳۵۰) ؛ ومن أیقن بالطہارۃ و شک في الحدث فھو علی طہارۃ۔ ومن أیقن الحدث و شک في الطھارۃ فھو علی الحدث۔ (سراج الدین أبو محمد، الفتاوی السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب ینقض الوضوء‘‘ج۱، ص:۳۶، مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص306

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2281/44-3436

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر مرغی  کے ذبح کے وقت نکلنے والا خون  گوشت پر  نہیں لگاہوا تھا  اور کوئی نجاست بھی نہیں لگی تھی تو اس کا گوشت پاک ہے، اس کو بغیر دھوئے پکانا بھی جائز ہے۔  اور اگر خون لگاہوا تھا اور اسی حالت میں پکادیا تو سب ناپاک ہوگیا، اب وہ سالن یا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا۔

وقولہ تعالی( أو دما مسفوحا )یدل علی أن  المحرم  من  الدم ما کان مسفوحا (احکام القرآن،مطلب فی لحوم الابل الجلالة،ج3،ص 33،مطبوعہ کراچی) ومالزق من الدم السائل باللحم فھونجس (فتاوی عالمگیری،الفصل الثانی ،ج01،ص46،مطبوعہ کوئٹہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں غسل واجب نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: إذا وجد أحدکم في بطنہ شیئا فأشکل علیہ أخرج منہ شيء أم لا؟ فلا یخرجن من المسجد حتی یسمع صوتا أو یجد ریحا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الدلیل علی أن من تیقن الطہارۃ ثم شک في الحدث علۃ أن یصلی بطھارتھا‘‘ج۱،ص:۱۵۸، مکتبہ نعیمیہ دیوبند) ؛ ولا یمنع الطہارۃ و نیم و حناء و درن ووسخ۔ (ابن عابدین، رد المختار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۸)؛ و شرط السیلان لانتقاض الوضوء في الخارج من السبیلین۔ و ھذا مذھب علمائنا الثلاثۃ رحمھم اللّٰہ تعالی و إنہ استحسان۔ ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل ما یوجب الوضوء‘‘ ج۱،ص:۲۴۲، مکتبۃ زکریا دیوبند)…
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص307

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2658/45-4045

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  رگوں میں لگائے جانے والے انجکشن کے ذریعہ خون نکالنے سےوضو ٹوٹ جاتاہے، اور گوشت میں لگنے والے انجکشن سے اگر خون باہر آجائے تو وضو ٹوٹتاہے ورنہ نہیں۔ اور جس جگہ انجکشن لگایا گیا اس جگہ کا دھونا ضروری نہیں ہے، اس لئے کہ نجاست پھیلی نہیں تھی۔

لو مص العلق أو القراد الكبير وامتلأ دما فإنه ناقض كما سيأتي متنا فالأحسن ما في النهر عن بعض المتأخرين من أن المراد السيلان ولو بالقوة: أي فإن دم الفصد ونحوه سائل إلى ما يلحقه حكم التطهير حكما، تأمل. )رد المحتار: (134/1، ط: دار الفکر(
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر برابر سفید پانی کی شکایت ہو، تو وہ وضو کرے اور نماز پڑھے۔ اور اگر سفید پانی کی شکایت نہیں تھی اور اچانک کسی دن سوکر اٹھی اور سفید پانی دیکھا، تو اس کو منی سمجھے اور غسل کرکے نماز پڑھے، اگرچہ کوئی بدخوابی نہ ہو۔(۲)

(۲) خلاصہ بحث یہ ہے کہ جو رطوبت بہتی ہے وہ خواہ کوئی ہو ناقص وضو ہے اور ناپاک ہے۔ (امداد الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا‘‘ ج۱، ص:۳۵۰)؛ و في الدر المختار أي برطوبۃ الفرج فیکون مفرعاً علی قولھما بنجاستھا۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۱۵) السلخۃ إذا خرجت من أمھا إلی قولہ: و عندھما یتنجس وھو الاحتیاط۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل السابع في معرفۃ النجاسات و أحکامھا‘‘ ج۱،ص۴۴۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص307

طہارت / وضو و غسل

کسی شخص کو حدث اکبر لاحق ہو، تواس پر غسل فرض ہوگا(۱) ایک حدیث میں ہے۔، ’’من توضأ یوم الجمعۃ فبھا ونعمت، ومن اغتسل فالغسل أفضل(۲)  ‘‘ یعنی جس نے جمعہ کے دن وضو کیا اس نے ٹھیک کیا اور جس نے غسل کیا  تو اس نے افضل کام کیا۔ رہا سوال میں مذکور حدیث کا جواب، تو اس کے متعلق اسی جگہ حاشیہ میں اس کی تفصیل درج ہے، وہ یہ ہے۔ ’’قال النووی: المراد بالوجوب وجوب اختیار، کقول الرجل لصاحبہ: حقک واجب عليّ قالہ ملا علی القاري وقال محمد في موطأہ: أخبرنا محمد بن أبان بن صالح عن حماد عن ابراہیم النخعي قال أي حماد سالتہ عن الغسل یوم الجمعۃ، والغسل من الحجامۃ، والغسل في العیدین؟ قال إن اغتسلت فحسن، و إن ترکت فلیس علیک فقلت لہ ألم یقل رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم من راح إلی الجمعۃ فلیغتسل قال بلی ولکن؛ لیس من الأمور الواجبۃ و إنما ھو کقولہ تعالی: ’’و اشھدوا إذا تبایعتم‘‘ الآیۃ ویؤیدہ ما أخرج أبوداود عن عکرمۃ أن ناسا من أھل العراق جاووا فقالوا یا ابن عباس أتری الغسل یوم الجمعۃ واجبا؟ فقال لاولکنہ طھور وخیر لمن اغتسل ومن لم یغتسل فلیس علیہ بواجب الخ‘‘(۱)

(۱) و أربعۃ سنۃ، و ھما غسل یوم الجمعۃ و یوم العیدین الخ۔  (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثاني: في الغسل أما أنواع الغسل‘‘ ج۱، ص:۶۷) ؛ ( وسن) (للجمعۃ والعیدین) (الحصکفي، مجمع الأنہر، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۳۹)
(۲)أخرجہ الترمذي، في سننہ، ابواب الجمعۃ، باب في الوضو، یوم الجمعۃ‘‘ج۱، ص:۱۱۱،رقم:۴۹۷(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ، باب فضل الغسل یوم الجمعۃ الخ‘‘ج۱، ص:۱۲۱، ’’باب فضل الغسل یوم الجمعۃ و ھل علی الصبي شہود یوم الجمعۃ أو علی النساء‘‘ج۱، ص:۱۲۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص308

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پالش اتارکر صرف ہاتھ دھولینے سے غسل صحیح ہوجائے گا۔ دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی(۲) اور اگر پالش نہ اترے، تو وضو اور غسل صحیح نہیں ہوگا۔(۳)

(۲) إن صلبا منع وھو الأصح، صرح بہ في شرح المنیۃ و قال: لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ والحرج الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۹۔
(۳)منھا محل الفرض یجب غسلہ، و إلا فلا، کذا في فتح القدیر بل یندب غسلہ، …کذا في البحرالرائق في (فتاوی ما وراء النھر) إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرۃ، أو لزق بأصل ظفرہ طین یابس أو رطب لم یجز الخ  (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الثاني: غسل الیدین‘‘ج۱، ص:۴) ؛ و قال في شرحھا ولأن الماء ینفذہ لتخللہ و عدم لزوجتہ و صلابتہ، والمعتبر في جمیع ذلک: نفوذ الماء و وصولہ إلی البدن۔ الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج۱، ص:۵۴) ؛ وھو إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن إسالتہ علیہ من البدن من غیر حرج مرۃ واحدۃ، حتی لو بقیت لمعۃ لم یصبھا الماء لم یجز الغسل  (ابن نجیم، البحر الرائق،’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:۴۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص309